خدا را مکالمہ بند نہ کریں

ایوب خان کے علاوہ باقی فوجی ادوار میں ملک کے اندر کوئی ترقی نہیں ہوئی

gfhlb169@gmail.com

RAWALPINDI:
ایک مضبوط معاشرہ ہی ملک کی سلامتی کا ضامن ہوتا ہے لیکن ہم ایک مضبوط پاکستانی معاشرہ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ معیشت کی تباہ حالی سے ہم ہر طرف کشکول اُٹھائے پھر رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے اندر سے پاکستانی ہونے کا فخر بھی جاتا رہا ہے۔

پچھلے چند ہفتوں میں اس کے کئی ثبوت سامنے آئے۔ جناب عمران خان صاحب نے جب الزام لگایا کہ ان کے خلاف امریکی سازش ہوئی ہے تو امریکا اور دوسرے مغربی ممالک میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں نے امریکا اور مغربی ممالک کے خلاف غصہ نکالنے کے بجائے پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی شناختی کارڈ جلائے حالانکہ جس ملک پر سازش کرنے کا الزام تھا، اس کے خلاف غصہ نکالنا چاہیے تھا۔

سازش اگر تھی تو اس میں ہمارے پیارے ملک کا کیا قصور تھا لیکن غصہ بہت عقلمند ہے، یہ صرف کمزور پر ہی نکالا جاتا ہے، اسی لیے امریکی پاسپورٹ جلا کر وطن واپس لوٹنے کے بجائے پاکستانی شناخت کو آگ دکھائی گئی۔ ایسے لگتا ہے کہ باہم جڑنے کے بجائے اور بیرونی دشمنوں کے خلاف ایک مضبوط آہنی دیوار بننے کے بجائے ہم انتشار، خلفشار اور انارکی سے دوچار ہو رہے ہیں جس کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

1970کی دہائی میں جناب ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان میں روٹی، کپڑا اور مکان کا پرکشش نعرہ دیا۔ اس نعرے کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاسی کمپین کی سوشلزم اور کیمونزم کے نظریات سے آبیاری کی۔ دیکھا گیا کہ بہت سے اساتذہ اور طلباء اپنے سینوں پر ماؤزے تنگ، لینن اور کارل مارکس کے بیجز سجائے پھرتے تھے۔

اس ماحول میں بھٹو صاحب کا سحر توڑتے ہوئے ایک اور جاندار آواز ابھری جس نے سوشلزم اور کیمونزم کے مقابلے میں اسلامی نظریہ حیات کو آگے بڑھایا۔ بھٹو صاحب کی پرکشش شخصیت اور ان کے بہت ہی مقبول نعرے کے بالمقابل اسلامی اساس کی پکار کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ نظریاتی طور پر دو دھڑوں میں بٹ گیا البتہ یہ اختلاف، یہ دھڑے بندی ایک نظریاتی اور نظریے کی بنیاد پر ایک سیاسی اختلاف تھا۔

اس لیے پاکستانی معاشرے میں کہیں کوئی دراڑ نہیں پڑی۔ لوگ آپس میں اختلاف کرتے تھے، چائے کی پیالی پر گرما گرم بحث ہوتی تھی، کتابوں کے حوالے دیے جاتے تھے، عالمی اسکالرز کے اقوال کے حوالے پیش کیے جاتے تھے لیکن آخر میں دونوں فریق مسکراتے، ہاتھ ملاتے اور پھر مل کر بحث کو آگے بڑھانے کا وعدہ کر کے جدا ہو جاتے تھے۔

بھٹو صاحب کے بعد ان کے چاہنے والے نظریات کے سہارے آگے بڑھتے رہے لیکن سحر انگیز شخصیت کی غیر موجودگی میں سوشلزم کی اپیل کمزور سے کمزور پڑتی گئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج پاکستان میں سوشلزم کو ایک نظریے کے طور پر اپنانے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ادھر سوشلزم اور کیمونزم کے گھر ماسکو میں بھی حالات نے پلٹا کھایا اور آج وہاں بھی ان نظریات کا کوئی پرچارک نہیں رہا۔ فی الوقت یہ نظریہ چین کی کیمونسٹ پارٹی کی وجہ سے زندہ ہے۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی نے ملک کی کایا پلٹ دی ہے۔

آج چین بہت تیزی سے ترقی کرتا ایک ملک ہے لیکن یہ محیرالعقول ترقی کیمونسٹ نظریات کی بدولت نہیں بلکہ ایک پارٹی کے مسلسل برسرِ اقتدار رہنے کی وجہ سے ہے جس کی بدولت ملک میں سیاسی استحکام ہے۔ چین کو یہ ثمر سیاسی استحکام اور علم و آگہی میں زبردست سرمایہ کاری نے دیا ہے۔ پاکستان میں ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف کے لمبے ادوار میں سطحی سیاسی استحکام دیکھنے میں آیا اور معاشی پالیسیوں کو لمبے عرصے تحفظ رہا لیکن ایوب خان کے علاوہ باقی فوجی ادوار میں ملک کے اندر کوئی ترقی نہیں ہوئی اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ وقت ضایع گیا حالانکہ ڈکٹیٹر کے پاس ملک کو تیزی سے ترقی دینے کا بہت موقع ہوتا ہے۔


