سمندر پار پاکستانی اور ووٹ کا حق
سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق کیوں ہونا چاہیے؟
اسلام آباد پر عمران خان کی یلغار اسی تیزی سے ماضی کاحصہ بن گئی، جس تیزی کے ساتھ انھوں نے دھرنے سے یو ٹرن لیا۔ اس کے بعد گاڑی اسٹیشن چھوڑ گئی یعنی بات آگے بڑھ گئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت اور بہت سے دیگر سیاسی فیصلے اور واقعات۔ سیاست میں یہی تو ہوتا ہے کہ جو گاڑی پر سوار ہو گیا۔
ہو گیا جو وقت کی نزاکت سمجھنے میں ناکام رہا، منزل کھوٹی کر بیٹھا۔ ان دنوں رفتار سیاست اتنی تیز ہے کہ ذرا سی دیر میں کچھ نیا ظہور میں آ جاتا اور کچھ دیرپہلے رونما ہونے والے اہم ترین واقعات بھی وقت کی گرد میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے واقعات میں ای وی ایم مشینوں سے انتخابات نہ کرانے کے فیصلے کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دینے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق کیوں ہونا چاہیے؟
اس سوال کا ایک سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ چوں کہ وہ پاکستانی ہیں، اس لیے ووٹ کا حق بھی رکھتے ہیں۔ بات اتنی ہی سادہ ہوتی تو پھر پریشانی کیا تھی۔ ہر پاکستانی کو ووٹ کا حق حاصل ہے، یہ اصول تو ناقابل تنسیخ ہے لیکن اس میں دو چار نازک مقامات آتے ہیں جنھیں بعض جذباتی مکالموں سے(یعنی ڈائیلاگ، جیسے فلم کے ہوتے ہیں)جواز دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں میں نے دلیل کا لفظ اس لیے استعمال نہیں کیا کہ اس جواز کے حق میں جو باتیں کہی جا رہی ہیں، انھیں جذباتی چیخ و پکار تو کہاجا سکتا ہے ، وہ دلیل کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
مثلا ایک دلیل یہ ہے کہ وہ زر مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں ۔ پاکستان ان کے پیسے پر چل رہا ہے۔ اس قسم کے جملوں نے ہمارے سیاسی منظر نامے میں ہی گمراہی پیدا نہیں کی بلکہ خود سمندر پار پاکستانیوں میں کچھ اس قسم کے خیالات پیدا ہوئے کہ جیسے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہوں اور پاکستان میں رہنے والے صدیوں کی تاریکی میں سانس لینے والے جاہل اور اجڈ۔یہ باتیں محض کسی قیاس یا بدگمانی کی بنیاد پر نہیں ہیں بلکہ کانوں سنی اور آنکھوں دیکھی ہیں۔
آصف ریاض قدیر لاہور کے ممتاز معالج خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ اس خاندان کے تعلقات اور رشتے داریاں نہایت ممتاز اور اہم گھرانوں کے ساتھ ہیں جیسے مولانا مودودی کا خاندان۔ آصف ریاض قدیر بھی معالج ہیں اور چالیس پچاس برس قبل ترک وطن کر کے امریکا جا چکے ہیں۔
اب وہ وہاں کے پرجوش شہری ہیں۔ پرجوش میں نے اس لیے کہا کہ فیس بک پر اپنی ڈی پی کے لیے انھوں نے جو تصویر بنوائی، اس میں اہتمام کیا گیا کہ ان کا چہرہ امریکی قومی پرچم میں لپٹا ہوا دکھائی دے۔ امریکا کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک میں انھیں بڑی اہمیت حاصل ہے، ممکن ہے کہ عہدے دار بھی ہوں۔ وہ پاکستانی ڈاکٹروں کی امریکی تنظیم کے سربراہ بھی رہے ہیں اور پاکستانی کمیونٹی کی قیادت بھی کبھی عہدے کے ساتھ اور کبھی محض اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی، وہ پاکستان تشریف لائے۔ ان کی پاکستان تشریف آوری ایک خاص مقصد سے تھی۔ عمران دور کے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ مسلسل ربط ضبط رکھا کرتے تھے۔
