ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں

وطن عزیز پاکستان ایک مرتبہ پھر ایک ایسے دوراہے پر آ پہنچا ہے کہ ریاست پاکستان کی رِٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے

وطن عزیز پاکستان ایک مرتبہ پھر ایک ایسے دوراہے پر آ پہنچا ہے کہ ریاست پاکستان کی رِٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کو کالعدم عسکری طاقتیں تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ان حالات کا سامنا یکدم نہیں ہوا بلکہ یہ گزشتہ پینتیس برسوں کا وہ رویہ اور پالیسیاں ہیں جنہوں نے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ جہادِ افغانستان کے نام پر انتہا پسندی کو بڑھاوا دیا گیا اور اس جنونیت کو اغیار کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ آج ان حالات میں پاکستان انتہائی مشکل صورتحال میں ہے۔

ایک جانب سیاسی طاقتیں دو حصوں میں منقسم ہیں۔ حکومت گومگو کی کیفیت میں ہے جب کہ بعض سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں اپنا قطعی مؤقف رکھتی ہیں۔ اس میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے عوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہوئے افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بڑے عوامی اجتماع کا انعقاد کر کے یہ ثابت کیا کہ ملک کے عوام کی اکثریت اعتدال کے راستے کو تسلیم کرتی ہے اور وہ کسی انتہا پسند کے ساتھ نہیں اور آئین پاکستان اس امر کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ بتدریج ریاستی نظام کو قانون اور شریعت کے سانچے میں ڈھال سکے۔ جب یہ ارتقائی عمل جاری ہے تو کسی بھی طاقت کا استعمال غیر قانونی ہے اور اسی نکتے پر اس بات کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ وہ عسکری گروہ جو غیر قانونی طور پر قائم ہوئے ہیں ان کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان اور حکومت ایک صف میں آ کر بھرپور کارروائی کرتے ہوئے ریاست کی رِٹ قائم کریں اور ملک کے تخلیقی نظریے کے تحفظ اور اس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کے دفاع کو یقینی بنائیں۔ حکومتی مناصب اور افواج پاکستان کے حلف کا بھی یہ تقاضا ہے کہ ا س عمل کو انتہائی دیانتداری کے ساتھ مکمل کیا جائے۔


مذاکرات ان قوتوں کے ساتھ کیے جائیں جو ہتھیار پھینک کر تشدد کا راستہ ترک کریں کیونکہ جن قوتوں نے فوجی جوانوں کی گردنیں تن سے جدا کی ہیں، لاشوں کی بے حرمتی کی ہے، وہ کسی رحم کی مستحق نہیں۔ ان کے ساتھ اسی طرح نمٹا جائے جس کا ان کا عمل تقاضا کرتا ہے۔ مذاکرات کے نام پر جو ڈرامہ رچایا گیا، اس کا پردہ چاک ہو چکا۔ قوم کو اس فریب میں نہ رکھا جائے کہ مذاکرات کے ذریعے اس ظلم کی آندھی کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ ماضی قریب اور ماضی کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ قوتیں جنہوں نے گوریلا جنگ کا سہارا لیا، خواہ وہ نسل کی بنیاد پر ہو یا مذہب کی بنیاد پر، اس کا خاتمہ طاقت کے ذریعے ہوا ہے۔ اور اگر کوئی سیاسی حکمت عملی اختیار کرنی ہے تو وہ اس سمت میں ہونی چاہیے کہ کس طریقے سے ان کالعدم تنظیموں کی امداد کا راستہ روکا جائے۔ ان کو ہتھیار اور گولہ بارود کی فراہمی کی پائپ لائن کاٹ دی جائے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ جس خطے میں یہ دہشت گرد مقیم ہیں، وہ دنیا کا مشکل ترین فوجی محاذ ہے۔ 2200 کلومیٹر کی دشوار گزار سرحد اور اس کے ساتھ ساتھ خراب موسم فوجی کارروائی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے لیکن افواج پاکستان کی تربیت اس طرز کی ہے کہ وہ ایسے معاملات سے نمٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظوں کی یہ ذمے داری ہے کہ افواج پاکستان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ملک کی حفاظت میں اپنا وہ کردار ادا کریں جو آئین پاکستان تجویز کرتا ہے۔

لہٰذا ملک میں کسی بھی فوجی مداخلت کی ضرورت اس وقت تک پیش نہیں آ سکتی اگر افواج پاکستان اور سیاسی جماعتیں اپنے کردار کو صحیح سمت میں رکھیں۔ ریاست کے کسی بھی ستون نے اگر ملک کے دفاع کی ذمے داری سے پہلو تہی کی یا اس میں کوتاہی برتی تو پھر ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ملک کا دفاع سب سے مقدم ہے۔ جمہوریت، آئین، یہ سب ثانوی چیزیں ہو جاتی ہیں کیونکہ ہماری وحدت، ہمارا نظام، ہمارا آئین اس سرزمین سے وابستہ ہے۔ اس کے تحفظ کے لیے ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا اس بحث میں پڑے بغیر کہ جمہوریت یا آمریت، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کے دفاع کے لیے ہر مشکل سے مشکل قدم اٹھایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان عوامل کا بھی جائزہ لیا جائے جس کے باعث یہ دہشت گردی پیدا ہو رہی ہے۔ آج یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ ہماری سرزمین نہ تو دہشت گردی کے لیے استعمال ہو گی اور نہ ہی کسی اور مملکت کے خلاف استعمال ہو گی۔

اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں پڑوسی ممالک سے بھی موثر رابطہ رکھنا ہو گا اور دہشت گردوں کی سپلائی لائن کو منقطع کرنے کے لیے بہتر سفارتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست کے تمام ستون جن میں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور بالخصوص افواج پاکستان یکسوئی کے ساتھ فیصلے کریں اور اس میں سیاسی قیادت کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے کیونکہ عوام نے انھیں مینڈیٹ دیا ہے۔ انھیں کسی اور مینڈیٹ کی ضرورت نہیں۔ وہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں۔ لہٰذا وہ افواج پاکستان کے ساتھ مل کر ملک کے نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے فرائض منصبی دیانتداری، بہادری اور تدبر سے سرانجام دیں۔ اگر ہم نے یہ مشکل فیصلے آج نہ کیے تو پھر کبھی ہمیں یہ فیصلہ کرنے کا موقع میسر آئے یا نہ آئے، اس کی کوئی ضمانت نہیں۔
Load Next Story