کشتی پر تنہا بحرالکاہل عبور کرنے والا 83 سالہ شخص
جاپانی مہم جو کینیچی ہوری نے سان فرانسسکو سے اپنا سفر شروع کیا اور 8500 کلومیٹر دور جاپان تک جاپہنچا
PARIS:
جاپانی مہم جو نے 83 سال کی عمر میں ایک کشتی میں تنِ تنہا 8500 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے بحرِ الکاہل عبور کرلیا۔
معمر شہری کینیچی ہوری اس طرح اکیلے بحرالکاہل عبور کرنے والے سب سے معمر ترین شخص کا اعزاز اپنے نام کیا ہے اس میں وہ کہیں بھی نہیں رکے اور کشتی آگے بڑھتی رہی۔
یہ سفر انہوں نے 20 فٹ طویل کشتی میں دو ماہ میں مکمل کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1962ء میں وہ اتنا ہی طویل الٹا سفر بھی طے کرچکے ہیں جب ان کی عمر 23 سال تھی۔ اس وقت انہیں دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے گہرے سمندر عبور کرنے والے کم عمر ترین فرد کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔
اس وقت ان کے سفر میں بعض مشکلات تھیں کیونکہ وہ جاپان سے امریکا بغیر ویزا کے آئے تھے۔ اپنے اس سفر کے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ بہت مضطرب اور پریشان تھے کہ انہیں راہ کھونے کا ڈر تھا اور پکڑے جانے کا خوف بھی لاحق تھا تاہم 83 سال کی عمر میں دوبارہ سفر میں بہت سے لوگ ان کے ساتھ تھے اور ان کی کشتی جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے بھری ہوئی تھی۔
لیکن اس سفر میں بھی موسم خراب ہوگیا اور انہوں نے تین روز تک بپھرے ہوئے سمندر کا مقابلہ کیا تھا جس سے وہ نہایت تھکاوٹ اور پریشانی کے شکار بھی رہے تھے۔
جاپانی مہم جو نے 83 سال کی عمر میں ایک کشتی میں تنِ تنہا 8500 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے بحرِ الکاہل عبور کرلیا۔
معمر شہری کینیچی ہوری اس طرح اکیلے بحرالکاہل عبور کرنے والے سب سے معمر ترین شخص کا اعزاز اپنے نام کیا ہے اس میں وہ کہیں بھی نہیں رکے اور کشتی آگے بڑھتی رہی۔
یہ سفر انہوں نے 20 فٹ طویل کشتی میں دو ماہ میں مکمل کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1962ء میں وہ اتنا ہی طویل الٹا سفر بھی طے کرچکے ہیں جب ان کی عمر 23 سال تھی۔ اس وقت انہیں دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے گہرے سمندر عبور کرنے والے کم عمر ترین فرد کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔
اس وقت ان کے سفر میں بعض مشکلات تھیں کیونکہ وہ جاپان سے امریکا بغیر ویزا کے آئے تھے۔ اپنے اس سفر کے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ بہت مضطرب اور پریشان تھے کہ انہیں راہ کھونے کا ڈر تھا اور پکڑے جانے کا خوف بھی لاحق تھا تاہم 83 سال کی عمر میں دوبارہ سفر میں بہت سے لوگ ان کے ساتھ تھے اور ان کی کشتی جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے بھری ہوئی تھی۔
لیکن اس سفر میں بھی موسم خراب ہوگیا اور انہوں نے تین روز تک بپھرے ہوئے سمندر کا مقابلہ کیا تھا جس سے وہ نہایت تھکاوٹ اور پریشانی کے شکار بھی رہے تھے۔