قانون کی حکمرانی انصاف کی بروقت فراہمی کیلئے اصلاحات ناگزیر
ماہرین اورنمائندہ سول سوسائٹی کا’’قانون کی حکمرانی اورہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
قانون کی حکمرانی اور ہماری ذمہ داریاں کے موضوع پر''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین قانون اور نمائندہ سول سوسائٹی نے سیر حاصل گفتگو کی جو نذر قارئین ہے۔
سید اسد مظفر
(ایڈیشنل آئی جی( جینڈر) پنجاب پولیس)
پولیس لوگوں کے انسانی حقوق کی محافظ ہے جو اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔ پولیس اور تفتیش کے میکنزم پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہم پولیس کو کیا دے رہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا معاشرہ یا افراد نے پولیس کے حقو ق کیلئے آواز اٹھائی؟ ارباب اختیار نے اس کے لیے کیا کام کیا اور کتنا کیا؟ پولیس کے حوالے سے کتنے کمیشن بنائے گئے؟ کیا یہ جائزہ لیا گیا کہ پولیس کے لیے جو فنڈز رکھے گئے ان کا موثر استعمال ہورہا ہے یا نہیں؟
کیا جو وسائل دیے جارہے ہیں وہ پریکٹیکل اور کافی ہیں؟ کیا انوسٹی گیشن کیلئے جو سہولیات دی گئی ہیں وہ مناسب ہیں؟ ہمیں سکاٹ لینڈ یارڈ و دیگر جدید فورسز کی مثالیں دی جاتی ہیں، ان کے وسائل اور ہمارے وسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وسائل کی کمی مسائل کے بڑھنے یا خراب کارکردگی کی دلیل نہیں ہے، ہماری پولیس کم وسائل کے باوجود بہتر پرفارم کر رہی ہے۔
البتہ جو مسائل، وسائل سے منسلک ہیں ان کے حل کیلئے کام کرنا ہوگا۔محکمہ پولیس کو سیاست سے پاک کیے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ادارے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ہمیں ادراک ہے اور وہ تمام ریفارمز کی جا رہی ہیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے۔ پولیس رولز 1934، سول سرونٹس کارکردگی اور نظم و ضبط رولز 1975ء، رولز 1999ء، پولیس آرڈر 2002ء، قوانین موجود ہیں جو پولیس کے حوالے سے ہیں۔ ان قوانین کے تحت محکمہ پولیس کو چلایا جا رہا ہے اور اس میں بہتری لائی جا رہی ہے۔
پولیس میں دو درجے کی بھرتیاں ہیں، ایک وہ جو سپاہی سے ایس پی تک ہیں، جو ہر سال کارکردی اور تربیت کے بعد ترقی پاتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو براہ راست آتے ہیں۔ ہم نے پولیس میں 'آئوٹ آف ٹرن پروموشن' کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
بھرتیوں اور تربیت کو بھی شفاف اور بہترین بنایا گیا ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔1993ء اور 95ء میں بھرتی ہونے والے کانسٹیبل وقت کے ساتھ ترقی پاتے گئے اور اب ایس پی بن گئے ہیں مگر انہیں آزاد 'ڈی پی او' نہیں لگایا جا رہا، جبکہ براہ راست آنے والوں کو لگا دیا جاتا ہے، ایسا کیوں؟ انہیںڈی پی او لگانے سے بہتری آسکتی ہے کیونکہ وہ اس سسٹم کو سمجھتے ہیں اور پروموٹ ہوکر آئے ہیں، اگر وہ درست نتائج نہ دے سکیں تو یہ ہمارے لیے لرننگ ہوگی اور اس سے بہتری لانے میں مدد ملے گی۔
انفرادی طور پر ہر اہلکار اور افسر، بہتر کام کرنے اور لوگوںکیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر کام کرتا ہے تاہم سسٹم کے جو مسائل ہیں وہ دیرینہ ہیں، جب تک اشرافیہ کا گٹھ جوڑ نہیں ٹوٹے گا تب تک مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہم نے انسپکٹر جنرل کی سطح پر استغاثہ کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے بعد تفتیش اور استغاثہ کے مابین مسائل میں کمی اور کام میں بہتری آئی ہے۔
