میثاق معیشت اور سیاسی استحکام
محاذ آرائی پر مبنی سیاست کا عملی نتیجہ معاشی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آرہا ہے
ISLAMABAD:
پاکستان کی سیاست میں ایک مضبوط سیاسی بیانیہ '' میثاق معیشت'' کے موضوع بحث ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اور معاشی دانشور اسی نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں سیاسی معاملات کو پس پشت ڈال کر میثاق معیشت پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ ان کے بقول ہمارا سب بڑا اوراہم ترین ایشو معیشت سے جڑے مسائل سے نمٹنا ہے کیونکہ اسے حل کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اسے کیسے ممکن بنایا جائے ؟ یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ معاشی استحکام کی بڑی کنجی سیاسی استحکام کے ساتھ ہی جڑی ہوتی ہے اور اس کو قائم کیے بغیر معاشی استحکام کا خواب ہمیں ممکن نظر نہیں آتا ۔ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ جیسے ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر '' میثاق جمہوریت'' کیا تھا اور اسی بنیاد پر معاشی بیانیہ کی تشکیل نو کے لیے میثاق معیشت کی طرف بڑھنا ہوگا ۔
لیکن پاکستان کے سیاسی مقدمہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں معیشت جیسے اہم او رحساس معاملے پر بھی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے درمیان ہمیں سیاسی جنگ بالادست نظر آتی ہے ۔ ہمارا سیاسی طبقہ ایک دوسرے کی حکومتوں کو قبول کرنے او ران کی معاشی پالیسیوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کے بجائے اس پر سیاست کرتا ہے یا حکومت کی ٹانگیں کھینچ کر سیاست سمیت معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں ایک دوسرے کی معاشی پالیسیوں کو قبول کرنے کے بجائے ہم نئے نئے معاشی تجربات کرتے ہیں اوران تجربوںنے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ہمارا سیاسی رویہ مجموعی طور پر بن چکا ہے کہ جو بھی حکمران طبقہ آتا ہے اس کی سب سے پہلی سیاسی دہائی یہ ہی ہوتی ہے کہ معیشت کی تباہی کی ذمے داری سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہے ۔
محاذ آرائی پر مبنی سیاست کا عملی نتیجہ معاشی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔ الزام تراشیوں کی سیاست ، حکومتوں کو بنانے، گرانے کا کھیل اور شارٹ ٹرم ، مڈٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر معاشی معاملات پر منصوبہ بندی کے فقدان نے ہمارے ریاستی استحکام کے معاملات پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ معاشی یا سیاسی سطح پر اجتماعی طور پر ملک میں ''ردعمل کی سیاست '' یا ''ردعمل پر مبنی پالیسیوں'' کا عمل چل رہا ہے۔عالمی سطح پر مضبوط معاشی طاقت ور ممالک یا معاشی پالیسیوں کو چلانے والے عالمی مالیاتی ادارے بھی ان ہی ممالک بشمول پاکستان میں اپنی مالی معاونت کو یقینی بناتے ہیں جہاں ان کو لگتا ہے کہ اس ملک کا اول داخلی سیاسی استحکام مضبوط ہے اور دوئم ان کو لگتا ہے کہ ان کی معاشی پالیسیوں کی سمت عالمی مالیاتی فریم ورک کے دائرہ کار میں ہی رہ کر چلائی جارہی ہیں او ران کے مالیاتی مفادات کو کوئی بڑا خطرہ نہیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت ہم سنگین معاشی بحران کا شکار ہیں او راس کا ایک بڑ ا نتیجہ ہم کو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ تیل او ربجلی کی حالیہ قیمتوں میں اضافہ نے بھی لوگوں کو ایک مشکل سطح پر کھڑا کردیا ہے ۔بعض معاشی ماہرین کے بقول ملک تیزی سے ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے اور ہمیں اپنی معیشت کو وینٹی لیٹر سے بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ یہ کام روائتی معاشی پالیسیوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ہمیں معاشی استحکام کے لیے کڑوی گولیاں یا سخت گیر فیصلے کرنے ہوںگے ۔ بالخصوص ہمیں نئی پالیسیوں میں معاشی بوجھ عام یا کمزور طبقات پر ڈالنے کے بجائے پہلے سے موجود خوشحال طبقہ پر ڈال کر عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ۔