اپنے استعفے سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو مدعو کر کے انھیں اعزازات سے نوازا۔ اعزاز پانے والی ان شخصیات میں آصف ریاض قدیر بھی شامل تھے۔ امریکا واپسی سے قبل وہ اسلام آباد بھی تشریف لائے جہاں ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ان کے اعزاز میں ایک پر تکلف استقبالیے کا اہتمام کیا۔ یہ ایک خالص ادبی تقریب تھی جسے آصف ریاض قدیر صاحب نے سیاسی بنا دیا۔ یہ وہی دن تھے جب چند روز قبل عمران حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا مطالبہ تسلیم کیا تھا۔
آصف ریاض قدیر نے اس موقعے پر اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے اپنی طویل جدوجہد کے بعد ووٹ کا حق حاصل کر لیا ہے۔ اب ہماری اگلی منزل پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد کے اعتبار سے نشستوں کا تعین ہے۔ انھوں نے اس موقعے پر یہ تعداد بھی بتائی اور یہ ذکر بھی کیا کہ ان کی نشستیں کتنی ہو سکتی ہیں۔ سننے والوں نے یہ باتیں بڑی حیرت کے ساتھ سنیں۔
یہ دو باتیں بھی اگرچہ حیران کر دینے کے لیے کافی تھیں لیکن انھوں نے تو اس روز حیرت کے پہاڑ گرانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ فرمایا کہ اپنی تعداد اور اس بنیاد پر پارلیمنٹ میں نشستوں کے تعین کے بعد ہماری اگلی منزل حکومت میں اپنے کوٹے کا بھی تعین ہے۔
وہ ایسا کیوں چاہتے تھے؟ اس سوال کا جواب بھی انھوں نے دیا۔ ان کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ بیرون ملک پاکستانی اہلیت رکھتے ہیں اور وہ ملک کو پاکستان میں موجود سیاست دانوں سے بہتر چلا سکتے ہیں۔ ان کی دلیل کا دوسرا نکتہ زیادہ دلچسپ تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے بیرون ملک رہ کر بہت دولت کما لی ہے ۔اب ہمیں دولت کی کوئی خواہش ہے اور نہ ہوس لہٰذا ملک کی قیادت اگر ہمارے ہاتھوں میں ہوگی تو پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ مکمل طور پر ہو جائے گا۔
یہ خواہش اور دعوے بڑے دلچسپ اور پر کشش ہیں لیکن اگر جذبات کے وفور سے نکل کر ان کا تجزیہ کیا جائے تو بڑی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ یہ حقیقت تو بالکل واضح ہے کہ جب کوئی طبقہ جیسے بیرون ملک پاکستانی ہیں، اقتدار کے کھیل میں شامل ہوتا ہے تو مناصب طاقت ور لوگوں ہی کے حصے میں آتے ہیں جیسے چوہدری سرور جیسے طاقت اور امیر شخص کو گورنر کا منصب ملا۔ یہ کوئی راز نہیں کہ گورنر سرور برطانوی پارلیمنٹ کا حصہ رہے ہیں۔
ان ہی کی طرح آصف ریاض قدیر بھی ایک طاقت ور شخصیت ہیں۔ اس طرح کے لوگ محض دو ایک نہیں، ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جنھوں نے امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کی شہریت اختیار کی پھر سیاسی جماعتوں کاحصہ بن کر وہاں کے سیاسی عمل میں شریک ہوئے۔ کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرنے اور اس ملک کے اقتدار کی کشمکش میں شریک ہونے والا شخص کیسے کسی دوسرے ملک میں بھی اسی قسم کی سہولت کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھارت کی مثال سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ وہی بھارت جس کی اچھی پالیسیوں کی تعریف ان دنوں عمران خان بہت کیا کرتے ہیں۔
