چھ دنوں کے بعد
آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے حکومت کو پٹرولیم مصنوعات پر دی جانیوالی سبسڈی مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی
BAGHDAD:
''لانگ واک ٹو فریڈم (آزادی کا طویل سفر)'' جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی سوانح عمری ہے۔ منڈیلا بیسویں صدی کے بااثر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ ان کی یہ کتاب1994 میں شایع ہوئی جو ان کی زندگی کے ابتدائی سالوں سے لے کر کم و بیش 27 سال تک رابن جزیرے میں جیل کاٹنے کے تجربات کا احاطہ کرتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کی یہ جدوجہد نسلی امتیاز برتنے والی حکومت کے خلاف تھی۔ کتاب کے آخری ابواب میں جیل سے رہائی کے بعد منڈیلا کے سیاسی عروج و زوال کا احاطہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح انھوں نے ملک کے منقسم معاشرے میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا۔ کتاب کے آخر میں انھوں نے خود یہ تسلیم کیا کہ ان کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی اور ابھی بھی سیاہ فام آبادی کو نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔
رنگ و برادری مخالف نظریات کے خلاف جدوجہد پر 27 سال جیل میں گزارنے کے بعد رہائی ملی تو انھوں نے ایک نئے عزم، حوصلے اور ولولے کے ساتھ اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور ملک کے پہلے سیاہ فام صدر بن گئے۔ انھیں دنیا بھر میں ایک جمہوریت پسند اور سماجی انصاف کی علامت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
نیلسن منڈیلا کو 250 سے زائد اعزازات ملے۔ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے پر امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا، جب کہ جنوبی افریقن نے انھیں ''بابائے قوم'' کا خطاب دیا۔ منڈیلا کی جنوبی افریقہ میں وہی قدر و منزلت ہے جو ہمارے ملک پاکستان میں قائد اعظم کو حاصل ہے۔
جدوجہد ہی حقیقی کامیابی کے حصول کا زینہ اور غلامی سے آزادی حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی اس رمز کی بات کو بخوبی جانتے تھے یہی وجہ تھی کہ انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے طویل اور صبر آزما جدوجہد کی۔ کسی بھی مرحلے پر مایوس، بددل، ناامید اور دل شکستہ نہ ہوئے۔ ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی، وہ پورے یقین، اعتماد، دل جمعی اور جوش و جذبے کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔
بعینہ لوگ بھی ان پر اعتبار کرکے ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑے اور جدوجہد کا یہ سفر حصول منزل یعنی پاکستان حاصل کرنے تک جاری رہا، یوں 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آگیا۔مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد بنیادی عامل ہے۔
قائد اعظم کے پاکستان میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو ہمیشہ یہ امید رہی کہ عظیم قائد کی وفات کے بعد آنیوالے سیاسی رہنما و حکمران بانی پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ملک کو سیاسی، معاشی، اقتصادی، سماجی اور فراہمی عدل کے حوالے سے ان کے رہنما اصولوں کی روشنی میں ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ عوام خوش حال اور ملک کا مستقبل تابناک ہوگا، لیکن افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا۔
سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ملک سیاسی، معاشی، اقتصادی اور عدل کے لحاظ سے غیر مستحکم نظر آتا ہے۔ ہر آنیوالی حکومت ملک کی مجموعی زبوں حالی کا سارا ملبہ جانیوالی حکومت کے سر منڈھ دیتی ہے۔آج بھی ملک کا یہی منظر نامہ ہے۔ شہباز حکومت سارا ملبہ عمران حکومت پر ڈال رہی ہے۔ ان سے قبل عمران خان جب وزیر اعظم بنے تو انھوں نے ملک کی معاشی و اقتصادی تباہی کا سارا ملبہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں پر ڈال دیا تھا۔
آج ملک بدترین معاشی و اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہمارا روپیہ روزانہ کی بنیاد پر پاتال میں گر رہا ہے۔ امریکی ڈالر 200 روپے سے زائد ہو کر ملک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے شدید دباؤ پر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ پٹرول تقریباً 180 روپے فی لیٹر، ڈیزل 174 روپے سے زائد فی لیٹر ہو گیا ہے جب کہ مٹی کا تیل 155 روپے فی لیٹر تک پہنچ گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی یہ قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، جب کہ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ گھی 502 روپے فی کلو گرام اور کوکنگ آئل 518 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ اتحادی حکومت نے عوام پر مہنگائی کا پہلا بم گرا دیا ہے اور ابھی بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔
آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے حکومت کو پٹرولیم مصنوعات پر دی جانیوالی سبسڈی مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی، ورنہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 900 ملین ڈالر کی قرضے کی قسط نہیں ملے گی۔ یعنی اگلے ماہ حکومت پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوگی۔ شہباز حکومت کو قومی معیشت کو سہارا دینے کے لیے لامحالہ سخت گیر معاشی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔
