پانی کی کمیابی ۔۔۔۔خطرے کی گھنٹی
ما ہرین کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک کے در میان ہو نے والی مستقبل کی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی
پانی اﷲ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت اور انسانی حیات کا لازمی جز ہے ۔ پانی زندگی ہے اس با ت کا اندازہ یو ں بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ خود حضرت انسان کی تخلیق مٹی اور پا نی سے ہوئی ہے ۔ ہوا کے بعد زندگی پانی سے مشروط ہے اسی لیے اس قدرت کے کا رخانے میں ہوا اور پانی وافر مقدار میں پائے جا تے ہیں لیکن جس طرح ہوا میں آکسیجن زندگی کے لیے نا گزیر ہے اسی طرح کرہ ارض پر مو جو د پانی میں سے ''میٹھا پانی '' زندگی اور بطور خاص انسانی زندگی کے لیے لازمی جز و ہے ۔ بظاہر یہ امر عام آدمی کے لیے اطمینان کا باعث ہے کہ کرہ ارض ایک چو تھائی حصہ خشکی اور تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن عا لمی اداروں کے ما ہرین کے مطابق کرہ ارض پر97.5 فیصد سمندری پا نی ہے جبکہ ''زندگی '' کی بقاء کے لیے در کار صاف اور میٹھا پانی اس تہائی حصہ پانی کا مجموعی طور پر صرف تین فیصد ہوتا ہے جس میں سے صرف ایک فیصد دریاؤں،جھیلوں،کنوؤں،چشموں اور آبشاروں کی صورت میں دستیاب ہے جبکہ باقی دو فیصد حصہ برف اور بڑے گلیشیئرز پر مشتمل ہے جس کا حصول مو سم میں تغیرات کا متقاضی ہے اور پانی کے حوالے سے یہ صورتحال تمام انسانوں کے لیے بلا تفریق رنگ و نسل لمحہ فکریہ ہے ۔ دنیا پر بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ اور صنعتی ممالک کی جا نب سے قوانین فطرت کی خلاف ورزیوں سے بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے جہاں اس وقت کرہ ارض کو شدید مو سمی تغیرات و ماحولیاتی تبدیلیوں کا سا منا ہے وہیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت ''گلوبل وارمنگ'' کی وجہ سے مختلف النوع مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ جیسے دنیا کے کئی خطوں میں مسلسل با رشیں ہوتی ہیں اورکہیں مسلسل برف کے طوفان آتے رہتے ہیں اورکہیں بارشیں بالکل نہیں ہو رہیں۔
گزشتہ سال اسلام آباد میں گلو بل وارمنگ سے متعلق ہو نے والی ایک کا نفرنس جس میں موجود امریکا اور دنیا بھر کے وہ ما ہرین جو موسمی تغیرات کا ادراک رکھتے ہیں اور عرصہ دراز سے اس شعبے میں ریسرچ کر رہے ہیں اس کا نفرنس میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بھی دنیا کی بڑی یوٹیلٹی سروسز شمار ہو نے کے با عث مجھے بحیثیت منیجنگ ڈائریکٹر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ شر کت کی دعوت دی گئی اس کا نفرنس میں پانی کے اسراف کو روکنے کے لیے تجاویز کے علا وہ جو حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے وہ میں آپ کے سامنے لا نا چا ہتا ہوں۔ ما ہرین نے مو سمی تغیرات کے با عث ہو نے والی تبدیلیوں کے حوالے سے انکشاف کیا کہ 2025 تک دنیا کے تمام گلیشئر (برف کے پہاڑ) پگھل جائیں گے اور 2025 تک دنیا بھر کے مو سموں میں بہت تیزی سے تبدیلی واقع ہو نے کے ساتھ بے پنا ہ بارشوں کا بھی انکشا ف کیا۔ ان تبدیلیوں کے با عث دنیا بھر میں میٹھے پا نی کا شدید بحران پیدا ہو جا ئے گا جس سے انسانی آبادی جو تب تک مزید بڑھ چکی ہو گی وہ بہت زیادہ مسائل کا شکار ہوگی قحط سالی ، اجناس کی کمی ، مویشیوں کی اموات اور غذائی بحران جیسے مسائل کا سامنا ہو گا۔ لہٰذا انہوں نے حکومت پا کستان اور اس میں شر کت کر نے والے تمام مندوبین سے یہ درخواست کی کہ وہ اپنے اپنے مما لک میں جتنا ہو سکے پا نی کے اسراف پر قا بو کریں اورممکنہ طور پر 2020 اور 2025 میں ہو نے والے بحران کے تدارک کے لیے منصوبہ بندی کریں یعنی پانی کو زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کر نے کے انتظام کریں ۔
ترقی یا فتہ ممالک کے ما ہرین نے جو تحفظ حیات کے حوالے سے ایک عر صے سے کام کر رہے ہیں بقائے حیات کے لیے مو جود میٹھے اور صاف پانی کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی کو نوٹ کیا ہے بلکہ مستقبل کی ضروریات کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بیشتر تر قی یا فتہ ممالک نے ما ہرین کے زیر نگرانی ''زندگی '' کی اہم بنیادی ضرورت میٹھے اورصاف ''پانی'' کے ذخائر میں اضافے ان کے تحفظ اور نئے ذرائع کی تلاش کے لیے اربوں ڈالر لا گت کے حامل تحقیقی و تر قیاتی منصوبوں پر کام شروع کر رکھا ہے ۔ علاوہ ازیں بیشتر ممالک سمندری پانی کو ڈی سیلینیشن پلانٹس کے ذریعے میٹھا کر کے اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں لیکن یہ طریقہ انتہائی مہنگا ہے پا کستان میں بڑھتی ہو ئی سمندری آلو دگی کی وجہ سے سمندری پا نی کو قابل استعمال بنانے پر بہت زیادہ لا گت آئے گی ۔
انسانی آبادی میں بے تحاشہ اضافے سے صنعتی وگھریلو اور آبپاشی کی ضروریات پو را کر نے کے لیے میٹھے پانی کی طلب و رسد کے درمیان بڑھتے ہوئے واضح فرق اور میٹھے پانی کی قلت کی وجہ سے عالمی سطح پر جو صورتحال بنتی نظر آرہی ہے۔ وہ انتہائی خطر ناک ہے اور یوں لگتا ہے کہ طا قتور ممالک جس طرح ما ضی میں مختلف چھوٹے ممالک کے جملہ وسیلوں پر قبضہ کر کے اپنے زیر تصرف لا تے رہے ہیں ۔با لکل اسی طر ح مستقبل قریب میں طا قتور ممالک کی جا نب سے ''پانی'' کے وسائل پر قبضے اور حصول کے لیے کمزور اور مخالف ممالک پر فوج کشی کر کے ان کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کا جنون پروان چڑھے گا۔
لیکن جہاں تک میری معلوما ت کا تعلق ہے حکومت پا کستان نے اس انتہائی سنگین مسئلے پر کسی بھی قسم کی کو ئی پیش رفت نہیں کی اس ممکنہ صورتحال کی ایک چھوٹی سی مثال حب ڈیم کے کیچمنٹ ایریا میں مسلسل پا نچ سال بارشیں نہ ہو نے کے باعث حب ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے بلو چستا ن کا وہ علا قہ جو کراچی سے ملحق ہے یعنی حب انڈسٹریل ایریا اور وہا ں کے رہا ئشی علا قوں میں پانی کا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے اس کے ساتھ ساتھ کراچی کے وہ علا قے جن کو حب ڈیم سے پا نی فراہم کیا جا تا ہے یعنی اورنگی ٹاؤن ، سائٹ ٹاؤن ، بلدیہ ٹاؤن ، سر جا نی ٹا ؤن اور کراچی کے سب سے بڑے انڈسٹریل ایریا سائٹ کے علا قے بھی شدید قلت آب کا شکار ہوگئے ہیں۔ خدا نخواستہ سندھ اور پا کستان کے شمالی علا قوں میں صرف 2 سال با رشیں نہ ہو ئیں اور دریائے سندھ میں پا نی جوکہ پہلے ہی کم ہے اگر یہ دستیاب نہ ہوا تو پورا سندھ انسا نی زندگی اور سندھ بشمول کراچی،حیدرآباد کی صنعتوں کو پا نی نہ ملنے کے با عث صنعتیں بند ہوجائیں گی جس کے با عث کاروبار زندگی میں شدید مشکلا ت کا سامنا کر نا پڑے گا۔