ہم پولیس کی تربیت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، لوئر، انٹر، اپر، ایڈوانس، جونیئرکمانڈ ، سی پی او لیول سمیت مختلف سطح پر تربیتی کورسز کرائے جاتے ہیں، ہم نے اس کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے، ابھی اس میں مزید بہتری لائی جا رہی ہے، ہم نے پروموشن کو ٹریننگ کے ساتھ مشروط کردیاہے۔ ہم خواتین پر تشدد، ہراسگی، سمگلنگ جیسے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ ہم نے 500 سے زائد پولیس اہلکاروں کو ان پر تربیت دی۔ لاہور میں چھ ڈویژن ہیں، ہر ڈویژن کی ایک خاتون انچارج ہے، ہم جینڈر کے حوالے سے بھی خصوصی کام کررہے ہیں اور خواتین کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔
احتشام قادر
(سابق پراسیکیوٹر جنرل پنجاب و سابق جج لاہور ہائی کورٹ)
ملک میں کریمینل پروسیجر کوڈ و دیگر قوانین آج بھی برطانیہ دور کے چل رہے ہیں۔برطانیہ نے یہاں حکومت کرنی تھی، وسائل پر قبضہ کرنا تھا لہٰذا اس نے ایسے قوانین بنائے جو اس کے مفاد میں تھے جبکہ اس کے اپنے ملک میں قوانین یکسر مختلف ہیں۔
افسوس ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم کوئی خاطر خواہ اصلاحات نہیں لائے۔ 1972ء کے بعد سے اب تک اس حوالے سے کوئی بڑی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی۔ دنیا نے تفتیش اور استغاثہ کو الگ کر دیا مگر ہمارے ہاں معاملہ عجیب ہے۔ ہم نے تفتیش اور استغاثہ کو الگ تو کیا مگر صرف صوبائی سطح پر۔ بلوچستان میں 2004ء، سندھ میں 2005ء، پنجاب میں 2006ء میں اس حوالے سے کام ہوا جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی اس پر تقریباََ کام ہوچکا ہے۔
میرے نزدیک اس میں بڑی غلطی یہ ہے کہ صوبائی کے بجائے یہ کام وفاقی سطح پر ہونا چاہیے تھا اور اسے کریمینل پروسیجر کوڈ کا حصہ بنانا ضروری تھا۔ پاکستان میں استغاثہ کو تفتیش سے الگ تو کر دیا گیا ہے مگر ساتھ ہی استغاثہ کے ہاتھ باندھ دیے۔پنجاب پبلک پراسیکیوشن ایکٹ کی شق 95 اور 97 کے مطابق پراسیکیوٹر کا کام تفتیشی ثبوت کا جائزہ لے کر ایک مقررہ مدت میں عدالت کو رپورٹ دینا ہے۔ اس طرح استغاثہ کا کام صرف ایک ڈاکیے کا رہ گیا ہے۔
انٹرنیشنل کریمینل لاء دیکھیں تو ا س میں پراسیکیوشن بہت مضبوط ہے، استغاثہ ثبوت اور حقائق کی بنیاد پر چاہے تو کیس ختم کر سکتا ہے مگر ہمارے ہاں صوبائی سطح پر جو قانون سازی کی گئی اس میں بھی استغاثہ کو مضبوط اور بااختیار نہیں بنایا گیا۔ میرے تجربے کی روشنی میں پراسکیوشن کو اختیارات نہ پہلے دیے گئے نہ اب دیے جائیں گے،ا س کی بڑی وجہ اداروں کا آپس میں ٹکرائو ہے۔
ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں آپس کے روابط کا فقدان ہے، جب انوسٹی گیشن اور پراسکیوشن کے درمیان ہی خلاء ہوگا تو مسائل کیسے حل ہونگے۔ لوگوں کو مفت قانونی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے نظر دوڑائیںتو پہلے 1974ء کا ایکٹ چل رہا تھا، 99ء میں بار کونسل نے لیگل سیل اور کمیٹیاں بنائی مگر اس طرح کام نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے تھا، جب میں پراسیکیوٹر جنرل تھا تو ہم محنت کرکے پنجاب لیگل ایڈ ایکٹ 2018ء بنایا۔