مخلوط حکومت کے اپنے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سربراہ ہو اسے مشکل فیصلے کرتے وقت اپنے اتحادیوں سے مشاورت اور ان کا اعتماد حاصل کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر وزیر اعظم نے اتحادیوں کو بھی اپنے اعتماد میں لیا۔ بعدازاں مذکورہ سخت فیصلے کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس سے براہ راست غریب آدمی پر غیر معمولی مالی بوجھ پڑے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں 28 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ہر غریب گھرانے کو 2 ہزار روپے ماہانہ ملیں گے، یہ مالی امداد بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت دی جانے والی رقم کے علاوہ ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ دل پر پتھر رکھ کر کیا، یہ فیصلہ ملک کو معاشی دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ناگزیر تھا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک کے معاشی حالات کے باعث سب کو قربانی دینا ہوگی۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ عوام سے قربانی دینے کا مطالبہ کرنیوالے سیاسی رہنماؤں اور ارباب اقتدار نے اب تک کیا قربانیاں دی ہیں؟
ادھر عمران خان نے اپنی اقتدار سے رخصتی کے بعد حکومت پر مسلسل دباؤ بڑھانے کے لیے چاروں صوبوں میں بڑے بڑے جلسے کرنے کے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے اتحادی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ 30 لاکھ جم غفیر لے کر دارالحکومت کی طرف مارچ کریں گے اور اس وقت تک وہاں دھرنا دیں گے جب تک حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کردے۔
عمران خان اپنے پروگرام کے مطابق پشاور سے لانگ مارچ کے لیے نکلے اسلام آباد پہنچے، کارکنوں سے خطاب کیا اور حکومت کو چھے دن کا وقت دے کر لانگ مارچ ختم کرکے واپس بنی گالا چلے گئے۔ عمران خان نے اچانک لانگ مارچ اور دھرنا ختم کرنے کا جو اعلان کیا اس کے پس پردہ بہت سی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگار اپنی اپنی آرا کا اظہار اور قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
بقول خان صاحب کے اتحادی حکومت ہماری لڑائی کروا کے ملک میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے جب کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ہماری تیاری بھی نہیں تھی۔ اس لیے حکومت کو چھے دنوں کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ مطالبہ نہ مانا گیا تو دوبارہ اسلام آباد آؤں گا۔ کیا چھے دنوں بعد کوئی انہونی ہو سکتی ہے؟ کیا عمران خان کا مطالبہ مان لیا جائے گا؟ کیا اسمبلیاں تحلیل اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے گا؟ چھ دنوں تک انتظار کیجیے۔
''لانگ واک ٹو فریڈم (آزادی کا طویل سفر)'' جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی سوانح عمری ہے۔ منڈیلا بیسویں صدی کے بااثر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ ان کی یہ کتاب1994 میں شایع ہوئی جو ان کی زندگی کے ابتدائی سالوں سے لے کر کم و بیش 27 سال تک رابن جزیرے میں جیل کاٹنے کے تجربات کا احاطہ کرتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کی یہ جدوجہد نسلی امتیاز برتنے والی حکومت کے خلاف تھی۔ کتاب کے آخری ابواب میں جیل سے رہائی کے بعد منڈیلا کے سیاسی عروج و زوال کا احاطہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح انھوں نے ملک کے منقسم معاشرے میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا۔ کتاب کے آخر میں انھوں نے خود یہ تسلیم کیا کہ ان کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی اور ابھی بھی سیاہ فام آبادی کو نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔
رنگ و برادری مخالف نظریات کے خلاف جدوجہد پر 27 سال جیل میں گزارنے کے بعد رہائی ملی تو انھوں نے ایک نئے عزم، حوصلے اور ولولے کے ساتھ اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور ملک کے پہلے سیاہ فام صدر بن گئے۔ انھیں دنیا بھر میں ایک جمہوریت پسند اور سماجی انصاف کی علامت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
نیلسن منڈیلا کو 250 سے زائد اعزازات ملے۔ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے پر امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا، جب کہ جنوبی افریقن نے انھیں ''بابائے قوم'' کا خطاب دیا۔ منڈیلا کی جنوبی افریقہ میں وہی قدر و منزلت ہے جو ہمارے ملک پاکستان میں قائد اعظم کو حاصل ہے۔
جدوجہد ہی حقیقی کامیابی کے حصول کا زینہ اور غلامی سے آزادی حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی اس رمز کی بات کو بخوبی جانتے تھے یہی وجہ تھی کہ انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے طویل اور صبر آزما جدوجہد کی۔ کسی بھی مرحلے پر مایوس، بددل، ناامید اور دل شکستہ نہ ہوئے۔ ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی، وہ پورے یقین، اعتماد، دل جمعی اور جوش و جذبے کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔
بعینہ لوگ بھی ان پر اعتبار کرکے ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑے اور جدوجہد کا یہ سفر حصول منزل یعنی پاکستان حاصل کرنے تک جاری رہا، یوں 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آگیا۔مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد بنیادی عامل ہے۔
