ہنوز دلی دور است

بظاہر پاکستان نے شام کے بحران پر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے اسے اور سعودی عرب والے موقف کے قریب کر دیا ہے


جاوید قاضی March 04, 2014
[email protected]

بظاہر پاکستان نے شام کے بحران پر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے اسے اور سعودی عرب والے موقف کے قریب کر دیا ہے۔ مگر اس پر جو غم و غصہ مجموعی طور پر عوام میں پایا جاتا ہے ایسی مثال شاید ہی کہیں ماضی میں ملے۔ یوں کہیے کہ ایران بشار الاسد کی حکومت بچانے کے لیے اپنے فوجی جتھے بھی شام میں اتار چکا ہے اور سعودی عرب نے طالبان سے لے کر القاعدہ کے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملا کر مجاہدین کی قوی مقدار شام میں پہنچائی ہے کہ جو بشار الاسد کی حکومت کو اکھاڑ پھینکے۔ ہمیں اصولی طور پہ اس تضاد سے لینا نہ دینا۔ شام کی حمایت روس اور چائنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل اس حوالے سے سعودی عرب کے قریب ہے کیونکہ شام لبنان میں ایران نواز فرقے کی مدد کرتا ہے اور وہ فلسطینیوں کی مدد کرتے ہیں۔ یوں کہیے کہ اس تضاد کی لپیٹ میں اب عرب امارات و بحرین بھی آتے ہیں۔ ساری کی ساری عرب دنیا اسپرنگ انقلاب کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یعنی آمریتوں کے خاتمے سے پہلے عرب دنیا شیعہ و وہابی حوالے سے بٹ چکی ہے۔

بحرین کی بادشاہت کے خلاف شیعہ متحرک ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ جمہوری قوتیں بھی ہیں۔ ایران میں بھی شیعہ اکثریت کے خلاف ایک تحریک وجود رکھتی ہے۔ سعودی عرب میں بالخصوص مجموعی طور پر عورتیں طرز حکمرانی سے اکتا چکی ہیں۔ اس تضاد کے کچھ یہ زاویے بھی دیکھیے کہ جب مصر میں مرسی حکومت کی جمہوری حکومت کو اکھاڑا گیا تو شام اور سعودی عرب دونوں نے اس عمل کی حمایت کی۔ کیونکہ اخوان المسلمین ایک طرف تو شام میں مجاہدین بھیج رہی تھی تو دوسری طرف یہ بھی موقف رکھتی تھی کہ اسلام میں بادشاہت کی اجازت نہیں۔ اپنی تاریخ کے اعتبار سے وہ فلسطین تحریک کی حمایت بھی رکھتی تھی، جس سے خود اسرائیل بھی بہت ناخوش تھا۔ یقیناً مرسی نے ہزار سالہ تاریخ پر مبنی مصر کی تاریخ میں مذہبی ون یونٹ لگایا۔ اور پھر اسی تحریر اسکوائر نے جس نے حسنی مبارک کو پچھاڑنے کے لیے تحریک چلائی وہی تحریک اسی جگہ دو سال کے بعد مرسی کو اتارنے کے لیے چلائی اور مصر کی آدھی سے زیادہ آبادی فوجی انقلاب کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ یوں کہیے کہ عرب دنیا بٹ چکی ہے۔ وہ آمر جو مذہب کو بیچ میں لا کر اپنا اقتدار بچاتے ہیں اب دوسرے انداز میں ان کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اس جنگ میں طالبان اور القاعدہ بھی سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں وہ دفتر جو قطر میں طالبان نے مذاکرات کے لیے کھولا تھا، اسے بند کر کے اب وہ سعودی عرب کی طرف لے گئے ہیں۔

غور سے دیکھا جائے تو پاکستان عرب دنیا میں بڑھتے ہوئے تضاد میں کچھ الجھ نہ جائے۔ کیونکہ ہم عرب نہیں ہیں۔ ہم برصغیر کے مسلمان ہیں، جس طرح انڈونیشیا، ملائیشیا وغیرہ غیر عرب مسلم ممالک ہیں اس طرح ہم بھی ہیں۔ ہمارے ہاں کروڑوں کی شیعہ آبادی بھی ہے۔ اگر سندھ کو بھی شامل کیا جائے تو یہاں کے 90 فیصد لوگ صوفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور خاص کر پاکستان میں 90 فیصد مسلمان آبادی بریلوی سوچ رکھتی ہے۔ عربوں کے اندر اس بڑھتے ہوئے مخاصمانہ تضاد میں ہمارا موقف کچھ اس طرح کا بنتا ہے کہ ہم کسی کے فریق نہیں ہو سکتے ۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اس طرح کی تبدیلی کم ازکم پاکستان پیپلز پارٹی کے زمانے میں نہیں آ سکتی تھی۔ سعودی عرب نے جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اس کو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھا۔ جب بے نظیر صاحبہ پہلی مرتبہ اسلامی دنیا میں خاتون وزیر اعظم بن کر ابھریں اور اس طرح ایک نئی روایت قائم کی تو کسی اور نے نہیں بلکہ خانہ کعبہ کے پیش امام نے فتویٰ صادر کیا کہ اسلام میں کسی عورت کی حکمرانی صحیح عمل نہیں۔ یہ زرداری صاحب تھے جنھوں نے ایران سے گیس پائپ لائن کے لیے اس وقت راستہ ہموار کیا جس پر خود امریکا بھی خوش نہیں تھا۔ نواز شریف کے زمانے میں وہ پراجیکٹ بھی آگے نہیں بڑھ پا رہا ۔

اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی اب بھی اور کل بھی عساکر کے زیر اثر رہی ہے۔ سول قیادت خواہ کتنی ہی اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے، ناکام رہی ہے۔ فوجی قیادت نے ہمیشہ ہر شے کو ہندوستان کے حوالے سے دیکھا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں کبھی قبول ہی نہیں کیا۔ مگر جنگ صرف بندوقوں سے نہیں لڑی جا سکتی، خود ریاست کے اندر ممکنہ علیحدگی پرست ابھار پر بھی قابو رکھنا ہوتا ہے اور اس کے لیے ایسی نوبت کیوں آئے کہ بات جا کر فوجی آپریشن پر ختم ہو خواہ وہ مشرقی پاکستان ہو یا بلوچستان۔ ہمیں لوگوں کو جمہوریت دینا ہو گی اور جمہوریتوں کو عوامی قیادت کے ذریعے کرپشن کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی فلاح کے لیے بروئے کار لانا ہو گا۔ وگرنہ غربت خود انتہا پرستی کی بھٹی میں جل کر ریاست کے لیے خطرات پیدا کر سکتی ہے۔

اس ملک میں سیاسی قیادت ابھی تک جمہوریت کو سماجی جمہوریت میں تبدیل نہیں کر سکی ہے، ایک اشرافیائی oligarchy کی نظر سے آگے اور ماورا دیکھنے سے قاصر ہے۔ خود سیاسی قیادت اپنے ارتقا کے نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اس طرح سول یا ملٹری بیوروکریسی بھی اسی oligarchy کا حصہ ہے۔ لیکن فوج بحیثیت ادارہ اب بھی پاکستان کا مضبوط ادارہ ہے اور اس کا مفاد ایک مستحکم پاکستان میں ہے نہ کہ اس میں کہ ہر کام وہ خود کرے، خود ایسی سوچ جو چند جرنیلوں کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے حوالے سے ہوتی ہے وہ کسی اور کے لیے نہیں بلکہ فوج کے مستقل مفاد کے تضاد میں ہوتی ہے۔ اس طرح سے وہ مستحکم پاکستان کے لیے ایک Activism پیدا کر سکتی ہے۔ جس طرح عدالتیں بحرانوں میں Judicial Activism کرتی ہیں۔ لیکن دونوں اپنی روح میں قانون کے اصول کے مطابق غلط ہیں اس لیے ایسا Activism ہی کیا جو غلط نتیجہ دینا شروع کر دے جس طرح آگے جا کے خود ہندوستان کی عدالتوں نے بہت سے کام اپنی Judicial Activism کے نام پہ کیے اور پھر اس نتیجے پر بھی پہنچی کہ ایسا Activism خود ایک فسطائیت Fascism کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

ہماری حکومت اگر سعودی عرب کے شام کے حوالے سے موقف کی حمایت کرتی ہے تو ایسا عمل ریاست کو اندرونی خطرات میں دھکیلنا اور بحیثیت مستحکم پاکستان کے تناظر میں خطرناک عمل ہے۔ ایسا کرنے سے ہمارا موقف ان پر واضح نہیں ہوتا جو ہماری افواج کو ہدف تنقید بناتے ہوں، جو جوانوں کو ذبح کرتے ہوں اور عرب دنیا میں ایسے لوگوں سے اتحاد میں ہوں تا کہ وہ شام کی حکومت کو اکھاڑ پھینکیں وغیرہ وغیرہ۔

برنگ بحر ساحل آشنا رہ
کف ساحل سے دامن کھینچتا جا

خوش آیند بات یہ ہے کہ اب اس ریاست میں ایک مروج Narrative کے متوازی ایک نیا بیانیہ بھی نہ صرف جنم لے چکا ہے بلکہ جڑیں بھی پکڑ چکا ہے۔ ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان اب Judicial Activism کی بات نہیں بلکہ Judicial Restrain کی بات کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ عدالت اس وقت سو موٹو لے گی جب اقلیت کے حقوق کی پامالی ہوتے دیکھے گی۔ جنرل راحیل شریف نے تو بلیک اینڈ وائٹ انداز میں پیدا شدہ صورتحال پر ایک موقف اپنا رکھا ہے اور ان کی Strategy نتائج دیتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور سب سے اہم بات جو آج ہم سب لکھ رہے ہیں یا سوشل میڈیا میں ٹاک شوز میں بحث کی صورت میں آج سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ اعلانیہ پر جو کھلی تنقید ہو رہی ہے یہ اس سے پہلے کبھی روایت نہیں تھی۔

لیکن ہنوز دلی دور است، ہماری خارجہ پالیسی پر چاہے تنقید ہو مگر ابھی کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ ابھی ہمیں دوست و دشمن کی پہچان کرنا باقی ہے، ہمارے لیے کون سا ملک اچھا ہے اور کون سا کم اچھا ہے اور اسے دیکھنے کے معیار کون سے ہوں۔ ہم ابھی اس ڈگر پر نہیں چلے۔ ابھی کسی نہ کسی طریقے سے اس Strategic Depth والی سوچ میں غلطاں ہیں۔

کبھی وہ بھی ہماری خارجہ پالیسی تھی اور زمانہ بھی کوئی اور تھا جب بھٹو عربوں میں بھی ہر دل عزیز تھے تو شہنشاہ ایران کے بھی دوست تھے۔ لیکن آج عرب بادشاہتیں و آمریتیں مسلکی مسائل کے حصار میں ہیں۔ ہمیں ان ممکنہ خطرات سے آگاہی ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں