اردو کے مایہ ناز ادیب‘ ابوالفضل صدیقی
ابوالفضل صدیقی کے ہنر تو بعد میں کھلنے والے تھے، وہ نہایت شرارتی تھے اور شرارت تو ذہانت سے پھوٹتی ہے
ابوالفضل صدیقی اردو زبان کے وہ ممتاز، منفرد اور صاحبِ اسلوب افسانہ نگار ہیں، جن کے ذکر کے بغیر بقول ڈاکٹر جمیل جالبی ''تاریخِ ادب مکمل نہیں ہو سکتی۔'' ابوالفضل صدیقی نے بڑی فعال، بھرپور، غم و الم، نشیب و فراز، اقبال و زوال سے پُر ایک سچی حقیقی زندگی گزاری۔ انھوں نے زندگی کے تمام رخ اور انداز دیکھے، ہر طرح اور طور سے اسے برتا اور بڑی بالغ نظری سے ان سے سبق حاصل کیا۔ ان کا مشاہدہ گہرا تھا اور قدرت نے انھیں دلِ درد مند اور ذہن رسا عطا کیا تھا۔
وہ 5 ستمبر 1908ء کو بدایوں کے مضافات میں واقع ایک بستی 'عارف پور نوادہ' میں ابوالحسن صدیقی کے گھر پیدا ہوئے۔ یہ بستی آپ ہی کے ایک بزرگ عارف صدیقی کی آباد کی ہوئی تھی۔ آپ کا خاندان 1857ء کی جنگ آزادی میں مجاہدین کی مدد کرنے کے پاداش میں معتوبین ِحکومت میں رہ چکا تھا۔ آپ کے دادا چوہدری احمد حسن علاقے کے معزز زمیندار ہونے کے ساتھ شاعر بھی تھے اور 'علیل' تخلص کرتے تھے، اس کے علاوہ قانون پر اچھی دسترس رکھنے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے اعزازی عدالتی عہدے 'منصفی' پر بھی فائز تھے۔ چوہدری احمد حسن کے چھوٹے بیٹے اور ابوالفضل کے والد ابوالحسن صدیقی بھی علی گڑھ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، معروف وکیل اور شاعر و ادیب بھی تھے۔ اس وقت کے مستند ادبی رسائل میں ان کی نگارشات شایع ہوتی تھیں۔ اس خاندان کے علم و شائستگی کا اتنا چرچا تھا کہ زمینداری کا روایتی رعب داب ان کی حویلی کے دروازے پر ہی کھڑا رہتا تھا، زمینداروں کے مظالم کی جگہ شاعرانہ حساسیت نے لے لی تھی۔
ابوالفضل صدیقی کے ہنر تو بعد میں کھلنے والے تھے، وہ نہایت شرارتی تھے اور شرارت تو ذہانت سے پھوٹتی ہے، ساتھ بے حد بہادر بھی تھے! لیکن کوئی بچہ لاڈلا ہو، ذہین ہو اور بہادر بھی ہو تو اسے بگڑتے دیر نہیں لگتی لیکن ان کے والد ابو الحسن صدیقی جانتے تھے کہ ان صفات کو کس طرح نکھار کر سود مند بنانا ہے۔ انھیں جس طرح خود تعلیم کا شوق تھا، اپنے بیٹے ابوالفضل کی تعلیم کے لیے بھی انھوں نے ایسی ہی منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے بدایوں میں ابوالفضل کو ایک مشن اسکول میں داخل کروا دیا۔ مشن اسکول میں دو سال گزارنے کے بعد وہ سینٹ جارجز کالج مسوری میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئے جو اس وقت ہندوستانیوں کے لیے تقریباً ناممکن تھا۔ بہرحال وہاں سے سینئر کیمبرج کر کے واپس آئے تو اپنی زمینداری سنبھالی۔ اسی دوران ان کے بعض ایسے ہنر کھلے کہ لوگ حیران رہ گئے۔ انھوں نے زراعت اور خصوصاً آموں پر نت نئے تجربات کیے اور بعد میں انھی تجربات نے اردو ادب کو ایک نئی جہت سے مالا مال کیا۔ آموں سے عشق کے علاوہ انھیں جانوروں اور خصوصاً گھوڑوں سے دیوانگی کی حد تک تعلق تھا۔ وہ صرف گھڑ سواری تک محدود نہ رہے بلکہ انھوں نے گھوڑوں کے عیوب و محاسن سے متعلق اتنی نایاب اور مفصل معلومات حاصل کر لیں کہ چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا بن گئے۔ انھوں نے جو کام بھی کیا، اسے انتہا تک پہنچا کر چھوڑا۔ شکار کا شوق ہوا تو نشانہ بازی میں ایسا کمال حاصل کیا کہ دور دور تک ان کی بندوق نوازی کی دھوم مچ گئی۔
