پاکستانی ایٹمی پروگرام کی کہانی… آخری حصہ
صدر ضیاء الحق کسی طور ایٹمی پروگرام اور افغان مسئلہ پر امریکی ڈکٹیشن لینے کے لیے تیار نہیں تھے
FAISALABAD:
11اگست 1979کو امریکا کی طرف سے کہوٹہ پلانٹ کو تباہ کرنے کے سہ جہتی منصوبے کاا نکشاف ہوا اور امریکی حکومت اور میڈیا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر دبائو بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا تو 30اگست کے دن جنرل ضیاالحق نے الیکٹرانک میڈیا پر قوم سے خطاب میں سنٹو ((CENTOسے علیحدہ اور غیر جانبدار تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔
اکتوبر 80میں صدر محمد ضیا الحق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے امریکا گئے تو سابق صدر رچرڈنکسن نے ان سے ملاقات میں کہا '' امریکا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن اگر پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہے تو اسے ایٹمی دھماکا کردینا چاہیے ۔ '' 1980میں رونالڈ ر یگن امریکا کے صدر بن گئے ۔
ستمبر 1981میں ایک معاہدہ ہوگیا اور امریکی کانگریس نے بھی پاکستان کو پانچ سالوں 1982-87کے دوران 3.2بلین ڈالر کا دفاعی اور اقتصادی امدادی پیکیج دینے کی منظوری دے دی لیکن یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستانNPT پر دستخط کرے اور اپنا ایٹمی پروگرام بند کردے۔ اس کے بر عکس افغانستان کے معاملہ پر بھارت کی روس نواز پالیسی کے باوجود بھی امریکی انتظامیہ نے بھارت کے ایٹمی پروگرام سے کبھی کوئی تعرض نہ کیا اور فاضل پرزہ جات اور افزودہ یورینیم کی سپلائی جاری رکھی۔
اتنا ضرور ہو اکہ امریکا نے پاکستان پیکیج کے بارے میں بھارتی اور یہودی لابی کی چیخ وپکار پر کوئی توجہ نہ دی تاہم پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے رسو ا کرنے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ امریکی وزارت خارجہ نے بون ، انقرہ ، روم اور ایک درجن سے زائد ممالک میں متعین امریکی سفیروں کو ہدایت کی جہاں سے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کے لیے کچھ نہ کچھ خریدا جا سکتا تھا کہ اپنے میزبان ممالک پر واضح کر دیں کہ امریکا پاکستان کو حساس ایٹمی مواد اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پسند نہیں کرتا اور اس بنا پر تعلقات بھی بگڑ سکتے ہیں۔
ادھر حکومت پاکستان پر بھی ترغیب کے ہتھکنڈے آزمائے جاتے رہے۔ جنگ افغانستان میں پاکستان کو قریبی اتحادی اور فرنٹ لائن اسٹیٹ قرار دینے کے باوجود پاکستان کے ایٹمی رازوں کی جاسوسی اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ جاری رہا اور جوں جوں افغان جنگ آخری مراحل کی طرف بڑھنے لگی ۔ امریکی حکومت کے کل پرزے پاکستان کو ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کرنے اور تمام ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی معائنہ کے لیے کھولنے کے پرزور مشورہ دینے لگے۔
صدر ضیاء الحق کسی طور ایٹمی پروگرام اور افغان مسئلہ پر امریکی ڈکٹیشن لینے کے لیے تیار نہیں تھے اور اس بارے میں امریکا سے ان کا اختلاف کھل کر سامنے آچکاتھا۔ امید ہے کہ اب امریکا ضیا ء الحق کو درد سر سمجھنے لگا تھا ۔ مصدقہ ذرایع کے مطابق امریکی سی آئی اے نے جنرل ضیا ء الحق کا تختہ الٹنے کے لیے سازشیں شروع کر دیں ، پھر اوجڑی کیمپ کی تباہی کی آڑ میں ضیاء اور جونیجو کے درمیان اختلافات کو ابھارا گیا تو آخری حربے کے طور پر 17اگست 1988کو طیارے کے حادثے میں انھیں منظر ہی سے ہٹا دیا گیا۔
