ایران کی برہمی
سفارتی سطح پر رابطے کے اس درجہ فقدان کے باوجود دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی کو معجزہ ہی سمجھا جائے
لاہور:
پاکستان اور ایران کے تعلقات کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے ہم جیسے پاکستانیوں کو اپنی اس کم مائیگی کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ زبان یار من پہلوی و من پہلوی نمی دانم ۔ ہمارے ایرانی بھائی بھی خود کا احتساب کریں تو ان کے پسندیدہ دکتر اقبالؔ لاہوری (یعنی ہمارے علامہ اقبالؔ) کی قومی زبان اردو سے وہ بھی اتنے ہی نابلد ہیں جتنے ہم پہلوی یعنی فارسی سے۔ خیر اصل موضوع پر آتے ہیں کہ یہاں بغیر کسی تصدیق کے شور مچا دیا گیا کہ ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے پاکستان میں فوجی کارروائی اور منہ توڑ جواب کی دھمکی دی ہے۔ اگر ایرانی وزیر داخلہ نے ہماری طرح فیض احمد فیضؔ کو پڑھا ہوتا تو وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کو منظوم جواب دیتے کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
دفتر خارجہ نے بغیر کسی تحقیق کے شایع شدہ خبر پر چار پیراگراف پر مشتمل اپنا رسمی رد عمل انگریزی زبان میں جاری کیا۔ قابل اطمینان پہلو یہ تھا کہ اس میں کوئی تلخ بات نہیں کی گئی۔ دفتر خارجہ نے نہ تو ایرانی وزیر داخلہ کے بیان کو دھمکی کہا نہ ہی انھیں کوئی تنبیہ کی۔ یقیناً مسخ شدہ بیان پر ہم نے بھی تاسف کا اظہار ہی کرنا تھا۔ دراصل ایرانی وزیر داخلہ کا جو بیان ایران میں16، 17 اور 18 فروری کو مختلف ذرایع ابلاغ نے شایع کیا، اس میں کہا گیا تھا کہ ایران کی افغانستان اور پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع علاقوں سے دہشت گرد، جرائم پیشہ افراد، ڈرگ اسمگلرز اور انسانی اسمگلرز ایران میں داخل ہوتے ہیں ۔ اور یہ کہ6 فروری کو ایران کے سرحدی گاؤں جکیگور سے پانچ سرحدی محافظین کو اغوا کر کے پاکستان لے جایا گیا ہے۔ بعد ازاں جیش العدل نامی دہشت گرد گروہ نے اغوا کی ذمے داری قبول کی۔
پاکستان میں13 فروری کو سرحدی علاقے تمپ میں ضلع کیچ کے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید ابڑو اور تمپ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد حسین بلوچ کو اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ ایرانی حکام کے ساتھ اجلاس سے واپسی پر تربت جا رہے تھے۔ ان کے اغوا کی ذمے داری بلوچ لبریشن فرنٹ کے گہرام بلوچ نے قبول کی۔ دوسرے روز صوبائی حکومت نے ان مغویوں کی رہائی کے لیے اسسٹنٹ کمشنر دشت نعیم گچکی، دشتان کے تحصیلدار احمد علی اور بلیدہ کے نائب تحصیلدار رفیق احمد کو بھیجا ۔ ایک قبائلی بزرگ میر دوست محمد اور دو لیویز اہلکاروں کے ساتھ ان کی گاڑی گومازئی کے علاقے پہنچی تو ان سب کو بھی اغوا کر لیا گیا۔ پندرہ فروری کو مکران کے کمشنر نے قبائلی بزرگان کے ذریعے ڈی سی ابڑو اور اے سی محمد حسین کو رہا کروا لیا لیکن دیگر تا حال قید میں ہیں۔
ایرانی وزیر داخلہ کا بیان اسی پس منظر میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کی طرف کے سرحدی علاقوں کی سیکیورٹی کی ذمے داری ان دونوں ملکوں کی ہے اگر وہ ادا نہیں کر سکتے تو ہم سے کہیں یا ہمیں اجازت دیں کہ ہم خود کارروائی کر کے اپنے مغویوں کو بازیاب کروا لیں۔ اس بیان میں کہیں بھی دھمکی کا عنصر نہیں۔ ان کے الفاظ یہ تھے اگر ''از ما تقاضا کنند ما این کار را حتماً خواہیم کرد'' یعنی ہم سے تقاضا کریں تو ہم خود اس کام کو انجام دیں گے۔ 16ایرانی سرحدی گارڈز اغوا کے بعد 25 اکتوبر 2013 کو قتل کر دیے گئے تھے۔ چند سال قبل عبدالمالک ریگی کے جنداللہ نامی کالعدم دہشت گرد گروہ نے ایران میں حملے کیے تھے۔ ہمارے ایک نامور دفاعی تجزیہ نگار اور ریٹائرڈ فوجی افسر کا کہنا ہے کہ جنداللہ کی سرپرستی اسرائیلی ایجنسی موساد کر رہی تھی۔ اب بھی صرف نام بدلا ہے کام وہی ہے۔
