خلا میں تیرتی آگاہی

اولین انسان کے برعکس ہم آج کائنات کی بابت بہت کچھ جانتے ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ جتنا ہمارے علم میں اضافہ ہو رہا ہے

جادو بھری رات ہے۔ پیڑوں پر خاموشی کا بسیرا۔ ہواؤں میں بے آواز گیت۔ ہر سُو سکون۔ ایسے میں ذرا سر اٹھائیے۔ آسمان پر نگاہ کیجیے۔ کیا نظر آتا ہے؟

روشن چاند، دمکتے ستارے، اُن کے درمیان معلق بے کراں خلا، وسیع و عریض کائنات۔۔۔ یا پھر ایک معما، ایک معجزہ؟

ہزاروں برس قبل، جب دریاؤں کے کنارے ابتدائی بستیاں آباد ہوئیں، اُس وقت کا انسان جب کبھی آسمان کی سمت نگاہ کرتا، تو تعجب میں گِھر جاتا ہو گا کہ ستاروں کی شکست و ریخت کا لمحہ کتنا پُر اسرار ہے، گہن زدہ چاند کتنا تحیر خیز۔

اولین انسان کے برعکس ہم آج کائنات کی بابت بہت کچھ جانتے ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ جتنا ہمارے علم میں اضافہ ہو رہا ہے، حیرت اتنی ہی بڑھتی جا رہی ہے۔ فلکیات کے میدان میں ہونے والے انکشافات اتنے تحیر خیز تھے کہ انسان انگشت بدنداں رہ گیا۔ کئی رازوں سے پردہ اٹھا۔ اُن گوشوں پر روشنی پڑی، جہاں ہماری لاعلمی فرسودہ عقائد کی پرورش کیا کرتی تھی۔ علم کی اِس روشنی نے جہاں ہمیں متحیر رکھا، وہیں ہماری مسرت کا بھی سامان کیا۔ کتاب المبین میں رب کائنات نے ارض و سما کی تخلیق، اختلافِ لیل و نہار کو عقل مندوں کے لیے نشانی ٹھہرایا۔ اور جوں جوں انسان خرد کے راستے پر چلتا گیا، یہ نشانیاں اُس پر قدرت کے معجزات عیاں کرتی گئیں۔لگ بھگ ڈھائی ہزار سال قبل کا انسان، جس نے شہر آباد کر لیے تھے، یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ زمین چپٹی ہے، مگر ایک یونانی مردِ دانا کو اِس نظریے نے بے چین کر دیا۔ خرد کے اُس داعی کو یقین تھا کہ زمین کا سورج اور چاند کے درمیان آنا ہی چاند گہن کا بنیادی سبب ہے۔ پریشانی یہ تھی کہ اگر زمین چپٹی ہے، تو گہن کے سمے چاند پر پڑنے والا اُس کا سایہ ہمیشہ کروی کیوں ہوتا ہے۔ اسے تو لمبوترا یا بیضوی ہونا چاہیے۔ طویل غور و فکر کے بعد ارسطو نے اپنی کتاب On the Heavens میں اعلان کر دیا کہ زمین گول ہے۔ پھر یونانیوں کے پاس ایک دلیل اور بھی تھی۔ اُنھوں نے دیکھا، ساحل کی سمت آنے والے بحری جہاز کے بادبان پہلے ظاہر ہوتے ہیں، مزید قریب آنے پر ہی جہاز کا نچلا حصہ اُبھرتا ہے۔ اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ زمین گول ہے۔ علم کا تعاقب کرتے ہوئے ارسطو یہ تو جان گیا کہ زمین کروی ہے، مگر زمین کے ساکن ہونے کے نظریے کو شکست نہیں دے سکا۔ انسان کو یقین تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ ارسطو تو چلا گیا، مگر غور و فکر کی عادت پیچھے چھوڑ گیا۔ جستجو نے انسان کو متحرک رکھا۔ رجعت پسند بھی چالیں چلتے رہے۔ پہلی صدی عیسوی میں بطلیموس نامی یونانی مفکر نے کائنات کی تفہیم اپنے Earth-centered ماڈل سے کرنے کی کوشش کی، جس میں زمین مرکز تھی، چاند، ستارے اور دیگر سیارے اُس کے گرد حرکت کر رہے تھے۔ یہ نظریہ بہت مقبول ہوا۔

قدامت پسندوں اور جویان علم کے درمیان جنگ جاری تھی کہ وہ لمحہ آن پہنچا، جب عرب کے صحراؤں میں علم کا الاؤ روشن ہوا۔ وہ پیغام پڑھ کر سنایا گیا، جس میں خالق کائنات نے خود کو زمین اور آسمان کا نور قرار دیا۔ پچھلی کتابوں کی تصدیق کی، آسمان اور زمین کی تخلیق پر غور نہ کرنے کے عمل کو موت سے تشبیہ دی۔ ساتھ یہ اشارہ بھی کر دیا کہ تمام ستارے، سیارے محو حرکت ہیں۔

حق آ گیا۔ علم کے متلاشیوں نے تحقیق اور جستجو کو، مشاہدۂ کائنات کو مقصد زیست بنا لیا۔ الکندی، ابن الہیثم، ابن سینا، ابن خلدون؛ کیسے کیسے دانا پیدا ہوئے۔


