صحافت کٹھن راستہ ہے

پروفیشنل اور میڈیم کلاس صحافی اپنی عزت و توقیر کی خود حفاظت کرتے ہیں

meemsheenkhay@gmail.com

BEIJING:
تمام تر مشکلات میں صحافی، قوم کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، یہ تشدد اور دیگر پابندیاں، تکالیف صرف عوام کے لیے برداشت کرتے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ (مرحوم) صحافیوں سے ہمیشہ محبت سے پیش آتے تھے، نوجوان صحافیوں کو بیٹا کرکے بات کرتے تھے۔ سندھ کے صوبائی وزیر، امداد حسین شاہ ایم پی اے وصوبائی وزیر، پی پی پی جو روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ سینئر صحافی نادر شاہ عادل کے حقیقی بھائی تھے۔

انتہائی تہذیب دار انسان تھے، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سلجھی ہوئی طبیعت کے انسان ہیں اور ہمیشہ شائستگی سے گفتگو کرتے ہیں۔ شرجیل میمن بھی باادب اور خوبصورت دل کے انسان ہیں۔ راقم سے ایک دفعہ ایک سابق وفاقی وزیر نے بہت زیادہ بدتمیزی سے گفتگو کی۔ ہمارے پاس اس کا ایک ہی جواب تھا کہ نہ جانے آپ 5 سال بھی پورے کرتے ہیں یا نہیں۔ مگر یہ یاد رکھیں ہمارا تو اوڑھنا بچھونا ہی صحافت ہے۔

قارئین گرامی! بہت سی باتیں جو زیادتی کے زمرے میں آتی ہیں ہم حضرات اس کا تذکرہ نہیں کرتے کہ قارئین صحافیوں کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ صحافی حضرات تعمیری و مثبت کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی کی توہین و تذلیل ان کا کام نہیں ہوتا۔ کچھ قارئین ہو سکتا ہے کہ میری تحریر سے اتفاق نہ کریں مگر پروفیشنل اور میڈیم کلاس صحافی اپنی عزت و توقیر کی خود حفاظت کرتے ہیں۔ ہم تو قوم کے حقوق کے لیے قلم کی جنگ لڑتے ہیں۔

راقم تو اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ قبر کے اندر کی تیاری ہمیں خود کرنی ہوگی باہر سے ماربل اور چمک دمک تو کوئی نہ کوئی لگا دے گا، گزشتہ دنوں کے یو جے کے صدر اعجاز احمد اور جنرل سیکریٹری عاجز جمالی نے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن سے خصوصی ملاقات کی، اس موقع پر وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے وعدہ کیا کہ وہ سندھ کے صحافیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس اور لائف انشورنس کے پروگرام کا آغاز کریں گے اور اس میں ان کے اہل خانہ کو بھی شامل کیا جائے گا۔

شرجیل انعام میمن ذاتی زندگی میں بہت اصول پسند شخص ہیں اور وہ جو وعدہ کرتے ہیں اس کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے کے یو جے سے وعدہ کیا کہ وہ میڈیکل کے حوالے سے اپنی پوری کوشش کریں گے اس سادہ مگر پروقار ملاقات میں سیکریٹری اطلاعات عبدالرشید سولنگی، ڈائریکٹر سلیم خان پی ایف یو جے کے صدر جی ایم جمالی بھی قابل ذکر تھے۔ ماضی کی حکومت تو ہیلتھ کارڈ صحافیوں کو نہ دے سکی مگر پی پی پی ہمیشہ صحافیوں کے مسائل کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے اور شرجیل میمن یقینا ان مسائل کو بہت جلد مکمل کرکے صحافیوں سے مثبت تعلقات کو فروغ دیں گے ۔

صحافت سے وابستہ تنظیم کے یو جے کے صدر اعجاز احمد اور جنرل سیکریٹری عاجز جمالی پرامید ہیں کہ شرجیل میمن میڈیکل اور انشورنس کے حوالے سے بہتر فیصلہ کرنے میں یقینا کامیاب ہوں گے۔

گزشتہ دنوں مسقط میں 31 ویں آئی ایف جے ورلڈ کانگریس کے دوران پی ایف یو جے کے صدر جی ایم جمالی پینل کے صدر نامزد ہوئے۔ ان کی صدارت میں آزادی صحافت، صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے مختلف قراردادیں منظور کی گئیں جس میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ انگریزی، فرنچ، عربی کے ساتھ اردو زبان کو بھی بطور آفیشل لینگویج منظور کرنے کی قرارداد پیش کی گئی جس کو تمام صحافیوں کی تنظیموں نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔ یہ کام پی ایف یو جے نے بہت بڑا کیا کہ گلف میں انگلش اور عربی میں خبر ہوتی تھی اب گلف (عرب ممالک) میں اردو میں بھی نیوز پرنٹ ہوا کرے گی۔

پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیا کے جو شہری وہاں کام کر رہے ہیں وہ بھی خبر کو آسانی سے پڑھ سکیں گے۔ اس بہترین کوشش پر صحافی حضرات پی ایف یو جے کے صدر جی ایم جمالی کو اور ان کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اس سے گلف میں روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔ صحافی تو بے چارہ مسکین ہوتا ہے، اداروں کے بارے میں سچائی سے لکھیں تو ادارہ ناپسند کرتا ہے ، عوامی مسائل پر لکھوں تو سیاسی اختلافات، حکومت کی اچھائی پر روشنی ڈالوں (جو بہت کم پڑتی ہے) تو قارئین گلہ کرتے ہیں اور کوتاہی پر لکھو تو سیاسی حضرات ناراض ہو جاتے ہیں۔


ریاست کے اس چوتھے ستون کو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بہت کم سراہتے ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے! آپ تصور نہیں کرسکتے کہ ہر سچائی کے لفظ کا ہم صحافیوں کو سیاسی طور پر جواب دینا ہوتا ہے، یہ بہت کٹھن شعبہ ہے۔ صحافی کسی محفل میں جو نجی ہو وہاں بیٹھ جائیں اور جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صحافی ہیں تو بس پھر خیر نہیں ہوتی۔

جب کوئی فرد صحافی کا محفل میں تعارف کرواتا ہے کہ مثال کے طور پر یہ میرے کزن ہیں، یہ میرے دوست ہیں، یہ میرے بہنوئی ہیں، بس اس کے بعد آپ کی خیر نہیں۔ تیروں کے انداز آپ پر جو برسائے جاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ تقریب آپ کو شرمندہ کرنے کے لیے سجائی گئی تھی۔ مختلف پارٹیوں سے وابستہ افراد آپ کو اس بات کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ پارٹی آپ کی وجہ سے ہاری، آپ کی وجہ سے رسوا ہوئی۔ آپ کو یہ اختیار نہیں کہ آپ مہنگائی، چور بازاری، دادا گیری، لوٹ مار غرض آپ کچھ نہ لکھیں کیونکہ آپ کی زرد صحافت کی وجہ سے ہماری پارٹی جیت نہ سکی۔

آپ بطور صحافی اس معتبر جمہوری نظام کے لیے کچھ بھی لکھتے رہیں مگر یہ صرف تحریروں تک ہے، جمہوری نظام میں جمہوریت تو دور دور تک نظر نہیں آتی اور میں بہت وثوق سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہر آنیوالی حکومت شروع میں ایک یا دو ماہ صحافت کی حفاظت اور صحافیوں کی سہولتوں کے لیے غم زدہ نظر آتی ہے، تقویت کے بیانات دیے جاتے ہیں اور یہ معصوم صحافی صبح و شام ان کے بیانات کو لکھتے ہیں، پھر ایک ماہ بعد صحافیوں کے لکھنے کے بعد پتا لگ جاتا ہے قوم کو کہ کون کون سے حضرات کس کس وزارت سے وابستہ ہوئے ہیں۔

اس کے بعد تو صحافت کی بقا کے دعوے کرنیوالے آل راؤنڈر بن جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صحافت کو کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں ایک صوبائی وزیر تھے ان کے محکمے کا نام میں نے نہیں لکھا، انھوں نے صحافیوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہمیشہ کیا۔ موصوف 7 سال تک وزیر رہے جب بھی کوئی پریس کانفرنس کرتے صحافیوں سے بدتمیزی کا مظاہرہ ضرور کیا کرتے تھے۔ ہم تو آج بھی روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں مگر ان کی وزارت کے خاتمے کے بعد ان کی گردن میں جو سریا تھا وہ وقت نے نکال دیا۔

آج ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے بلکہ اس شہر میں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اگر کبھی کسی تقریب میں غلطی سے آجاتے ہیں تو لوگوں کی ٹھوڑیاں پکڑ کر بات کرتے ہیں جب کہ موصوف کافی عرصے خاص وزارت سے منسلک رہے کاش وہ اس وقت صراط مستقیم پر رہتے تو آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ جناب وقت بدل جاتا ہے مگر انسان تو وہی رہتا ہے لہٰذا ہمارے وزرا کو یہ بات سمجھ دانی میں بٹھا لینی چاہیے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا، اب تو وہ اپنی بانسری خود بجا رہے ہیں، لہٰذا میں تو سمجھتا ہوں کہ سیاسی حضرات کو میانہ روی دکھانی چاہیے یہ گاڑیاں اور جھنڈے بڑے بے وفا ہوتے ہیں لہٰذا ان سے وفا کی امید نہ رکھیں۔ میرا رب تو کہہ رہا ہے کہ ''ساری تعریفیں میرے لیے ہیں میں دونوں جہانوں کا رب ہوں۔''

انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے

میری بات کو ختم کردیتا ہے وقت سے پہلے

ہم کسی کے ممنون نہیں ہوتے کہ ہمیں لوگوں سے امید نہیں، ہاں ہمارے دل میں ہمارا ادارہ قابل احترام اور قارئین قابل محبت ہوتے ہیں، یہی تو وہ لوگ ہیںجن کی وجہ سے ہم اب تک زندہ ہیں۔
Load Next Story