شہباز شریف حمزہ شہباز اور مریم نواز کے خطابات

شاید پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا امدادی پیکیج ہے جس سے وطنِ عزیز کی ایک تہائی آبادی فائدہ اُٹھا سکے گی


Tanveer Qaisar Shahid May 30, 2022
[email protected]

NEW YORK: جناب میاں محمد شہباز شریف جن طوفانی حالات اور نہایت دگرگوں معاشی دباؤ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہُوئے ہیں ، یہ ہم سب کے سامنے ہیں۔

سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کا ویسے تو یہ دعویٰ ہے کہ ''مَیں پاکستان کو معاشی بلندیوں کی جانب لے جارہا تھا '' لیکن معیشت کے واقفان کو خوب معلوم ہے کہ ان مبینہ ''معاشی بلندیوں'' کا حقیقی مفہوم اور معنی کیا تھے ؛ چنانچہ ایسے مہیب حالات میں کہا گیا کہ کون ہوگا جو اِن بدتر اقتصادی حالات میں نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گا؟ ہم سب نے مگر یہ منظر دیکھا کہ جناب شہباز شریف وہ سیاستدان تھے۔

جنھوں نے ہمت ، پامردی اور حوصلے کے ساتھ نئی حکومت کی زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں لے لی ۔ اُن کے لندن میں فروکش قائد نواز شریف نے بھی اُن کی ہمت بندھائی اور درجن بھر سیاسی جماعتوں کا قوی اتحاد بھی اُن کا مضبوط سہارا بنا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اتحادیوں کے یہ سہارے وہ کام کر گئے ہیں جن کی توقعات نہیں کی جا رہی تھی۔ اِنہی اتحادیوں کی طاقت و قوت کے بَل پر وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے پاؤں مضبوط بھی ہُوئے ہیں اور وہ دلیری سے اہم ترین فیصلے بھی کررہے ہیں۔

اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعظم شہباز شریف اولین فرصت میں سعودی عرب تشریف لے گئے۔ عمرہ بھی کیا اور سعودی ولی عہد سے تفصیلی اور ثمر آور ملاقات بھی کی۔ عمران خان صاحب کے اقتدار سے فارغ ہوتے ہی ہماری معیشت بھی فارغ ہو گئی تھی۔

ڈالر چھلانگیں مارتا ، حدیں پھلانگتا ہر شخص کو پریشان کررہا تھا۔ ایسے میں فوری معاشی دستگیری کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کا سعودی عرب جانا از بس ضروری ہو گیا تھا۔ سعودی شاہی خاندان کا بھی تہِ دل سے شکریہ کہ ہر آزمائش کے موقعے پر وہ پاکستان کی اعانت کو لپکتا ہے۔

کم کم ہی ایسے مناظر سامنے آئے ہیں کہ سعودی عرب کے حکمرانوں نے پاکستان کی درخواست کو مسترد کیا ہو۔ یہ راز اب قطعی راز نہیں رہا ہے کہ خان صاحب کی حکومت میں پاک سعودیہ تعلقات میں خوشگوار عنصر مدہم پڑ چکا تھا۔

لاریب وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کو اوّل دن سے متنوع دباؤ میں قومی فرائض انجام دینا پڑ رہے ہیں ۔ ایسے شدید دباؤ میں کوئی تعمیری اور غریب قوم کے حق میں قدم اُٹھانا آسان نہیں ہے ۔ جناب عمران خان کے جلسوں جلوسوں اور حکومت کا گھیراؤ جلاؤ شہباز شریف کے لیے سب سے بڑا دباؤ ہے۔

اُن کی حکومت جس کمزور بیساکھی پر کھڑی ہے، یہ دوسرا بڑا دباؤ ہے۔ متنوع نظریات کے حامل اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا خاصا دشوار بھی ہوتا ہے۔ لیکن مردِ کار بھی وہی کہلانے کا مستحق ہوتا ہے جو بحرانوں اور دباؤ میں اپنی منزل اور مقاصد کی جانب دلیری سے بڑھتا چلا جائے۔ ابھی تک تو شہباز شریف صاحب مسلسل ثابت کررہے ہیں کہ وہ مردِ بحران بھی ہیں اور مردِ کار بھی ۔یہ بھی سچ ہے کہ اُن کے سبھی اتحادیوں نے انھیں ڈٹے رہنے پر آمادہ کررکھا ہے۔ اس آمادگی نے اُمیدوں اور آدرشوں کے کئی نئے چراغ روشن کیے ہیں ۔

نئی حکومت کے گزرے پانچ ہفتوں کے دوران مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ شہباز شریف کب قوم سے خطاب کریں گے؟کام اتنے زیادہ اور مسائل اس قدر مہیب ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ آتے ہی ، کسی اُمید افزا پیغام کے بغیر، قوم سے مخاطب ہو جاتے۔ ہر پاکستانی نے نئے وزیر اعظم سے بڑی اور بلند توقعات وابستہ کررکھی تھیں ۔ عمرانی مہنگائی کے مارے عوام نئے وزیر اعظم ، شہباز شریف ، کی طرف کسی بڑے ریلیف اور اعانت کی توقعات کی آس لگائے بیٹھے تھے۔

