طالبان حکومت کی صورت حال

طالبان کو سیاسی اور مذہبی دونوں محاذوں پر سنگین مسائل درپیش ہیں

jamilmarghuz1@gmail.com

افغانستان کی طالبان حکومت کو برسر اقتدار آئے 9مہینے ہوگئے ہیں' سیانوں کا کہنا ہے کہ کسی حکومت کی آیندہ کارکردگی معلوم کرنے کے لیے اس کے پہلے 100دن کی حکمت عملی کا جائزہ لینا چاہیے' اس لیے میں نے ان کے 100سے زیادہ دنوں کا جائزہ لیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کو سیاسی اور مذہبی دونوں محاذوں پر سنگین مسائل درپیش ہیں' کیونکہ نہ وہ کسی کی مانتے ہیں اور نہ ان کی کوئی بات سنتا اور مانتا ہے۔

ایک خبر کے مطابق' ترکی میں پناہ گزین چالیس کے قریب سابق افغان رہنماؤں اور سیاستدانوں نے انقرہ میں رشید دوستم کی رہائش گاہ پر ایک اہم اجلاس کیا' اجلاس میں طالبان حکومت کے خلاف مزاحمت کے لیے ''قومی مزاحمت کی ہائی کونسل ''نامی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

انھوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ ایک وسیع البنیاد حکومت بنائی جائے یا پھر مزاحمت کا سامنا کرے۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد کئی سیاست دان اور دیگر رہنماء افغانستان چھوڑ کر دوسرے ملک چلے گئے تھے۔ ''قومی مزاحمت کی ہائی کونسل'' تنظیم کے بانی ارکان میں افغانستان کے صوبہ بلخ کے گورنر عطا محمد نور' ہزارہ منگول کمیونٹی کے رہنماء محمد محقق اور نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (NRF) کے احمد ولی مسعود شامل ہیں۔

پنجشیر میں NRF کی قیادت' احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کر رہے ہیں' طالبان کو یہاں پر سخت مسلح مزاحمت کا سامنا ہے' 90 کی دہائی میں طالبان کی حکومت کے خلاف پنج شیر طالبان مخالف جدوجہد کا گڑھ تھا۔

طالبان نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تمام خواتین مکمل برقع بند ہو کر باہر نکلیں' یہاں تک کہ ٹی وی پر آنے والی خواتین اینکرز بھی پردے میں پروگرام کریں' اس مضحکہ خیز حکم کی بین الاقوامی رائے عامہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل مخالفت کر رہی ہیں۔

افغانستان میں بھی خواتین جتنا ممکن ہے، احتجاج کررہی ہیں لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا اس معاملے پر خاموش ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی، اے این پی اور بلوچستان میں محمود اچکزئی جیسے قوم پرست اور لبرل کہلانے والی پارٹیاں دیگر کام تو کررہی ہیں لیکن اس معاملے پر ان کی کوئی توجہ نہیں ہے یا وہ اسے کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں سمجھتے، ہاں اگر سندھ اور پنجاب میں کوئی بات ہوجائے تو سب یک زبان ہوکر تنقید کا آغاز کر دیں گے۔

افغانستان میں داعش اور دوسری تنظیمیں سرگرم ہیں، ہر روز خود کش اور بم دھماکے اور مسلح جھڑپیں ہورہی ہیں' اس کے علاوہ پاکستان کی تحریک طالبان بھی سرگرم ہے اور پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے' اب ایک بار پھر کئی روز سے افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستان کے حکام اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔

یہ مذاکرات بھی اس وقت شروع ہوئے جب تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے جواب میں پاکستان نے افغانستان کے اندر قائم ان کے تربیتی کیمپوں پر بمباری کی جس سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا' تب افغان طالبان کو خطرات کی سگینی کا احساس ہوا اور TTPکو مذاکرات پر آمادہ کیا' پاکستان کے حکام کو اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ افغان طالبان کا اس تنظیم کو ختم کرنے یا ٹی ٹی پی کے مطلوب لوگوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ برابری کی سطح پر حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ کیا' اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کی شرائط بڑی عجیب ہیں' ان کے مطالبے پر کئی رہنماء رہا کیے جا چکے ہیں۔ 30مئی تک جنگ بندی کے بعد اب مستقل جنگ بندی کی تجویز ہے۔

ان کے مطالبات میں قیدیوں کی رہائی' وزیرستان اور سابقہ FATAسے فوج کے انخلاء' ماضی کی طرح مقامی ملیشیاء کو سیکیورٹی ذمے داریوں کی واپسی'سابقہ فاٹا کی بحالی' اسلامی شرعی نظام کا نفاذ اور امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ کی رہائی بھی شامل ہے' اب دیکھنا ہے کہ پاکستان ان مطالبات پر کہاں تک عمل کر سکتا ہے۔؟ کل کے اخبارات میں بھی کابل اور دیگر شہروں میں دھماکوں کی اطلاعات شایع ہوئی ہیں جن میں کافی جانی نقصان ہوا ہے۔


