پہچان
کہا گیا کہ ہم وطنِ عزیز میں تفریح ، وقت گزاری اور اجتماعی خوشی کے مظاہر پر گفتگو کریں
ISLAMABAD:
نیشنل اسٹاف کالج میں اعلیٰ افسران کی اعلیٰ ترگریڈوں میں ترقی کے حوالے سے سارا سال ہی مختلف طرح کے کورسز ہوتے رہتے ہیں جن کے ضمن میں اُن کی تربیت اور صلاحیت کے معیار کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر لیکچرز کے لیے متعلقہ شعبے کے ماہرین کو لیکچر یا مذاکرے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
مجھے کئی بار مختلف گروپس کی ادبی کمیٹیوں کی دعوت پر شعر و ادب پر گفتگو کرنے اور شاعری سنانے کے لیے وہاں جانے کا موقع ملتا رہتا ہے لیکن اس بار مجھے اور منیزہ ہاشمی کو ایک ایسے موضوع پر لیکچر اور مذاکرے کے لیے مدعو کیا گیا تھاجو ہم دونوںمیں سے کسی کا بھی مرکزی حوالہ نہیں تھا۔
کہا گیا کہ ہم وطنِ عزیز میں تفریح ، وقت گزاری اور اجتماعی خوشی کے مظاہر پر گفتگو کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ہمارے معاشرے میں خوشی اور خوشدلی کی جگہ ایک دوسرے سے دُوری اور عمومی چڑچڑاہٹ نے کیوں اور کیسے لے لی ہے،اب عملی صورتِ حال یہ تھی کہ ہمارے بیشتر سامعین تعلیم ، تربیت ، تجربے اور ذہانت کے اعتبار سے اس موضوع پر شاید ہم دونوں سے زیادہ باخبر تھے، اس پروگرام کا پہلا حصہ میرے اور منیزہ کے اس موضوع پر لیکچرز کے لیے رکھا گیا تھا۔
اپنے تدریسی تجربے کی بنیاد پر میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اگر کسی پروفیسر کو کسی موضوع سے معقول واقفیت نہ بھی ہو تب بھی وہ 45منٹ تک کا پیریڈ تو نکال ہی لیتا ہے مگر اس محفل میں یہ گمان بھی کسی کام نہ آیا کہ ایسے پڑھے لکھے اور زمانہ آشنا سامعین کے سامنے اس وکھری ٹائب کے موضوع پر 45منٹ بولنا کسی پہاڑ کاٹنے سے کم نہیں تھا۔ سو میں نے یہی بہتر جاناکہ ابتدا میں ہی کھلے دل سے اس کا اعتراف کرلیا جائے کہ میرے پاس اس موضوع پر باقاعدہ لیکچر دینے کی استطاعت نہیں ہے البتہ کچھ بے ترتیب سے خیالات اور آدھی اُدھوری معلومات سے ضرور کام لیا جاسکتا ہے۔
اب چونکہ اس سوال کا تعلق پاکستان اور پاکستانی عوام سے تھا اس لیے میں نے عرض کیا کہ معاشرے کی سطح پر مِل جُل کر خوش دلی اور خوش وقتی کا تعلق بیک وقت تاریخ اور روائت سے بھی ہے، مذہب اور مذہبی عقائد سے بھی، کھیل اور جسمانی تفریح سے بھی اور چونکہ ہم لوگ برصغیر میں پید اہوئے جہاں ہمارے 90%بزرگ کچھ نسلیں پہلے تک ہندومت یا کسی اور مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے جدید سائنسی معلومات کے مطابق مذہب کی تبدیلی کے باوجود تہذیب، کلچر اور معاشرے کی سطح پر ہمارے DNAمیں ہمارا ماضی بھی کسی نہ کسی حد اور شکل میں زندہ اور موجود ہے اور وہ اپنے ہونے کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔
مثال کے طور پر بسنت کا تہوار مذہب اور عقیدے کی تفریق سے قطع نظر ہمارے دیہاتوں میں فصلوں کے کٹنے اور موسم بہار کی پیشوائی کے لیے منایا جاتا تھا اور اس کا اثر شہروں پر بھی نظر آتا تھا جہاں لوگ میدانوں اور گھروں کی چھتوں پر پتنگ بازی کرتے تھے اور یہ کھیل یا شوق مالی اور معاشی اعتبار سے بھی سستا ہونے کے باعث اجتماعی سطح پر ایک اظہارِ مسّرت کا مقبول ذریعہ اور اظہار بھی کرتا تھا۔
