یورپی یونین کا جی ایس پی پلس
یورپین افراد کی قوت خرید بے پناہ زیادہ ہے اور وہ اپنی زندگی بجا طور پر آسائشوں میں بسر کرتے ہیں
یورپ ایک انتہائی پرکشش مارکیٹ ہے جو عمدہ ٹیکنالوجی اور فنی مہارت سے تیار کردہ معیاری اشیا کی نہ صرف قدردان ہے بلکہ اس کے بہت اچھے دام ادا کرتی ہے، جس سے تاجر لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کچھ ارب پتی بن جاتے ہیں۔ اس لیے تمام ممالک چاہے وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر یا کم آمدنی والے ہوں وہ اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ان کے تاجر اس منڈی میں اپنی جگہ بنا سکیں اور اس کے لیے وہ مراعات کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اس لیے منظر میں پاکستان کو جی ایس پی پلس GSP-Plus کا درجہ ملنا ایسا مژدہ جانفزا ہے کہ پوری کاروباری برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اشیا کی درآمد پر یورپ میں کوئی درآمدی یا کسٹم ڈیوٹی نہیں ہو گی۔ یہ سہولت نہ صرف ٹیکسٹائل، گارمنٹ تمام قسم کے ملبوسات تولیے وغیرہ بلکہ تمام پراڈکٹ سیکٹرز پر رہیں گی یعنی غذائی اجناس، سبزیاں، گوشت، چاول، پھل اور ان سے تیار شدہ اشیا بیشتر معدنیات، تعمیراتی سامان ہر قسم کی گاڑیوں کے پرزہ جات، ہینڈی کرافٹ، نمائشی اشیا، لکڑی سے تیار شدہ سامان، گفٹ آئٹم الغرض 600 سے اوپر کی اشیا جو تمام تر مال پاکستان برآمد کرتا ہے اس کے 96 فیصد پر ڈیوٹی کی چھوٹ ہے، ان کی فہرست باآسانی دستیاب ہے۔ ایک ابتدائی تخمینے کے مطابق 2013-14ء میں یورپ کو ہماری برآمدات 6 ارب سے زیادہ رہیں گی۔ اسکیم کا اطلاق پہلی جنوری 2014ء سے ہوا یعنی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اگلے چند مہینوں میں بہتر اضافے کی شرح رہے گی۔
یورپین افراد کی قوت خرید بے پناہ زیادہ ہے اور وہ اپنی زندگی بجا طور پر آسائشوں میں بسر کرتے ہیں باوجود کافی اختلافی باتوں کے۔ لہٰذا پورے یورپ میں ڈیپارٹمنٹ اسٹورز، چین، ریٹیل اسٹور، فیشن برانڈز کا جال بچھا ہوا ہے مثلاً ڈیبن ہیمز، ووڈز، براؤن مف، پالمرز، مارکس اینڈ اسپنسرز، سیزیر، ایل کورئے، ٹیسکو اسمارٹ کلب یہ کافی طویل فہرست ہے ان میں سے اکثر پہلے ہی پاکستانی مال کے خریدار ہیں اور تاجر نہ صرف ان کو بلکہ یورپی صنعتوں کو اور انجینئرنگ انڈسٹری کو اپنا خام مال یا مشنری، پرزے جات بیچ رہے ہیں مگر بیشتر تاجر جو اس وقت افریقہ یا ایشیائی ممالک میں تجارت کر رہے ہیں وہ یورپ کے تجارتی قوانین سے ناواقف ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ کسی خریدار سے رابطہ پیدا کر لیں اور وہ آپ کے معیار سے مطمئن بھی ہو تو کیا آپ اس کے اسٹور یا ورکشاپ پر اپنا سامان سجا سکتے ہیں یا آسانی سے یورپ کے کسی ملک کی مارکیٹ میں داخل کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں!
