روس یوکرین جنگ میں نفع و نقصان کس کا

آگ اور بارود کا یہ کھیل نہایت قلیل طبقے کےلیے فائدہ مند بھی ثابت ہوتا ہے

اس جنگ نے مہنگائی کی ایک نئی عالمگیر لہر کو جنم دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD:
امسال فروری میں روسی افواج نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ ابتدا میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ روس کا یوکرینی دارالحکومت کیف پر جلد از جلد قبضہ کرنے کا ارادہ ہے۔ مگر یوکرینی افواج کی طرف سے غیر متوقع مزاحمت کے بعد روس نے اپنی فوجوں کا رُخ ساحلی شہر ماریوپول اور چند دوسرے مشرقی شہروں کی طرف موڑ دیا۔

 

قصور کس کا؟


ظاہر ہے کہ حملہ آور ملک کو کسی طرح بے قصور قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام بالکل بے قصور قرار دیے جاسکتے ہیں اور اصل ناقابل تلافی نقصان بھی اسی طبقے کا ہوتا ہے۔ یورپی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں صرف روس ہی کو قصور وار قرار دیا جارہا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے روس کی طرف سے دہرائے جانے والے تحفظات کا بہت کم ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روسی ذرائع ابلاغ بھی سارا ملبہ یوکرین اور اس کے اتحادیوں پر ڈال رہے ہیں۔

ماسکو کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے یوکرین میں روسی نژاد آبادی کی نسل کشی کا عمل جاری ہے۔ خاص طور پر ڈونباس میں یوکرینی حکومت کے مظالم کو روس نازی حکومت سے تشبیہ دیتا رہا ہے۔ دوسری طرف کیف اور اس کے یورپی اتحادی ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے رہے ہیں۔

ماسکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ گورباچوف کے دور میں اور اس کے بعد کیے جانے والے معاہدوں کی یورپ اور امریکا کھل کر خلاف ورزی کرتے رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں نیٹو میں توسیع کرتے ہوئے خطرناک ہتھیار روسی سرحدوں کے قریب نصب کردیے گئے ہیں جو روس کی سلامتی اور پائیدار ترقی کےلیے بڑا خطرہ ہیں۔

 

نقصان کس کا؟


جنگ میں سب سے زیادہ نقصان ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے۔ یوکرین میں ہزاروں لوگ موت کے منہ میں جاچکے ہیں اور قریب ایک کروڑ لوگ اندرون ملک یا بیرون ملک نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور وہ زندگی بھر کی جمع پونچی کھو چکے ہیں۔ جو شہر ابھی تک جنگ کا میدان نہیں بنے وہاں خوف کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

یوکرین کے اتحادیوں کی جانب سے عائد کردہ معاشی پابندیوں سے روسی عوام بھی متاثر ہوئے ہیں، جن کی اکثریت بہرحال اس جنگ کی حامی نہیں ہے۔ دوسری طرف کئی تنظیموں نے روسی اور بیلاروسی کھلاڑیوں کو متعدد بین الاقوامی مقابلوں سے بے دخل کردیا ہے۔ بیلاروس کو روس کی پُرزور سفارتی حمایت کی سزا دی گئی ہے۔ کھیلوں کی یہی تنظیمیں امریکا اور اسرائیل کے مظالم پر یہ موقف اپناتی ہیں کہ کھیلوں کو سیاست سے پاک رکھنا چاہیے۔


دنیا ابھی کورونا کی عالمگیر وبا کے اثرات سے پوری طرح نکلنے نہ پائی تھی کہ اس جنگ نے مہنگائی کی ایک نئی عالمگیر لہر کو جنم دیا ہے۔

روس اور یوکرین گندم برآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہیں۔ جنگ کے آغاز ہی سے گندم اور کھانے کے تیل کی تجارت میں ان دونوں متحارب ملکوں کا حصہ بہت کم رہ گیا ہے۔ خاص طور پر یورپ اور افریقہ میں مہنگائی گزشتہ کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ روس توانائی کے برآمد کنندگان میں بھی سرفہرست ہے۔ روس ان بنیادی ضروریات کی حامل اشیا کو اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کرچکا ہے اور زرعی اجناس کی برآمد کے بدلے یورپی اور امریکی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اکثر یورپی ممالک روس سے گیس خریدنے سے احتراز کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ روسی اور یوکرینی گندم اور تیل کے خریداروں نے جب متبادل برآمدکنندگان کی طرف نظر اٹھائی تو انہوں نے اجناس کی برآمد کے اصول بدل دیے تاکہ مقامی منڈیوں میں غیر معمولی مہنگائی کو روکا جاسکے۔ مثلاً حال ہی میں بھارت نے گندم اور انڈونیشیا نے پام کے تیل کی برآمد کے نئے اصول متعارف کروا دیے۔

اگر یہ جنگ طویل عرصہ جاری رہی تو دنیا کو کورونا وبا کی نسبت کہیں زیادہ متاثر کرے گی۔

 

فائدہ کس کا؟


ایک جنگ جہاں وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بنتی ہے، وہاں یہی آگ اور بارود کا کھیل نہایت قلیل طبقے کےلیے فائدہ مند بھی ثابت ہوتا ہے۔ دراصل یہی وہ طبقہ ہے جو کہیں نہ کہیں جنگ کے شعلے بھڑکانے میں مصروف عمل رہتا ہے۔

اس جنگ میں بھی امریکا کا کردار پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ کئی برسوں سے جرمنی میں یوکرینی افواج کی تربیت کررہا ہے۔ جنگ کے دوران امریکی خفیہ اداروں کی فراہم کردہ اطلاعات کی بدولت یوکرین نے روس کے اعلیٰ فوجی افسروں پر جان لیوا حملے کیے ہیں اور ایک بڑا روسی جنگی بحری جہاز ماسکوا کو سمندر کی نذر کیا ہے۔ ظاہر ہے اس سے روس مزید غضب ناک ہوکر یوکرین ہی سے بدلہ لے گا اور ایسے عوامل جنگ کو طول دینے کا باعث بنیں گے۔ ایک طویل جنگ روسی معیشت کو کمزور کردے گی اور وہ دنیا بھر میں اسلحہ فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک نہیں رہے گا۔ روسی اسلحے کے خریدار یورپ اور امریکا کا رخ کریں گے۔

روس اور یوکرین کے بعد سب سے زیادہ یورپی معیشت متاثر ہورہی ہے۔ مستقبل قریب میں مختلف تزویراتی محاذوں پر یورپی یونین کی مدد کرتے ہوئے امریکا یورپی یونین کو چین کے خلاف زیادہ بہتر انداز میں استعمال کرسکے گا۔ ادھر روس نے روسی گیس کے خریداروں سے روبل میں قیمت وصول کرنا شروع کردی ہے۔ اسی وجہ سے روبل گزشتہ کئی سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ روس کی کرنسی میں یہ استحکام کتنا دیرپا ثابت ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story