اس کے رولز بن گئے، بجٹ مختص ہوا، ڈی جی کی منظوری ہوگئی، عمارت اور فرنیچر بھی لے لیا گیا مگر محکمہ قانون نے اس پر اعتراض لگا دیا کہ اس میں کمیشن کی بات کی گئی ہے اس کے بعد یہ قانون سیاست اور عدم توجہ کی نذر ہوگیا جو افسوسناک ہے۔ وفاقی سطح پر 2020ء میں لیگل ایڈ کے حوالے سے ایکٹ بنانے پر اس وقت کی حکومت نے کام کیا، اس میں وزارت انسانی حقوق سمیت دیگر وزارتیں بھی شامل ہیں۔ اس میں اتھارٹی کی بات کی گئی ہے۔ ہم نے کمیشن کی بات کی تھی تو اس پر مسئلہ کیوں؟بدقسمتی سے غریب آدمی انصاف کیلئے دھکے کھا رہا ہے مگر اسے کہیں سے کوئی مدد نہیں مل رہی، عام آدمی کیلئے پنجاب لیگل ایڈ ایکٹ 2018ء کو آگے بڑھانا ہوگا۔
افتخاراحمد راؤ
(سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب)
ہماری پولیس ایک پرانے نظام اور قانون کے تحت چل رہی ہے۔ابھی تک برطانیہ دور حکومت کے قوانین رائج ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر وہ قانون اور نظام اتنا ہی اچھا تھا تو برطانیہ نے اپنے ہاں رائج کیوں نہیں کیا؟ چونکہ برطانیہ نے یہاں حکومت کرنی تھی لہٰذا اسنے اشرافیہ کی پولیس بنا دی جس نے پورے معاشرے کو قبضے میں کر لیا۔ اسی نظام اور سوچ کی وجہ سے ہمارے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں۔
پولیس حکومت کا چہرہ ہوتی ہے جسے لوگوں کا براہ راست سامنا کرنا ہوتا ہے لہٰذا اس کی سوچ اور رویہ عوام دوست ہونا چاہیے۔ ایلیٹ کلاس کو پولیس اور نظام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو غریب کو ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے قوانین موجود ہیںمگر عام آدمی کو معلو م ہی نہیں کہ اس کیلئے کون سے قوانین ہیں۔ میرے نزدیک قوانین زیادہ نہیں بلکہ جامع اور یکجا ہونے چاہئیں تاکہ عام آدمی کو ان کے بارے میں درست علم ہوسکے ۔
قوانین کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی بھی دینی چاہیے۔ جہاں طاقت ہواور احتساب کا درست نظام نہ ہو وہاں طاقت کا غلط استعمال ہوتا ہے، ہمیں احتساب کے نظام کو مضبوط اور موثر بنانا ہوگا۔پولیس کے نظام کی بہتری کیلئے اصلاحات ضروری ہیں۔ میرے نزدیک فوج کی طرح پولیس میں بھی دو ٹیئر سسٹم ہونا چاہیے، اس سے بہتری آئے گی۔ محکمہ پولیس کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے میری چند تجاویز ہیں: پولیس میں بھرتیاں صاف و شفاف اور میرٹ پر ہونی چاہئیں۔ بھرتی کے بعد تربیت کا واضح اور موثر نظام ہونا چاہیے، ترقی کو ٹریننگ اور پرفارمنس سے مشروط کرنا چاہئے۔
پولیس میں اختیارات کے ساتھ ساتھ احتساب کا نظام قائم کرنا چاہئے۔ سپروائزری آفیسر کا کردار بہتر بنایا جائے،محکمہ پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا چاہیے اور اس کے ذریعے چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ہم پولیس ریفارمز کیلئے جاپانی ماڈل لانا چاہتے تھے، وہاں پراستغاثہ بھی مضبوط ہے مگر ہمارے ہاں رکاوٹیں آتی ہیں۔ ہمیں دنیا کے بہترین ماڈلز میں سے اچھے نکات اپنے نظام میںشامل کرنے چاہئیں۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
