قصہ لیاری وار لارڈز کا
یہ وہ زمانہ تھا جب رحمان بلوچ کی اثر ورسوخ عروج پر تھا
ISTANBUL:
جمہوریت کا داعی ، فٹ بال ، باکسنگ اور دیگر کھیلوں کے لیے معروف ، محنت کشوں کا علاقہ لیاری منشیات ، اسلحہ ، غیر قانونی تجارت یا اسمگلنگ کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ اسی لیاری میں لاتعداد سنسنی خیز قصے بھی معروف ہوئے ہیں ، جو نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں۔
یہ ان لوگوں کی کہانیاں ہیں جنھیں کچھ لوگ مسیحا اور سماجی رہنما کہتے اور سمجھتے ہیں اور کچھ حلقے غریب علاقے کا جرائم پیشہ مانتے ہیں مگر ان کی طاقت پر سب متفق نظر آتے ہیں۔ علاقہ گیری کی اس ہوس کا قصہ طویل ہے جس میں جگری دوستوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کے خاندان قتل ہوئے ، بھائی جیسے ساتھیوں نے ایک دوسرے کے اعضا کاٹ ڈالے ، ساتھ کھانا کھاتے دوستوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا اور بچپن کے پڑوسیوں نے ایک دوسرے کی لاشیں تک انتقام کی آگ میں جلا ڈالیں۔ اس ساری صورتحال پرکئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن یہاں ہم ان کا اختصار سے ذکر کررہے ہیں۔
لیاری کے بزرگ کہتے ہیں کہ مدتوں پہلے دو بھائیوں شیر محمد (شیرو) اور داد محمد ( دادل ، رحمان بلوچ کے والد ) نے اپنے منفی کاموں کو پھیلانے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے اپنا گروہ منظم کرنا شروع کیا۔ دوسری جانب منشیات ہی کے کاروبار سے منسلک اقبال عرف بابو ڈکیت کا گروہ بھی لیاری کے محلوں میں فعال تھا۔ لیاری کا کونسا علاقہ کس کے پاس ہوگا اور کس محلے میں منشیات کا کاروبار کس کے قبضے میں ہوگا یہ رسہ کشی دشمنی کا رنگ اختیار کرتی چلی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ اسی زمانے میں حاجی لالو اپنے بیٹوں کے ساتھ جن میں ارشد پپو اور یاسر عرفات بھی شامل تھے ، ایک مضبوط گروہ چلا رہا تھا۔ حاجی لالو جہان آباد میں شیرشاہ و میوہ شاہ قبرستان کے علاقے میں منشیات کا کاروبار چلاتا تھا جو آگے چل کر اغواء برائے تاوان کے دھندے سے جڑگیا۔ اسی پیسے اور طاقت کے حصول کی رسہ کشی جلد ہی مسلح تصادم میں بدلی اور رحمان بلوچ کا والد دادل بابو ڈکیت کے ہاتھوں مارا گیا اور دادل کی موت کے بعد رحمان بلوچ کو حاجی لالو نے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ یہی سے رحمان بلوچ کے سفرکا آغاز ہوا ایک روز رحمان بلوچ نے بابو ڈکیت کو مارکر اپنے والد کے قتل کا بدلہ لیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب رحمان بلوچ کی اثر ورسوخ عروج پر تھا۔ حاجی لالو کے گروہ میں شامل رحمان بلوچ ، ارشد پپو اور یاسر عرفات نے مل کر اپنے گروہ کو ناقابل تسخیر بنادیا تھا لیکن ایک محاذ آرائی کے نتیجے میں رحمان بلوچ ان سے الگ ہوگیا جو بعد ازاں دشمنی کی شکل اختیار کرگئی۔ ارشد پپو کے ہاتھوں رحمان بلوچ کے رشتے دار مارے جانے لگے تو جواب میں رحمان بلوچ نے بھی ارشد پپو کے رشتے داروں پر حملوں کا آغاز کیا۔ اسی جنگ کے دوران بلوچ اتحاد تحریک ( امن دوست ) کے قائد انور بھائی جان بھی مارے گئے۔ ارشد پپو گروپ نے رحمان بلوچ کے کاروباری مفادات کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا اس دوران رحمان بلوچ بلوچستان چلا گیا ، جب ارشد پپو گرفتار ہوا تو رحمان بلوچ واپس لیاری آگیا۔
اچانک اس کہانی نے ایک ایسی انگڑائی لی جس سے لیاری عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گیا ، ذرایع ابلاغ نے اسے گینگ وار کا نام دیا۔ رحمان بلوچ کی گرفت مضبوط ہوتی گئی، لیاری کے سیاسی فیصلے بھی رحمان بلوچ کرنے لگا۔ فیض محمد عرف فیضو ( عزیر بلوچ کا والد) ایک ٹرانسپورٹر تھا ، بھتے کے معاملے پر ارشد پپو نے اسے اغواء کرکے قتل کر دیا اور عزیر بلوچ اپنے والد کا بدلہ لینے کے لیے رحمان بلوچ کی سرپرستی میں آگئے۔
