ڈاکٹر ڈینس آئزک بے مثل انسان منفرد ڈرامہ نگار
جہاں کیبل کی وجہ سے پی ٹی وی دیکھے عرصے بیت گیا۔
PESHAWAR:
ادب اور انسان کا گہرا رشتہ ہے اور اس رشتہ کی احساس ادیب ہوتا ہے جو اپنے فن سے ادب کے ذریعے انسانوں کو جوڑتا ہے۔
ادب کی خوب صورتی اور کمال ہے کہ یہ رنگ، نسل، مذہب، علاقے، زبان اور حدودوقیود سے بالا تر ہو کر انسانی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ پاکستان کی مٹی اس اعتبار سے بڑی زرخیز رہی ہے کہ اس میں ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لوگوں نے ادب کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور اپنے ادبی قد کاٹھ سے معاشرے اور ادبی حلقوں میں منفرد پہچان بنائی ہے۔ آج ہم ایک ایسے ہی باکمال ادیب کی زندگی، شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔
؎آسماں بس میں جو ہوتا تو گھٹا کر دیتا
تیری خاطر میں شرابوں کو فضا کر دیتا
بس کہ یزداں نہ ہوا ورنہ مرے رند خراب
میں تجھے اپنے مقابل کا خُدا کر دیتا
یہ شان دار شعر کسی معروف شاعر کا نہیں بلکہ معروف ڈرامہ نگار ڈاکٹر ڈینس آئزک کا ہے۔ یہ نام بہت سے لوگوں کے لیے بڑا مانوس ہو گا جنہوں نے پی ٹی وی کے سنہری دور میں ان کے ڈرامے دیکھے ہیں۔ مجھے بھی اتنا یاد ہے کہ میں نے بھی 90ء کی دہائی کے آخری حصہ میں پی ٹی وی پر کچھ ڈرامے دیکھے تو آخر میں ڈاکٹر ڈینس آٗئزک کا نام پڑھنے کو ملتا تھا۔ جیسے ہی وقت نے کروٹ بدلی ہم بھی کراچی آگئے۔
جہاں کیبل کی وجہ سے پی ٹی وی دیکھے عرصے بیت گیا۔ کئی سالوں بعد کچھ لوگوں سے ڈاکٹر ڈینس آئزک کا نام سنا تو بچپن کا زمانہ یاد آیا پھر انٹرنیٹ پر ایک مضمون کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ کینیڈا چلے گئے ہیں۔ چند ماہ قبل ان کے انتقال کی خبر ملی تو یہ ملال ہوا کہ زندگی میں ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی اور نہ ہی ان سے کبھی بات ہوئی۔
اگرچہ وہ اپنے لکھے ہوئے ڈراموں کی وجہ سے پاکستان بھر میں مقبول تھے لیکن پشاور میں اپنے قریبی دوستوں کے لیے ان کا پہلا حوالہ ان کی شاعری اور موسیقی تھا۔ گورنمنٹ کالج پشاور میں ان کے ہم جماعت اعجاز نیازی جو پی ٹی وی پشاور کے پروگرام مینیجر بھی تھے یاد کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک اس وقت کی بورڈ بجایا کرتے تھے اور کالج کی کینٹین میں سردیوں کی دھوپ میں گھنٹوں اپنے دوستوں کے ساتھ شاعری اور موسیقی گاتے گزارتے تھے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کی ہم عصر ڈراما نگار غزالہ اورکزئی جو اب نیویارک میں مقیم ہیں، اپنی یونیورسٹی کے دنوں میں ساتھی طالب علموں کے ساتھ موسیقی کی خوب صورت شامیں یاد کرتی ہیں جہاں ڈاکٹر ڈینس آئزک اور ان کے دوست ''The Bachelors'' نامی بینڈ پرفارم کرتے تھے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کی بیٹی شالین بتاتی ہیں کہ اس بینڈ کے ذریعے ان کے والد اور والدہ کی ملاقات ہوئی اور ڈینس اور ماریہ کے درمیان محبت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۔ شالین کا کہنا تھا کہ ان کے والدین کی ایک دوسرے سے محبت شادی سے پہلے طویل عرصے تک قائم رہی اور انہوں نے اپنے والد اور والدہ کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا ہوتے نہیں دیکھا نہ کبھی اونچی آواز میں بات سنی۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک نے اپنی طبی تعلیم خیبر میڈیکل کالج سے مکمل کی اور 25 سال تک لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے شعبہ ریڈیالوجی سے وابستہ رہے۔ نیز ڈاکٹر ڈینس آئزک کو ایک مہربان، ہمدرد آدمی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پشاور ٹیلی ویژن سے وابستہ کسی بھی فرد کو کوئی طبی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ ان تک پہنچتے اور وہ ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ شالین نے اپنے بچپن کو بھی یاد کرتے ہوئے کہا کہ کئی بار رات کو جب کوئی دوست یا جاننے والا ان کے والد کو فون کرتا تو فوراً مدد کے لیے باہر آجاتے تھے۔ ان کی طبیعت کی نرمی اور حساسیت ان کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک 11 جنوری 1950 کو پشاور کے ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے خیبر میڈیکل کالج پشاور سے گریجویشن مکمل کی اور 25 سال تک لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں ریڈیالوجسٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔
2000ء میں انہوں نے کینیڈا ہجرت کرنے سے پہلے اردو پی ٹی وی کے ایک نئے ڈراما نگار اور شاعر کے طور پر شہرت حاصل کی تھی کیوںکہ وہ ادبی تخلیقی صلاحیتوں کے شوق کے ساتھ پیدا ہوئے تھے اور شاعری، افسانہ اور موسیقی سمیت مختلف ذوق رکھتے تھے۔
مختلف ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ڈینس آئزک پشاور شہر کے ارد گرد ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے باوجود وہ ادبی اداروں سے وابستہ تھے جن میں حلقہ ارباب ذوق، پشاور، خبر نظر پشاور اور پشاور کرسچن لٹریری سوسائٹی شامل ہیں۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کو ان کی ادبی خدمات کی بدولت کئی ایوارڈز ملے جن میں 1985 میں ہزارہ آرٹس کونسل، 1978 اور 1979 میں پی ٹی وی ایوارڈ فار ایکسیلینس، 1979 میں بہترین اسکرین پلے رائٹر کا نیشنل ایوارڈ، 1995 میں پاکستان کرسچن آرٹس کونسل، 1996 میں کشمیری ادبی ایوارڈ، جوشوا فضل الدین ایوارڈ، 1996 میں پی ٹی وی ایوارڈ، 1997 میں گولڈن جوبلی میڈل اور 2010 میں بزم فانوس ایوارڈ کینیڈا شامل ہیں۔
ان کے بہترین ڈراموں اور تخلیقی کاموں کی فہرست میں باریش، دوراہا، کروبی، کرب، سلاخیں اور پی ٹی وی اسلام آباد کے اردو ڈرامے ''گیسٹ ہاؤس'' کے لیے چند یادگار اقساط شامل ہیں جس کے بعد پی ٹی وی پشاور سینٹر کے لیے ان کا آخری پروجیکٹ ''تھوڑی دیکھ زندگی'' تھا۔
اس کے علاوہ، انہوں نے اردو فیچر فلم ''انتہا'' کے لیے اسکرین پلے اور اسٹوری لائن لکھی جسے معروف فن کارہ ثمینہ پیرزادہ نے پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیا تھا۔ پروفیسر ناصر علی سید کے مطابق، ڈاکٹر ڈینس آئزک صحت کے متعدد مسائل کا شکار تھے اور وہ گذشتہ چند ہفتوں سے ڈیمنشیا سمیت سنگین مسائل کے لیے زیرعلاج تھے۔ ان کا عظیم ادبی کارنامہ فرانسیسی کلاسک ایڈونچر ناول Around the world in eighty days' کا اردو ترجمہ تھا۔
