25 مئی کے بعد کا سیاسی منظر نامہ
سیاست کے عام مبصرین کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے باشعورحامیوں کوبھی عمران خان کے پچھلے دوماہ کے طرزِعمل نے خاصا مایوس کیاہے
عمران خان صاحب 25مئی کی رات کو آسمان سے زمین پر اس طرح گرے کہ اب ان کا جلد اٹھنا نا ممکن نظر آتا ہے۔ سیاسی پنڈت متفق ہیں کہ خان صاحب 25 مئی کے سیاسی دھچکے کے بعد اُس پوزیشن پر آگئے ہیں جس پر وہ عدم اِعتماد سے پہلے تھے۔
ان کے سیاسی مخالفین جو مئی کے آغاز میں کمزور اور غیر مستحکم نظر آتے تھے، اب مضبوط اور بااعتماد نظر آنے لگے ہیں، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے مخلوط حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا بھاری پتھر بھی اٹھالیا ہے۔ وہ اب انتہائی لاغر معیشت کی صحت بحال کرنے کے لیے فوری علاج کے ساتھ ساتھ بڑی جراحی کے منصوبے بنانے میں بھی جُت گئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں دوٹوک انداز میں بتا دیا ہے کہ وہ کسی دھمکی اور دباؤ میں نہیں آئیں گے اور آیندہ انتخابات کا اعلان اپنی مرضی سے کریں گے، جس سے واضح ہو گیا ہے کہ رواں سال الیکشن ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
دھرنے کی ناکامی اور پھر حالیہ لیک ہونے والی آڈیو نے مل کر خان صاحب کو ناقابلِ تلافی سیاسی نقصان پہنچایا ہے بلکہ ان کاامیج بھی بری طرح مجروح ہواہے۔ غیر جانبدار سیاسی مبصر تو پہلے ہی خان صاحب کی ''اصول پسندی'' سے بخوبی واقف تھے، تحریکِ عدم اِعتماد کے دوران عمران صاحب کا طرزِ عمل دیکھ کر ان کے حامی بھی پریشان تھے اور ہلکی ہلکی تنقید بھی کرتے تھے کہ کپتان جنھیں دہشت گرد کہتا تھا۔
ان کے آستانے پرکیوں حاضر ہوااور جنھیں ڈاکو کہتا تھا ان کی منّت کرنے لاہور کیوں گیا۔ بلاشبہ کپتان صاحب نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ہر حربہ استعمال کیا، پارلیمنٹ کے اندر ہونے والا انتخابی معرکہ جیتنے کے لیے انھوں نے ارکانِ اسمبلی کو لالچ بھی دیے، دھمکیاں بھی دیں اور ایک ایک کے پاس جا کر التجائیں بھی کیں، اگر ان کی یہ کوششیں کامیاب ہو جاتیں اور وہ الیکشن جیت جاتے تو انسانی کان کسی امریکی سازش کا ذکر سننے اور آنکھیں لہراتا ہوا خط دیکھنے سے محروم رہتیں۔
مگر اب ان کے حامی (اندھے پیروکار نہیں) بھی آصف زرداری سے مک مکا کرانے کی آڈیو سن کر ہکّا بکّا رہ گئے ہیں اور سوچتے ہیں کہ عمران خان جلسوں میں اپنے جس سیاسی مخالف کو سب سے زیادہ گالیاں دیتا تھا ، خفیہ طور پر اُسی سے ڈیل کرنے کی کوششیں کررہا تھا۔ یہ کتنا بڑا یوٹرن ہے کہ کپتان صاحب اپنا اقتدار بچانے کے لیے اُن سیاست دانوں سے اَین آراو مانگنے کی پوری کوشش کرتے رہے، جن کے بارے میں انھوں نے نوجوانوں کے دل ودماغ میں یہ ڈالا ہوا ہے کہ وہ چور، ڈاکو اور غدارہیں۔ یعنی ثابت یہ ہوا کہ وہ اقتدار بچانے کے لیے بڑے سے بڑے ''چور اور ڈاکو'' کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہیں اور'' غداروں'' سے بھی ڈیل کرسکتے ہیں۔
ان کی پارٹی کے ایک مخلص لیڈر نے ایک نجی محفل میں یہ کہا ہے کہ اگر عمران خان کو معمولی سا بھی یقین ہوتا کہ میاں نواز شریف کو عدم اِعتماد کی تحریک واپس لینے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے تو وہ صلح کے لیے مشترکہ دوستوں کو لندن بھی بھیج دیتے۔
سیاست کے عام مبصرین کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے باشعور حامیوں کو بھی عمران خان کے پچھلے دو ماہ کے طرزِ عمل نے خاصا مایوس کیا ہے۔ انھیں یہ توقع تھی کہ پارلیمنٹ میں اکثریت سے محروم ہوتے ہی عمران خان مستعفی ہوجائیں گے اور باوقار طریقے سے اقتدار چھوڑ دیں گے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ پارلیمنٹ کے اندر جنگ ہارنے کے بعد بھی عمران صاحب کرسی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
اپنے اقتدار کو چند روز طول دینے کے لیے انھوں نے اپنی پارٹی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور صدر پر دباؤ ڈالا کہ وہ آئین کو روند ڈالیں اور اپنی آئینی ذمے داریاں ادا کرنے سے انکار کردیں ، کپتان کی ہدایات پر عمل بھی ہوا۔ خان صاحب کے اس طرزِ عمل میں ایک بڑے لیڈر کا وقار، grace ، اور آئین کا احترام کہیں نظر نہ آیا۔ بہرحال 25 مئی اور بعد کے واقعات سے عمران خان کو سیاسی طور پر بھی جودھچکا لگا ہے اور ذاتی طور پر جس طرح ان کا امیج متاثر ہوا ہے۔
اس کی جلد recovery نظر نہیں آتی۔ دو اور عوامل سے بھی ان کے حامی اور ورکر بہت مایوس ہوئے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ خان صاحب طوفانوں سے بھڑ جانے والے لیڈر ہیں، مگر جب انھوں نے دیکھا کہ وہ تو گرفتاری سے بچنے کے لیے بنی گالہ چھوڑ کر پشاور جاکر بیٹھ گئے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد داخل ہوئے۔
دھرنے کے بعد بھی وہ ایک رات کے لیے بھی بنی گالہ نہیں ٹھہرے اور وزیرِاعلیٰ ہاؤس پشاور کے گوشہ عافیت میں جاکر پناہ گزیں ہوگئے۔ بہادری، جرأت اور قربانی،کسی بھی بڑے لیڈر کے بنیادی اوصاف ہوتے ہیں۔تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے بڑے رہنما پسِ دیوارِ زنداں رہے ہیں، کبھی کوئی گرفتاری سے خوفزدہ نہیں ہوا ، کبھی کسی نے گرفتاری کے ڈر سے کوئی گوشہ عافیت نہیں ڈھونڈا اور نہ ہی کسی انقلابی لیڈر نے عدالتی تحفظ مانگا ہے۔
گرفتاری سے خوفزدہ ہونے والا لیڈر عوام کے دلوں میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ دھرنے سے پہلے خان صاحب نے ہر جلسے میں اور ہر تقریر میں عوام سے یہ کہا کہ یہ کوئی سیاسی ریلی اور مارچ نہیں ہے، یہ جہاد ہے اور آپ سب پورے جوش و جذبے سے اس جہاد میں شامل ہوں۔ مگر ورکرز اب دبے دبے الفاظ میں یہ بھی پوچھتے ہیںکہ اگر یہ جہاد ہے تو پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے بچوںکو اس جہاد میں شامل ہونے سے کیوں روکا؟ انھیں اس اعزاز سے کیوں محروم رکھا اور صرف دوسروں کے بیٹوں کو پولیس کے ڈنڈے کھانے کی لیے کیوں استعمال کیا؟
کپتان صاحب اور کسی فیلڈ میں نہ سہی مگر enviromental protection میں اپنی کارکردگی (حقیقی یا خیالی) بلین ٹری پروجیکٹ کا بہت ذکر کرتے تھے،اس پس منظر میں اُن سے یہ توقع تھی کہ جب پی ٹی آئی ورکروں نے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں گرین بیلٹس اور پام کے سرسبز درختوں کو نذرِ آتش کیا تو کپتان صاحب انھیں منع کریں گے اور شدید مذمت کریں گے، مگر افسوس ہے کہ انھوں نے اپنے شہر اسلام آباد کے حسن کو آگ لگانے والوں کے اس شیطانی فعل کی مذمت کرنا بھی گوارا نہ کیا۔
ایک طرف تو کپتان صاحب نئے الیکشن کے لیے ''جہاد'' کررہے تھے مگر دوسری جانب تازہ اطلاع یہ ہے کہ استعفوں کے باوجود پارلیمنٹ ہاؤس میں داخلے کا جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کی نشستوں پر تو انھوں نے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ واہ کیا اصول پسندی ہے ۔