دفتر خارجہ سے ہماری ناراضگی کا سبب یہ تھا کہ انھیں18 فروری کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسی دن چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری او آئی سی کی پارلیمانی یونین کے اجلاس میں شرکت کے لیے تہران میں نہ صرف موجود تھے بلکہ وہاں صدر حسن روحانی سے ملاقات بھی کر چکے تھے۔ (ایران کے سرد موسم میں بخاری کو دیکھ کر حسن روحانی نے پاکستان کی گرم جوشی کو ضرور محسوس کیا ہو گا کیونکہ فارسی میں گیس ہیٹر کو بخاری کہتے ہیں!)۔ بخاری صاحب نے کہا کہ پاکستان مغوی سرحدی محافظین کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔17 فروری کو ایران کے معاون وزیر خارجہ ابراہیم رحیم پور نے اپنے دفتر میں پاکستانی سفیر کے ساتھ میٹنگ کی تھی جس میں انھوں نے کہا کہ اگر مشترکہ آپریشن کرنا پڑے تو ایران تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ پھر19 فروری کو سیستان بلوچستان کے نائب گورنر علی اصغر میر شکاری3 روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچے جہاں پاکستان ایران کے اعلیٰ سطح کے مشترکہ سرحدی کمیشن کا 19 واں اجلاس منعقد ہوا ۔ اس میں متعلقہ سیکیورٹی افسران بھی شریک تھے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح مند نے پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایرانی وفد کو آگاہ کیا کہ ہمارے درمیان دیرینہ محبت، اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ ہے اور اغوا کے واقعات سے پاک ایران خوشگوار تعلقات کو خراب نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے یقین دلایا کہ اگر مغویوں کو پاکستان میں کہیں رکھا گیا ہے تو ان کی بازیابی کے لیے ہر ممکن وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔ وفد سے کہا کہ اس ضمن میں اگر ٹھوس معلومات ہیں تو فراہم کریں، پاکستانی حکام فوری کارروائی کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے مشترکہ پینل بھی قائم کر دیا گیا۔ علی اصغر میر شکاری نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ سرحدی کمیشن کے مثبت فیصلوں کے نتائج جلد برآمد ہوں گے۔
یہی نہیں بلکہ ایرانی سفیر علی رضا حقیقیان اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ملاقات میں بھی دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی پر اتفاق کیا گیا۔ یہ ہے ساری صورت حال ۔ ایران کا میڈیا ٹرائل کرنے سے مطلوبہ نتائج میں پاک ایران تعلقات کے دشمنوں کو مکمل ناکامی ہی ہوئی۔ لیکن اس سارے قضیے میں دونوں ممالک کے متعلقہ حکام کی بعض خامیاں بھی دیکھی گئیں۔ دونوں طرف کے محکمہ خارجہ اور سفارتکار حضرات ایک دوسرے کی قومی زبان سیکھیں۔ دونوں جانب ایسے افسران ہوں جو فوری طور پر ایسی خبروں کی تصدیق کر لیں یا اپنے ہم منصب سے بذات خود حقائق طلب کر لیں ۔ کم ازکم دونوں اپنی آفیشل ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ رکھا کریں اور پاکستان دفتر خارجہ کی فارسی ویب سائٹ اور ایرانی وزارت خارجہ کی اردو ویب سائٹ بھی ہو نی چاہیے۔ ایرانی وزارت کشور (داخلہ) کی ویب سائٹ پر یہ خبر ہی نہیں تھی جب کہ ان کی وزارت خارجہ کی نئی ویب سائٹ صرف فارسی میں ہے۔ انگریزی ورژن بھی تاحال زیر تکمیل ہے۔ پاکستان میں ایرانی سفارت خانے کی ویب سائٹ کا حال یہ ہے کہ شاید وہ خود بھی اسے نہیں دیکھتے۔
