بوڑھے افراد کا سست روی سے چلنا ذہنی بیماری کی علامت
چلنے کی رفتار اور دماغی افعال کے درمیان تعلق دماغ کے دائیں hippocampus کے سکڑنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے، ماہرین
RAWALPINDI:
آسٹریلیا میں حال ہی میں ہوئی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وہ بوڑھے افراد جو غیر معمولی طور پر سست رفتار سے چلتے ہیں، انہیں اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کا طبی معائنہ کروانا چاہیے۔
ماہرین کی جانب سے کیے گئے مطالعے میں 65 سال سے زائد عمر کے تقریباً 17,000 افراد کو شامل کیا گیا اور پایا کہ جو شرکا تقریباً 5 فیصد یا اس سے بھی زیادہ دھیمی رفتار سے چلتے ہیں اور ان کی یادداشت سے متعلق بھی مسائل ہیں تو ان میں ذہنی مرض ڈیمنشیا کا سب سے زیادہ امکان تھا۔
مطالعہ کی مصنف اور آسٹریلیا میں موناش یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو، ٹایا کولیئر نے کہا کہ یہ نتائج ڈیمنشیا کی تشخیص میں چلنے کے انداز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
یہ نتائج 2020 میں ہوئے تقریباً 9,000 امریکی بالغوں کے مطالعے کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں چلنے کی سست رفتار اور یادداشت میں کمی اور مستقبل میں ڈیمنشیا کے خطرے کے درمیان تعلق پایا گیا تھا۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چلنے کی رفتار اور دماغی افعال کے درمیان تعلق دماغ کے دائیں hippocampus کے سکڑنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے. ہیپوکیمپس دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جو سیکھنے، یاد رکھنے اور راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پچھلے مطالعات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایروبک ورزش جیسے چلنا، دوڑنا، تیراکی کرنا، سائیکل چلانا وغیرہ ہپپوکیمپس کو بڑا کر سکتا ہے اور یادداشت کو بہتر بنا سکتا ہے۔