سابقہ حکومت کی انتخابی ترامیم کا خاتمہ درست ہے۔ منصفانہ الیکشن کے لیے ان ترامیم کا خاتمہ ضروری تھا۔ جہاں تک اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں وہی اصول اپنانا چاہیے جو آزاد اورخودمختار ملکوں میں رائج ہے۔ عمران خان صاحب اپنی ہر تقریر میں ہمسایہ ملک بھارت کی تعریف و توصیف کرتے رہتے ہیں وہ مودی کی جیت کے بھی خواہشمند تھے۔
اس کی وجہ تو ناقابلِ فہم ہے مگر وہ بھارت میں رائج انتخابی اصول کو ہی اپنا لیتے۔ وہاں کے اوورسیز بھارتی باشندے ہمارےdiaspora سے دس گنا زیادہ زرِمبادلہ بھیجتے ہیں مگر وہاں دہری شہریت رکھنے والے اوورسیز بھارتیوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا۔ قانون واضح ہے کہ جو کسی دوسرے ملک سے وفاداری کا حلف اُٹھائے گا، وہ اپنے ملک میں ووٹ کے حق سے محروم ہوجائے گا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے تعمیری کردار کے بارے میں آیندہ تفصیل سے لکھوںگا۔
تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ کپتان صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ جلوس میں آنے والے ان کے حامیوں کے پاس اسلحہ تھا اور اب وہ مزید تیاری کے ساتھ آئیں گے۔ کے پی کے وزیرِاعلیٰ نے صاف کہا ہے کہ اگلی بار صوبے کی فورس ساتھ لے کر جاؤںگا۔ یہ دونوں بیانات انتہائی خطرناک ہیں اور کے پی کی حکومت معطل کرنے کے لیے کافی ہیں مگر بہتر ہے کہ عدالتِ عظمیٰ خود اس کا نوٹس لے اور مناسب اور موثر کارروائی کرے۔
نوٹ: مسلمانوں کے عظیم محسن اور مفکر پاکستان حضرت علاّمہ اقبالؒ کے بیٹے اور بہو کے گھر پولیس کا بلا اجازت داخل ہونا انتہائی نامناسب تھا۔ یہ بات خوش آیندہے کہ غلطی کا ادراک کرتے ہوئے پنجاب کے نیک نام آئی جی راؤ سردار علی نے محترمہ ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ سے معذرت کرلی جو انھوں نے قبول کرلی ہے۔ امید ہے کہ آئی جی صاحب پولیس افسروں کو سختی سے ہدایت کریں گے کہ وہ آیندہ کسی کی گاڑی کو نقصان نہ پہنچائیں اور کسی خاتون کو گرفتار نہ کریں۔
ان کے سیاسی مخالفین جو مئی کے آغاز میں کمزور اور غیر مستحکم نظر آتے تھے، اب مضبوط اور بااعتماد نظر آنے لگے ہیں، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے مخلوط حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا بھاری پتھر بھی اٹھالیا ہے۔ وہ اب انتہائی لاغر معیشت کی صحت بحال کرنے کے لیے فوری علاج کے ساتھ ساتھ بڑی جراحی کے منصوبے بنانے میں بھی جُت گئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں دوٹوک انداز میں بتا دیا ہے کہ وہ کسی دھمکی اور دباؤ میں نہیں آئیں گے اور آیندہ انتخابات کا اعلان اپنی مرضی سے کریں گے، جس سے واضح ہو گیا ہے کہ رواں سال الیکشن ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
دھرنے کی ناکامی اور پھر حالیہ لیک ہونے والی آڈیو نے مل کر خان صاحب کو ناقابلِ تلافی سیاسی نقصان پہنچایا ہے بلکہ ان کاامیج بھی بری طرح مجروح ہواہے۔ غیر جانبدار سیاسی مبصر تو پہلے ہی خان صاحب کی ''اصول پسندی'' سے بخوبی واقف تھے، تحریکِ عدم اِعتماد کے دوران عمران صاحب کا طرزِ عمل دیکھ کر ان کے حامی بھی پریشان تھے اور ہلکی ہلکی تنقید بھی کرتے تھے کہ کپتان جنھیں دہشت گرد کہتا تھا۔
ان کے آستانے پرکیوں حاضر ہوااور جنھیں ڈاکو کہتا تھا ان کی منّت کرنے لاہور کیوں گیا۔ بلاشبہ کپتان صاحب نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ہر حربہ استعمال کیا، پارلیمنٹ کے اندر ہونے والا انتخابی معرکہ جیتنے کے لیے انھوں نے ارکانِ اسمبلی کو لالچ بھی دیے، دھمکیاں بھی دیں اور ایک ایک کے پاس جا کر التجائیں بھی کیں، اگر ان کی یہ کوششیں کامیاب ہو جاتیں اور وہ الیکشن جیت جاتے تو انسانی کان کسی امریکی سازش کا ذکر سننے اور آنکھیں لہراتا ہوا خط دیکھنے سے محروم رہتیں۔
