ایک غور طلب بات
میرے سامنے نور مقدم کے والد آگئے جو اپنی بیٹی کا کیس لڑنے کے لیے سامنے آگئے اور خود اپنے ضمیر سے مطلوب کیا
کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں، وہ بھلے سرکاری نہ ہوں، نجی ہوں لیکن ان پر سماجی ذمے داری اتنی ہی ہوتی ہے، جتنی کسی ریاستی ادارے کی ہوتی ہے۔ ان کو اخلاقیات کا مجسمہ ہونا چاہیے۔
ایسے ہی شعبوں میں آتی ہے تعلیم۔ اساتذہ اور نجی اسکولوں کے مالکان۔ یہ شعبہ کتنا ہی نجی کیوں نہ ہو، لیکن یہ پیسے کمانے کا ذریعہ یا نفع بخش کاروبار نہیں ہونا چاہیے۔ ان کو تراشنے ہوتے ہیں مستقبل کے معمار۔ ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے قوم کا مستقبل۔ اور جب اساتذہ اور مالکان، نہ صرف نفع کمانے کے لت سے آلودہ ہوجائیں، بلکہ دھوکا اور فریبی کریں اور وہ بھی ان کے ساتھ جو فریش گریجویٹ ہوں جو ان کے ہی شاگرد رہ چکے ہوں اور کچھ کرنے کی لگن میں اپنی بھرپور توانائیاں لے کے آگے نکلنا چاہتے ہوں، ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ان کے ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ کرنا یقیناً یہ بات باعث شرم ہے اور ایسے ذہنی کرپٹ لوگوں کو سامنے لانا ایک طرح سے ذمے داری بن جاتی ہے۔
یہ نہ صرف قانونی اعتبار سے مجرم ٹھہرتے ہیں بلکہ قوم کے مجرم بھی ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے جب نجی اسکول و ادارے نیشنلائز کیے تھے تو اس سے پہلے بہت بڑے بڑے نام تھے نجی اسکولوں میں، بدقسمتی سے وہ گوانے پڑے تھے، لیکن پھر بھی یہ اصول اب بھی اہم ہے کہ ایسے اسکولوں اور کالجوں کے مالکان کے لائسنس کینسل ہونے چاہیے جو یہ کام دھندے کے لیے اور منافع کمانے کے لیے کرتے ہیں اور ڈھیر ساری فیس لے کے متوسط طبقے کی زندگی اجیرن بنائی ہوئی ہے۔
مختصر یہ کہ ان کالجوں اور اسکولوں پر کوروناکی وجہ سے بہت بڑا بحران آیا، لگ بھگ دو سال تک یہ بند رہے۔ بہت سے ایسے اداروں نے اپنی آمدنی وغیرہ حاصل کرنے کے لیے تاکہ نقصانات کم ہوں، کچھ اور ایکٹیویٹی کروائیں وہ ادارے جن کے پاس کھلی جگہ تھی، وہ ریسٹورنٹ جن کو اندر کام کی اجازت نہ تھی کوروناکی وجہ سے وہ اپنا ریسٹورنٹ کچھ مدت کے لیے شفٹ کرگئے ایسی جگہ جو کہ اوپن ایریا رکھتے تھے۔
کراچی میں اس شہر کی مشہور تعلیمی ادارہ لگ بھگ ایک ایکڑ پر مشتمل۔ یہاں قانون سے لے کے اے لیول، او لیول اور نرسری تک طلبہ پڑھتے ہیں اور برطانوی یونیورسٹی کے آن لائن کورسز اور ٹیوشن بھی۔ اس کے مالکان کو جنرل مشرف کے میں سستے ریٹ پر زمین الاٹ ہوئی تھی۔ پھر ہوا یوں کہ قانون پڑھانے والے اساتذہ نے اپنے اپنے الگ کالج قائم کرلیے اور اپنے شاگردوں کو ساتھ لے آئے۔ اے لیول اور او لیول کے شاگرد تھے، ان میں سے کچھ کے انٹرویو میں نے کیے تو پتا چلا کہ یہ مختلف مد میں فیس کے علاوہ کسی بہانے سے اور بھی پیسے لیتے تھے۔
کلاسز کا شیڈول کچھ اس طرح رکھا کہ ایک طالب علم کے ایک ہی وقت میں دو پیریڈ ہوتے تھے،جب وہ ایک کلاس سے غیر حاضر ہوتا تو اس پر جرمانہ لگا دیا جائے۔ اکثر جگہ بجلی چوری کرتے رہے، کروڑوں روپے واجب الادا بنے اور کے ای ایس سی نے ایف آئی آر بھی کٹوائی۔ ان کو سزا بھی ہوئی، ان کے شاگردوں نے کہا اس کی ادائیگی بھی ان شاگردوں کی فیسوں میں ڈال دی گئی۔ پھر2020 کی غیرمعمولی بارش اور کورنا وباء سے پیدا شدہ بحران کی وجہ سے یہ درسگاہ ختم ہوگئی ۔