بیرون بھارت بھارتیوں کی تعداد بیرون ملک پاکستانیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بھارتی بھی پاکستانیوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بہت پہلے سے مختلف ملکوں کی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں ۔ چند برس قبل تو ایک بھارتی کسی چھوٹے سے ملک کا وزیر اعظم بھی منتخب ہو گیا تھا جسے بعد میں ہٹا دیا گیا۔ سیاست میں حصہ لینے کی طرح یہ بھارتی بیرون ملک پاکستانیوں سے کہیں زیادہ زرمبادلہ بھی بھارت بھیجتے ہیں لیکن کیا بھارت میں کوئی ایسی تحریک پائی جاتی ہے جیسے پاکستان میں پاکستانی شہریت کے باوجودکسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرنے والوں کے لیے چلائی جا رہی ہے؟ بالکل نہیں۔ اس کی ایک وجہ ہے۔
علم شہریات(سوکس) کے بنیادی اسباق میں سے ایک سبق یہ ہے کہ کوئی بھی شخص صرف ایک ہی ملک کی شہریت اختیار کر سکتا ہے، ایک سے زاید ملکوں کی نہیں۔ سبب یہ ہے کہ شہریت ایک حساس معاملہ ہے۔ اس کا تعلق قومی سلامتی سے وابستہ ہے۔ یہاں تو شہریت آگے بڑھ کر ووٹ ہی نہیں حکومت میں حصے کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اگر یہ کوئی سازش نہیں ہے تو بھی یہ معاملہ براہ راست قومی سلامتی سے متعلق ہے۔
اس پس منظر میں بیرون ملک پاکستانیوں، خاص طور پر دہری شہریت رکھنے والوں سے متعلق ووٹ کے خاتمے کا فیصلہ دور رس اثرات کا حامل ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی پاکستانی جس نے غیر ملکی شہریت حاصل نہیں کی، وہ پاکستان آکر ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دور بیٹھ کر سنی سنائی باتوں سے متاثر نہ ہو بلکہ براہ راست حالات کا جائزہ لے کر اپنے ووٹ کے حقدار کا فیصلہ کرے۔
ہو گیا جو وقت کی نزاکت سمجھنے میں ناکام رہا، منزل کھوٹی کر بیٹھا۔ ان دنوں رفتار سیاست اتنی تیز ہے کہ ذرا سی دیر میں کچھ نیا ظہور میں آ جاتا اور کچھ دیرپہلے رونما ہونے والے اہم ترین واقعات بھی وقت کی گرد میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے واقعات میں ای وی ایم مشینوں سے انتخابات نہ کرانے کے فیصلے کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دینے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق کیوں ہونا چاہیے؟
اس سوال کا ایک سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ چوں کہ وہ پاکستانی ہیں، اس لیے ووٹ کا حق بھی رکھتے ہیں۔ بات اتنی ہی سادہ ہوتی تو پھر پریشانی کیا تھی۔ ہر پاکستانی کو ووٹ کا حق حاصل ہے، یہ اصول تو ناقابل تنسیخ ہے لیکن اس میں دو چار نازک مقامات آتے ہیں جنھیں بعض جذباتی مکالموں سے(یعنی ڈائیلاگ، جیسے فلم کے ہوتے ہیں)جواز دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں میں نے دلیل کا لفظ اس لیے استعمال نہیں کیا کہ اس جواز کے حق میں جو باتیں کہی جا رہی ہیں، انھیں جذباتی چیخ و پکار تو کہاجا سکتا ہے ، وہ دلیل کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
مثلا ایک دلیل یہ ہے کہ وہ زر مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں ۔ پاکستان ان کے پیسے پر چل رہا ہے۔ اس قسم کے جملوں نے ہمارے سیاسی منظر نامے میں ہی گمراہی پیدا نہیں کی بلکہ خود سمندر پار پاکستانیوں میں کچھ اس قسم کے خیالات پیدا ہوئے کہ جیسے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہوں اور پاکستان میں رہنے والے صدیوں کی تاریکی میں سانس لینے والے جاہل اور اجڈ۔یہ باتیں محض کسی قیاس یا بدگمانی کی بنیاد پر نہیں ہیں بلکہ کانوں سنی اور آنکھوں دیکھی ہیں۔
آصف ریاض قدیر لاہور کے ممتاز معالج خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ اس خاندان کے تعلقات اور رشتے داریاں نہایت ممتاز اور اہم گھرانوں کے ساتھ ہیں جیسے مولانا مودودی کا خاندان۔ آصف ریاض قدیر بھی معالج ہیں اور چالیس پچاس برس قبل ترک وطن کر کے امریکا جا چکے ہیں۔
اب وہ وہاں کے پرجوش شہری ہیں۔ پرجوش میں نے اس لیے کہا کہ فیس بک پر اپنی ڈی پی کے لیے انھوں نے جو تصویر بنوائی، اس میں اہتمام کیا گیا کہ ان کا چہرہ امریکی قومی پرچم میں لپٹا ہوا دکھائی دے۔ امریکا کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک میں انھیں بڑی اہمیت حاصل ہے، ممکن ہے کہ عہدے دار بھی ہوں۔ وہ پاکستانی ڈاکٹروں کی امریکی تنظیم کے سربراہ بھی رہے ہیں اور پاکستانی کمیونٹی کی قیادت بھی کبھی عہدے کے ساتھ اور کبھی محض اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی، وہ پاکستان تشریف لائے۔ ان کی پاکستان تشریف آوری ایک خاص مقصد سے تھی۔ عمران دور کے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ مسلسل ربط ضبط رکھا کرتے تھے۔
اپنے استعفے سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو مدعو کر کے انھیں اعزازات سے نوازا۔ اعزاز پانے والی ان شخصیات میں آصف ریاض قدیر بھی شامل تھے۔ امریکا واپسی سے قبل وہ اسلام آباد بھی تشریف لائے جہاں ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ان کے اعزاز میں ایک پر تکلف استقبالیے کا اہتمام کیا۔ یہ ایک خالص ادبی تقریب تھی جسے آصف ریاض قدیر صاحب نے سیاسی بنا دیا۔ یہ وہی دن تھے جب چند روز قبل عمران حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا مطالبہ تسلیم کیا تھا۔
آصف ریاض قدیر نے اس موقعے پر اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے اپنی طویل جدوجہد کے بعد ووٹ کا حق حاصل کر لیا ہے۔ اب ہماری اگلی منزل پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد کے اعتبار سے نشستوں کا تعین ہے۔ انھوں نے اس موقعے پر یہ تعداد بھی بتائی اور یہ ذکر بھی کیا کہ ان کی نشستیں کتنی ہو سکتی ہیں۔ سننے والوں نے یہ باتیں بڑی حیرت کے ساتھ سنیں۔
یہ دو باتیں بھی اگرچہ حیران کر دینے کے لیے کافی تھیں لیکن انھوں نے تو اس روز حیرت کے پہاڑ گرانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ فرمایا کہ اپنی تعداد اور اس بنیاد پر پارلیمنٹ میں نشستوں کے تعین کے بعد ہماری اگلی منزل حکومت میں اپنے کوٹے کا بھی تعین ہے۔
وہ ایسا کیوں چاہتے تھے؟ اس سوال کا جواب بھی انھوں نے دیا۔ ان کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ بیرون ملک پاکستانی اہلیت رکھتے ہیں اور وہ ملک کو پاکستان میں موجود سیاست دانوں سے بہتر چلا سکتے ہیں۔ ان کی دلیل کا دوسرا نکتہ زیادہ دلچسپ تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے بیرون ملک رہ کر بہت دولت کما لی ہے ۔اب ہمیں دولت کی کوئی خواہش ہے اور نہ ہوس لہٰذا ملک کی قیادت اگر ہمارے ہاتھوں میں ہوگی تو پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ مکمل طور پر ہو جائے گا۔