اس تمام صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ما ہرین کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک کے در میان ہو نے والی مستقبل کی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت پڑوسی ملک بھارت ہے جس نے دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہو نے کے باوجود اس کی پاسداری کر نے کے بجائے خلاف ورزی کر تے ہوئے دریاؤں پر ڈیم بنا کے پاکستان کے حصہ کا پانی روک کر اس کے سر سبز کھیتوں کھلیانوں کو صحرا میں بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان بھارت سے احتجاج کے بعد عالمی عدالت انصاف سے انصاف کے لیے رجوع کر چکا ہے لیکن اس اہم مسئلے پر پا کستانی ماہرین نے پا کستانی عوام اور حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ کشن ڈیم پر عالمی عدالت نے پا کستانی عوام کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور بھا رت سے ڈیزائن اور ڈیم سے متعلق تفصیلا ت طلب کر لیں ہیں جبکہ در حقیقت انڈین ما ہرین اس فیصلے کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں ۔
اس حوالے سے محمد سلیمان خان صاحب کا آرٹیکل (پیغام زندگی ) جو گزشتہ دنوں مقا می اخبار میں شائع ہو ا ہے اس میں بڑی جرأت کے ساتھ نیلم جہلم پروجیکٹ کے روح روا ں جنرل ریٹائرڈ انجینئر زبیر کو ریفرکیا ہے کہ کشن گنگا ڈیم کے فیصلے سے پا کستان کو نا قابل تلا فی نقصان پہنچا ہے اس ڈیم کو مکمل ہو نے دیں پھر پا کستان سر پر ہاتھ رکھ کر روئے گا۔ دریائے نیلم کی با ت الگ ہے یہ تو خشک ہو گا ہی وولر ڈیم بننے سے دریا ئے جہلم بھی ایک معمولی نا لہ بن جا ئے گا اور منگلا ڈیم بھی خشکی کا منظر پیش کرے گا ۔2025 تو دور کی با ت ہے چند سالوں میں پا کستان کی سر سبز وادیوں میں خا ک اڑنے لگے گی اس میں مزید یہ کہنا ہے کہ پا کستان کے چاروں صوبوں کے درمیا ن وہ جنگ کے بغیر اس کی تبا ہی کا منظر دیکھے ۔کیا پا کستان کے مقتدر حلقے اس با ت کا نوٹس نہ لیں گے اگر اب بھی ہما رے حکمرانوں نے آنکھیں نہ کھو لیں تو یہ با ت ذہن نشین کر لیں کہ اس حوالے سے پاکستان کا مستقبل خطرے میں ہے اور پھر پچھتا نے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔''
دنیا کے بیشتر مما لک سمیت انڈیا اور بنگلا دیش بھی پانی کو ذخیرہ کر نے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر اور ان کی منصوبہ بندی پر توجہ دے رہے ہیں ۔جس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے یہ اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں وہ دراصل پا کستان کے حصے کا پا نی ہے جو چوری کرکے اپنی مستقبل کی ضروریا ت کو پورا کر نے کے لیے ذخیرہ کر رہے ہیں ۔
کاسمو پو لیٹن شہر کراچی جس کی مو جودہ آبادی 250 ملین سے زائد ہے اس کی پانی کی ضروریات 1200 ملین گیلن روزانہ کی ہیں تاہم کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اس وقت شہر کراچی کو تمام تر ذرائع سے صرف 665 ملین گیلن پانی فراہم کر نے کی استعداد رکھتا ہے۔ اس گمبھیرصورتحال میں جبکہ ہمیں شہری ضروریات کے مطابق مطلوبہ مقدار میں پانی میسر ہی نہیں ہے کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا کہ ہم اس نعمت ربی کا کس قدر غیر ضروری اور بے دریغ استعمال کرکے اپنی آئندہ نسلوں کو پیا سا ما رنے کا سامان کر رہے ہیں ۔ جی ہاں یہ حقیقت ہے لیکن اس کا ادراک ہم سے اس لیے نہیں ہو پا رہا کہ ہماری ایک بڑی اکثریت تعلیم سے محروم ہو نے کے سبب دنیا میں ہو نے والے مو سمی تغیرات و تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہے اور نہ گلو بل وار منگ جیسی اصطلاح سے آشنا ۔ ہم اپنے گر د و پیش کے روزمرہ معمولات پر نظر ڈالیں تو کہیں نلکے سے پا ئپ لگا کر گھروں کے درودیواروں کو گھنٹوں دھو یا جا رہا ہے تو کہیں سیکڑوں گیلن میٹھا پانی ہم اپنی گا ڑیوں کو دھونے دھلا نے میں ضائع کر رہے ہیں یا پھر اپنے وسیع وعریض لان میں سبزہ سینچنے کے لیے پائپ کے ذریعے پانی لگا کر بھول جاتے ہیں اس کا احساس ہمیں اس وقت ہو پاتا ہے جب گھر کے بالائی ٹینک کا پانی ہماری عدم توجہی کے سبب لان کے ذریعے گلیوں اور سڑکوں پر بلا وجہ بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے ۔
پانی کی اس بے قدری کا خاتمہ کر تے ہوئے آئیے ہم اس بات کا عہد کریں کہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں خواہ گھر پر ہو ں یا دفتر میں مسجد میں ہو ں یا کا ر خانے میں پانی کو کفایت سے خود بھی استعمال کریں گے اور دوسروں کو بھی تر غیب دیں گے ۔ وضو کر نا ہو تو نلکا کھول کر پانی بھاری مقدار میں ضائع کر نے کے بجائے ایک لو ٹاپانی سے وضو کیا جائے نہاتے ہوئے شاورکھول کر پانی بہانا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک بالٹی پانی سے باآسانی نہانے کے عمل سے گزرا جا سکتا ہے۔ شیوکرتے یا دانت صاف کرتے وقت بیسن کا نلکا کھول کر پانی بہانے سے بہتر ہے کہ ایک کپ پانی سے اس عمل کو باآسانی مکمل کر کے پانی کی بچت کی جا ئے گھر کے فر ش اور درودیوار پانی سے دھو نے کے بجائے گیلے پو نچھے اورجھا ڑن سے صاف کر کے ان کی رونق بڑھائی جا سکتی ہے لان اور پودوں کی آبیاری کے لیے شاور بالٹی کا استعمال عام کیا جائے، اگر ٹینک نلکے یا پانی کی لائن میں رساؤ ہو تو اس کی فوری درستگی اور حاجت کے وقت ٹوائلٹ فلیش کے غیر ضروری استعمال میں کمی کر کے پانی کے استعمال میں کفایت کی جا سکتی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارا دین کسی بھی صورت پانی کے استعمال میں لا پر واہی کی اجازت نہیں دیتا ۔
کرہ ارض پر پا نی کی مو جودگی اور اس کی دستیابی میں متواترکمی پو ری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کا عمل وسائل کی کمی کے با عث ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن عمل ہے لیکن تر قی یافتہ ممالک سمندری پا نی کو قابل استعمال بنا نے کی استعداد رکھتے ہیں ۔ لہٰذا ملک کی تر قی وخوشحالی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت اس سنگین مسئلے پر توجہ دے تا کہ حیات انسانی کو در پیش مسائل اور صنعتوں کو بند ہو نے سے بچا یا جا سکے صنعتوں کے بند ہو نے سے اورتعمیراتی عمل کے رک جانے سے لا کھوں لوگوں کے بے روزگار ہو نے کا بھی خدشہ رہے گا ۔
میری دوسری گزارش سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا سے ہے کہ وہ عام شہریوں کی آگاہی کے لیے کچھ نہ کچھ اپنا کردار ضرور ادا کریں کیونکہ میڈیا کے ذریعے ہی ایک عام شہری اور حکومت تک بھر پور پیغام پہنچا یا جا سکتا ہے۔