ہمارے سیاسی افق پر 2010 سے پہلے جتنے بھی سیاسی رہنماء ابھرے ان کے درمیان شدید سیاسی اختلافات کے باوجود گالم گلوچ، بد تمیزی اور بد اخلاقی نظر نہیں آئی۔ جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے کے اوپر تابڑ توڑ حملے تو ہوتے رہے لیکن رکھ رکھاؤ جاری رہا اور ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان کے درمیان مکالمہ بند ہوگیا ہو اور علیک سلیک جاتی رہی ہو یا گالم گلوچ کی نوبت آئی ہو۔

دراصل پارلیمانی نظام میں یہ وصف ہے کہ وہ آج کی حکومت کو کل کی اپوزیشن اور آج کی اپوزیشن کو کل کی حکومت بننے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پھر پاکستان کے آئین میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ دونوں اطراف کو کئی مواقعے پر مل بیٹھنے اور باہمی گفت وشنید سے کئی اہم معاملات طے کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں کئی ایک اعلیٰ عہدوں پر تقرری کے لیے ضروری ہے کہ لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف دی اپوزیشن باہم صلاح مشورے سے یہ تقرریاں کریں تاکہ قابل، اچھے اور غیرجانبدار افراد کو آگے لایا جا سکے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے ممبران، چیئرمین اور نیب کے چیئرمین کی تقرریاں خاص طور پر دونوں اطراف کو ایک جگہ بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ بہت ہی اہم سیکیورٹی معاملات پر بات چیت کے لیے بھی وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر،نیشنل سیکیورٹی کونسل میں اکٹھے مل سکتے ہیں۔

سیاسی قیادت کے درمیان باہمی اعتماد جمہوریت کی اساس ہے۔ تمام قائدین کے سامنے عوام کی فلاح ہونی چاہیے۔ اپنے اپنے پروگرام کے ساتھ سب کی ایک ہی منزل ہے یعنی روشن پاکستان۔ پاکستان کے تمام سیاسی رہنما ہمارے اپنے ہیں۔ ہم ان میں سے کسی کے سیاسی افکار سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ پاکستانی ہیں اور ہمارے لیے قدر و منزلت کے حامل ہیں۔ میں بصد احترم یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ جناب عمران خان نے اپنے انتہائی تند و تیز لہجے اور بے لچک رویے سے فریقِ ثانی کو اپنے سیاسی حریف کے بجائے دشمن کا درجہ دے دیا ہے۔حکومت میں آنے سے پہلے ہی ان کا لہجہ بہت تلخ ہو چکا تھا اور وہ بے لچک ہو چکے تھے۔

پارلیمنٹ میں انھوں نے کبھی اپوزیشن سے بات نہیں کی۔ پاکستان اور ہندوستان کی افواج دونوں ایک دوسرے کو نشانے پر رکھتی ہیں لیکن شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ دونوں اطراف کے چیف آف آرمی اسٹاف آمنے سامنے آئے ہوں تو ایک دوسرے کو عزت نہ دی ہو، سیلوٹ نہ کیا ہو اور ہاتھ نہ ملایا ہو۔ مسلم لیگ کی سینئر نائب صدر محترمہ مریم نواز کا لہجہ بھی انتہائی تند و تیز ہے، یہ ہم سب کا اپنا ملک ہے۔ اس کی ترقی اور عوامی فلاح ہم سب کا نصب العین ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے سیاسی رہنماء اپنی اپنی انا کے حصار میں قید ہیں۔ انانیت ایک منفی رویہ ہے۔

اس سے مسائل حل ہونے کے بجائے الجھتے ہیں۔ اس سے ہم آہنگی کے بجائے انارکی پھیلتی ہے۔ عظیم فلسفی اور استاد سقراط کی درسگاہ کا ایک اصول یہ تھا کہ شرکائیِ درس میں سے اگر کسی کی آواز ایک خاص حد سے اونچی ہو جاتی تھی یا وہ دھمکی آویز لہجے میں بولتا تھا یا بات کرتے ہوئے الجھتا تھا تو اسے تنبیہ کی جاتی تھی، اصلاح کا موقع دیا جاتا تھا لیکن عدم اصلاح کی صورت میں درسگاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔

سقراط کا کہنا تھا کہ برداشت ایک زندہ معاشرے اور سوسائٹی کی روح ہوتی ہے۔ جب برداشت ختم ہو جائے، گفتگو نہ ہو سکے تو مکالمہ بند ہو جاتا ہے اور مکالمہ بند ہونے سے ہر طرف وحشت چھا جاتی ہے۔ دلیل کے ساتھ بہترین پیرائے میں اختلاف اچھی تعلیم و تربیت کا پتہ دیتی ہے۔ کسی بھی قوم میں مکالمہ بند ہونا اور سلجھے ہوئے طریقے سے اختلاف کرنا ختم ہو جائے تو معاشرہ بکھر جاتا ہے۔ ہاتھ اور بات میں فرق ضرور ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔

اگر ہم صدقِ دل سے اپنے موجودہ معاشرے کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہم پہلے ہی بکھر چکے ہیں۔ ہم انارکی کی گرفت میں ہیں۔ ہم ایک قوم نہیں رہے۔ ہمیں آنے والے کل اور اگلی نسل کے لیے ایک مضبوط، توانا اور ترقی کرتا پاکستانی معاشرہ استوار کرنا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں بلکہ روشن مستقبل کی نوید بننا ہے۔
Load Next Story