سرفراز تبسم اپنے آرٹیکل ''ڈاکٹر ڈینس آئزک کہاں ہیں؟'' میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی دیگر خصوصیات کا بھی علم ہوا کہ وہ جتنے اچھے ڈرامانگار ہیں اتنے ہی باکمال شاعر، مصّور، موسیقار اور گایک بھی ہیں ایک ورکشاپ کے دوران انہوں نے اپنی شاعری اپنی کمپوزیشن میں گیت اور غزلیں بھی گائیں ان کے اتنے روپ دیکھ کر مجھے دیر تک واقعی حیرت ہوتی رہی۔
ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے ایک مضمون ''ڈاکٹر ڈینس آئزک کی کینیڈا میں مشکل زندگی'' میں ڈینس آئزک کی شاعری اور موسیقی سے ہی نہیں ان کی شخصیت سے بھی بہت متاثر تھا۔ وہ ایک مہذب انسان تھے جن کے سینے میں ایک محبت کرنے والا دل دھڑکتا تھا۔ بدقسمتی سے وہ حساس دل زمانے کی بے حسی سے بہت دکھی ہو گئے تھے اور میں ان کے بارے میں سوچ کر بھی دکھی ہو جاتا ہوں۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا کہنا ہے کہ وہ خیبر میڈیکل کالج کے زمانے سے ڈاکٹر ڈینس آئزک کو جانتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر ڈینس آئزک سے پہلی دفعہ خیبر میڈیکل کالج پشاور میں ملے تھے۔ ڈاکٹر ڈینس آئزک ان سے عمر میں ایک سال بڑے تھے۔ لیکن کالج میں ایک سال جونیئر تھے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک اُس وقت ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور میوزک ڈائریکٹر اور کمپوزر کام کرتے تھے۔ ان کا میوزک سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ وہ اس زمانے میں شاعری اور غزلیں لکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ان کے کسی سنیئر نے انہیں کوئی ڈراما دیکھنے کو کہا جو کافی مقبول تھا۔ لیکن اسے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر ڈینس آئزک نے کہا کہ یہ کوئی خاص ڈراما نہیں اس سے اچھا ڈرامہ تو میں لکھ سکتا ہوں۔ جس پر ان کے سنیئر نے ان سے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو تم کوئی ڈراما لکھ کر دکھاؤ۔ ڈاکٹر ڈینس آئزک نے اس بات کو چیلنج کے طور پر لیا اور پہلا ڈراما لکھا جو بے حد مقبول ہوا، باقی پھر تاریخ ہے۔
21 جنوری 2022 کو کینیڈا میں انتقال کرنے والے ڈاکٹر ڈینس آئزک کو کینیڈا میں ہی سپرد خاک کیا گیا ہے۔ ان کی وفات کے موقع پر وائس آف امریکا اردو نے ایک خصوصی ڈوکومنٹری بنائی جس میں معروف اداکار عثمان پیرزادہ کا کہنا ہے کہ ''ڈینس اس وقت کے ایک ترقی پسند اور جدید طرز کے مصنف تھے۔ اُن کے موضوع انتہائی جان دار ہوتے تھے۔ مثلاً کروبی کا موضوع ایک منفرد موضوع تھا۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کا ڈراما ''کروبی'' سقوط ڈھاکا پر پہلا ڈراما تھا۔ اس وقت 1971 کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جب اُنہوں نے اس پر ڈراما لکھا۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ کروبی کی کہانی ڈھاکا میں شروع ہوئی تھی۔
