دو اسلام اور دو پاکستان
آنے کو تو سحر آگئی مجھے یہ فکر نہیں ہے بل کہ فکر یہ ہے کہ سحر کو تو بادلوں نے شام کر دیا اب اس کا کیا کریں گے
NAUSHEHRO FEROZE:
ہمارے لڑکپن کے زمانے میں ایک ڈاکٹر غلام جیلانی برق ہوا کرتے تھے پرانے کیمبل پور اور موجودہ اٹک کے رہنے والے تھے ان کی تحریروں سے ہم اتنے متاثر تھے کہ عقیدت میں اپنا تخلص بھی برق رکھ لیا، انھوں نے بڑی زبردست کتابیں لکھی ہیں جن میں ''دو اسلام'' اور ''دو قرآن'' نامی کتابیں بھی تھیں، نام ہی سے ظاہر ہے کہ دو اسلاموں سے ان کا مطلب یہ تھا کہ ایک اسلام تو وہ ہے جو حقیقی ہے اور دوسرا اسلام وہ ہے جو آج کل مسلمانوں کے زیر استعمال ہے، دو قرآن بھی ... ایک وہ جو حق ہے اور دوسرا وہ جس کے معنی موڑ توڑ کر اپنے اپنے مقاصد کے لیے بنائے جاتے ہیں، آج کل ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ ہم بھی ان کی طرز پر ''دو پاکستان'' کے نام سے کتاب لکھیں بل کہ ذہن میں تقریباً لکھ ہی چکے ہیں صرف کاغذ پر اتارنا باقی ہے، طباعت کی مجبوریاں نہ ہوتیں تو یہ کتاب اب تک چھپ چکی ہوتی بل کہ کئی ایڈیشن بھی نکل چکے ہوتے کیوں کہ یہ بات نظریہ پاکستان والوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان صرف جغرافیائی سطح پر ''دو'' نہیں ہو چکے ہیں بل کہ تاریخی اور حقیقی سطح پر دو ہو چکے ہیں ایک وہ جس کے تقریباً ایک ہزار ایک ملی نغمے ہوا میں تیر رہے ہیں اور دوسرا وہ جو آج کل ''زیر استعمال'' ہے ، اس زیر استعمال پاکستان میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں ایک وہ جو حاکم ہیں مالک ہیں آقا ہیں مقدس ہیں اور دوسرے وہ جو محکوم ہیں، غلام ہیں، مجبور ہیں اور اچھوت ہیں، ایک وہ جو تاحیات مراعات والے ہیں اور دوسرے وہ جو تاحیات سزا یات والے ہیں ایک وہ جو قرضے لیتے ہیں دوسرے وہ جو قرضے نہیں لیتے، ایک وہ جو امیر ابن امیر ابن امیر ہیں اور دوسرے وہ جو غلام ابن غلام ابن غلام ہیں، ایک وہ خاندان جو آزادی تا ایں دم خانہ خراب اور جنت سے نکالے ہوئے ہیں اور دوسرے وہ جو جنت میں پیدا ہوتے ہیں جنت میں رہتے ہیں اور جنت ہی میں رہیں گے، لیکن ہم ان الگ الگ پاکستانیوں کا ذکر نہیں کریں گے کیوں کہ وہ سب کو معلوم ہے اور سب کو خبر ہو چکی ہے کہ چلے تھے جس کے لیے ہم یہ وہ سحر تو نہیں ... وہ سحر آنے کو تو آگئی لیکن جو اس کے تمنائی تھے ان کی آنکھیں ہی پھوڑ دی گئیں اور اتنے گہرے بادل چھا گئے کہ سحر بھی شام ہو گئی
پہ راتلو خو سحر راغلو دے تہ فکر اوڑے نہ یم
چہ وریزو رانہ گیر کڑو اوس ددے بہ سہ چل کیگی ؟
