پاکستان کا المیہ

جب سے ہوش سنبھالا ہے اسی دن سے ملک خداداد پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ہوئے سنا ہے

جب سے ہوش سنبھالا ہے اسی دن سے ملک خداداد پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ہوئے سنا ہے اور اس کے قیام کو دو قومی نظریے کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ جس دن سے پاکستان کے بننے کی تشریح پتہ چلی ہے تب سے اس حوالے سے بے شمار سوالات بھی ذہن میں ابھرنے لگے ہیں۔ قلعے کا رواج تو بادشاہوں کے دور میں ہوتا ہے جب وہ اپنی ریاست کی حفاظت کے لیے چاروں اور بڑی بڑی فصیلیں تعمیر کروا کر ان پر فوجی تعینات کرتے تھے لیکن پاکستان اسلام کا قلعہ ہو سکتا ہے یہاں تو نہ کوئی فصیل ہے اور نہ ہی کوئی دروازہ جب کہ اسلام تو ہمارے یہاں عرب سے ہی ہوتا ہوا آیا ہے۔ بہت تگ و دو کے بعد معلوم یہ ہوا کہ اسلام پاکستان کی اساس ہے اور اس کے لیے برصغیر میں بے شمار لوگوں نے قربانیاں دیں لیکن عرب ممالک میں یہ اس طرح موجود تھا جیسے کسی مسلم گھرانے میں نومولود بچے کا ہونا اور کلمہ طیبہ کا پڑھنا۔ ہمارے ملک کو اسی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اس کے اطراف میں غیر مسلم یا اسلام دشمن قوتیں موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اسے بے شمار مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ رشتے داروں اور دیگر سماجی رابطوں سے قطع تعلق ہونا پڑتا ہے اور اس پر معاشی پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا نظام سیاست اپنی مکمل شکل میں وطن عزیز کی نسبت عصر حاضر کی تمام مسلم ریاستوں میں کہیں کارفرما نہیں۔ یہ ملوکیت زدہ ہوں یا نام نہاد جمہوری ریاستیں۔ وہاں اسلام عوام کے دلوں پر راج ضرور کرتا ہے لیکن حکمرانوں کا طرز حکمرانی موقع پرست (Opportunism) یا خود آفرینی (Self-Perpatuation) کی بنیادوں پر استوار ہے۔

پاکستان کے لیے جاری تحریک نصف صدی کا قصہ نہ تھا بلکہ اس کا سفر 1235 برسوں پر محیط ہے۔ اسلام اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے پاکستان کی جڑیں ہمارے ماضی بعید سے جڑی ہوئی ہیں جو ہمارے جداگانہ مذہب، تاریخ، تہذیب، ثقافت، معاشرت اور ملی اقدار پر استوار ہیں جب کہ اس سے وابستگی یا دوری ہمارے قومی تشخص کی تعمیر یا بگاڑنے کا موجب بنتی ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار سے یہ نظریہ ہمارا مقصدِ وجود ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا قیام اسی دن برصغیر میں ہو گیا تھا جب ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے نہ کہ وطن یا نسل۔ گویا ہندوستان کے پہلے فرد نے دائرہ اسلام میں قدم رکھا تھا تو وہ کسی قوم کا فرد نہیں رہا بلکہ ایک جداگانہ قوم کا فرد بن گیا اور یوں ہندوستان میں ایک نئی قوم نے جنم لیا۔ یہ عہد ساز واقعہ 10 رمضان المبارک 93 ہجری (19 جون 712عیسوی) میں رونما ہوا جب بحیرہ عرب کے رسوائے زمانہ قذاقوں کی سرکوبی کرتا جواں سال عمادالدین محمد بن قاسم دیبل کے ساحل پر فروکش ہوا اور مختصر دور حکومت میں ایک ایسی فلاحی ریاست کی بنیادیں استوار کیں جن کی وجہ سے یہ خطہ باب الاسلام کی حیثیت سے پہچانا جانے لگا۔ معروف ہندو مورخ و سفارت کار ڈاکٹر چند نے اپنی کتاب ''تاریخ ہند'' میں محمد بن قاسم کے بارے میں لکھا ہے کہ ''مقامی آبادی کو اس نے ایک نیا ریاستی نظام اور فلاحی در و بست عطا کیا۔ باب الاسلام بنتے ہی سندھ میں وہ موج سبک خرام اٹھی جس نے آنے والی صدیوں میں اس خطے کو ایک سیاسی وحدت میں پرو دیا۔ غزنوی، غوری، تغلق، خلجی اور مغلیہ دور تک پہنچتے پہنچتے برصغیر ایک متحدہ ریاست بن گیا اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب 14 اگست 1947ء کو یہ سرزمین مملکت خداداد کی شکل میں ابھری۔ اس طویل عرصے میں اسلامی تہذیب اپنے وجود اور بقا کے لیے ہند آریائی تہذیب سے پنجہ آزما رہی ۔