یہاں سے شروع ہوتی ہے ایک اورکہانی۔ کچھ فریش گریجویٹ نے مل کر اس درسگاہ کا سارا اوپن ایریا پانچ سال کے لیے حاصل کیا، یہ معاہدہ جوائنٹ وینچر تھا،اس کے تحت ایک کلب اور ایک تھیٹرکمپنی رجسٹرڈ کرائی، یہ نوجوان تھے ،ایک جنون اور جوش تھا، یوں یہ کلب نوجوانوں کے لیے تفریح گاہ بن گئی۔ کورنا کی وجہ سے کئی بند ریسٹورنٹس کھل گئے ، یوں ایک میلا برپا ہوگیا۔ فٹ بال، باسکٹ بال، جم، لڑکیوں کے الگ لیے جم وغیرہ سب ایکٹیویٹی موجود تھیں۔ شام قوالی سے لے کر مختلف میوزک پروگرام، کلاسیکل رقص، ڈاگ شو، فوڈ فیسٹیول وغیرہ ہوئے، ہر ہفتے اوپن ایئر سینما شو۔
اسی اثنامیں سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا جس کے تحت کنٹونمنٹ کے رہائشی ایریاز میں اسکول یا کالج نہیں کھولا جاسکتا، پھر جو یہاں سے جانے والوں نے کلب اور دیگر تفریحات والی جگہ حاصل کرلی اور مالکان کے ساتھ سات سال کا معاہدہ کرلیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے سے موجود معاہدے کے تحت مالکان یہ بلڈنگ کسی اور کو کرائے پر دے سکتا ہے؟ کیا قانون کے تحت یہ طریقہ درست ہے ؟ اس پر روشنی HEC ڈال سکتی ہے۔اب یہ کیس عدالت میں ہے۔
میں نے نہ جانے کتنے انسانی حقوق کے کیسز اسی طرح عدالت میں اور اخبار و میڈیا پر لڑے ہوں گے، مجھے یہ سوچنا پڑا کیونکہ اس میں میرے دو بیٹے بھی ان نوجوانوں کے ساتھ شامل ہیں، کیا مجھے اس کیس کو لینا چاہیے؟ ان کے پاس کروڑوں کی فیس دے کے بڑے وکیل کرنے کی طاقت بھی نہ تھی۔ میرے سامنے نور مقدم کے والد آگئے جو اپنی بیٹی کا کیس لڑنے کے لیے سامنے آگئے اور خود اپنے ضمیر سے مطلوب کیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کوئی علاقہ غیر ہے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو آج کل ملک میں نوجوانوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو پھر اس ملک کا جو یہ منظر بنا ہے ان میں ایسے ہی لوگ ہیں جن کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔
ایسے ہی شعبوں میں آتی ہے تعلیم۔ اساتذہ اور نجی اسکولوں کے مالکان۔ یہ شعبہ کتنا ہی نجی کیوں نہ ہو، لیکن یہ پیسے کمانے کا ذریعہ یا نفع بخش کاروبار نہیں ہونا چاہیے۔ ان کو تراشنے ہوتے ہیں مستقبل کے معمار۔ ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے قوم کا مستقبل۔ اور جب اساتذہ اور مالکان، نہ صرف نفع کمانے کے لت سے آلودہ ہوجائیں، بلکہ دھوکا اور فریبی کریں اور وہ بھی ان کے ساتھ جو فریش گریجویٹ ہوں جو ان کے ہی شاگرد رہ چکے ہوں اور کچھ کرنے کی لگن میں اپنی بھرپور توانائیاں لے کے آگے نکلنا چاہتے ہوں، ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ان کے ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ کرنا یقیناً یہ بات باعث شرم ہے اور ایسے ذہنی کرپٹ لوگوں کو سامنے لانا ایک طرح سے ذمے داری بن جاتی ہے۔
یہ نہ صرف قانونی اعتبار سے مجرم ٹھہرتے ہیں بلکہ قوم کے مجرم بھی ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے جب نجی اسکول و ادارے نیشنلائز کیے تھے تو اس سے پہلے بہت بڑے بڑے نام تھے نجی اسکولوں میں، بدقسمتی سے وہ گوانے پڑے تھے، لیکن پھر بھی یہ اصول اب بھی اہم ہے کہ ایسے اسکولوں اور کالجوں کے مالکان کے لائسنس کینسل ہونے چاہیے جو یہ کام دھندے کے لیے اور منافع کمانے کے لیے کرتے ہیں اور ڈھیر ساری فیس لے کے متوسط طبقے کی زندگی اجیرن بنائی ہوئی ہے۔
