قتل کے الزام میں سیشن جج زیرحراست ڈی آئی جی ساؤتھ کا اظہار لاعلمی
سکندر لاشاری قانونی مدد کیلیے رشید رضوی کے دفتر پہنچے تھے کہ حراست میں لے لیا گیا، وکلا میں تشویش
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سکندر لاشاری کو قتل کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے،ان کے خلاف سیشن جج جیکب آبادخالد حسین شاہانی کے اہل خانہ نے درخواست دی تھی کہ انکے بیٹے کاشف علی کے قتل میں ملوث ہیں۔
تاہم ڈی آئی جی ساوتھ عبدالخالق شیخ نے سیشن جج سکندر لاشاری کی گرفتاری سے لاعلمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ حیدرآباد سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو اس کا تعلق حیدرآباد پولیس سے ہے، واضح رہے کہ کاشف علی شاہانی کو 19فروری کی شب حیدرآباد میں قتل کیا گیا تھا ، واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کی گئی تھی تاہم بعد میں خالد شاہانی کے اہل خانہ نے ایک درخواست دائرکی جس میں ڈسٹرکٹ و سیشن جج مٹھی کو نامزد کیا گیا تھا، اس درخواست کی وصولی کے بعد پولیس نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور سیشن جج سے تفتیش کے لیے اجازت طلب کی، اس صورتحال میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ڈسٹرکٹ و سیشن جج مٹھی سکندر لاشاری کو انکے عہدے سے ہٹاتے ہوئے انھیں سندھ ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ذرائع کے مطابق پولیس کی جانب سے شامل تفتیش کیے جانے کے بعد سیشن جج سکندر لاشاری نے اپنے دفاع کے لیے ملک کے ممتاز قانون دان رشیداے رضوی سے رجوع کیا اور شام کوکلفٹن دو تلوار کے قریب واقع انکے دفتر پہنچے، تاہم گیٹ پر ہی انھیں نامعلوم افراد ایک سفید گاڑی میں ڈال کر نامعلوم مقام کی جانب لے گئے اور سکندر لاشاری کے ساتھ آنیوالے افراد نے رشید اے رضوی ایڈووکیٹ کو انکے چیمبر میں آکر اطلاع دی کہ سیشن جج سکندر لاشاری کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی ہے،اس صورتحال پر رشید اے رضوی ایسوسی ایٹس کے رکن اور سابق سیکریٹری جنرل کراچی بار ایسوسی ایشن حیدرامام رضوی ایڈووکیٹ نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وکیل کے دفتر سے گرفتاری وکلا کے چیمبر کے تقدس کی پامالی ہے جو قابل مذمت ہے ، اس واقعے سے وکلا برادری میں شدید بے چینی پیدا ہوئی ہے،سیشن جج خالد شاہانی کے صاحبزادے کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ مقبول باقر نے پولیس حکام کوواقعے کی تحقیقات کیلیے کم از کم ڈی ایس پی رینک کا افسر تعینات کرنے اور ایس ایس پی حیدرآباد کو تفتیش کی خود مانیٹرنگ کرنے کی ہدایت کی تھی۔چیف جسٹس نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ سندھ بھرمیں ججز اوران کے اہل خانہ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ۔
تاہم ڈی آئی جی ساوتھ عبدالخالق شیخ نے سیشن جج سکندر لاشاری کی گرفتاری سے لاعلمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ حیدرآباد سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو اس کا تعلق حیدرآباد پولیس سے ہے، واضح رہے کہ کاشف علی شاہانی کو 19فروری کی شب حیدرآباد میں قتل کیا گیا تھا ، واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کی گئی تھی تاہم بعد میں خالد شاہانی کے اہل خانہ نے ایک درخواست دائرکی جس میں ڈسٹرکٹ و سیشن جج مٹھی کو نامزد کیا گیا تھا، اس درخواست کی وصولی کے بعد پولیس نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور سیشن جج سے تفتیش کے لیے اجازت طلب کی، اس صورتحال میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ڈسٹرکٹ و سیشن جج مٹھی سکندر لاشاری کو انکے عہدے سے ہٹاتے ہوئے انھیں سندھ ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ذرائع کے مطابق پولیس کی جانب سے شامل تفتیش کیے جانے کے بعد سیشن جج سکندر لاشاری نے اپنے دفاع کے لیے ملک کے ممتاز قانون دان رشیداے رضوی سے رجوع کیا اور شام کوکلفٹن دو تلوار کے قریب واقع انکے دفتر پہنچے، تاہم گیٹ پر ہی انھیں نامعلوم افراد ایک سفید گاڑی میں ڈال کر نامعلوم مقام کی جانب لے گئے اور سکندر لاشاری کے ساتھ آنیوالے افراد نے رشید اے رضوی ایڈووکیٹ کو انکے چیمبر میں آکر اطلاع دی کہ سیشن جج سکندر لاشاری کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی ہے،اس صورتحال پر رشید اے رضوی ایسوسی ایٹس کے رکن اور سابق سیکریٹری جنرل کراچی بار ایسوسی ایشن حیدرامام رضوی ایڈووکیٹ نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وکیل کے دفتر سے گرفتاری وکلا کے چیمبر کے تقدس کی پامالی ہے جو قابل مذمت ہے ، اس واقعے سے وکلا برادری میں شدید بے چینی پیدا ہوئی ہے،سیشن جج خالد شاہانی کے صاحبزادے کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ مقبول باقر نے پولیس حکام کوواقعے کی تحقیقات کیلیے کم از کم ڈی ایس پی رینک کا افسر تعینات کرنے اور ایس ایس پی حیدرآباد کو تفتیش کی خود مانیٹرنگ کرنے کی ہدایت کی تھی۔چیف جسٹس نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ سندھ بھرمیں ججز اوران کے اہل خانہ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ۔