یورپی یونین 28 ممالک پر مشتمل ایک بااثر تجارتی بلاک ہے جس کے نمایاں ممالک میں برطانیہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، اٹلی، اسپین، بیلجیم وغیرہ شامل ہیں یہ بلاک نہ صرف عالمی تجارتی نظام کا فعال رکن ہے بلکہ اس کے سرپرستوں میں سے ہے۔ اس کے تجارتی پالیسی ساز اپنی صنعتوں اور صارفین کا بجا طور پر تحفظ کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ عالمی تجارت میں ایک توازن برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ترقی پذیر اورکم ترقی یافتہ ممالک کو امپورٹ ڈیوٹی میں چھوٹ کی صورت میں مراعات ضرور دیتے ہیں مگر ساتھ ساتھ یہ توقع کرتے ہیں کہ ان ممالک کے تاجر بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کریں اور ماحول کا تحفظ کریں۔ یہاں یہ بات انتہائی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ GSP-Plus ملنا ہماری خوبیوں کے باعث نہیں بلکہ اقتصادی کمزوری کا برملا اعتراف ہے۔ جو باتیں ڈھکی چھپی تھیں وہ گوروں نے ڈھونڈ کر ثبوت کے ساتھ پیش کر دیں جس سے ہمارا کیس مضبوط ہو گیا۔ مثلاً ورلڈ بینک کی مقررکردہ حد کے مطابق پاکستان ایک کم آمدنی والا ملک ہے دوئم EU کو ہماری کل برآمدات وہاں کی GSP درآمدات کا 2 فیصد سے بھی کم ہے یعنی 1.6 فیصد تیسری برآمدات کچھ پراڈکٹ گروپ تک محدود ہیں یعنی 7 پراڈکٹ گروپ میں برآمدات 94 فیصد جس کا مطلب ہے کہ تمام شعبے صنعتی لحاظ سے ترقی نہیں کر رہے۔درآمدی ڈیوٹی ختم ہو جانے سے ہمارے تاجر قیمتوں پر بہتر سودے بازی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا مارجن بڑھ جائے گا مگر ساتھ ساتھ اس اہم تجارتی مراعات کو استعمال کرنے کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں جو اول تو حکومت پاکستان نے پورے کیے یعنی تجویز کردہ 27 بین الاقوامی کنونشن کو دستخط کے بعد عملدرآمد کرنے کی تصدیق کی۔ ان کنونشن پر عمل کرنا ہمارے لیے بے انتہا ضروری ہے کیونکہ EU نے ہر 2/3 سال بعد ان کا جائزہ لینا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کو GSP معطل کیا جا سکتا ہے۔ہمارے تاجروں کو ان تمام کنونشنز کے بارے میں مکمل آگہی ہونی چاہیے کیونکہ ان کی تصدیق اگرچہ حکومت نے کی مگر ان پر اصل عمل تاجروں نے کرنا ہے اس لیے ان تمام کا مختصراً ایک جائزہ لے لیتے ہیں:
(1)۔انسانی حقوق کے بارے میں۔ 7 کنونشن
(2)۔مزدوروں کے حقوق۔ 8 کنونشن
(3)۔ منشیات اور ڈرگز پر کنٹرول۔3 کنونشن
(4)۔ماحولیات کا تحفظ۔8 کنونشن
(5)۔رشوت ستانی /کرپشن پر قابو۔ 1 کنونشن
ان کنونشن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں بلدیہ میں ایک فیکٹری میں آتشزدگی اور بنگلہ دیش میں اسی طرح کا واقعہ جس میں سیکڑوں مزدوروں کی جانیں گئیں نے یورپی خریداروں کو بر افروختہ کردیا اور اس کے نتیجے میں برآمدی آرڈرز کو زبردست دھچکا لگا کیونکہ وہ کوئی ایسا پراڈکٹ استعمال کرنا نہیں چاہتے جو ورکرز کے بنیادی حقوق کو کچل کر بنائی گئی ہو۔ انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق آبادی کے کسی مخصوص طبقے یا گروہ کو کچلنا، مارنا یا ان کی تفریق کرنا منع ہے۔ مزید برآں ہر فرد کے سماجی اور سیاسی حقوق کی حفاظت کرنا، ان کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنا، اظہار رائے کی آزادی میل ملاپ رکھنا، ووٹ ڈالنا اور شفاف انصاف کا حق دینا شامل ہے۔یہ بتاتے چلیں کہ پاکستان جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں دوسرا ملک ہے جسے ڈیوٹی میں چھوٹ کی رعایت ملی ہے۔ ہمارے ایشیائی ممالک جو ہمارے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں شامل ہیں انڈیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام وہ اس وقت سہولت کے حقدار نہیں ہیں اور بدستور 10 سے 14 فیصد ڈیوٹی ادا کریں گے اگر وہ اپنا ٹیسکٹائل کا سامان یورپ میں بھیجیں۔ پاکستان کو یہ چھوٹ 10 سال کے لیے مل گئی ہے۔ بشرطیکہ ہم عائد کردہ تمام شرائط کی پاسداری کریں کارخانوں میں بہتر نظم و نسق اور عمدہ کارپوریٹ کلچر قائم کریں۔ یہ دور ہر پروڈکٹ کے لیے معیاری سرٹیفکیٹس حاصل کرنے کا ہے جن کی تفصیلات کا آیندہ کالم میں ذکر کریں گے۔ یہ تمام تفصیلات جو بیان کی گئیں اگرچہ خشک ہیں مگر ان کا جاننا اور عمل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ کاروباری برادری کے لیے یورپی مارکیٹیں کھلی رہیں اور وہ فہم و شعور کے ساتھ یورپی تجارتی پالیسی سازوں اور صارفین کے ذہن کو سمجھ سکیں اور اعلیٰ معیاری مینوفیکچرنگ کو اپنائیں۔