تحریکِ پاکستان کے دنوں میں جہاں اور بہت سے عوامی اظہار کے ذرایع پر ہندو پانی اور مسلم پانی کی طرح ایک مذہبی تعصب اپنا رنگ جمانے لگا وہاں اُردو پر مسلمانوں کی زبان اور بسنت پر ہندو تہوار کا ٹھپہ لگا دیا گیا لیکن عوامی سطح پر اس تفریق کو سرحد کے دونوں طرف مقبولیت حاصل نہ ہوسکی البتہ جو کام دونوں طرف کے تنگ دل اور تنگ نظر لوگ نہ کرسکے وہ بعد میں نام نہاد ماڈرن اور زندہ دل لوگوںکے ہتھے چڑھ گیا ہے۔
فائیو اسٹار ہوٹلوں کی چھتوں پر بسنت کے تہوار کو اصراف، نمائش اور کسی حد تک عیاشی کا مظہر بنا دیا گیا اور یہ عوامی اور سستا شوق طبقہٌ اُمرا کے لیے ایک مہنگی اور نمائشی تفریح بن کر اپنی اصل روح سے دُور ہوتا گیا، رہی سہی کسر اُس قاتل اور انتہائی تیز ڈور کے رواج نے پوری کردی کہ اس سے راہ جاتے بے قصور لوگوںکے گلے کٹنے لگے۔
کم و بیش یہی واقعہ کھیل کے میدانوں ، عوامی میلوں، مذہبی عُرسوں اور قومی میڈیا کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں پیش آیا کہ ان میں عوامیت کی جگہ گروہ بندی نے لے لی، سادگی کی جگہ نمائش اور دنیا داری اور مذہبی عقیدے کی جگہ انتہا پسندی اور تفریق نے لے لی ۔مجھے اچھی طرح یادہے ہمارے بچپن میں لاہور سے محرم کا جو مرکزی جلوس نکلتا تھا اس کے راستے میں سُنی عقیدے کے لوگ دودھ اور پانی کی سبیلیں لگاتے تھے۔
اسکولوں ، کالجوں، بازاروں، ملازمتوں اور رشتوں میں کبھی اس فرق کو مسئلہ نہیں بنایا جاتا تھا مگر پھر ہم نے ہی وہ منظر بھی دیکھے کہ لوگ عقیدے کے فرق کی وجہ سے مخالف دھڑوں میں بٹ گئے اور معاشرے کا حسن غارت ہوتا چلا گیا۔ کھیل کے میدانوں پر لینڈ مافیا کاقبضہ ہوگیااورہمارے نظامِ تعلیم سے اپنی تہذیب ، کلچر اور زبان کو اس بُری طرح سے خارج کر دیا گیا کہ ایک پوری کی پوری نسل اپنے تہذیبی تشخص سے محروم ہوگئی۔
ہمارے لیکچرز کے بعد چائے کا وقفہ کیا گیا جس کے بعد ایک گھنٹہ سوال و جواب کا سیشن ہوا جو بہت دلچسپ اورمعلومات افزا تھا کہ بیشتر سوالوں میں اُس تہذیبی زوال کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی جس نے معاشرے کے ہونٹوں سے ہنسی اور آنکھوں سے ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام کو ایک قصۂ ماضی بنا دیا، سب سے زیادہ زور نئی نسل اور انٹرنیٹ سے منسلک چیزوں کا ہماری نئی نسل پر مرتب ہونے والے اثرات سے تھا، عمومی روّیہ یہی ٹھہرا کہ ٹیکنالوجی سے انکار یا مقابلہ ممکن نہیں۔
ہمیں اس نے ساتھ رہ کر اور اس کے اندر سے ایسی چیزیں منتخب کرنے پر توجہ دینی چاہیے جو اگرپُل کا نہیں تو ایک جزوی اتفاق ہی کا ذریعہ بن سکیں تاکہ ہماری نئی نسلیں اپنی پرانی اور اجتماعی خوشیوں اور تہذیب کی خوشبو سے بالکل ہی دُور اور بے خبر نہ ہوجائیں اور یہ کہ ہمیں اپنے روائتی میلوں اور تہواروں کو سرکاری سرپرستی بھی فراہم کرنی چاہیے کہ ان کی موجودگی سے بلاشبہ معاشرے میں ایک توازن اور شناخت کا احساس پھر سے اپنی جگہ بنا سکے گا۔