سولہویں صدی کے اوائل میں پولینڈ سے تعلق رکھنے والے نکولس کوپرنیکس نے یہ انوکھا خیال پیش کیا کہ زمین اور تمام سیارے سورج کے گرد دائروں میں حرکت کر رہے ہیں۔ ٹھیک سو برس بعد اطالوی ماہر فلکیات، گیلیلیو نے اپنی دور بین سے مشتری کی سمت دیکھا۔ مشتری کے گرد محو حرکت سیارچوں کا جمگھٹا تھا۔ تمام سیاروں کے زمین کے گرد گردش کا خیال خام نکلا۔ چند ہی عشروں بعد نیوٹن کشش ثقل کے ہمہ گیر قانون کے ساتھ منظر میں داخل ہوا۔ بیسویں صدی نے اُس نظریے کو بھی شکست دے دی، جو کائنات کے ساکن ہونے پر بہ ضد تھا۔ اُس کے پھیلنے کا انکشاف ہوا۔ ''بگ بینگ'' کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ امریکی ماہر فلکیات، ایڈون ہبل نے اعلان کر دیا کہ ہماری کہکشاں ہی کُل کائنات نہیں۔ یہ تو ایک وسیع جادو نگری ہے۔ یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ سورج، جس کی ہم کبھی پرستش کرتے تھے، ''ملکی وے'' کہکشاں کا ایک عام سا زرد ستارہ ہے۔آج ہم بلیک ہولز کی بابت جانتے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ سورج کی روشنی ہم تک لگ بھگ نو منٹ کے سفر کے بعد پہنچتی ہے۔ یعنی ہم لمحۂ موجود میں، سورج سے لمحۂ ماضی میں خارج ہونے والی روشنی سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ستارے تو ہزاروں، لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ یعنی آپ کی آنکھ آسمان پر جو ستارے دمکتے ہوئے دیکھتی ہے، عین ممکن ہے کہ اُس لمحے وہ وہاں نہ ہوں، حرکت کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہوں، اور ہزاروں برس قبل خارج کردہ روشنی کے باعث ہمیں اِس لمحے دکھائی دے رہے ہو۔ اس کا بھی امکان ہے کہ وہ سیکڑوں برس قبل تباہ ہو چکے ہوں۔ یعنی جب کبھی آپ ستاروں سے سجا آسمان دیکھتے ہیں، تو حقیقت کی دنیا میں ایک التباس پیش نظر ہوتا ہے۔ آپ ماضی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔کیسی بے کراں ہے یہ کائنات۔ حیرت کا ایک سمندر۔ ایک کرشمہ۔ کتنی ہی بار ہم نظر اٹھائیں، اِس بے انتہا سلسلۂ خلق میں ہمیں کوئی بدنظمی نظر نہیں آئے گی۔

یہ علم کی کنجی تھی، جس نے کائنات کے بھید کھولے۔ تحقیق نے عمیق رازوں سے پردہ اٹھایا۔ عقل نے توہم پرستی کی دیواریں ڈھا دیں۔ قدرت کا نور دمکنے لگا۔

تو آج جب آپ آسمان پر نگاہ کرتے ہیں، غور و فکر کرتے ہیں، تو قدرت کی نشانیاں مسکراتی ہیں، اپنے راز افشا کرنے کو تیار ہو جاتی ہیں۔ علم کا مینہ برسنے لگتا ہے۔

بدقسمتی سے ناخواندگی، غربت اور دہشت گردی میں گھری اِس ریاست میں ایسے واقعات خال خال ہی ہوتے ہیں۔ یہاں علم کی جستجو کے بجائے اِس سے بغض رکھا جاتا ہے۔ غور و فکر اور مشاہدے پر، جو حکم الہیٰ ہے، تقلید کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تحقیق سے شعوری فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ یہاں سر بلند کرنا مشکل ہے، سر جھکائے رکھنا آسان۔

ہر باشعور انسان پر مطالعۂ کائنات لازم ہے۔ یہی خالق کا حکم ہے۔ کتنی ہی آیات اِس کا ثبوت ہیں۔ مشاہدہ، مطالعہ، تحقیق؛ یہی اہل دانش کا راستہ ہے۔ فلاح کی راہ ہے۔

شومئی قسمت، ہم نے اِن احکامات کو پس پشت ڈال دیا۔ خرد کے راستے سے بھٹک گئے۔ رجعت پسندی کو گلے لگا لیا۔ اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ لاعلمی سے جنم لینے والی بدبختی طوق ندامت بن گئی ہے۔ فطری قوانین سے روگردانی کرنے والی کتنی قوموں کا الم ناک انجام ہم دیکھ چکے ہیں۔ وہ تباہ ہو گئیں، اُن پر دوسری قوموں کو مسلط کر دیا گیا۔ اور ہمارے معاملے میں یہ پریشان کن لمحہ آن پہنچا ہے۔ ہمارے وسائل، زمین اور سوچ پر غیر قابض ہو چکے ہیں۔ علم اب ہمارے لیے شجر ممنوع ٹھہرا۔ہم تباہی کے دہانے پر ہیں، لیکن پروا کسے ہے۔ مزے سے عالمی ریکارڈ بنائیں، فیسٹولز میں ناچیں، گائیں۔ دھماکوں پر مسکرائیں۔ ابہام میں سکون پائیں۔ تاریخ میں کئی قومیں نیست و نابود ہوئیں۔ اگر ہم بھی مٹ گئے، تو کیا فرق پڑے گا۔

خلاؤں میں آگاہی یونہی تیرتی رہے گی!
Load Next Story