فارن فنڈنگ کیس ہمارے کچھ اکاؤنٹس چل رہے تھے لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا وکیل پی ٹی آئی

فنڈنگ میں کسی حد تک بدنظمی اور بدانتظامی کو بھی پی ٹی آئی کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے، چیف الیکشن کمشنر


ویب ڈیسک June 01, 2022
اسکروٹنی کمیٹی کے پاس اسٹیٹ بینک سے ریکارڈ مانگنے کا اختیار ہی نہیں تھا، نجم شاہ (فوٹو فائل)

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت ہوئی جس میں پی ٹی آئی کی جانب سے مقدمے کے وکیل انور منصور پیش ہوئے۔

پی ٹی آئی کے فنانشل ایکسپرٹ نجم شاہ بھی بنچ کے سامنے پیش ہوئے، جنہوں نے کیس سے متعلق بریفنگ دی۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے بریفنگ دیتے ہوئے بنچ کو بتایا کہ کچھ اکائونٹس چل رہے تھے تاہم پی ٹی آئی کو ان کا پتا نہیں تھا اور جب ان اکائونٹس کا پتا چل گیا تو پاکستان تحریک انصاف کی سینٹرل فنانس نے انہیں بند کروا دیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ فنڈنگ میں کسی حد تک بدنظمی اور بدانتظامی کو بھی پی ٹی آئی کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے فنانشل ایکسپرٹ نجم شاہ نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بتائے گئے 11 اکائونٹس کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں, اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں بند کرائے گئے اکائونٹس کو بھی شامل کرلیا۔ اسکروٹنی کمیٹی نے بھی کچھ اکائونٹس کو دو بار لکھا ہوا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ کچھ اکائونٹس ایسے بھی ہیں جن میں کوئی فنڈنگ بھیجی یا وصول ہی نہیں ہوئی۔ جس پر الیکشن کمشنر کے رکن نثار درانی نے جواب دیا کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اکائونٹس پی ٹی آئی کے ہی ہیں اور کیا رقم بھیجنے اور وصول کرنے والے اکائونٹس پی ٹی آئی کے ہی ہیں؟

رکن الیکشن کمیشن نثار درانی نے پی ٹی آئی کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا سالانہ گوشواروں کی رپورٹ میں یہ رقوم الیکشن کمیشن میں بتائی گئی ہیں؟ جس پر انور منصور نے کہا کہ تمام رقوم الیکشن کمیشن میں بتائی ہوئی ہیں۔

پی ٹی آئی کے فنانشل ایکسپرٹ نجم شاہ نے اپنی بریفنگ میں بنچ کو مزید بتایا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے سال 2012-13 میں 14 کروڑ 64 لاکھ روپے کی اوور سٹیٹمنٹ کی جب کہ پی ٹی آئی نے سال 2012-13 میں 1 ارب 5 کروڑ روپے کی فنڈنگ وصول کی۔

نجم شاہ نے مزید کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی غلط کیلکولیشن کے باعث سال 2012-13 میں 14 کروڑ 64 لاکھ روپے زائد شامل کیے گئے جب کہ اسکروٹنی کمیٹی کے پاس اسٹیٹ بینک سے ریکارڈ مانگنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اسکروٹنی کمیٹی درحقیقت پی ٹی آئی آڈٹ ریکارڈ کا اسٹیٹ بینک رپورٹ سے موازنہ کر رہی تھی۔

اس موقع پر رکن الیکشن کمیشن نثار درانی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اسکروٹنی کمیٹی کا اسٹیٹ بینک کو لکھنے کا اختیار نہیں تھا؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے اختیار استعمال کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کو خط لکھا، اسٹیٹ بینک نے کئی ایسے بینک اکائونٹس ریکارڈ میں شامل کیے جن کا پی ٹی آئی کو پتا ہی نہیں تھا۔

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے وضاحت کی کہ انفرادی طور پر کھلوائے گئے اکائونٹس کا پی ٹی آئی سینٹرل فنانس ونگ کو معلوم نہیں تھا۔ انفرادی اکائونٹس میں جو رقوم اکٹھی کی گئی وہ پی ٹی آئی آڈٹ میں شامل نہیں کی گئیں۔ آڈٹ رپورٹ میں پی ٹی آئی سینٹرل فنانس ونگ کے اکائونٹس کی تفصیلات ہی شامل تھیں۔

بریفنگ کے دوران پی ٹی آئی کے فنانشل ایکسپرٹ نجم شاہ نے کہا کہ ہم نے اپنے اعتراضات اسکروٹنی کمیٹی میں جمع کرا دیے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی۔

وکیل پی ٹی آئی انور منصور نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر اس کیس کی وجہ سے پی ٹی آئی کا تاثر خراب جارہا ہے۔ میں فنانشل ایکسپرٹ کے ساتھ بیٹھ کر کل بتا دوں گا کہ ہمیں مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔

چیف الیکشن کمشنر نے اس موقع پر کہا کہ یہ تمام ریکارڈ سمجھانا پانچ منٹ کا کام ہے جب کہ ہمیں آپ کا ریکارڈ زبانی یاد ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن اس معاملے کو مزید التوا میں نہیں جانے دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ معاملہ دانستہ طور پر لٹکایا جا رہا ہے۔

الیکشن کمیشن نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