نیشنل اسٹاف کالج میں اعلیٰ افسران کی اعلیٰ ترگریڈوں میں ترقی کے حوالے سے سارا سال ہی مختلف طرح کے کورسز ہوتے رہتے ہیں جن کے ضمن میں اُن کی تربیت اور صلاحیت کے معیار کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر لیکچرز کے لیے متعلقہ شعبے کے ماہرین کو لیکچر یا مذاکرے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
مجھے کئی بار مختلف گروپس کی ادبی کمیٹیوں کی دعوت پر شعر و ادب پر گفتگو کرنے اور شاعری سنانے کے لیے وہاں جانے کا موقع ملتا رہتا ہے لیکن اس بار مجھے اور منیزہ ہاشمی کو ایک ایسے موضوع پر لیکچر اور مذاکرے کے لیے مدعو کیا گیا تھاجو ہم دونوںمیں سے کسی کا بھی مرکزی حوالہ نہیں تھا۔
کہا گیا کہ ہم وطنِ عزیز میں تفریح ، وقت گزاری اور اجتماعی خوشی کے مظاہر پر گفتگو کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ہمارے معاشرے میں خوشی اور خوشدلی کی جگہ ایک دوسرے سے دُوری اور عمومی چڑچڑاہٹ نے کیوں اور کیسے لے لی ہے،اب عملی صورتِ حال یہ تھی کہ ہمارے بیشتر سامعین تعلیم ، تربیت ، تجربے اور ذہانت کے اعتبار سے اس موضوع پر شاید ہم دونوں سے زیادہ باخبر تھے، اس پروگرام کا پہلا حصہ میرے اور منیزہ کے اس موضوع پر لیکچرز کے لیے رکھا گیا تھا۔
اپنے تدریسی تجربے کی بنیاد پر میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اگر کسی پروفیسر کو کسی موضوع سے معقول واقفیت نہ بھی ہو تب بھی وہ 45منٹ تک کا پیریڈ تو نکال ہی لیتا ہے مگر اس محفل میں یہ گمان بھی کسی کام نہ آیا کہ ایسے پڑھے لکھے اور زمانہ آشنا سامعین کے سامنے اس وکھری ٹائب کے موضوع پر 45منٹ بولنا کسی پہاڑ کاٹنے سے کم نہیں تھا۔ سو میں نے یہی بہتر جاناکہ ابتدا میں ہی کھلے دل سے اس کا اعتراف کرلیا جائے کہ میرے پاس اس موضوع پر باقاعدہ لیکچر دینے کی استطاعت نہیں ہے البتہ کچھ بے ترتیب سے خیالات اور آدھی اُدھوری معلومات سے ضرور کام لیا جاسکتا ہے۔
اب چونکہ اس سوال کا تعلق پاکستان اور پاکستانی عوام سے تھا اس لیے میں نے عرض کیا کہ معاشرے کی سطح پر مِل جُل کر خوش دلی اور خوش وقتی کا تعلق بیک وقت تاریخ اور روائت سے بھی ہے، مذہب اور مذہبی عقائد سے بھی، کھیل اور جسمانی تفریح سے بھی اور چونکہ ہم لوگ برصغیر میں پید اہوئے جہاں ہمارے 90%بزرگ کچھ نسلیں پہلے تک ہندومت یا کسی اور مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے جدید سائنسی معلومات کے مطابق مذہب کی تبدیلی کے باوجود تہذیب، کلچر اور معاشرے کی سطح پر ہمارے DNAمیں ہمارا ماضی بھی کسی نہ کسی حد اور شکل میں زندہ اور موجود ہے اور وہ اپنے ہونے کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔
مثال کے طور پر بسنت کا تہوار مذہب اور عقیدے کی تفریق سے قطع نظر ہمارے دیہاتوں میں فصلوں کے کٹنے اور موسم بہار کی پیشوائی کے لیے منایا جاتا تھا اور اس کا اثر شہروں پر بھی نظر آتا تھا جہاں لوگ میدانوں اور گھروں کی چھتوں پر پتنگ بازی کرتے تھے اور یہ کھیل یا شوق مالی اور معاشی اعتبار سے بھی سستا ہونے کے باعث اجتماعی سطح پر ایک اظہارِ مسّرت کا مقبول ذریعہ اور اظہار بھی کرتا تھا۔