مگر اب ان کے حامی (اندھے پیروکار نہیں) بھی آصف زرداری سے مک مکا کرانے کی آڈیو سن کر ہکّا بکّا رہ گئے ہیں اور سوچتے ہیں کہ عمران خان جلسوں میں اپنے جس سیاسی مخالف کو سب سے زیادہ گالیاں دیتا تھا ، خفیہ طور پر اُسی سے ڈیل کرنے کی کوششیں کررہا تھا۔ یہ کتنا بڑا یوٹرن ہے کہ کپتان صاحب اپنا اقتدار بچانے کے لیے اُن سیاست دانوں سے اَین آراو مانگنے کی پوری کوشش کرتے رہے، جن کے بارے میں انھوں نے نوجوانوں کے دل ودماغ میں یہ ڈالا ہوا ہے کہ وہ چور، ڈاکو اور غدارہیں۔ یعنی ثابت یہ ہوا کہ وہ اقتدار بچانے کے لیے بڑے سے بڑے ''چور اور ڈاکو'' کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہیں اور'' غداروں'' سے بھی ڈیل کرسکتے ہیں۔
ان کی پارٹی کے ایک مخلص لیڈر نے ایک نجی محفل میں یہ کہا ہے کہ اگر عمران خان کو معمولی سا بھی یقین ہوتا کہ میاں نواز شریف کو عدم اِعتماد کی تحریک واپس لینے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے تو وہ صلح کے لیے مشترکہ دوستوں کو لندن بھی بھیج دیتے۔
سیاست کے عام مبصرین کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے باشعور حامیوں کو بھی عمران خان کے پچھلے دو ماہ کے طرزِ عمل نے خاصا مایوس کیا ہے۔ انھیں یہ توقع تھی کہ پارلیمنٹ میں اکثریت سے محروم ہوتے ہی عمران خان مستعفی ہوجائیں گے اور باوقار طریقے سے اقتدار چھوڑ دیں گے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ پارلیمنٹ کے اندر جنگ ہارنے کے بعد بھی عمران صاحب کرسی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
اپنے اقتدار کو چند روز طول دینے کے لیے انھوں نے اپنی پارٹی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور صدر پر دباؤ ڈالا کہ وہ آئین کو روند ڈالیں اور اپنی آئینی ذمے داریاں ادا کرنے سے انکار کردیں ، کپتان کی ہدایات پر عمل بھی ہوا۔ خان صاحب کے اس طرزِ عمل میں ایک بڑے لیڈر کا وقار، grace ، اور آئین کا احترام کہیں نظر نہ آیا۔ بہرحال 25 مئی اور بعد کے واقعات سے عمران خان کو سیاسی طور پر بھی جودھچکا لگا ہے اور ذاتی طور پر جس طرح ان کا امیج متاثر ہوا ہے۔
اس کی جلد recovery نظر نہیں آتی۔ دو اور عوامل سے بھی ان کے حامی اور ورکر بہت مایوس ہوئے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ خان صاحب طوفانوں سے بھڑ جانے والے لیڈر ہیں، مگر جب انھوں نے دیکھا کہ وہ تو گرفتاری سے بچنے کے لیے بنی گالہ چھوڑ کر پشاور جاکر بیٹھ گئے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد داخل ہوئے۔
دھرنے کے بعد بھی وہ ایک رات کے لیے بھی بنی گالہ نہیں ٹھہرے اور وزیرِاعلیٰ ہاؤس پشاور کے گوشہ عافیت میں جاکر پناہ گزیں ہوگئے۔ بہادری، جرأت اور قربانی،کسی بھی بڑے لیڈر کے بنیادی اوصاف ہوتے ہیں۔تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے بڑے رہنما پسِ دیوارِ زنداں رہے ہیں، کبھی کوئی گرفتاری سے خوفزدہ نہیں ہوا ، کبھی کسی نے گرفتاری کے ڈر سے کوئی گوشہ عافیت نہیں ڈھونڈا اور نہ ہی کسی انقلابی لیڈر نے عدالتی تحفظ مانگا ہے۔