یہ خواہش اور دعوے بڑے دلچسپ اور پر کشش ہیں لیکن اگر جذبات کے وفور سے نکل کر ان کا تجزیہ کیا جائے تو بڑی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ یہ حقیقت تو بالکل واضح ہے کہ جب کوئی طبقہ جیسے بیرون ملک پاکستانی ہیں، اقتدار کے کھیل میں شامل ہوتا ہے تو مناصب طاقت ور لوگوں ہی کے حصے میں آتے ہیں جیسے چوہدری سرور جیسے طاقت اور امیر شخص کو گورنر کا منصب ملا۔ یہ کوئی راز نہیں کہ گورنر سرور برطانوی پارلیمنٹ کا حصہ رہے ہیں۔
ان ہی کی طرح آصف ریاض قدیر بھی ایک طاقت ور شخصیت ہیں۔ اس طرح کے لوگ محض دو ایک نہیں، ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جنھوں نے امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کی شہریت اختیار کی پھر سیاسی جماعتوں کاحصہ بن کر وہاں کے سیاسی عمل میں شریک ہوئے۔ کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرنے اور اس ملک کے اقتدار کی کشمکش میں شریک ہونے والا شخص کیسے کسی دوسرے ملک میں بھی اسی قسم کی سہولت کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھارت کی مثال سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ وہی بھارت جس کی اچھی پالیسیوں کی تعریف ان دنوں عمران خان بہت کیا کرتے ہیں۔
بیرون بھارت بھارتیوں کی تعداد بیرون ملک پاکستانیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بھارتی بھی پاکستانیوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بہت پہلے سے مختلف ملکوں کی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں ۔ چند برس قبل تو ایک بھارتی کسی چھوٹے سے ملک کا وزیر اعظم بھی منتخب ہو گیا تھا جسے بعد میں ہٹا دیا گیا۔ سیاست میں حصہ لینے کی طرح یہ بھارتی بیرون ملک پاکستانیوں سے کہیں زیادہ زرمبادلہ بھی بھارت بھیجتے ہیں لیکن کیا بھارت میں کوئی ایسی تحریک پائی جاتی ہے جیسے پاکستان میں پاکستانی شہریت کے باوجودکسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرنے والوں کے لیے چلائی جا رہی ہے؟ بالکل نہیں۔ اس کی ایک وجہ ہے۔
علم شہریات(سوکس) کے بنیادی اسباق میں سے ایک سبق یہ ہے کہ کوئی بھی شخص صرف ایک ہی ملک کی شہریت اختیار کر سکتا ہے، ایک سے زاید ملکوں کی نہیں۔ سبب یہ ہے کہ شہریت ایک حساس معاملہ ہے۔ اس کا تعلق قومی سلامتی سے وابستہ ہے۔ یہاں تو شہریت آگے بڑھ کر ووٹ ہی نہیں حکومت میں حصے کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اگر یہ کوئی سازش نہیں ہے تو بھی یہ معاملہ براہ راست قومی سلامتی سے متعلق ہے۔
اس پس منظر میں بیرون ملک پاکستانیوں، خاص طور پر دہری شہریت رکھنے والوں سے متعلق ووٹ کے خاتمے کا فیصلہ دور رس اثرات کا حامل ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی پاکستانی جس نے غیر ملکی شہریت حاصل نہیں کی، وہ پاکستان آکر ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دور بیٹھ کر سنی سنائی باتوں سے متاثر نہ ہو بلکہ براہ راست حالات کا جائزہ لے کر اپنے ووٹ کے حقدار کا فیصلہ کرے۔