جنگ چل رہی ہے اور ایک کرنل اسپتال میں زخمی ہے تو یہ ایک آرمی کرنل اور نرس کی محبت کی کہانی تھی۔'' سابق ڈائریکٹر پروگرامز پی ٹی وی طارق سعید کا کہنا ہے،''ڈاکٹر ڈینس آئزک کے ڈراموں میں صرف ڈائیلاگ اور اسٹوری نہیں ہے بلکہ ایک مکمل اسکرین پلے ہے جس کو پڑھ کر پورا ڈراما تصویری شکل میں آپ کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔'' ہم دونوں نے مل کر کروبی کیا اس کے بعد ایک اور سیریل کی اور بعد میں تیسری سیریل ہالا کی۔ اس کے بعد ہم نے ایک آزاد سیریز کی جس کا نام ''پہلی سی محبت'' رکھا تھا۔'' سنیئر اداکار نجیب اللہ انجم کہتے ہیں کہ ''ڈاکٹر ڈینس آئزک میں ایک کمال یہ تھا کہ ان کی تحریر میں ایک ردھم ہوتا تھا۔ اگر ایک یا دو پیج کے ڈائیلاگ ہوتے تو بڑی آسانی سے یاد ہو جاتے تھے۔''
پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسراعجاز نیازی ڈاکٹر ڈینس آئزک کے بارے میں کہتے ہیں کہ ''جوں جوں کاسٹ ہوتی تھی اس کے ردھم کے مطابق ڈائیلاگ ہوتے تھے۔ مجھے یہ تجربہ ہوا کیوںکہ وہ ہر پریکٹس میں موجود ہوتے تھے۔''
صحافی و مزاح نگار مرزا یٰسین بیگ کہتے ہیں کہ ''اس زمانے کے رائٹرز میں بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے بعد اگر کسی رائٹر نے اپنے اخلاق، ملنساری اور اپنی طبیعت کے اچھے پن سے متاثر کیا تو وہ ڈاکٹر ڈینس آئزک تھے۔''
ٹی وی اینکر اور مصنفہ روبینہ فیصل کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک کی شخصیت میں اتنی شہرت کے باوجود ایک دروایشی اور سادگی تھی۔
اداکار وشاعرہ بشریٰ فرح کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وہ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اس کے باوجود وہ کینیڈا چلے گئے اور گم نام زندگی بسر کی۔ معروف ماہرنفسیات ڈاکٹر خالدسہیل کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ ان کے ڈراموں کے نام 'ک'' سے شروع ہوں۔ وہ ایک نیک دل اور نفیس انسان تھے بلکہ ان کے بارے میں یہ کہوں گا کہ وہ Thorough Gentleman تھے جن کا دل انسانیت کے لیے دھڑکتا تھا۔ وہ اپنے مسیحی ایمان اور چرچ کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ وہ کوائر کا بھی حصہ رہے اور چرچ کی کئی ٹریننگز میں بطور مقرر شرکت کی۔
اس وقت رات کے دو بج چکے ہیں۔ میں ایک طرف موبائل فون پر ڈاکٹر ڈینس آئزک کی پُرکشش تصویر دیکھ رہا ہوں اور دوسری طرف ان کی زندگی پر یہ مضمون لیپ ٹاپ پر ٹائپ کررہا ہوں۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیسے یقین کے ساتھ لکھے جارہا ہوں جسے میں نے کبھی نہ دیکھا اور نہ ملا۔ لیکن نہ جانے کیوں یہ احساس بڑی شدت سے محسوس کررہا ہوں کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک کے ساتھ میری رُوح کا گہرا تعلق ہے اور یہ لکھتے ہوئے لگ رہا ہے جیسے وہ اپنی زندگی کی کئی ایسے پہلوؤں کو مجھ پر عیاں کررہے ہیں۔
جنہیں شاید میں ان سے مل کر بھی نہ جان پاتا۔ شاید اس لیے ہماری ملاقات نہیں ہوئی کیوںکہ کچھ ملاقاتیں ادھوری رہتی ہیں بلکہ ایسے ہی جیسے اُردو ڈرامانگاری میں ڈاکٹر ڈینس آئزک کے خلا کوئی دوسرا پر نہیں کر سکتا یہی ڈاکٹر ڈینس آئزک کا سب سے بڑا کمال ہے کہ وہ ہم سے جدا ہو کر بھی ہماری یادوں، زندگیوں اور روحوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ وہ نئی نسل کے لیے اپنے فن اور ہنر سے متاثر کرنے کے لیے بہترین رول ماڈل ہیں۔
ان کا شعر کیا کمال ہے:
؎گھر سے چلے ارادۂ منزل لیے ہوئے
منزل ملی تو اپنے ارادے بدل گئے
ادب اور انسان کا گہرا رشتہ ہے اور اس رشتہ کی احساس ادیب ہوتا ہے جو اپنے فن سے ادب کے ذریعے انسانوں کو جوڑتا ہے۔
ادب کی خوب صورتی اور کمال ہے کہ یہ رنگ، نسل، مذہب، علاقے، زبان اور حدودوقیود سے بالا تر ہو کر انسانی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ پاکستان کی مٹی اس اعتبار سے بڑی زرخیز رہی ہے کہ اس میں ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لوگوں نے ادب کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور اپنے ادبی قد کاٹھ سے معاشرے اور ادبی حلقوں میں منفرد پہچان بنائی ہے۔ آج ہم ایک ایسے ہی باکمال ادیب کی زندگی، شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔
؎آسماں بس میں جو ہوتا تو گھٹا کر دیتا
تیری خاطر میں شرابوں کو فضا کر دیتا
بس کہ یزداں نہ ہوا ورنہ مرے رند خراب
میں تجھے اپنے مقابل کا خُدا کر دیتا
یہ شان دار شعر کسی معروف شاعر کا نہیں بلکہ معروف ڈرامہ نگار ڈاکٹر ڈینس آئزک کا ہے۔ یہ نام بہت سے لوگوں کے لیے بڑا مانوس ہو گا جنہوں نے پی ٹی وی کے سنہری دور میں ان کے ڈرامے دیکھے ہیں۔ مجھے بھی اتنا یاد ہے کہ میں نے بھی 90ء کی دہائی کے آخری حصہ میں پی ٹی وی پر کچھ ڈرامے دیکھے تو آخر میں ڈاکٹر ڈینس آٗئزک کا نام پڑھنے کو ملتا تھا۔ جیسے ہی وقت نے کروٹ بدلی ہم بھی کراچی آگئے۔
جہاں کیبل کی وجہ سے پی ٹی وی دیکھے عرصے بیت گیا۔ کئی سالوں بعد کچھ لوگوں سے ڈاکٹر ڈینس آئزک کا نام سنا تو بچپن کا زمانہ یاد آیا پھر انٹرنیٹ پر ایک مضمون کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ کینیڈا چلے گئے ہیں۔ چند ماہ قبل ان کے انتقال کی خبر ملی تو یہ ملال ہوا کہ زندگی میں ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی اور نہ ہی ان سے کبھی بات ہوئی۔
اگرچہ وہ اپنے لکھے ہوئے ڈراموں کی وجہ سے پاکستان بھر میں مقبول تھے لیکن پشاور میں اپنے قریبی دوستوں کے لیے ان کا پہلا حوالہ ان کی شاعری اور موسیقی تھا۔ گورنمنٹ کالج پشاور میں ان کے ہم جماعت اعجاز نیازی جو پی ٹی وی پشاور کے پروگرام مینیجر بھی تھے یاد کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک اس وقت کی بورڈ بجایا کرتے تھے اور کالج کی کینٹین میں سردیوں کی دھوپ میں گھنٹوں اپنے دوستوں کے ساتھ شاعری اور موسیقی گاتے گزارتے تھے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کی ہم عصر ڈراما نگار غزالہ اورکزئی جو اب نیویارک میں مقیم ہیں، اپنی یونیورسٹی کے دنوں میں ساتھی طالب علموں کے ساتھ موسیقی کی خوب صورت شامیں یاد کرتی ہیں جہاں ڈاکٹر ڈینس آئزک اور ان کے دوست ''The Bachelors'' نامی بینڈ پرفارم کرتے تھے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کی بیٹی شالین بتاتی ہیں کہ اس بینڈ کے ذریعے ان کے والد اور والدہ کی ملاقات ہوئی اور ڈینس اور ماریہ کے درمیان محبت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۔ شالین کا کہنا تھا کہ ان کے والدین کی ایک دوسرے سے محبت شادی سے پہلے طویل عرصے تک قائم رہی اور انہوں نے اپنے والد اور والدہ کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا ہوتے نہیں دیکھا نہ کبھی اونچی آواز میں بات سنی۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک نے اپنی طبی تعلیم خیبر میڈیکل کالج سے مکمل کی اور 25 سال تک لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے شعبہ ریڈیالوجی سے وابستہ رہے۔ نیز ڈاکٹر ڈینس آئزک کو ایک مہربان، ہمدرد آدمی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پشاور ٹیلی ویژن سے وابستہ کسی بھی فرد کو کوئی طبی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ ان تک پہنچتے اور وہ ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ شالین نے اپنے بچپن کو بھی یاد کرتے ہوئے کہا کہ کئی بار رات کو جب کوئی دوست یا جاننے والا ان کے والد کو فون کرتا تو فوراً مدد کے لیے باہر آجاتے تھے۔ ان کی طبیعت کی نرمی اور حساسیت ان کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک 11 جنوری 1950 کو پشاور کے ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے خیبر میڈیکل کالج پشاور سے گریجویشن مکمل کی اور 25 سال تک لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں ریڈیالوجسٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔
2000ء میں انہوں نے کینیڈا ہجرت کرنے سے پہلے اردو پی ٹی وی کے ایک نئے ڈراما نگار اور شاعر کے طور پر شہرت حاصل کی تھی کیوںکہ وہ ادبی تخلیقی صلاحیتوں کے شوق کے ساتھ پیدا ہوئے تھے اور شاعری، افسانہ اور موسیقی سمیت مختلف ذوق رکھتے تھے۔
مختلف ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ڈینس آئزک پشاور شہر کے ارد گرد ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے باوجود وہ ادبی اداروں سے وابستہ تھے جن میں حلقہ ارباب ذوق، پشاور، خبر نظر پشاور اور پشاور کرسچن لٹریری سوسائٹی شامل ہیں۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کو ان کی ادبی خدمات کی بدولت کئی ایوارڈز ملے جن میں 1985 میں ہزارہ آرٹس کونسل، 1978 اور 1979 میں پی ٹی وی ایوارڈ فار ایکسیلینس، 1979 میں بہترین اسکرین پلے رائٹر کا نیشنل ایوارڈ، 1995 میں پاکستان کرسچن آرٹس کونسل، 1996 میں کشمیری ادبی ایوارڈ، جوشوا فضل الدین ایوارڈ، 1996 میں پی ٹی وی ایوارڈ، 1997 میں گولڈن جوبلی میڈل اور 2010 میں بزم فانوس ایوارڈ کینیڈا شامل ہیں۔
ان کے بہترین ڈراموں اور تخلیقی کاموں کی فہرست میں باریش، دوراہا، کروبی، کرب، سلاخیں اور پی ٹی وی اسلام آباد کے اردو ڈرامے ''گیسٹ ہاؤس'' کے لیے چند یادگار اقساط شامل ہیں جس کے بعد پی ٹی وی پشاور سینٹر کے لیے ان کا آخری پروجیکٹ ''تھوڑی دیکھ زندگی'' تھا۔
اس کے علاوہ، انہوں نے اردو فیچر فلم ''انتہا'' کے لیے اسکرین پلے اور اسٹوری لائن لکھی جسے معروف فن کارہ ثمینہ پیرزادہ نے پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیا تھا۔ پروفیسر ناصر علی سید کے مطابق، ڈاکٹر ڈینس آئزک صحت کے متعدد مسائل کا شکار تھے اور وہ گذشتہ چند ہفتوں سے ڈیمنشیا سمیت سنگین مسائل کے لیے زیرعلاج تھے۔ ان کا عظیم ادبی کارنامہ فرانسیسی کلاسک ایڈونچر ناول Around the world in eighty days' کا اردو ترجمہ تھا۔