معاشی استحکام کے لیے ہمیں پہلے سیاسی استحکام کی کنجی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا ۔ حکومتوں میں تسلسل، ایک دوسرے کا سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنا ، محاذ آرائی او رالزام تراشیوں کی سیاست سے گریز،حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی معاشی پالیسیوں میں جذباتی سطح کی پالیسی سے گریز، معیشت پر سیاسی سودے بازی کرنا یا حزب اختلاف کا حکومت کا بلاوجہ ساتھ نہ دینے کی پالیسی ملک کے مفاد میں نہیں ۔ ہمیں سیاسی محاذ پر ایک ایسے سیاسی میثاق جمہوریت یا سیاست کی بھی ضرورت ہے۔
جہاں تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لیے قبولیت کا ماحول پیدا کریں او رایک ایسے معاہدے کی طرف پیش رفت کی جائے جس میں حکومت او رحزب اختلاف سمیت سب ہی فریقین پر اتفاق بھی کریں اور دستخط بھی کریں کہ وہ معاشی معاملات پر کوئی ایسی مہم نہیں چلائیں گے جس میں ریاست کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے ۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اہل سیاست عملی طو رپر سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت سیاسی و آئینی سطح پر موجود اداروں کو مضبوط کریں ۔پارلیمنٹ کو جوابدہ فورم بنایا جائے او رجو بھی سخت گیر معاشی فیصلے ناگزیر ہیں اسے پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے اور سب مل باہمی اتفاق رائے سے فیصلہ سازی کے عمل کو آگے بڑھائیں ۔
ہمیں روائتی حکومت اور روائتی حزب اختلاف سے باہر نکل کر '' ایک ذمے دار سیاست ، حکومت او رحزب اختلاف'' کی ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کے سیاسی وجود سے انکاری کا کھیل خطرے کی گھنٹی ہے ۔ہمیں سری لنکا کے حالات سے سبق سیکھنا ہوگا ۔ ہمیں معاشی میدان میں فوری اور بروقت فیصلے کرنے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی حکمرانی کے نظام کے اخراجات کو کم کریں ۔ معیشت کو خراب کرکے پاپولر سیاست پر مبنی پالیسی کسی بھی صورت میں ہمارے مفاد میں نہیں۔لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون ایسے بڑے اتفاق رائے کی طرف پیش کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا ۔ یا د رکھیں ہم سیاست ہمیشہ کرسکتے ہیں لیکن تباہ حال معیشت کو بحال کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ایک مضبوط سیاسی بیانیہ '' میثاق معیشت'' کے موضوع بحث ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اور معاشی دانشور اسی نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں سیاسی معاملات کو پس پشت ڈال کر میثاق معیشت پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ ان کے بقول ہمارا سب بڑا اوراہم ترین ایشو معیشت سے جڑے مسائل سے نمٹنا ہے کیونکہ اسے حل کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اسے کیسے ممکن بنایا جائے ؟ یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ معاشی استحکام کی بڑی کنجی سیاسی استحکام کے ساتھ ہی جڑی ہوتی ہے اور اس کو قائم کیے بغیر معاشی استحکام کا خواب ہمیں ممکن نظر نہیں آتا ۔ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ جیسے ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر '' میثاق جمہوریت'' کیا تھا اور اسی بنیاد پر معاشی بیانیہ کی تشکیل نو کے لیے میثاق معیشت کی طرف بڑھنا ہوگا ۔
لیکن پاکستان کے سیاسی مقدمہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں معیشت جیسے اہم او رحساس معاملے پر بھی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے درمیان ہمیں سیاسی جنگ بالادست نظر آتی ہے ۔ ہمارا سیاسی طبقہ ایک دوسرے کی حکومتوں کو قبول کرنے او ران کی معاشی پالیسیوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کے بجائے اس پر سیاست کرتا ہے یا حکومت کی ٹانگیں کھینچ کر سیاست سمیت معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں ایک دوسرے کی معاشی پالیسیوں کو قبول کرنے کے بجائے ہم نئے نئے معاشی تجربات کرتے ہیں اوران تجربوںنے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ہمارا سیاسی رویہ مجموعی طور پر بن چکا ہے کہ جو بھی حکمران طبقہ آتا ہے اس کی سب سے پہلی سیاسی دہائی یہ ہی ہوتی ہے کہ معیشت کی تباہی کی ذمے داری سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہے ۔