شکار، زراعت، باغات اور جانوروں کا باریک بینی سے مشاہدہ ...غرض جنگل اور دیہات سے متعلق ان کا سارا علم کتابِ فطرت سے براہِ راست اکتساب کا نتیجہ تھا جو پھر ان کے لازوال افسانوں میں جھلکا اور ایک زمانے کو اپنا معترف بنا لیا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ 1945ء میں شایع ہوا۔ انھی دنوں برصغیر میں نفرت کا جوالا مکھی پھوٹ پڑا۔ ابوالفضل اور ان کا خاندان چونکہ مسلم لیگی مشہور تھا، گھرانہ بھی مسلم روایت پسند تھا، پھر ان کی حویلی اطراف کے دیہاتوں میں پھوٹ پڑنے والے خونی فسادات سے متاثر ہونے والے مسلمانوں کی پناہ گاہ بن گئی تو گویا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ سازشی سازشوں کے جال بننے لگے، لیکن ابوالفضل اتنے حوصلہ مند اور ذکی تھے کہ نہایت حکمت و بصیرت سے ان سازشوں کے تاروپود بکھیرتے رہے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو بظاہر سیکولر مگر بباطن مسلمانوں سے سخت نفرت کرنے والی ہندو حکومت نے تنسیخ زمینداری کا قانون نافذ کر دیا کیوں کہ تمام بڑے بڑے زمیندار مسلمان تھے اور انھیں معاشی طور پر بدحال کرنے کا یہی آسان اور قانونی طریقہ تھا۔ ابوالفضل صدیقی کا جی اتنا برا ہوا کہ بالآخر 1954ء میں پاکستان ہجرت کر آئے اور کراچی میں جیکب لائنز کے ایک دو کمروں کے کوارٹر میں رہنے لگے۔ کوئی اور ہوتا تو ماضی کی یادیں اوڑھ کر لیٹا رہتا لیکن انھوں نے نہ صرف پامردی سے حالات کا مقابلہ کیا بلکہ ساتھ ساتھ قلم سے افسوں بھی پھونکتے رہے۔ ایک کے بعد ایک ان کی لازوال کہانیاں آتی گئیں ۔
ان کے موضوع بہت منفرد تھے۔ دیہات، وہاں کے تمام طبقات، کسان، کھیت ، مزدور، مہاجن، جاگیرداروں اور ان کے کارندوں، دیہاتیوں کے مسائل اور ان کی نفسیات... پھر جنگل، نباتات، جانوروں، چرند پرند، درند، ان کی عادات و خصائل، جبلت اور انسان سے ان کے باہمی رشتوں کو جس طرح انھوں نے لکھا، وہ بلاشبہ اردو ادب کے سرمائے میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد ذخیرہ ہے ۔ ان کی جس کہانی سے ہم ان کے نام آشنا ہوئے، وہ 'چڑھتا سورج' تھی۔ یہ کہانی بلاشبہ دنیا کی عظیم کہانیوں کے مقابل پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک گھوڑا ہے۔ اس کہانی میں انھوں نے گھوڑے کو بطور استعارہ کرتے ہوئے ہندوستان کی تحریک آزادی اور عوامی قوتوں کی فتح کو مستقبل کا استعارہ بنا دیا ہے ۔ اس کہانی کی بُنت میں انھوں نے سماجی بیداری اور استحصالی قوتوں کی نشان دہی اتنی چابک دستی سے کی ہے کہ قاری ایک لمحے کے لیے بھی بور نہیں ہوتا۔ اس میں انھوں نے گھوڑوں کی اقسام، اس کی خصوصیات اور اس کی پرداخت دکھانے میں اتنی ہنرمندی سے کام لیا ہے کہ اس موضوع پر اردو افسانے میں اس کے مقابل اور کوئی تحریر نہیں پیش کی جا سکتی۔ کہانی کا کلائمکس اتنا پر اثر ہے کہ کوئی بھی حساس دل اسے روانی سے نہیں پڑھ سکتا۔ ہمیں آج بھی یاد ہے کہ جب ہم اس موڑ پر پہنچے جب میاں بچّہ (گھوڑے کا نام) اپنی مخصوص ہنہناہٹ کے ساتھ مقابلے کے لیے آتا ہے اور جب دوڑ شروع ہوتی ہے تو ہمیں بار بار رک کر اپنے دل کو سنبھالنا پڑا۔
گھوڑے کے ساتھ ہمارے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی، پھر ایک موقع تو ایسا آیا کہ بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ یہی تو اچھے ادب کی شناخت ہے۔ ان کی ایک اور کہانی 'خونی' پڑھیے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار بھی ایک جانور، ایک وحشی اور خونی جانور' ہاتھی ہے۔ یہ کہانی محض تخیل نہیں بلکہ ریاست رام پور کے جنگلوں کے ایک سچے واقعہ سے ماخوذ ہے، جسے صدیقی صاحب کے قلم نے ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید کر دیا۔ 'خونی' میں انھوں نے وحشی ہاتھی کی بے پناہ قوت اور جبلت کا اور ساتھ ہی ایک ہتھنی سے محبت کا جو دلفریب نقشہ کھینچا ہے ، اس سے جہاں قاری بیک وقت نفرت اور ہمدردی کے متضاد جذبات کے درمیان گھرا رہتا ہے، وہیں پڑھتے ہوئے جنگل اپنی پوری ہیبت ناکی کے ساتھ اس قاری کے تصور میں آ جاتا ہے جس نے کبھی جنگل نہیں دیکھا۔ کئی بار دہشت سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور سطر سطر دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ افسانہ' گلاب خاص' اور پھر اسی موضوع پر نقوش صدارتی ایوارڈ یافتہ ناولٹ' گل زمین کی تلاش میں' بھی ان کی وہ کہانیاں ہیں جن پر بلامبالغہ اردو ادب دنیا کی کسی بھی دوسری زبان کے ادب کے مقابلے پر فخر کر سکتا ہے۔ ان دونوں تخلیقات میں انھوں نے اپنی اعلیٰ ترین جمالیاتی حسیات کا شاندار مظاہرہ کیا ہے ۔ اس میں ایک طرف انھوں نے نچلے طبقات کی محنت پر اوپر والے طبقات کے استحصال کا ذکر اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے تو وہیں آم کی کاشت اور اس کے باغات اور برصغیر میں باغات کی تہذیبی جہت کو ابھارتے ہوئے مالیوں کے طبقے اور ان کے تخلیقی جوہر کو نمایاں کیا ہے۔ کس کس تحریر کا ذکر کیا جائے۔ ترنگ، میراث، دفینہ، بھیا دیوج، بھورا چلیے، انصاف، الارض اللہ اور نیل گائے... سب موضوع، اسلوب اور دلچسپی کے اعتبار سے ایک سے ایک، اور جہاں تک زبان و بیان کی بات ہے، ابوالفضل صدیقی مرحوم کی نثر کا سلسلۂ نسب دبستانِ اودھ کا سلسلۂ زریں ہے۔ ان کے والد ابوالحسن صدیقی نے اپنے قابل بیٹے کے متعلق یہ شعر کہا تھا ؎
محو ہے فطرت میں وہ، فطرت بھی اس میں محو ہے
رازِ فطرت کے سمجھنے میں اسے کب سہو ہے
وہ ساری زندگی فطرت کو افسانوں میں پینٹ کرتے رہے، اب بھی شاید وہ دوسری دنیا میں فطرت میں محو ہوں!