مختصر یہ کہ ان کالجوں اور اسکولوں پر کوروناکی وجہ سے بہت بڑا بحران آیا، لگ بھگ دو سال تک یہ بند رہے۔ بہت سے ایسے اداروں نے اپنی آمدنی وغیرہ حاصل کرنے کے لیے تاکہ نقصانات کم ہوں، کچھ اور ایکٹیویٹی کروائیں وہ ادارے جن کے پاس کھلی جگہ تھی، وہ ریسٹورنٹ جن کو اندر کام کی اجازت نہ تھی کوروناکی وجہ سے وہ اپنا ریسٹورنٹ کچھ مدت کے لیے شفٹ کرگئے ایسی جگہ جو کہ اوپن ایریا رکھتے تھے۔
کراچی میں اس شہر کی مشہور تعلیمی ادارہ لگ بھگ ایک ایکڑ پر مشتمل۔ یہاں قانون سے لے کے اے لیول، او لیول اور نرسری تک طلبہ پڑھتے ہیں اور برطانوی یونیورسٹی کے آن لائن کورسز اور ٹیوشن بھی۔ اس کے مالکان کو جنرل مشرف کے میں سستے ریٹ پر زمین الاٹ ہوئی تھی۔ پھر ہوا یوں کہ قانون پڑھانے والے اساتذہ نے اپنے اپنے الگ کالج قائم کرلیے اور اپنے شاگردوں کو ساتھ لے آئے۔ اے لیول اور او لیول کے شاگرد تھے، ان میں سے کچھ کے انٹرویو میں نے کیے تو پتا چلا کہ یہ مختلف مد میں فیس کے علاوہ کسی بہانے سے اور بھی پیسے لیتے تھے۔
کلاسز کا شیڈول کچھ اس طرح رکھا کہ ایک طالب علم کے ایک ہی وقت میں دو پیریڈ ہوتے تھے،جب وہ ایک کلاس سے غیر حاضر ہوتا تو اس پر جرمانہ لگا دیا جائے۔ اکثر جگہ بجلی چوری کرتے رہے، کروڑوں روپے واجب الادا بنے اور کے ای ایس سی نے ایف آئی آر بھی کٹوائی۔ ان کو سزا بھی ہوئی، ان کے شاگردوں نے کہا اس کی ادائیگی بھی ان شاگردوں کی فیسوں میں ڈال دی گئی۔ پھر2020 کی غیرمعمولی بارش اور کورنا وباء سے پیدا شدہ بحران کی وجہ سے یہ درسگاہ ختم ہوگئی ۔
یہاں سے شروع ہوتی ہے ایک اورکہانی۔ کچھ فریش گریجویٹ نے مل کر اس درسگاہ کا سارا اوپن ایریا پانچ سال کے لیے حاصل کیا، یہ معاہدہ جوائنٹ وینچر تھا،اس کے تحت ایک کلب اور ایک تھیٹرکمپنی رجسٹرڈ کرائی، یہ نوجوان تھے ،ایک جنون اور جوش تھا، یوں یہ کلب نوجوانوں کے لیے تفریح گاہ بن گئی۔ کورنا کی وجہ سے کئی بند ریسٹورنٹس کھل گئے ، یوں ایک میلا برپا ہوگیا۔ فٹ بال، باسکٹ بال، جم، لڑکیوں کے الگ لیے جم وغیرہ سب ایکٹیویٹی موجود تھیں۔ شام قوالی سے لے کر مختلف میوزک پروگرام، کلاسیکل رقص، ڈاگ شو، فوڈ فیسٹیول وغیرہ ہوئے، ہر ہفتے اوپن ایئر سینما شو۔
اسی اثنامیں سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا جس کے تحت کنٹونمنٹ کے رہائشی ایریاز میں اسکول یا کالج نہیں کھولا جاسکتا، پھر جو یہاں سے جانے والوں نے کلب اور دیگر تفریحات والی جگہ حاصل کرلی اور مالکان کے ساتھ سات سال کا معاہدہ کرلیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے سے موجود معاہدے کے تحت مالکان یہ بلڈنگ کسی اور کو کرائے پر دے سکتا ہے؟ کیا قانون کے تحت یہ طریقہ درست ہے ؟ اس پر روشنی HEC ڈال سکتی ہے۔اب یہ کیس عدالت میں ہے۔
میں نے نہ جانے کتنے انسانی حقوق کے کیسز اسی طرح عدالت میں اور اخبار و میڈیا پر لڑے ہوں گے، مجھے یہ سوچنا پڑا کیونکہ اس میں میرے دو بیٹے بھی ان نوجوانوں کے ساتھ شامل ہیں، کیا مجھے اس کیس کو لینا چاہیے؟ ان کے پاس کروڑوں کی فیس دے کے بڑے وکیل کرنے کی طاقت بھی نہ تھی۔ میرے سامنے نور مقدم کے والد آگئے جو اپنی بیٹی کا کیس لڑنے کے لیے سامنے آگئے اور خود اپنے ضمیر سے مطلوب کیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کوئی علاقہ غیر ہے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو آج کل ملک میں نوجوانوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو پھر اس ملک کا جو یہ منظر بنا ہے ان میں ایسے ہی لوگ ہیں جن کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