یہ تو افغانستان کی موجودہ صورت حال ہے، اب طالبان کی حکمت عملی اور سیاسی صورت حال کا جائزہ بھی لیں گے۔

اگست 2021 کو امریکی انخلاء کے بعد کابل اور افغانستان پر طالبان نے قبضہ کیا' اب وہ اپنے مذہبی و سیاسی ایجنڈے اور پروگرام پر عمل درآمد میں مکمل طور پر آزاد ہیں' وہ جس پالیسی کو صحیح سمجھتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں' یہ بات انھوں نے خاص کر عورتوں کی تعلیم اور پردے پر اپنے عمل سے ثابت کیا ہے۔

ابھی وہ اس کوشش میں ہیں کہ اپنی حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرا لیں' اسی لیے وہ فی الحال اپنے اصلی ایجنڈے پر احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں' افغانستان پر قبضے کے 9ماہ بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کو اس امر کا احساس ہوگیا ہے کہ ان کی حکومت کو اتنی جلدی عالمی طور پر تسلیم کیے جانے کا امکان نہیں ہے' اگر کبھی اس کا موقع آیا بھی تو ان کے اس ایجنڈے کی قیمت پر ہوگا' جس کے لیے انھوں نے سالوں تک لڑائی کی ہے۔ دنیا کے طاقتور ممالک اور اقوام طالبان کی باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کا مطالبہ وعدے یا کریں گے کے الفاظ نہیں بلکہ دیکھیں ہم کردیا ہے پر ہے۔

طالبان سوچ تبدیل کرنے، معتدل اور جمہوری سیاسی قوت بننے پر تیار نہیں ہیں' اب انھوں نے اپنے اصلی ایجنڈا لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے' یہ ایجنڈا کچھ عرصے کے بعد ظاہر ہوجائے گا' توقع کے عین مطابق انھوں نے شروعات خواتین پر مزید پابندیوں سے کی ہے۔

خواتین پر سرکاری ملازمتوں' اعلیٰ تعلیم کے حصول' اور گھر سے باہر اکیلے باہر نکلنے پر پابندیاں لگانے کے بعد اب انھوں نے ایک اور حکم جاری کیا ہے کہ خواتین باہر نکلتے وقت سر سے پاؤں تک اپنے بدن کو برقع سے ڈھانپیں۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کے زیر قیادت افغانستان ایسا ملک بننے جارہا ہے، جہاں سوائے ایک گروہ کے کوئی اور باقی نہ رہے اور اگر رہے بھی تو تیسرے درجے کا شہری بن کر رہے۔

ملک کا آئین و قانون اور نظریہ وہی ہو جو طالبان کا ہے اور وہ عالمی ذمے داریوں سے باہر ہو۔ بین الاقوامی تعلقات قائم رکھنے میں کئی فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں' جن میں سب سے اہم' انسانی حقوق اور باہمی تعلقات کے بارے میں عالمی قانونی اور سیاسی روایات پر عمل کرنا ہوتا ہے' جن کی وجہ سے بعض اوقات ریاستوں کی اپنی روایات بھی تبدیل کرنی پڑتی ہیں لیکن' طالبان اس سلسلے میں ترقی معکوس کی طرف جا رہے ہیں۔

طالبان کا خیال تھا کہ وہ اپنی عقلمندی سے عورتوں کی تعلیم اور ایک وسیع بنیاد حکومت بنانے کے جعلی وعدے کرکے دنیا کو دھوکا دے دیں گے' شاید ان کا خیال تھا کہ جب امریکا منجمد فنڈز کی ادائیگی کر دے گا اور چند اہم ممالک ان کی حکومت کو تسلیم کرلیں گے تو اس کے بعد وہ اپنے اصلی ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کریں گے۔

ان کے احکامات کو جائز ثابت کرنے کے لیے بعض لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ان کے رجعت پسند ذہن کو عالمی روایات کے مطابق ڈھالنے میں وقت لگے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دوسری چیزوں کے علاوہ ان کی حکومت ہمسایہ ممالک کے سیکیورٹی خدشات کو ختم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔

طالبان حکومت اب تک داعش کے خطرے کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے طالبان حکومت کے اپنے ہمسایے ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

یہ صحیح ہے کہ طالبان کی سیاست کا محور افغانستان ہے لیکن داعش ایک وسیع عالمی نظریے اور ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے اور طالبان حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے' بین الاقوامی برادری اور خاص کر چین' روس' پاکستان اور سینٹرل ایشیائی ریاستیں امید کر رہی تھیں کہ طالبان داعش اور القاعدہ کو کنٹرول کر لیں گے' طالبان کی قیادت دعوے کر رہی تھی کہ وہ داعش کو چند ہفتوں میں نیست و نابود کردے گی' اس کے برعکس داعش نے طالبان کے لیے اندورونی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ پاکستان' تاجکستان اور ازبکستان کی تشویش بڑھ رہی ہے۔ طالبان کے بارے میں ان قوتوں میں بھی نفرت بڑھ رہی ہے ' جنھوں نے افغانوں کے ساتھ مکمل امن کا وعدہ کیا تھا۔ طالبان کی حکمت عملی کی کہانی جاری ہے۔
Load Next Story