سفارتی سطح پر رابطے کے اس درجہ فقدان کے باوجود دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی کو معجزہ ہی سمجھا جائے۔ اس کا کریڈٹ پاکستان اور ایران کے عوام کو جاتا ہے جو نہ صرف دشمن شناس ہیں بلکہ بیدار و ہشیار بھی ہیں۔ اب منہ توڑ جواب کے مطالبے پر بھی بات ہو جائے۔ امریکا کو منہ توڑ جواب تو دیا نہیں جا رہا جو کبھی سلالہ میں فوج کو مارتا ہے تو کبھی بے گناہ انسانوں کو بھی ڈرون میزائل سے مارتا ہے اور پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ امریکی شہر ورجینیا کی عدالت میں پراسیکیوٹر نے 1997 میں کہا تھا کہ پاکستانی وہ قوم ہے جو پیسوں کی خاطر اپنی ماں بیچ دے۔ اسی امریکا سے اسٹرٹیجک تعلقات کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ دہشت گرد جو ملک بھر میں بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام کر رہے ہیں ان کو منہ توڑ جواب دینے کی بات کی جاتی ہے تو یہی منہ توڑنے والا ٹولہ پرامن مذاکرات کا مطالبہ کرتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں سرکاری افسران کو اغوا کر کے یرغمال رکھا گیا ہے لیکن کسی نے بھی منہ توڑ جواب کی بات نہیں کی، لگتا ہے جیسے یہ افسران کسی کے کچھ بھی نہیں لگتے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان میڈم تسنیم اسلم نے جو باتیں 20 فروری کی ہفتہ وار بریفنگ میں کیں اگر اس سے 2 دن پہلے دفتر خارجہ کے رد عمل میں بھی ان حقائق اور مثبت پہلو کا تذکرہ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ فی الوقت خانم افخم ایرانی وزارت خارجہ کی ترجمان ہیں۔ لہٰذا پاک ایران تعلقات کے بارے میں یہی عرض کر سکتا ہوں کہ دونوں طرف خارجہ امور پر زنانہ وار حالات کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں خواتین معتبر ہو کر بھی ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں تعجب ہے!
پاکستان اور ایران کے تعلقات کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے ہم جیسے پاکستانیوں کو اپنی اس کم مائیگی کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ زبان یار من پہلوی و من پہلوی نمی دانم ۔ ہمارے ایرانی بھائی بھی خود کا احتساب کریں تو ان کے پسندیدہ دکتر اقبالؔ لاہوری (یعنی ہمارے علامہ اقبالؔ) کی قومی زبان اردو سے وہ بھی اتنے ہی نابلد ہیں جتنے ہم پہلوی یعنی فارسی سے۔ خیر اصل موضوع پر آتے ہیں کہ یہاں بغیر کسی تصدیق کے شور مچا دیا گیا کہ ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے پاکستان میں فوجی کارروائی اور منہ توڑ جواب کی دھمکی دی ہے۔ اگر ایرانی وزیر داخلہ نے ہماری طرح فیض احمد فیضؔ کو پڑھا ہوتا تو وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کو منظوم جواب دیتے کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
دفتر خارجہ نے بغیر کسی تحقیق کے شایع شدہ خبر پر چار پیراگراف پر مشتمل اپنا رسمی رد عمل انگریزی زبان میں جاری کیا۔ قابل اطمینان پہلو یہ تھا کہ اس میں کوئی تلخ بات نہیں کی گئی۔ دفتر خارجہ نے نہ تو ایرانی وزیر داخلہ کے بیان کو دھمکی کہا نہ ہی انھیں کوئی تنبیہ کی۔ یقیناً مسخ شدہ بیان پر ہم نے بھی تاسف کا اظہار ہی کرنا تھا۔ دراصل ایرانی وزیر داخلہ کا جو بیان ایران میں16، 17 اور 18 فروری کو مختلف ذرایع ابلاغ نے شایع کیا، اس میں کہا گیا تھا کہ ایران کی افغانستان اور پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع علاقوں سے دہشت گرد، جرائم پیشہ افراد، ڈرگ اسمگلرز اور انسانی اسمگلرز ایران میں داخل ہوتے ہیں ۔ اور یہ کہ6 فروری کو ایران کے سرحدی گاؤں جکیگور سے پانچ سرحدی محافظین کو اغوا کر کے پاکستان لے جایا گیا ہے۔ بعد ازاں جیش العدل نامی دہشت گرد گروہ نے اغوا کی ذمے داری قبول کی۔