نظام قانون اور انصاف پر عدم اعتماد کی وجہ سے لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں، قتل و غارت و دیگر جرائم میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ پولیس کے بجائے پنچائیت و دیگر متبادل طریقوں سے معاملات حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارا المیہ ہے کہ جو بھی حکومت پولیس ریفارمز کی کوشش کرتی ہے وہ کچھ عرصے بعد اس سے پیچھے ہٹ جاتی ہے لہٰذا اس وقت اہم یہ ہے کہ لوگوں کا انصاف کے اداروں پر اعتماد بحال کرنے کیلئے عملی اقدامات کے جائیں۔حکومت کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں، حکومت اکیلے تمام مسائل حل نہیں کر سکتی ، اس میںسول سوسائٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کا کردار اہم ہوتا ہے۔ بطور سول سوسائٹی ہم اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
ہم نے ضلعی سطح پرپولیس افسران کو مختلف عوامی آگہی پروگرامز میں مدعو کیا ، ہم نے عوام کو آگاہی دینے، پولیس کا امیج بہتر کرنے ، لوگوں اور پولیس کے درمیان گیپ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے لوگوں کو آگاہی دی کہ ایف آئی آر کے اندراج کا مسئلہ ہو یا محکمہ پولیس سے متعلق کوئی شکایت، آئی جی کی ہیلپ لائن 1787 پر شکایت کی جا سکتی ہے۔
ہم نے لوگوں کو وویمن سیفٹی ایپ کے بارے میں بھی آگاہی دی۔ اس کے ساتھ ساتھ وویمن پروٹیکش ہیلپ لائن 1043 سمیت خواتین کے تحفظ کیلئے اٹھائے جانے والے دیگر اہم اقدامات کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔ ہم نے مختلف دیہاتوں میں لوگوں کی قانونی معاونت و رہنمائی کیلئے مفت لیگل کیمپ لگائے، وکلاء نے اس میں ہمارے ساتھ تعاون کیا، اس میںتجربہ کار وکلاء لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتے تھے۔ ہمارے ہاں قانون ایک ہی ہے مگر عملدرآمد کے وقت امیر اور غریب کی تفریق آجاتی ہے اور قانون کی زد میں صرف غریب ہی آتا ہے جو افسوسناک ہے۔ ملک کے مسائل سنگین ہیں، حکومت کے پاس وسائل محدود ہیں لہٰذا سب کو مل کر من حیث القوم کام کرنا ہوگا۔
سید اسد مظفر
(ایڈیشنل آئی جی( جینڈر) پنجاب پولیس)
پولیس لوگوں کے انسانی حقوق کی محافظ ہے جو اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔ پولیس اور تفتیش کے میکنزم پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہم پولیس کو کیا دے رہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا معاشرہ یا افراد نے پولیس کے حقو ق کیلئے آواز اٹھائی؟ ارباب اختیار نے اس کے لیے کیا کام کیا اور کتنا کیا؟ پولیس کے حوالے سے کتنے کمیشن بنائے گئے؟ کیا یہ جائزہ لیا گیا کہ پولیس کے لیے جو فنڈز رکھے گئے ان کا موثر استعمال ہورہا ہے یا نہیں؟
کیا جو وسائل دیے جارہے ہیں وہ پریکٹیکل اور کافی ہیں؟ کیا انوسٹی گیشن کیلئے جو سہولیات دی گئی ہیں وہ مناسب ہیں؟ ہمیں سکاٹ لینڈ یارڈ و دیگر جدید فورسز کی مثالیں دی جاتی ہیں، ان کے وسائل اور ہمارے وسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وسائل کی کمی مسائل کے بڑھنے یا خراب کارکردگی کی دلیل نہیں ہے، ہماری پولیس کم وسائل کے باوجود بہتر پرفارم کر رہی ہے۔
البتہ جو مسائل، وسائل سے منسلک ہیں ان کے حل کیلئے کام کرنا ہوگا۔محکمہ پولیس کو سیاست سے پاک کیے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ادارے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ہمیں ادراک ہے اور وہ تمام ریفارمز کی جا رہی ہیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے۔ پولیس رولز 1934، سول سرونٹس کارکردگی اور نظم و ضبط رولز 1975ء، رولز 1999ء، پولیس آرڈر 2002ء، قوانین موجود ہیں جو پولیس کے حوالے سے ہیں۔ ان قوانین کے تحت محکمہ پولیس کو چلایا جا رہا ہے اور اس میں بہتری لائی جا رہی ہے۔