1990کے انتخابات میں جو حکومت برسراقتدارآئی اس کے سربراہ نواز شریف نے امریکا کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ایٹمی پروگرام پر وہ بھی کوئی رعایت نہیں دے سکتے تھے ، اس لیے امریکا نے اپنے حواریوں کے ذریعے ایسا بحران پیدا کردیا کہ صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف دونوں کو ایوان اقتدار سے جانا پڑا اور امریکی فرستادہ معین قریشی قوم پر مسلط ہوگئے۔ بے نظیر بھٹو 9اکتوبر 1993کو دوبارہ برسراقتدارآئیں توکلنٹن انتظامیہ نے انھیں اپنی دوستی کا یقین دلانے کے لیے پریسلر ترمیم معطل کرنے کابل 25نومبرکو کانگریس میں بھجوادیا۔
اس اثنا ء میں پاکستان پر امریکی حکام کی یلغار یوں جاری رہی جیسے پاکستان امریکی صدر کے گھر کا پچھواڑہ ہو ۔امریکی وزیر خارجہ رابن رافیل اس پیغام کے ساتھ اسلام آباد آئیں کہ '' پاکستان کو پریسلر ترمیم ختم کرانی ہے تو اسے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا ہوگا '' رابن رافیل نے یہ تاثر بھی دیا کہ '' اس صورت میں تنازعہ کشمیر کا حل بھی ممکن ہے '' مگر محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہی جواب دیا کہ '' ایٹمی پروگرام رول بیک نہیں ہوگا ، امریکا طیارے اور امداد دے یا نہ دے۔ ''
ادھر امریکی نائب وزیر خارجہ اسٹراٹ ٹالبوٹ نے اسلام آباد میں 9اپریل کو وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا'' پاکستان نے ایٹمی میدان میں اب تک جو حاصل کیا ہے امریکا اسے برقرار رکھنے پر آمادہ ہے ۔ امریکا پاکستان سے فوری رول بیک کا مطالبہ نہیں کرتا۔ صرف پہلے قدم کے طور پر پروگرام کو کیپ کرنے کا قابل تصدیق نظام چاہتا ہے جب کہ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ '' ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے حکومت پر امریکا کی جانب سے دوربینی معائنہ کے مضمرات واضح کیے تو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ''دور بینی ''یا '' جزوی معائنہ '' کی اجازت دینے سے بھی اتفاق نہ کیا بلکہ اس کے بعد انھوں نے اپنے دورہ برطانیہ میں روزنامہ'' ٹائمز ''سے انٹرویو میں کہا۔
'' پاکستان کے نوے فیصد لوگ ایٹمی دھماکا چاہتے ہیں یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو حالات بگڑ سکتے ہیں ۔ میں یہ بات محض اپنے اندازے سے نہیں کہہ رہی بلکہ باقاعدہ سروے کے ذریعہ معلو م کی ہے ۔''
بے نظیر اپریل 95میں جب دورہ امریکا سے واپس آئیں تو امریکی حکمرانو ں کے رویے سے پریشان تھیں وہ ایٹمی پروگرام مکمل طور پر رکوانا چاہتے تھے ، لیکن ستمبر 1996کے دورہ امریکا میں بھی ان کا مو قف یہی رہا کہ قومی مفاد کے خلاف کوئی دبائو قبول نہیں کریں گی ۔ 28مئی 1998کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکا کر کے ایٹمی کلب میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس سے پوری پاکستانی قوم اور دنیائے اسلام کا سرفخر سے بلند ہوگیا ، اگرچہ مغربی ممالک کو شک تھا کہ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت ہے اور ہم جب چاہیں دھماکا کر سکتے ہیں لیکن کہاوت ہے کہ جب تک دیکھ نہ لو یقین نہیں آتا۔