عام آدمی کے لیے ہمدرد جمہوریت کا راستہ
ڈرامےکا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئےمیں انتہائی ایمانداری سے اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ وینا ملک ایک پیدائشی نقال ہیں
SUKKUR:
ذرا''وکھری'' نوعیت کی زندگی گزارتے ہوئے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہنا اپنے تئیں کوئی بڑے کمال کی بات نہیں۔ اصل کمال تو اس وقت محسوس ہوتا ہے جب آپ لوگوں کے دلوں میں اپنی ذات کے بارے میں موجود منفی نوعیت کے جذبات کو اپنا Imageانقلابی انداز میں تبدیل کرتے ہوئے ستائش سمیٹنا شروع کردیں۔ وینا ملک اس حوالے سے کمال کیے چلے جا رہی ہیں اور کسی ایک مقام پر تھم جانے کو ہرگز تیار نظر نہیں آرہیں۔
Mimicryہمارے ہاں کا ایک قدیم فن ہے جسے بدقسمتی سے چند لوگوں کا خاندانی پیشہ ٹھہراکر عزت کا مقام نہ دیا جاسکا۔ چوہدریوں اور زر والوں نے نقالوں کو اپنے مخالفین کی بھد اُڑانے کے لیے بھی اکثر استعمال کیا۔ جمہوری معاشروں میں لیکن جب تھیٹر متوسط طبقے کی سرپرستی میں آیا تو مزاح نگاروں نے نقالی کے اسی فن کے ذریعے حکمران طبقات کی روایتی منافقت، بے حسی اور سفاکیت کو بے نقاب کرنا شروع کردیا۔ اور بالآخر 24/7ٹی وی نے مزاحیہ Slotsکے نام پر اس روایت کو گھر گھر پہنچا دیا۔ عین اس وقت جب امریکا میں بیٹھے لوگ سنجیدہ قسم کی خبریں دیکھ رہے ہوتے ہیں توJon Stewartجیسے کئی نقال اپنے انداز میں ''اہم خبریں'' سنانا اور ان پر تبصرہ آرائی شروع کردیتے ہیں۔ کبھی ''بھانڈوں''سے وابستہ انداز کے ذریعے حالاتِ حاضرہ کے اس بیان کی خوب پذیرائی ہوئی۔ اوبامہ اور اس کی بیوی کو ایسے پروگراموں میں جانا پڑتا ہے۔ ہمارے ایک مرد آہن۔جنرل پرویز مشرف۔ کو جب ہمایوں گوہر سے لکھوائی اپنی ''آپ بیتی'' کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کی ضرورت پڑی تو وہ بھی Stewartکے ایک پروگرام میں گئے۔ اب تو حسین حقانی بھی اس کے ایک اور پروگرام میں رونما ہوچکے ہیں۔ خدا خیر کرے۔
ڈرامے کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں انتہائی ایمانداری سے اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ وینا ملک ایک پیدائشی نقال ہیں۔ وہ اپنے خاکے کا موضوع بنی شخصیت کے مخصوص انداز سخن بیٹھنے اُٹھنے اور منہ ہاتھ کی حرکات کو حیرت انگیزقوتِ مشاہدہ سے اپنی گرفت میں لے کر اپنی آواز اور ذات کے ذریعے آپ کے سامنے کمال ہنر کے ساتھ پیش کرسکتی ہیں۔ نقالی مگر ان کی گوناگوں صلاحیتوں کا محض ایک جز ہے۔ وینا ملک کی اصل قوت ان میں موجود بھرپور توانائی ہے جو انھیں کسی ایک مقام پر رکنے نہیں دیتی۔
کچھ عرصے تک ہمارے ہاں کی مشہور شخصیات کی بھرپور نقالی سے لوگوں کا دل بہلانے کے بعد وہ بھارت چلی گئیں۔ وہاں انھیں ایک Reality Showمیں حصہ لیتے ہوئے کچھ ایسی حرکات بھی کرنا پڑیں جنہوں نے پارسا دلوں میں آگ لگا دی۔ یہ آگ بھڑکانے کے باوجود انھوں نے بڑی بہادری سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے سے انکار کردیا۔ ''یہ کیا بات ہوئی مفتی صاحب'' کو بار بار دہراتی ہوئی بلکہ اپنے دفاع میں کھڑی ہوگئیں اور پھر ایک رسالے نے ان کی ایک ایسی تصویر بھی نکال دی جو ''حساس اداروں'' کو مشتعل کرتے ہوئے ان کی زندگی اجیرن بناسکتی تھی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہر طرح کے تجربات سے گزرنے کے بعد وینا ملک نے اچانک اپنی شادی کا اعلان کردیا۔ شوبزنس سے متعلقہ کئی اداکارائیں کافی مشہوری اور کبھی کبھار بدنامی کے بعد ایک خیال رکھنے والے شوہر کو پاکر ازدواجی زندگی کی خاموشیوں کی نذر ہوجایا کرتی ہیں۔ وینا ملک کے ساتھ بھی شاید یہی کچھ ہوتا۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ''اصل زندگی'' تو اب شروع ہونے والی ہے۔
ایک زمانے کے اپنے بولڈ انداز کو ترک کرتے ہوئے اب انھوں نے اپنے سرسے دوپٹے کو کبھی گرنے نہ دینے کا عہد کرلیا ہے۔ اس کے بعد ان کا ارادہ اسلام کو باقاعدہ تعلیم کے ذریعے پوری طرح سمجھنے کا ہے۔ اس حوالے سے حصولِ علم کے تمام مراحل طے کرلینے کے بعد وہ ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ہمیں ''اچھا مسلمان'' بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں اور سفر وہیں ختم نہیں ہوگا۔ ٹی وی پروگراموں کے بعد یا ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستان کو سیاسی عمل کے ذریعے ''گڈگورننس'' بھی فراہم کرنا چاہیں گی۔ ان کے اپنے بس میں ہوتا تو شاید اس مقصد کے لیے وہ اب تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے ''ایڈوانس بکنگ'' کروا چکی ہوتیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ان کے شوہر اور سسرالی عمران خان کی تحریک انصاف کے متوالے ہیں۔
وینا ملک کو اس ضمن میں میرا پُرخلوص مشورہ یہ ہے کہ وہ بجائے ''نوازشریف یا عمران خان''کے مخمصے میں گرفتار ہوجانے کے مزید کچھ روز انتظار کرلیں۔ مظفر گڑھ سے قومی اُفق پر جمشید دستی پوری طرح چھا جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اپنے کیریئر کے آغاز میں غریبوں کی اس آواز کو بھی جعلی ڈگری کے بہتان کے ذریعے بڑی اذیت پہنچائی گئی تھی۔ کئی مہینوں تک ہمارے شہروں کی نک چڑھی اور اصول پرست وایماندار مڈل کلاس نے انھیں ''نااہل اور بدعنوان سیاستدانوں''کی گھناؤنی زندگی کا ایک ''مثالی نمایندہ'' سمجھا۔ ان کا Imageبھی اب انقلابی انداز میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ان دنوں اسلام آباد میں سب سے محفوظ مانے جانے والے ''ریڈ زون'' کے اندر موجود پارلیمنٹری لاجز میں ''قبیح حرکات'' کے مرتکب ''عوامی نمایندوں'' کے خلاف انھوں نے ایک کھلی جنگ شروع کررکھی ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بالآخر ان کی تسلی کے لیے ایک سات رکنی کمیٹی بنانا ہی پڑی۔ اس کمیٹی سے سرخرو ہوجانے کے بعد وہ یقینا نئی منزلوں کی سمت فاتحانہ جذبے سے آگے بڑھیں گے۔ کیا خبر لال حویلی کے سقراط کی نگہبانی میں انھیں قدرت یہ موقع دے ہی ڈالے کہ وہ پاکستان کے لیے بھی ایک ''عام آدمی پارٹی'' بنانے کے بعد دُنیا کو حیران وششدر کردیں۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل مجھے بار بار بتائے چلا جارہا ہے کہ اگر وینا ملک اور جمشید دستی مل جائیں تو اس ملک کو ''موروثی سیاست'' سے پاک کرنے کے بعد عام آدمیوں کے لیے صاف، شفاف اور ہمدرد جمہوریت کا راستہ یقینا بنایا جاسکتا ہے۔