پولیس میں دو درجے کی بھرتیاں ہیں، ایک وہ جو سپاہی سے ایس پی تک ہیں، جو ہر سال کارکردی اور تربیت کے بعد ترقی پاتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو براہ راست آتے ہیں۔ ہم نے پولیس میں 'آئوٹ آف ٹرن پروموشن' کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
بھرتیوں اور تربیت کو بھی شفاف اور بہترین بنایا گیا ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔1993ء اور 95ء میں بھرتی ہونے والے کانسٹیبل وقت کے ساتھ ترقی پاتے گئے اور اب ایس پی بن گئے ہیں مگر انہیں آزاد 'ڈی پی او' نہیں لگایا جا رہا، جبکہ براہ راست آنے والوں کو لگا دیا جاتا ہے، ایسا کیوں؟ انہیںڈی پی او لگانے سے بہتری آسکتی ہے کیونکہ وہ اس سسٹم کو سمجھتے ہیں اور پروموٹ ہوکر آئے ہیں، اگر وہ درست نتائج نہ دے سکیں تو یہ ہمارے لیے لرننگ ہوگی اور اس سے بہتری لانے میں مدد ملے گی۔
انفرادی طور پر ہر اہلکار اور افسر، بہتر کام کرنے اور لوگوںکیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر کام کرتا ہے تاہم سسٹم کے جو مسائل ہیں وہ دیرینہ ہیں، جب تک اشرافیہ کا گٹھ جوڑ نہیں ٹوٹے گا تب تک مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہم نے انسپکٹر جنرل کی سطح پر استغاثہ کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے بعد تفتیش اور استغاثہ کے مابین مسائل میں کمی اور کام میں بہتری آئی ہے۔
ہم پولیس کی تربیت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، لوئر، انٹر، اپر، ایڈوانس، جونیئرکمانڈ ، سی پی او لیول سمیت مختلف سطح پر تربیتی کورسز کرائے جاتے ہیں، ہم نے اس کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے، ابھی اس میں مزید بہتری لائی جا رہی ہے، ہم نے پروموشن کو ٹریننگ کے ساتھ مشروط کردیاہے۔ ہم خواتین پر تشدد، ہراسگی، سمگلنگ جیسے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ ہم نے 500 سے زائد پولیس اہلکاروں کو ان پر تربیت دی۔ لاہور میں چھ ڈویژن ہیں، ہر ڈویژن کی ایک خاتون انچارج ہے، ہم جینڈر کے حوالے سے بھی خصوصی کام کررہے ہیں اور خواتین کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔
احتشام قادر
(سابق پراسیکیوٹر جنرل پنجاب و سابق جج لاہور ہائی کورٹ)
ملک میں کریمینل پروسیجر کوڈ و دیگر قوانین آج بھی برطانیہ دور کے چل رہے ہیں۔برطانیہ نے یہاں حکومت کرنی تھی، وسائل پر قبضہ کرنا تھا لہٰذا اس نے ایسے قوانین بنائے جو اس کے مفاد میں تھے جبکہ اس کے اپنے ملک میں قوانین یکسر مختلف ہیں۔
افسوس ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم کوئی خاطر خواہ اصلاحات نہیں لائے۔ 1972ء کے بعد سے اب تک اس حوالے سے کوئی بڑی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی۔ دنیا نے تفتیش اور استغاثہ کو الگ کر دیا مگر ہمارے ہاں معاملہ عجیب ہے۔ ہم نے تفتیش اور استغاثہ کو الگ تو کیا مگر صرف صوبائی سطح پر۔ بلوچستان میں 2004ء، سندھ میں 2005ء، پنجاب میں 2006ء میں اس حوالے سے کام ہوا جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی اس پر تقریباََ کام ہوچکا ہے۔