پاکستان میں13 فروری کو سرحدی علاقے تمپ میں ضلع کیچ کے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید ابڑو اور تمپ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد حسین بلوچ کو اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ ایرانی حکام کے ساتھ اجلاس سے واپسی پر تربت جا رہے تھے۔ ان کے اغوا کی ذمے داری بلوچ لبریشن فرنٹ کے گہرام بلوچ نے قبول کی۔ دوسرے روز صوبائی حکومت نے ان مغویوں کی رہائی کے لیے اسسٹنٹ کمشنر دشت نعیم گچکی، دشتان کے تحصیلدار احمد علی اور بلیدہ کے نائب تحصیلدار رفیق احمد کو بھیجا ۔ ایک قبائلی بزرگ میر دوست محمد اور دو لیویز اہلکاروں کے ساتھ ان کی گاڑی گومازئی کے علاقے پہنچی تو ان سب کو بھی اغوا کر لیا گیا۔ پندرہ فروری کو مکران کے کمشنر نے قبائلی بزرگان کے ذریعے ڈی سی ابڑو اور اے سی محمد حسین کو رہا کروا لیا لیکن دیگر تا حال قید میں ہیں۔
ایرانی وزیر داخلہ کا بیان اسی پس منظر میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کی طرف کے سرحدی علاقوں کی سیکیورٹی کی ذمے داری ان دونوں ملکوں کی ہے اگر وہ ادا نہیں کر سکتے تو ہم سے کہیں یا ہمیں اجازت دیں کہ ہم خود کارروائی کر کے اپنے مغویوں کو بازیاب کروا لیں۔ اس بیان میں کہیں بھی دھمکی کا عنصر نہیں۔ ان کے الفاظ یہ تھے اگر ''از ما تقاضا کنند ما این کار را حتماً خواہیم کرد'' یعنی ہم سے تقاضا کریں تو ہم خود اس کام کو انجام دیں گے۔ 16ایرانی سرحدی گارڈز اغوا کے بعد 25 اکتوبر 2013 کو قتل کر دیے گئے تھے۔ چند سال قبل عبدالمالک ریگی کے جنداللہ نامی کالعدم دہشت گرد گروہ نے ایران میں حملے کیے تھے۔ ہمارے ایک نامور دفاعی تجزیہ نگار اور ریٹائرڈ فوجی افسر کا کہنا ہے کہ جنداللہ کی سرپرستی اسرائیلی ایجنسی موساد کر رہی تھی۔ اب بھی صرف نام بدلا ہے کام وہی ہے۔
دفتر خارجہ سے ہماری ناراضگی کا سبب یہ تھا کہ انھیں18 فروری کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسی دن چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری او آئی سی کی پارلیمانی یونین کے اجلاس میں شرکت کے لیے تہران میں نہ صرف موجود تھے بلکہ وہاں صدر حسن روحانی سے ملاقات بھی کر چکے تھے۔ (ایران کے سرد موسم میں بخاری کو دیکھ کر حسن روحانی نے پاکستان کی گرم جوشی کو ضرور محسوس کیا ہو گا کیونکہ فارسی میں گیس ہیٹر کو بخاری کہتے ہیں!)۔ بخاری صاحب نے کہا کہ پاکستان مغوی سرحدی محافظین کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔17 فروری کو ایران کے معاون وزیر خارجہ ابراہیم رحیم پور نے اپنے دفتر میں پاکستانی سفیر کے ساتھ میٹنگ کی تھی جس میں انھوں نے کہا کہ اگر مشترکہ آپریشن کرنا پڑے تو ایران تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ پھر19 فروری کو سیستان بلوچستان کے نائب گورنر علی اصغر میر شکاری3 روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچے جہاں پاکستان ایران کے اعلیٰ سطح کے مشترکہ سرحدی کمیشن کا 19 واں اجلاس منعقد ہوا ۔ اس میں متعلقہ سیکیورٹی افسران بھی شریک تھے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح مند نے پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایرانی وفد کو آگاہ کیا کہ ہمارے درمیان دیرینہ محبت، اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ ہے اور اغوا کے واقعات سے پاک ایران خوشگوار تعلقات کو خراب نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے یقین دلایا کہ اگر مغویوں کو پاکستان میں کہیں رکھا گیا ہے تو ان کی بازیابی کے لیے ہر ممکن وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔ وفد سے کہا کہ اس ضمن میں اگر ٹھوس معلومات ہیں تو فراہم کریں، پاکستانی حکام فوری کارروائی کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے مشترکہ پینل بھی قائم کر دیا گیا۔ علی اصغر میر شکاری نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ سرحدی کمیشن کے مثبت فیصلوں کے نتائج جلد برآمد ہوں گے۔