محاذ آرائی پر مبنی سیاست کا عملی نتیجہ معاشی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔ الزام تراشیوں کی سیاست ، حکومتوں کو بنانے، گرانے کا کھیل اور شارٹ ٹرم ، مڈٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر معاشی معاملات پر منصوبہ بندی کے فقدان نے ہمارے ریاستی استحکام کے معاملات پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ معاشی یا سیاسی سطح پر اجتماعی طور پر ملک میں ''ردعمل کی سیاست '' یا ''ردعمل پر مبنی پالیسیوں'' کا عمل چل رہا ہے۔عالمی سطح پر مضبوط معاشی طاقت ور ممالک یا معاشی پالیسیوں کو چلانے والے عالمی مالیاتی ادارے بھی ان ہی ممالک بشمول پاکستان میں اپنی مالی معاونت کو یقینی بناتے ہیں جہاں ان کو لگتا ہے کہ اس ملک کا اول داخلی سیاسی استحکام مضبوط ہے اور دوئم ان کو لگتا ہے کہ ان کی معاشی پالیسیوں کی سمت عالمی مالیاتی فریم ورک کے دائرہ کار میں ہی رہ کر چلائی جارہی ہیں او ران کے مالیاتی مفادات کو کوئی بڑا خطرہ نہیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت ہم سنگین معاشی بحران کا شکار ہیں او راس کا ایک بڑ ا نتیجہ ہم کو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ تیل او ربجلی کی حالیہ قیمتوں میں اضافہ نے بھی لوگوں کو ایک مشکل سطح پر کھڑا کردیا ہے ۔بعض معاشی ماہرین کے بقول ملک تیزی سے ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے اور ہمیں اپنی معیشت کو وینٹی لیٹر سے بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ یہ کام روائتی معاشی پالیسیوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ہمیں معاشی استحکام کے لیے کڑوی گولیاں یا سخت گیر فیصلے کرنے ہوںگے ۔ بالخصوص ہمیں نئی پالیسیوں میں معاشی بوجھ عام یا کمزور طبقات پر ڈالنے کے بجائے پہلے سے موجود خوشحال طبقہ پر ڈال کر عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ۔
معاشی استحکام کے لیے ہمیں پہلے سیاسی استحکام کی کنجی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا ۔ حکومتوں میں تسلسل، ایک دوسرے کا سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنا ، محاذ آرائی او رالزام تراشیوں کی سیاست سے گریز،حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی معاشی پالیسیوں میں جذباتی سطح کی پالیسی سے گریز، معیشت پر سیاسی سودے بازی کرنا یا حزب اختلاف کا حکومت کا بلاوجہ ساتھ نہ دینے کی پالیسی ملک کے مفاد میں نہیں ۔ ہمیں سیاسی محاذ پر ایک ایسے سیاسی میثاق جمہوریت یا سیاست کی بھی ضرورت ہے۔
جہاں تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لیے قبولیت کا ماحول پیدا کریں او رایک ایسے معاہدے کی طرف پیش رفت کی جائے جس میں حکومت او رحزب اختلاف سمیت سب ہی فریقین پر اتفاق بھی کریں اور دستخط بھی کریں کہ وہ معاشی معاملات پر کوئی ایسی مہم نہیں چلائیں گے جس میں ریاست کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے ۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اہل سیاست عملی طو رپر سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت سیاسی و آئینی سطح پر موجود اداروں کو مضبوط کریں ۔پارلیمنٹ کو جوابدہ فورم بنایا جائے او رجو بھی سخت گیر معاشی فیصلے ناگزیر ہیں اسے پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے اور سب مل باہمی اتفاق رائے سے فیصلہ سازی کے عمل کو آگے بڑھائیں ۔
ہمیں روائتی حکومت اور روائتی حزب اختلاف سے باہر نکل کر '' ایک ذمے دار سیاست ، حکومت او رحزب اختلاف'' کی ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کے سیاسی وجود سے انکاری کا کھیل خطرے کی گھنٹی ہے ۔ہمیں سری لنکا کے حالات سے سبق سیکھنا ہوگا ۔ ہمیں معاشی میدان میں فوری اور بروقت فیصلے کرنے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی حکمرانی کے نظام کے اخراجات کو کم کریں ۔ معیشت کو خراب کرکے پاپولر سیاست پر مبنی پالیسی کسی بھی صورت میں ہمارے مفاد میں نہیں۔لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون ایسے بڑے اتفاق رائے کی طرف پیش کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا ۔ یا د رکھیں ہم سیاست ہمیشہ کرسکتے ہیں لیکن تباہ حال معیشت کو بحال کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