میرے نزدیک اس میں بڑی غلطی یہ ہے کہ صوبائی کے بجائے یہ کام وفاقی سطح پر ہونا چاہیے تھا اور اسے کریمینل پروسیجر کوڈ کا حصہ بنانا ضروری تھا۔ پاکستان میں استغاثہ کو تفتیش سے الگ تو کر دیا گیا ہے مگر ساتھ ہی استغاثہ کے ہاتھ باندھ دیے۔پنجاب پبلک پراسیکیوشن ایکٹ کی شق 95 اور 97 کے مطابق پراسیکیوٹر کا کام تفتیشی ثبوت کا جائزہ لے کر ایک مقررہ مدت میں عدالت کو رپورٹ دینا ہے۔ اس طرح استغاثہ کا کام صرف ایک ڈاکیے کا رہ گیا ہے۔
انٹرنیشنل کریمینل لاء دیکھیں تو ا س میں پراسیکیوشن بہت مضبوط ہے، استغاثہ ثبوت اور حقائق کی بنیاد پر چاہے تو کیس ختم کر سکتا ہے مگر ہمارے ہاں صوبائی سطح پر جو قانون سازی کی گئی اس میں بھی استغاثہ کو مضبوط اور بااختیار نہیں بنایا گیا۔ میرے تجربے کی روشنی میں پراسکیوشن کو اختیارات نہ پہلے دیے گئے نہ اب دیے جائیں گے،ا س کی بڑی وجہ اداروں کا آپس میں ٹکرائو ہے۔
ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں آپس کے روابط کا فقدان ہے، جب انوسٹی گیشن اور پراسکیوشن کے درمیان ہی خلاء ہوگا تو مسائل کیسے حل ہونگے۔ لوگوں کو مفت قانونی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے نظر دوڑائیںتو پہلے 1974ء کا ایکٹ چل رہا تھا، 99ء میں بار کونسل نے لیگل سیل اور کمیٹیاں بنائی مگر اس طرح کام نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے تھا، جب میں پراسیکیوٹر جنرل تھا تو ہم محنت کرکے پنجاب لیگل ایڈ ایکٹ 2018ء بنایا۔
اس کے رولز بن گئے، بجٹ مختص ہوا، ڈی جی کی منظوری ہوگئی، عمارت اور فرنیچر بھی لے لیا گیا مگر محکمہ قانون نے اس پر اعتراض لگا دیا کہ اس میں کمیشن کی بات کی گئی ہے اس کے بعد یہ قانون سیاست اور عدم توجہ کی نذر ہوگیا جو افسوسناک ہے۔ وفاقی سطح پر 2020ء میں لیگل ایڈ کے حوالے سے ایکٹ بنانے پر اس وقت کی حکومت نے کام کیا، اس میں وزارت انسانی حقوق سمیت دیگر وزارتیں بھی شامل ہیں۔ اس میں اتھارٹی کی بات کی گئی ہے۔ ہم نے کمیشن کی بات کی تھی تو اس پر مسئلہ کیوں؟بدقسمتی سے غریب آدمی انصاف کیلئے دھکے کھا رہا ہے مگر اسے کہیں سے کوئی مدد نہیں مل رہی، عام آدمی کیلئے پنجاب لیگل ایڈ ایکٹ 2018ء کو آگے بڑھانا ہوگا۔
افتخاراحمد راؤ
(سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب)
ہماری پولیس ایک پرانے نظام اور قانون کے تحت چل رہی ہے۔ابھی تک برطانیہ دور حکومت کے قوانین رائج ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر وہ قانون اور نظام اتنا ہی اچھا تھا تو برطانیہ نے اپنے ہاں رائج کیوں نہیں کیا؟ چونکہ برطانیہ نے یہاں حکومت کرنی تھی لہٰذا اسنے اشرافیہ کی پولیس بنا دی جس نے پورے معاشرے کو قبضے میں کر لیا۔ اسی نظام اور سوچ کی وجہ سے ہمارے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں۔
پولیس حکومت کا چہرہ ہوتی ہے جسے لوگوں کا براہ راست سامنا کرنا ہوتا ہے لہٰذا اس کی سوچ اور رویہ عوام دوست ہونا چاہیے۔ ایلیٹ کلاس کو پولیس اور نظام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو غریب کو ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے قوانین موجود ہیںمگر عام آدمی کو معلو م ہی نہیں کہ اس کیلئے کون سے قوانین ہیں۔ میرے نزدیک قوانین زیادہ نہیں بلکہ جامع اور یکجا ہونے چاہئیں تاکہ عام آدمی کو ان کے بارے میں درست علم ہوسکے ۔
