پاکستانی سیاست کا منفرد انداز… نعرے بازی

صدر ایوب نے خوشحال پاکستان کا نعرہ لگایا


سرور منیر راؤ June 05, 2022

ENGLAND: پاکستان کے سیاسی نظام میں اصل مسائل پر بحث و تمحیص کے بجائے بیانئے اور نعرے بازی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کی سیاست کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو ابتدا ہی سے ہمیں ایسے بیانیے اور خوش کن نعرے بازی ملے گی کہ جیسے خوشحالی کی منزل ہمارے انتظار میں ہے اور ہم دیر کر رہے ہیں۔

ان نعروں میں مذہبی جذبات کو ابھارنے اور خوشحالی کی منزل کو پانے کا بھرپور اظہار ملتا ہے لیکن عملی طور پر ان لیڈروں نے عوام کو چکمہ دے کر اپنی جیبیں بھریں اور ملک کو کنگال کر دیا۔اس بحث میں جائے بغیر کہ کس نے کیا کیا آج ہم اپنی گفتگو مختلف نعروں تک ہی محدود رکھتے ہیں۔قیام پاکستان کے وقت ایک نعرہ جسے تخلیق پاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے وہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ۔ ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اس نعرے کے ذریعے عوامی جذبات سے کھیلا ہے ۔ آج بھی یہ نعرہ انتخابی جلسوں میں مذہبی اور سیاسی کارکنوں کے لہو گرمانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سیاسی نظام کی باگ ڈور سیاستدانوں کے ہاتھ ہو یا عسکری حکمرانوں کے پاس ان سیاسی نعروں کا بازار ہر جگہ گرم نظر آتا ہے۔صدر ایوب نے خوشحال پاکستان کا نعرہ لگایا، جنرل ضیا الحق نے اسلامی نظام کی ترویج کے لیے بیانئے بنائے۔ صدر مشرف نے ''سب سے پہلے پاکستان'' اور روشن خیال پاکستان کا بیانیہ دیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے ''اسلامی سوشلزم اور "روٹی کپڑا مکان" کا نعرہ دیا۔ انیس سو ستر کے انتخابات میں دھاندلی کے بعد بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی تحریک میں نظام مصطفیٰ کا نعرہ لگایا گیا۔ بھٹو صاحب تو پھانسی چڑھ گئے لیکن نظام مصطفی نہ آیا۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو ''قرض اتارو ملک سنوارو''کے خوش کن نعروں سے متاثر ہو کر سمندر پار پاکستانیوں نے اربوں ڈالر پاکستان کے خزانے میں جمع کرائے لیکن قرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ دیا لیکن پاکستانی وفاق ایک اکائی نہ بن سکا۔ طاہرالقادری صاحب نے ''سیاست نہیں نظام بدلو''کا نعرہ لگایا اور ایک متاثر کن لانگ مارچ اور دھرنا دیا اور اپنے کارکنوں کی جان گنوائیں اور خود بیروں ملک جا بیٹھے۔ عمران خان نئے پاکستان کی ڈگڈگی بجاتے انتہائی طمطراق سے وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوئے ۔توقع تھی کہ عمران خان کی شخصیت اور بے داغ سیاسی ماضی کی وجہ سے وہ کوئی کارنامہ سرانجام دیں گے لیکن ''حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے گئے''۔عمران خان نے جب اپنی حکومت کی بساط الٹتے دیکھا تو کمال فن سے ''بین الاقوامی سازش''کا بیانیہ تیار کرکے اپنے حامیوں کی بکھرتی فوج کو اکھٹا کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی۔اب وہ ''امپورٹڈ حکومت''کے خاتمے کا نیا اور متاثر کن نعرہ لے کر میدان میں ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن اتحاد'' ملکی معیشت بچاو''کے نعرے اور بیانیے کو مقابلے میں لے آئی ہے۔

گزشتہ سات دہائیوں میں مختلف سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کی جانب سے دیے گئے آئے کسی بھی ایک بیانیہ نعرے کا ثمر قوم کو حاصل نہیں ہوا ہوا ۔بدقسمتی سے ملک ایسے قائدین کے چنگل میں پھنسا رہا ہے جنھیں سیاسیات کی اصطلاح میں "ڈیماگوگ" Demagogue کہا جاتا ہے۔ڈیماگوگ ایک ایسے خطیب یاسیاسی رہنما کو کہا جاتا ہے جو شہریوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے منطقی دلیل کااستعمال کرنے کے بجائے شہریوں کے جذبات اورخاص طور پر خوف اور تعصبات کو اپیل کرتا ہے۔

ڈیماگوگس کی اصطلاح قدیم ایتھنز کے سفاک جنرل کلیون کے بارے میں استعمال کی گئی تھی ۔نوجوان ڈیماگوگس یا کرشماتی شخصیات کی طرف جلد راغب ہوئے ہیں۔ڈیماگوگ کی شخصیت میں یہ traits ملتے ہیں۔دوسروں کو قربانی کا بکرا بنانا۔خوف پیداکرنا۔جھوٹ بولنا لیکن خود کو سچا کہلوانا،مخالفین پرالزام لگانا اور خود کو پارسا کہنا ۔ دوسروں کی توہین اورتضحیک کرنالیکن خود کو مہذب بھی کہلانا۔اس طرز عمل سے ہمارے سیاسی نظام کو کتنا نقصان پہنچا اس کا اندازہ ہر ذی شعور پاکستانی کو ہے لیکن بدقسمتی سے ہم کوئی سبق نہیں سیکھ سکے۔ ہمارا سیاسی نظام نعروں کے بھنور میں ایسا پھنسا کے اب تک تلاطم کا شکار ہے۔ ملکی معیشت اور سیاست دونوں بند گلی میں ہیں، نکلنے کا کوئی آسان راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔دیکھیں اب کون سا در کھلتا ہے کہ پاکستانی عوام کو سکھ اور سکون کا سانس ملے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