بالکل اسی بات کا اعادہ قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد اسلامیہ کالج پشاور کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے 13 جنوری 1948ء کو کیا کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو اپنا سکیں جب کہ 25 جنوری 1948ء کو سندھ بار ایسوسی ایشن میں وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اسلام کے اصولوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ آج بھی اسی طرح ہماری زندگی میں نافذ العمل ہو سکتے ہیں جیسے 13 سو سال پہلے تھے۔ علامہ محمد اقبالؔ جنھیں مصور پاکستان کے خطاب سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ بھی مسلمانوں کے لیے برصغیر میں ایسی جداگانہ ریاست کا قیام چاہتے تھے جو مدینہ منورہ کا نقش ثانی ہو اور اس کی بنیادیں اسلامی فکر کی جغرافیائی ہمہ گیریت پر استوار ہوں۔ یہ فکر نئی نہ تھی بلکہ ان سے قبل حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ، ان کا خانوادہ اور تحریک آزادی کے مجاہدین نے اس کی آبیاری کے لیے اپنا خون پیش کیا۔


قیام پاکستان کے بعد سے ملک بھر میں مذہبی جماعتیں تاحال اسلام کے نفاذ کی دعویدار ہیں جب کہ بعض گروپوں کے عسکری ونگ بھی تحریکوں کی صورت میں برسر پیکار ہیں۔

اسلام کے نام پر ملک بھر کی تمام مذہبی جماعتیں میدان سیاست میں قیام کے آغاز ہی سے موجود ہیں لیکن عہد حاضر کے سب سے بڑے چیلنج فتنہ لادینیت سے نبردآزما ہونے کے لیے کسی کا کردار بھی نمایاں نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سیکولرازم ایک ناکام طرز فکر کا نام ہے جس کی نہ کوئی اخلاقی قدریں ہیں اور نہ ہی تہذیبی اقتدار مگر بیرونی آقاؤں کے گماشتے ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر مسلم قومیت کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت خداداد کی فکری بنیادوں کو منہدم کرنے کے در پے ہیں۔ ایک مغربی دانشور نے بھی اسے ناکام طرز فکر قرار دیتے ہوئے اس کا انجام طبعی موت تعبیر کیا ہے جب کہ امریکی مصنف Hunter Baker اپنی کتاب The End of Secularism میں کہتے ہیں کہ میں بھی لادین تھا۔ خدا پر میرا ایمان ہونے کے باوجود نجی زندگی سے باہر اس کے وجود کا کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اپنی ذاتی خواہشات اور توقعات سے ماورا مجھے خدا کا کردار کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا سوائے عبادات، شادی بیاہ کی تقریبات یا پھر میت کی آخری رسومات میں۔نظریہ لادینیت کو عام طور پر روشن خیالی تصور کیا جاتا ہے جس کا چرچہ پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بام عروج پر رہا اور اس کے حواری آج بھی کسی نہ کسی صورت عمل پیرا ہیں۔ 1920ء اور 1930ء کی دہائیوں میں مغربی عیسائیوں نے سیکولرازم کو مادہ پرستانہ نظریات میں پروان چڑھایا جن میں نازی ازم، مارکس ازم، کمیونزم، ہیومنزم اور ایگزسٹ نیشلزم قابل ذکر ہیں لیکن یہ سب یکے بعد دیگرے نابود ہو گئے۔ سوویت یونین کو کمیونزم کی سیاسی اور نظریاتی اقتدار میں تقویت حاصل ہوئی مگر 1989ء کے افغان جہاد نے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

ان دنوں دو بڑی تہذیبیں دنیا میں اپنا وجود رکھتی ہیں جو مکمل طور پر بے دین ہیں۔ انھوں نے اپنی شناخت اور بقا کے لیے کچھ رسوم و رواج، مندر اور چرچ بنا رکھے ہیں جہاں مخصوص موقعوں پر مذہب کے نام پر چند سرگرمیاں عمل میں آتی ہیں اس کے علاوہ ہر فرد اپنے عمل میں آزاد ہوتا ہے یہی صورت حال ہمارے وطن عزیز میں دکھائی دے رہی ہے۔ سرمایہ داروں کی رعونت، رمضان المبارک کی برکتیں اور رحمتیں مخصوص انداز میں سمیٹی جاتی ہیں کہ اس کے بعد پرہیزگاری، صلہ رحمی اور تقویٰ ان کے درمیان سے غائب ہو جاتا ہے۔

المختصر ملک بھر میں تمام طرح کے مذہبی حلقے آزادی کے ساتھ اپنے محور کے گرد گھوم رہے ہیں اور دین کو متنازعہ بنا کر مقاصد کے حصول میں سرگرم ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ انھیں اسلام یا پاکستان سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کا تشخص خراب کر رہے ہیں اور وقار کو مجروح کر رہے ہیں۔ اگر ہم مسلمانوں کو باوقار اور ان کے احترام کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے لیے لڑنا ہو گا۔ اسی کے لیے زندہ رہنا ہو گا اور اگر ایسا نہ کیا تو اس خطے میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلام کا وجود بھی متزلزل ہو جائے گا جو کسی بھی طرح مسلم دشمن طاقتوں کو تقویت بہم پہنچانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اسلام کو کسی دعوت میں لگے بوفے کی مانند نہ سمجھیں کہ اپنی لذت کو تشفی دینے کی خاطر چند لذیذ اشیا چن لیں اور باقی چھوڑ دیں۔
Load Next Story