قوانین کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی بھی دینی چاہیے۔ جہاں طاقت ہواور احتساب کا درست نظام نہ ہو وہاں طاقت کا غلط استعمال ہوتا ہے، ہمیں احتساب کے نظام کو مضبوط اور موثر بنانا ہوگا۔پولیس کے نظام کی بہتری کیلئے اصلاحات ضروری ہیں۔ میرے نزدیک فوج کی طرح پولیس میں بھی دو ٹیئر سسٹم ہونا چاہیے، اس سے بہتری آئے گی۔ محکمہ پولیس کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے میری چند تجاویز ہیں: پولیس میں بھرتیاں صاف و شفاف اور میرٹ پر ہونی چاہئیں۔ بھرتی کے بعد تربیت کا واضح اور موثر نظام ہونا چاہیے، ترقی کو ٹریننگ اور پرفارمنس سے مشروط کرنا چاہئے۔
پولیس میں اختیارات کے ساتھ ساتھ احتساب کا نظام قائم کرنا چاہئے۔ سپروائزری آفیسر کا کردار بہتر بنایا جائے،محکمہ پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا چاہیے اور اس کے ذریعے چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ہم پولیس ریفارمز کیلئے جاپانی ماڈل لانا چاہتے تھے، وہاں پراستغاثہ بھی مضبوط ہے مگر ہمارے ہاں رکاوٹیں آتی ہیں۔ ہمیں دنیا کے بہترین ماڈلز میں سے اچھے نکات اپنے نظام میںشامل کرنے چاہئیں۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
نظام قانون اور انصاف پر عدم اعتماد کی وجہ سے لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں، قتل و غارت و دیگر جرائم میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ پولیس کے بجائے پنچائیت و دیگر متبادل طریقوں سے معاملات حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارا المیہ ہے کہ جو بھی حکومت پولیس ریفارمز کی کوشش کرتی ہے وہ کچھ عرصے بعد اس سے پیچھے ہٹ جاتی ہے لہٰذا اس وقت اہم یہ ہے کہ لوگوں کا انصاف کے اداروں پر اعتماد بحال کرنے کیلئے عملی اقدامات کے جائیں۔حکومت کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں، حکومت اکیلے تمام مسائل حل نہیں کر سکتی ، اس میںسول سوسائٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کا کردار اہم ہوتا ہے۔ بطور سول سوسائٹی ہم اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
ہم نے ضلعی سطح پرپولیس افسران کو مختلف عوامی آگہی پروگرامز میں مدعو کیا ، ہم نے عوام کو آگاہی دینے، پولیس کا امیج بہتر کرنے ، لوگوں اور پولیس کے درمیان گیپ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے لوگوں کو آگاہی دی کہ ایف آئی آر کے اندراج کا مسئلہ ہو یا محکمہ پولیس سے متعلق کوئی شکایت، آئی جی کی ہیلپ لائن 1787 پر شکایت کی جا سکتی ہے۔
ہم نے لوگوں کو وویمن سیفٹی ایپ کے بارے میں بھی آگاہی دی۔ اس کے ساتھ ساتھ وویمن پروٹیکش ہیلپ لائن 1043 سمیت خواتین کے تحفظ کیلئے اٹھائے جانے والے دیگر اہم اقدامات کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔ ہم نے مختلف دیہاتوں میں لوگوں کی قانونی معاونت و رہنمائی کیلئے مفت لیگل کیمپ لگائے، وکلاء نے اس میں ہمارے ساتھ تعاون کیا، اس میںتجربہ کار وکلاء لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتے تھے۔ ہمارے ہاں قانون ایک ہی ہے مگر عملدرآمد کے وقت امیر اور غریب کی تفریق آجاتی ہے اور قانون کی زد میں صرف غریب ہی آتا ہے جو افسوسناک ہے۔ ملک کے مسائل سنگین ہیں، حکومت کے پاس وسائل محدود ہیں لہٰذا سب کو مل کر من حیث القوم کام کرنا ہوگا۔