یعنی : آنے کو تو سحر آگئی مجھے یہ فکر نہیں ہے بل کہ فکر یہ ہے کہ سحر کو تو بادلوں نے شام کر دیا اب اس کا کیا کریں گے ...بل کہ ہم ان دو پاکستانیوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو روز بروز ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں پہلے درز تھی پھر دراڑ ہو گئی اور اب کھائی بنتی جا رہی ہے، ان میں ایک اسلام ''سرکاری'' ہے اور دوسرا عوامی ہے اور سچ پوچھئے تو آج پاکستان کے ہر مسئلے ہر مصیبت اور ہر دکھ کا باعث یہی ہے کہ جیسے ایک ہی ملک میں دو الگ الگ قسم کے لوگ رہتے ہوں اور جو ایک دوسرے کے سخت ترین اور جانی دشمن ہوں، کوئی کچھ بھی کہے سنے بتائے لکھے اور کتابوں میں درج کرے اخبارات میں اچھالے لیکن یہ ایک مبرم حقیقت ہے کہ ایک پاکستان کے اندر ''دو پاکستان'' لمحے لمحے میں اور چپے چپے پر موجود ہیں بظاہر ایک دوسرے میں شامل لیکن حقیقت میں الگ الگ، جس طرح پانی اور تیل اگر صدیوں بھی ساتھ رہیں کوئی ان کو کتنا ہی ملائے ہلائے جلائے آگ پر گرم کرے یا برف میں جمائے لیکن یہ دونوں کبھی ایک نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کا مزاج ان کے اجزا ان کے مالیکیول الگ الگ تھے الگ ہیں اور الگ الگ رہیں گے
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہونا
اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی ان دونوں کو ملانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی بل کہ ریل کی پٹڑیوں کی طرح ان کا سفر ساتھ ساتھ لیکن الگ رہا ہے، آج پاکستان بھر میں ایسے لوگ سیکڑوں میں بھی نہیں ملیں گے جو کسی عہدے کے بغیر اس ملک کو اپنا سمجھیں بے شک جو کسی نہ کسی فورس میں ہیں محکمے میں ہیں یا ادارے میں ہیں، وہ اس وقت اس ملک کواپنا سمجھیں گے نہیں بل کہ کہیں گے جب تک وہ اس سے پھل کھاتا ہے لیکن جیسے ہی پھل توڑنا چھوڑا ویسے ہی پھر اس کے لیے یہ ملک کسی اور کا ہو جاتا ہے۔ ایسے آدمی بھی سیکڑوں میں ہو سکتے ہیں جو اس ملک کے قوانین کو اس ملک کی املاک اور اس ملک کے اداروں کو اپنا سمجھتے ہوں اور ان پر بس چلنے کے باوجود قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں ان کو نقصان پہنچانے سے باز آرہے اور کسی اور سے انھیں بچانے کے لیے زبان تک ہلائے، ذرا اونچے تو اونچے اگر کسی رکشے والے کا بھی بس چلتا ہے تو کسی نہ کسی قانون ہی کو توڑے گا، سائیکل والا بھی باز نہیں رہے گا حتیٰ کہ پیدل چلنے والا بھی فٹ پاتھ چھوڑ کر سڑک پر جانے کی کوشش کرتا ہے بل کہ اب تو یہ رحجان انتہائی طاقت ور ہو چلا ہے کہ اس ملک کی کسی ملکیت کو ہڑپنا کسی قانون کو توڑنا اور کسی عمارت کو نقصان پہنچانا ہی اصل مردانگی ہے، قانون پر عمل کرنے والے سرکاری املاک پر رحم کرنے والے اور سرکاری چیزوں کو غلط استعمال نہ کرنے والوں بزدل اور نکمے سمجھے جاتے ہیں حتیٰ کہ کسی قطار میں بھی کھڑے ہونا عار سمجھا جاتا ہے، کسی بھی گاؤں شہر محلے مقام کو لے لیجیے وہاں کے لوگ چیختے چلاتے رہیں گے کہ ہمیں سڑک دو اسکول دو اسپتال دو یہ دو وہ دو، لیکن جیسے ہی وہ چیز ملتی ہے اس پر پل پڑتے ہیں سڑک کی کھدائی کریں گے ہر دروازے پر بریکر بنائیں گے سو دو سو روپے خرچ کرنے کے بجائے گھر کا گندا پانی سیدھا سیدھا سڑک پر بہائیں گے جہاں تک ممکن ہو گا سڑک پر قبضہ کریں گے ایسا ہی اسپتال اسکول اور عمارت کے ساتھ بھی ہوتا ہے نالوں، پلوں اور گلیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے اوور ہیڈ برج اور زیر زمین گزرگاہوں کے بجائے جگہ جگہ جنگلے توڑ کر سڑک پر جانا پسند کریں گے، کیا پاکستان کے لوگ فطرتاً خراب ہیں؟ ہرگز نہیں، پاکستان کے لوگ بھی دوسرے تمام ملکوں کی طرح سیدھے سادے لوگ ہیں فطرتاً تعمیری اور اجتماعی سوچ کے حامل ہیں وطن اور اپنی دھرتی سے محبت کرتے ہیں، لیکن جب لگ بھگ نصف صدی سے کسی کو مسلسل یہ بتایا جاتا ہے جتایا جاتا ہے اور ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ ملک تمہارا نہیں اس کے محکمے اس کے ادارے، اس کی املاک، اس کے قوانین تمہارے نہیں ہیں تم صرف اچھوت اور ویش ہو غلامی کرو اور کماؤ باقی کسی چیز پر دعویٰ نہ رکھو کیوں کہ اس ملک کے مالک تلوار چلانے والے کشتری اور باتیں بنانے والے برھمن ہیں تم سوتیلے ہو پرائے ہو غیر سرکاری ہو کم ذات اور حقیر عوام ہو، تو آخر ایک نہ ایک دن ان کو بھی احساس ہو گا کہ جب ہمارا کچھ نہیں ہے سب کچھ دشمنوں کا ہے ہمیں لوٹنے والوں کا ہے ہمیں محروم رکھنے والوں کا ہے تو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
ہمارا پڑوسی ملک میں اکثر آنا جانا رہتا ہے باقی تو یہاں اور وہاں سب کچھ ویسے ہے ایسی ہی غربت وہاں بھی ہے ایسے ہی چور لٹیرے لیڈر وہاں بھی ہیں ایسی ہی مہنگائی بے روزگاری اور مفلسی وہاں بھی ہے لیکن ایک چیز ہے جو بدلی ہوئی ہے جو وہاں ہے اور یہاں نہیں ہے یا جو یہاں ہے اور وہاں نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ وہاں کے باشندے حکومت سے شاکی ہوں گے لیڈروں کو برا بھلا کہیں گے محکموں سے شکایت کریں گے کہ ملک کو ہرگز برا نہیں کہیں گے نہ ہی ملک کی کسی ملکیت کو کسی قانون کو اور کسی تعمیر کو نقصان پہنچائیں گے بل کہ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے روکنے کے لیے کئی لوگ آگے آکر اسے سمجھائیں گے، بڑے بڑے پارکوں اور خاص خاص مقامات پر تانبے پیتل اور سنگ مر مر کی مورتیاں اور آرٹ کے نمونے ہوں گے لیکن مجال ہے جو کوئی اسے ہاتھ بھی لگائے یا پھول توڑے یا کوئی مخصوص ڈسٹ بن سے باہر پھینکے ۔۔۔ ایک ڈرائیور جب گاڑی چلاتا ہے تو جہاں دور دور تک کوئی پولیس والا ٹریفک والا نہیں ہوتا وہاں بھی وہ ٹریفک کے قوانین پر حرف بہ حرف عمل کرے گا کیوں کہ ان لوگوں نے ہر اس چیز کو ''اپنا'' سمجھا ہوا ہے جو حکومت کی ہوتی ہے۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حکومت کا کوئی محکمہ کوئی ادارہ اور کوئی قانون عوام کو بے جا تنگ کرتا ہے اور نہ ہی سرکاری اور غیر سرکاری کے الگ الگ خانوں میں بٹا ہوا ہے، ایسا کیوں ہے وہاں ایسا کیوں ہوا اور یہاں ایسا کیوں نہیں ہوا اس کا جواب سیدھا سادا ہے ان کی خوش قسمتی تھی کہ ابتداء ہی سے ان پر عوامی لیڈروں نے حکومت کی اور ہم پر سرکاری افسران نے ۔۔۔۔۔۔۔