تحریکِ پاکستان کے دنوں میں جہاں اور بہت سے عوامی اظہار کے ذرایع پر ہندو پانی اور مسلم پانی کی طرح ایک مذہبی تعصب اپنا رنگ جمانے لگا وہاں اُردو پر مسلمانوں کی زبان اور بسنت پر ہندو تہوار کا ٹھپہ لگا دیا گیا لیکن عوامی سطح پر اس تفریق کو سرحد کے دونوں طرف مقبولیت حاصل نہ ہوسکی البتہ جو کام دونوں طرف کے تنگ دل اور تنگ نظر لوگ نہ کرسکے وہ بعد میں نام نہاد ماڈرن اور زندہ دل لوگوںکے ہتھے چڑھ گیا ہے۔
فائیو اسٹار ہوٹلوں کی چھتوں پر بسنت کے تہوار کو اصراف، نمائش اور کسی حد تک عیاشی کا مظہر بنا دیا گیا اور یہ عوامی اور سستا شوق طبقہٌ اُمرا کے لیے ایک مہنگی اور نمائشی تفریح بن کر اپنی اصل روح سے دُور ہوتا گیا، رہی سہی کسر اُس قاتل اور انتہائی تیز ڈور کے رواج نے پوری کردی کہ اس سے راہ جاتے بے قصور لوگوںکے گلے کٹنے لگے۔
کم و بیش یہی واقعہ کھیل کے میدانوں ، عوامی میلوں، مذہبی عُرسوں اور قومی میڈیا کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں پیش آیا کہ ان میں عوامیت کی جگہ گروہ بندی نے لے لی، سادگی کی جگہ نمائش اور دنیا داری اور مذہبی عقیدے کی جگہ انتہا پسندی اور تفریق نے لے لی ۔مجھے اچھی طرح یادہے ہمارے بچپن میں لاہور سے محرم کا جو مرکزی جلوس نکلتا تھا اس کے راستے میں سُنی عقیدے کے لوگ دودھ اور پانی کی سبیلیں لگاتے تھے۔
اسکولوں ، کالجوں، بازاروں، ملازمتوں اور رشتوں میں کبھی اس فرق کو مسئلہ نہیں بنایا جاتا تھا مگر پھر ہم نے ہی وہ منظر بھی دیکھے کہ لوگ عقیدے کے فرق کی وجہ سے مخالف دھڑوں میں بٹ گئے اور معاشرے کا حسن غارت ہوتا چلا گیا۔ کھیل کے میدانوں پر لینڈ مافیا کاقبضہ ہوگیااورہمارے نظامِ تعلیم سے اپنی تہذیب ، کلچر اور زبان کو اس بُری طرح سے خارج کر دیا گیا کہ ایک پوری کی پوری نسل اپنے تہذیبی تشخص سے محروم ہوگئی۔
ہمارے لیکچرز کے بعد چائے کا وقفہ کیا گیا جس کے بعد ایک گھنٹہ سوال و جواب کا سیشن ہوا جو بہت دلچسپ اورمعلومات افزا تھا کہ بیشتر سوالوں میں اُس تہذیبی زوال کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی جس نے معاشرے کے ہونٹوں سے ہنسی اور آنکھوں سے ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام کو ایک قصۂ ماضی بنا دیا، سب سے زیادہ زور نئی نسل اور انٹرنیٹ سے منسلک چیزوں کا ہماری نئی نسل پر مرتب ہونے والے اثرات سے تھا، عمومی روّیہ یہی ٹھہرا کہ ٹیکنالوجی سے انکار یا مقابلہ ممکن نہیں۔
ہمیں اس نے ساتھ رہ کر اور اس کے اندر سے ایسی چیزیں منتخب کرنے پر توجہ دینی چاہیے جو اگرپُل کا نہیں تو ایک جزوی اتفاق ہی کا ذریعہ بن سکیں تاکہ ہماری نئی نسلیں اپنی پرانی اور اجتماعی خوشیوں اور تہذیب کی خوشبو سے بالکل ہی دُور اور بے خبر نہ ہوجائیں اور یہ کہ ہمیں اپنے روائتی میلوں اور تہواروں کو سرکاری سرپرستی بھی فراہم کرنی چاہیے کہ ان کی موجودگی سے بلاشبہ معاشرے میں ایک توازن اور شناخت کا احساس پھر سے اپنی جگہ بنا سکے گا۔