قائد اعظم کے پاکستان میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو ہمیشہ یہ امید رہی کہ عظیم قائد کی وفات کے بعد آنیوالے سیاسی رہنما و حکمران بانی پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ملک کو سیاسی، معاشی، اقتصادی، سماجی اور فراہمی عدل کے حوالے سے ان کے رہنما اصولوں کی روشنی میں ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ عوام خوش حال اور ملک کا مستقبل تابناک ہوگا، لیکن افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا۔
سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ملک سیاسی، معاشی، اقتصادی اور عدل کے لحاظ سے غیر مستحکم نظر آتا ہے۔ ہر آنیوالی حکومت ملک کی مجموعی زبوں حالی کا سارا ملبہ جانیوالی حکومت کے سر منڈھ دیتی ہے۔آج بھی ملک کا یہی منظر نامہ ہے۔ شہباز حکومت سارا ملبہ عمران حکومت پر ڈال رہی ہے۔ ان سے قبل عمران خان جب وزیر اعظم بنے تو انھوں نے ملک کی معاشی و اقتصادی تباہی کا سارا ملبہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں پر ڈال دیا تھا۔
آج ملک بدترین معاشی و اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہمارا روپیہ روزانہ کی بنیاد پر پاتال میں گر رہا ہے۔ امریکی ڈالر 200 روپے سے زائد ہو کر ملک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے شدید دباؤ پر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ پٹرول تقریباً 180 روپے فی لیٹر، ڈیزل 174 روپے سے زائد فی لیٹر ہو گیا ہے جب کہ مٹی کا تیل 155 روپے فی لیٹر تک پہنچ گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی یہ قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، جب کہ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ گھی 502 روپے فی کلو گرام اور کوکنگ آئل 518 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ اتحادی حکومت نے عوام پر مہنگائی کا پہلا بم گرا دیا ہے اور ابھی بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔
آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے حکومت کو پٹرولیم مصنوعات پر دی جانیوالی سبسڈی مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی، ورنہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 900 ملین ڈالر کی قرضے کی قسط نہیں ملے گی۔ یعنی اگلے ماہ حکومت پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوگی۔ شہباز حکومت کو قومی معیشت کو سہارا دینے کے لیے لامحالہ سخت گیر معاشی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔
مخلوط حکومت کے اپنے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سربراہ ہو اسے مشکل فیصلے کرتے وقت اپنے اتحادیوں سے مشاورت اور ان کا اعتماد حاصل کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر وزیر اعظم نے اتحادیوں کو بھی اپنے اعتماد میں لیا۔ بعدازاں مذکورہ سخت فیصلے کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس سے براہ راست غریب آدمی پر غیر معمولی مالی بوجھ پڑے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں 28 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ہر غریب گھرانے کو 2 ہزار روپے ماہانہ ملیں گے، یہ مالی امداد بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت دی جانے والی رقم کے علاوہ ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ دل پر پتھر رکھ کر کیا، یہ فیصلہ ملک کو معاشی دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ناگزیر تھا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک کے معاشی حالات کے باعث سب کو قربانی دینا ہوگی۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ عوام سے قربانی دینے کا مطالبہ کرنیوالے سیاسی رہنماؤں اور ارباب اقتدار نے اب تک کیا قربانیاں دی ہیں؟
ادھر عمران خان نے اپنی اقتدار سے رخصتی کے بعد حکومت پر مسلسل دباؤ بڑھانے کے لیے چاروں صوبوں میں بڑے بڑے جلسے کرنے کے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے اتحادی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ 30 لاکھ جم غفیر لے کر دارالحکومت کی طرف مارچ کریں گے اور اس وقت تک وہاں دھرنا دیں گے جب تک حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کردے۔
عمران خان اپنے پروگرام کے مطابق پشاور سے لانگ مارچ کے لیے نکلے اسلام آباد پہنچے، کارکنوں سے خطاب کیا اور حکومت کو چھے دن کا وقت دے کر لانگ مارچ ختم کرکے واپس بنی گالا چلے گئے۔ عمران خان نے اچانک لانگ مارچ اور دھرنا ختم کرنے کا جو اعلان کیا اس کے پس پردہ بہت سی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگار اپنی اپنی آرا کا اظہار اور قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
بقول خان صاحب کے اتحادی حکومت ہماری لڑائی کروا کے ملک میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے جب کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ہماری تیاری بھی نہیں تھی۔ اس لیے حکومت کو چھے دنوں کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ مطالبہ نہ مانا گیا تو دوبارہ اسلام آباد آؤں گا۔ کیا چھے دنوں بعد کوئی انہونی ہو سکتی ہے؟ کیا عمران خان کا مطالبہ مان لیا جائے گا؟ کیا اسمبلیاں تحلیل اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے گا؟ چھ دنوں تک انتظار کیجیے۔