یہی نہیں بلکہ ایرانی سفیر علی رضا حقیقیان اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ملاقات میں بھی دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی پر اتفاق کیا گیا۔ یہ ہے ساری صورت حال ۔ ایران کا میڈیا ٹرائل کرنے سے مطلوبہ نتائج میں پاک ایران تعلقات کے دشمنوں کو مکمل ناکامی ہی ہوئی۔ لیکن اس سارے قضیے میں دونوں ممالک کے متعلقہ حکام کی بعض خامیاں بھی دیکھی گئیں۔ دونوں طرف کے محکمہ خارجہ اور سفارتکار حضرات ایک دوسرے کی قومی زبان سیکھیں۔ دونوں جانب ایسے افسران ہوں جو فوری طور پر ایسی خبروں کی تصدیق کر لیں یا اپنے ہم منصب سے بذات خود حقائق طلب کر لیں ۔ کم ازکم دونوں اپنی آفیشل ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ رکھا کریں اور پاکستان دفتر خارجہ کی فارسی ویب سائٹ اور ایرانی وزارت خارجہ کی اردو ویب سائٹ بھی ہو نی چاہیے۔ ایرانی وزارت کشور (داخلہ) کی ویب سائٹ پر یہ خبر ہی نہیں تھی جب کہ ان کی وزارت خارجہ کی نئی ویب سائٹ صرف فارسی میں ہے۔ انگریزی ورژن بھی تاحال زیر تکمیل ہے۔ پاکستان میں ایرانی سفارت خانے کی ویب سائٹ کا حال یہ ہے کہ شاید وہ خود بھی اسے نہیں دیکھتے۔
سفارتی سطح پر رابطے کے اس درجہ فقدان کے باوجود دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی کو معجزہ ہی سمجھا جائے۔ اس کا کریڈٹ پاکستان اور ایران کے عوام کو جاتا ہے جو نہ صرف دشمن شناس ہیں بلکہ بیدار و ہشیار بھی ہیں۔ اب منہ توڑ جواب کے مطالبے پر بھی بات ہو جائے۔ امریکا کو منہ توڑ جواب تو دیا نہیں جا رہا جو کبھی سلالہ میں فوج کو مارتا ہے تو کبھی بے گناہ انسانوں کو بھی ڈرون میزائل سے مارتا ہے اور پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ امریکی شہر ورجینیا کی عدالت میں پراسیکیوٹر نے 1997 میں کہا تھا کہ پاکستانی وہ قوم ہے جو پیسوں کی خاطر اپنی ماں بیچ دے۔ اسی امریکا سے اسٹرٹیجک تعلقات کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ دہشت گرد جو ملک بھر میں بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام کر رہے ہیں ان کو منہ توڑ جواب دینے کی بات کی جاتی ہے تو یہی منہ توڑنے والا ٹولہ پرامن مذاکرات کا مطالبہ کرتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں سرکاری افسران کو اغوا کر کے یرغمال رکھا گیا ہے لیکن کسی نے بھی منہ توڑ جواب کی بات نہیں کی، لگتا ہے جیسے یہ افسران کسی کے کچھ بھی نہیں لگتے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان میڈم تسنیم اسلم نے جو باتیں 20 فروری کی ہفتہ وار بریفنگ میں کیں اگر اس سے 2 دن پہلے دفتر خارجہ کے رد عمل میں بھی ان حقائق اور مثبت پہلو کا تذکرہ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ فی الوقت خانم افخم ایرانی وزارت خارجہ کی ترجمان ہیں۔ لہٰذا پاک ایران تعلقات کے بارے میں یہی عرض کر سکتا ہوں کہ دونوں طرف خارجہ امور پر زنانہ وار حالات کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں خواتین معتبر ہو کر بھی ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں تعجب ہے!