سرفراز تبسم اپنے آرٹیکل ''ڈاکٹر ڈینس آئزک کہاں ہیں؟'' میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی دیگر خصوصیات کا بھی علم ہوا کہ وہ جتنے اچھے ڈرامانگار ہیں اتنے ہی باکمال شاعر، مصّور، موسیقار اور گایک بھی ہیں ایک ورکشاپ کے دوران انہوں نے اپنی شاعری اپنی کمپوزیشن میں گیت اور غزلیں بھی گائیں ان کے اتنے روپ دیکھ کر مجھے دیر تک واقعی حیرت ہوتی رہی۔
ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے ایک مضمون ''ڈاکٹر ڈینس آئزک کی کینیڈا میں مشکل زندگی'' میں ڈینس آئزک کی شاعری اور موسیقی سے ہی نہیں ان کی شخصیت سے بھی بہت متاثر تھا۔ وہ ایک مہذب انسان تھے جن کے سینے میں ایک محبت کرنے والا دل دھڑکتا تھا۔ بدقسمتی سے وہ حساس دل زمانے کی بے حسی سے بہت دکھی ہو گئے تھے اور میں ان کے بارے میں سوچ کر بھی دکھی ہو جاتا ہوں۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا کہنا ہے کہ وہ خیبر میڈیکل کالج کے زمانے سے ڈاکٹر ڈینس آئزک کو جانتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر ڈینس آئزک سے پہلی دفعہ خیبر میڈیکل کالج پشاور میں ملے تھے۔ ڈاکٹر ڈینس آئزک ان سے عمر میں ایک سال بڑے تھے۔ لیکن کالج میں ایک سال جونیئر تھے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک اُس وقت ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور میوزک ڈائریکٹر اور کمپوزر کام کرتے تھے۔ ان کا میوزک سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ وہ اس زمانے میں شاعری اور غزلیں لکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ان کے کسی سنیئر نے انہیں کوئی ڈراما دیکھنے کو کہا جو کافی مقبول تھا۔ لیکن اسے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر ڈینس آئزک نے کہا کہ یہ کوئی خاص ڈراما نہیں اس سے اچھا ڈرامہ تو میں لکھ سکتا ہوں۔ جس پر ان کے سنیئر نے ان سے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو تم کوئی ڈراما لکھ کر دکھاؤ۔ ڈاکٹر ڈینس آئزک نے اس بات کو چیلنج کے طور پر لیا اور پہلا ڈراما لکھا جو بے حد مقبول ہوا، باقی پھر تاریخ ہے۔
21 جنوری 2022 کو کینیڈا میں انتقال کرنے والے ڈاکٹر ڈینس آئزک کو کینیڈا میں ہی سپرد خاک کیا گیا ہے۔ ان کی وفات کے موقع پر وائس آف امریکا اردو نے ایک خصوصی ڈوکومنٹری بنائی جس میں معروف اداکار عثمان پیرزادہ کا کہنا ہے کہ ''ڈینس اس وقت کے ایک ترقی پسند اور جدید طرز کے مصنف تھے۔ اُن کے موضوع انتہائی جان دار ہوتے تھے۔ مثلاً کروبی کا موضوع ایک منفرد موضوع تھا۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کا ڈراما ''کروبی'' سقوط ڈھاکا پر پہلا ڈراما تھا۔ اس وقت 1971 کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جب اُنہوں نے اس پر ڈراما لکھا۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ کروبی کی کہانی ڈھاکا میں شروع ہوئی تھی۔