گرفتاری سے خوفزدہ ہونے والا لیڈر عوام کے دلوں میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ دھرنے سے پہلے خان صاحب نے ہر جلسے میں اور ہر تقریر میں عوام سے یہ کہا کہ یہ کوئی سیاسی ریلی اور مارچ نہیں ہے، یہ جہاد ہے اور آپ سب پورے جوش و جذبے سے اس جہاد میں شامل ہوں۔ مگر ورکرز اب دبے دبے الفاظ میں یہ بھی پوچھتے ہیںکہ اگر یہ جہاد ہے تو پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے بچوںکو اس جہاد میں شامل ہونے سے کیوں روکا؟ انھیں اس اعزاز سے کیوں محروم رکھا اور صرف دوسروں کے بیٹوں کو پولیس کے ڈنڈے کھانے کی لیے کیوں استعمال کیا؟
کپتان صاحب اور کسی فیلڈ میں نہ سہی مگر enviromental protection میں اپنی کارکردگی (حقیقی یا خیالی) بلین ٹری پروجیکٹ کا بہت ذکر کرتے تھے،اس پس منظر میں اُن سے یہ توقع تھی کہ جب پی ٹی آئی ورکروں نے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں گرین بیلٹس اور پام کے سرسبز درختوں کو نذرِ آتش کیا تو کپتان صاحب انھیں منع کریں گے اور شدید مذمت کریں گے، مگر افسوس ہے کہ انھوں نے اپنے شہر اسلام آباد کے حسن کو آگ لگانے والوں کے اس شیطانی فعل کی مذمت کرنا بھی گوارا نہ کیا۔
ایک طرف تو کپتان صاحب نئے الیکشن کے لیے ''جہاد'' کررہے تھے مگر دوسری جانب تازہ اطلاع یہ ہے کہ استعفوں کے باوجود پارلیمنٹ ہاؤس میں داخلے کا جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کی نشستوں پر تو انھوں نے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ واہ کیا اصول پسندی ہے ۔
سابقہ حکومت کی انتخابی ترامیم کا خاتمہ درست ہے۔ منصفانہ الیکشن کے لیے ان ترامیم کا خاتمہ ضروری تھا۔ جہاں تک اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں وہی اصول اپنانا چاہیے جو آزاد اورخودمختار ملکوں میں رائج ہے۔ عمران خان صاحب اپنی ہر تقریر میں ہمسایہ ملک بھارت کی تعریف و توصیف کرتے رہتے ہیں وہ مودی کی جیت کے بھی خواہشمند تھے۔
اس کی وجہ تو ناقابلِ فہم ہے مگر وہ بھارت میں رائج انتخابی اصول کو ہی اپنا لیتے۔ وہاں کے اوورسیز بھارتی باشندے ہمارےdiaspora سے دس گنا زیادہ زرِمبادلہ بھیجتے ہیں مگر وہاں دہری شہریت رکھنے والے اوورسیز بھارتیوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا۔ قانون واضح ہے کہ جو کسی دوسرے ملک سے وفاداری کا حلف اُٹھائے گا، وہ اپنے ملک میں ووٹ کے حق سے محروم ہوجائے گا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے تعمیری کردار کے بارے میں آیندہ تفصیل سے لکھوںگا۔
تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ کپتان صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ جلوس میں آنے والے ان کے حامیوں کے پاس اسلحہ تھا اور اب وہ مزید تیاری کے ساتھ آئیں گے۔ کے پی کے وزیرِاعلیٰ نے صاف کہا ہے کہ اگلی بار صوبے کی فورس ساتھ لے کر جاؤںگا۔ یہ دونوں بیانات انتہائی خطرناک ہیں اور کے پی کی حکومت معطل کرنے کے لیے کافی ہیں مگر بہتر ہے کہ عدالتِ عظمیٰ خود اس کا نوٹس لے اور مناسب اور موثر کارروائی کرے۔
نوٹ: مسلمانوں کے عظیم محسن اور مفکر پاکستان حضرت علاّمہ اقبالؒ کے بیٹے اور بہو کے گھر پولیس کا بلا اجازت داخل ہونا انتہائی نامناسب تھا۔ یہ بات خوش آیندہے کہ غلطی کا ادراک کرتے ہوئے پنجاب کے نیک نام آئی جی راؤ سردار علی نے محترمہ ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ سے معذرت کرلی جو انھوں نے قبول کرلی ہے۔ امید ہے کہ آئی جی صاحب پولیس افسروں کو سختی سے ہدایت کریں گے کہ وہ آیندہ کسی کی گاڑی کو نقصان نہ پہنچائیں اور کسی خاتون کو گرفتار نہ کریں۔