ان عوامی خواہشات اور توقعات کی بازگشت شہباز شریف کے کانوں تک بھی مسلسل پہنچ رہی تھی ۔ قومی خزانہ تقریباً ویران پڑا ہے۔آئی ایم ایف امداد کے لیے کڑی شرائط عائد کررہا تھا۔ ایسے اعصاب شکن حالات میں شہباز شریف میں حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا کہ وہ قوم سے اپنے پہلے خطاب میں اُمیدوں کے کیسے چراغ جلائیں؟قوم کے سامنے پیش ہونے سے قبل یہ بھی ضروری تھا کہ اُن مبینہ ''معاشی بارُودی سرنگوں'' کو بھی کسی قدر صاف کر لیا جائے جو پچھلی حکومت بچھا کر رخصت ہوئی ہے ۔

دل کڑا کرکے وزیر اعظم جناب شہباز شریف آخر کار 27مئی کی شب گیارہ بجے قوم سے پہلی بار مخاطب ہُوئے ۔ جناب وزیر اعظم نے اس خطاب کے لیے پوری قوم کو بڑا انتظار کروایا۔ وزیر اعظم کے لیے لازم ہے کہ اعلان کردہ وقت کے مطابق قوم سے خطاب فرمائیں۔ خواہ کوئی بھی وزیر اعظم ہو۔

اگر ملک کا منتخب کردہ وزیر اعظم ہی وقت اور سرکاری اعلان کی سختی سے پابندی نہیں کرتا تو پھر باقی قوم سے وقت اور عہد کی پابندی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ لیکن پاکستان کے 22کروڑ عوام رات گئے تک وزیر اعظم شہباز شریف کے پہلے خطاب کے اس لیے بھی منتظر رہے کہ وہ اپنی آسوں اور اُمیدوں کے بر آنے کی آواز سُننا چاہ رہے تھے کہ شاید آٹا ، چینی ، گھی ، ادویات ، پٹرول میں واضح ریلیف مل جائے ۔

وزیر اعظم جناب شہباز شریف اس حال میں پہلی بار قوم کے سامنے پیش ہُوئے ہیں کہ بہ امرِمجبوری پٹرول کی قیمتوں میں30روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا۔ اگر نہ کرتے تو، بقول وزیر اعظم، ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ جناب شہباز شریف نے ملک کے غریب اور پسماندہ ترین گھرانوں کی دستگیری کے لیے 28ارب روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔

یہ شاید پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا امدادی پیکیج ہے جس سے وطنِ عزیز کی ایک تہائی آبادی فائدہ اُٹھا سکے گی۔ لیکن اس امدادی پیکیج سے مستحقین کیسے مستفید ہو سکیں گے ، یہ ابھی واضح نہیں ہو سکا ہے۔ دس کلوآٹے کی قیمت میں جس کمی کا اعلان کیا گیا ہے ، بازار میں اس کی موجودگی کم کم محسوس ہو رہی ہے۔ توقع تھی کہ وزیر اعظم صاحب موٹر سائیکل سواروں کے لیے سستے پٹرول کی فراہمی کا کوئی خاص اعلان کریں گے لیکن یہ توقع پوری نہیں ہو سکی ہے۔ یہ بھی توقع لگائی گئی تھی کہ جناب شہباز شریف کے وزرا ، قوم کے وسیع تر مفاد میں ، اپنی تنخواہ سے پٹرول ، ادویات اور بجلی کے بل ادا کریں گے لیکن یہ عوامی توقع بھی فی الحال پوری نہیں ہو سکی ۔

وزیر اعظم شہباز شریف صاحب تو اپنے خطاب میں روز افزوں مہنگا ہوتا گھی سستا کرنے کا اعلان نہیں کر سکے ، مگر اُن کے فرزندِ ارجمند ، وزیر اعلیٰ پنجاب جناب حمزہ شہباز شریف، نے 28مئی کی شام بہاولپور میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ عنقریب گھی سستا کرنے کی بھی خوشخبری سنائیں گے۔

دیکھتے ہیں یہ موعودہ ''عنقریب'' کب آتا ہے ؟28مئی 2022 کو ''یوم ِ تکبیر'' کی مناسبت سے بہاولپور میں نون لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف کا خطاب بھی خوب تھا ۔ ایک بار پھر محترمہ مریم نواز نے سامعین پر اپنے خطاب کا جادُو جگایا ہے۔ عمران خان کے جلسوں کا جواب محترمہ مریم نواز کا خطاب ہوتا ہے ۔ بہاولپور میں نون لیگ کا یہ جلسہ دراصل جناب بلیغ الرحمن کی بہترین انتظامی صلاحیتوں کا عکاس بھی تھا۔ بلیغ الرحمن صاحب نے مریم نواز اور حمزہ نواز کا یہ جلسہ کامیاب کروا کر اپنے لیے پنجاب کی گورنری پکی کر لی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