جنگ چل رہی ہے اور ایک کرنل اسپتال میں زخمی ہے تو یہ ایک آرمی کرنل اور نرس کی محبت کی کہانی تھی۔'' سابق ڈائریکٹر پروگرامز پی ٹی وی طارق سعید کا کہنا ہے،''ڈاکٹر ڈینس آئزک کے ڈراموں میں صرف ڈائیلاگ اور اسٹوری نہیں ہے بلکہ ایک مکمل اسکرین پلے ہے جس کو پڑھ کر پورا ڈراما تصویری شکل میں آپ کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔'' ہم دونوں نے مل کر کروبی کیا اس کے بعد ایک اور سیریل کی اور بعد میں تیسری سیریل ہالا کی۔ اس کے بعد ہم نے ایک آزاد سیریز کی جس کا نام ''پہلی سی محبت'' رکھا تھا۔'' سنیئر اداکار نجیب اللہ انجم کہتے ہیں کہ ''ڈاکٹر ڈینس آئزک میں ایک کمال یہ تھا کہ ان کی تحریر میں ایک ردھم ہوتا تھا۔ اگر ایک یا دو پیج کے ڈائیلاگ ہوتے تو بڑی آسانی سے یاد ہو جاتے تھے۔''
پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسراعجاز نیازی ڈاکٹر ڈینس آئزک کے بارے میں کہتے ہیں کہ ''جوں جوں کاسٹ ہوتی تھی اس کے ردھم کے مطابق ڈائیلاگ ہوتے تھے۔ مجھے یہ تجربہ ہوا کیوںکہ وہ ہر پریکٹس میں موجود ہوتے تھے۔''
صحافی و مزاح نگار مرزا یٰسین بیگ کہتے ہیں کہ ''اس زمانے کے رائٹرز میں بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے بعد اگر کسی رائٹر نے اپنے اخلاق، ملنساری اور اپنی طبیعت کے اچھے پن سے متاثر کیا تو وہ ڈاکٹر ڈینس آئزک تھے۔''
ٹی وی اینکر اور مصنفہ روبینہ فیصل کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک کی شخصیت میں اتنی شہرت کے باوجود ایک دروایشی اور سادگی تھی۔
اداکار وشاعرہ بشریٰ فرح کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وہ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اس کے باوجود وہ کینیڈا چلے گئے اور گم نام زندگی بسر کی۔ معروف ماہرنفسیات ڈاکٹر خالدسہیل کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ ان کے ڈراموں کے نام 'ک'' سے شروع ہوں۔ وہ ایک نیک دل اور نفیس انسان تھے بلکہ ان کے بارے میں یہ کہوں گا کہ وہ Thorough Gentleman تھے جن کا دل انسانیت کے لیے دھڑکتا تھا۔ وہ اپنے مسیحی ایمان اور چرچ کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ وہ کوائر کا بھی حصہ رہے اور چرچ کی کئی ٹریننگز میں بطور مقرر شرکت کی۔
اس وقت رات کے دو بج چکے ہیں۔ میں ایک طرف موبائل فون پر ڈاکٹر ڈینس آئزک کی پُرکشش تصویر دیکھ رہا ہوں اور دوسری طرف ان کی زندگی پر یہ مضمون لیپ ٹاپ پر ٹائپ کررہا ہوں۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیسے یقین کے ساتھ لکھے جارہا ہوں جسے میں نے کبھی نہ دیکھا اور نہ ملا۔ لیکن نہ جانے کیوں یہ احساس بڑی شدت سے محسوس کررہا ہوں کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک کے ساتھ میری رُوح کا گہرا تعلق ہے اور یہ لکھتے ہوئے لگ رہا ہے جیسے وہ اپنی زندگی کی کئی ایسے پہلوؤں کو مجھ پر عیاں کررہے ہیں۔
جنہیں شاید میں ان سے مل کر بھی نہ جان پاتا۔ شاید اس لیے ہماری ملاقات نہیں ہوئی کیوںکہ کچھ ملاقاتیں ادھوری رہتی ہیں بلکہ ایسے ہی جیسے اُردو ڈرامانگاری میں ڈاکٹر ڈینس آئزک کے خلا کوئی دوسرا پر نہیں کر سکتا یہی ڈاکٹر ڈینس آئزک کا سب سے بڑا کمال ہے کہ وہ ہم سے جدا ہو کر بھی ہماری یادوں، زندگیوں اور روحوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ وہ نئی نسل کے لیے اپنے فن اور ہنر سے متاثر کرنے کے لیے بہترین رول ماڈل ہیں۔
ان کا شعر کیا کمال ہے:
؎گھر سے چلے ارادۂ منزل لیے ہوئے
منزل ملی تو اپنے ارادے بدل گئے