بعد ازاں رحمان بلوچ ایک مشکوک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگئے، تو عزیر بلوچ رحمان بلوچ کے جان نشین بنا دیے گئے اور سردار کا لقب پایا اور شہرت حاصل کی۔ عزیر بلوچ کی سرپرستی میں پیپلز امن کمیٹی بنادی گئی، لیاری امن کی جانب رواں دواں تھا کہ دوسری طرف کچھی رابطہ کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی یہاں بھی طاقت کی رسہ کشی کا آغاز ہوا اور نوبت مارا ماری تک پہنچ گئی اور ساتھ ہی بابا لاڈلا گروپ ، غفار ذکری گروپ بھی سامنے آئے اور نئی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ لیاری میں دوبارہ خونریزی کا آغاز ہو گیا پھر وہ وقت بھی آیا جب لیاری سے باہر کے علاقوں بازاروں سے بلوچوں کے خلاف تشدد میں تیزی آئی اور بلوچوں کی لاشیں ملنے لگیں ، لیاری کے مکین محصور ہوکر رہ گئے ، یعنی اندر بھی موت باہر بھی موت۔ دوسری طرف لوگوں کو زبان کی بنیاد پر شناخت کرکے قتل کردینے کی وارداتیں بھی شروع ہوئیں۔
یہ وہ دور تھا جب عزیر بلوچ لیاری کا متفقہ لیڈر بن چکا تھا، ہر مرنے والے بلوچ نوجوان کی ماں وزیر اعلیٰ سندھ کے گھر نہیں جاتی تھی بلکہ عزیر بلوچ کے گھر پہنچ کر فریاد کرتی تھی۔ پیپلز امن کمیٹی لیاری سے باہر جہاں بلوچوں کی آبادی تھی معرض وجود آئی۔ اس طرح علاقہ گیری کا یہ کھیل کراچی کی سطح پر مختلف حصوں میں بٹ گیا ، جنھیں سیاسی حمایت بھی حاصل تھی۔
لیاری میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ایک بار 14دن تک آپریشن کرنا پڑا ، دوسری بار چیل چوک پر 8 روزہ آپریشن کیا گیا دونوں ناکام ہوگئے۔ جب ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو لیاری سے عزیر بلوچ کے نامزد کردہ امیدوار بھی سامنے آئے۔ پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ارشد پپو اور اس کے بھائی یاسر عرفات کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کر کے لیاری لایا گیا اور انھیں ایک ہجوم کے حوالے کیا گیا ، جس نے ارشد پپو کا سر تن سے جدا کر دیا اور اسے فٹبال بنایا اور بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کرکے جلا دیا گیا۔
2013میں ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع ہوا ، لیاری میں بھی کامیاب آپریشن کیا گیا اس دوران ہماری سیکیورٹی فورسز کے جوان بھی قربان ہوئے ، اس وقت تک عزیر بلوچ ملک سے جاچکے تھے۔ کراچی میں بھی امن بحال ہوگیا ، لیاری کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور نوجوان میدان میں آگئے اور لیاری کے روشن چہرے کی بحالی میں جت گئے۔ بعد ازاں عزیر بلوچ پاکستان سے باہر ڈرامائی انداز میں گرفتار ہوئے اور ان پر مختلف مقدمات دائر تھے لیکن زیادہ تر مقدمات میں وہ عدم ثبوت پر بری ہو رہے ہیں۔
لیاری کے مذکورہ بالا حالات و واقعات نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہیں جنھیں مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس سارے عرصے میں لیاری کے لاتعداد لوگ مارے گئے ، بازار اور فٹبال کے میدان بم دھماکوں سے لرز گئے ، مخالفین کے گھر جلائے گئے ، بے شمار خاندان لیاری سے نقل مکانی کرگئے ، کاروبار تباہ و برباد ہوا ، لیاری کے ماتھے پر گینگ وار کا لیبل چسپاں کیا گیا، نوجوانوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ، شناختی کارڈ پر لیاری کا نام دیکھ کر نوجوانوں کو روزگار دینے سے انکار کیا گیا ، لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا ، لیاری کا روشن چہرہ سیاہ ہوگیا۔
یہ سب کچھ اہل لیاری کے لیے ایک بھیانک خواب تھا ۔ لیاری ایک بار پھر امن کی جانب رواں دواں ہے، حقائق سے ناواقف لوگ آج بھی لیاری والوں کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے لیاری کراچی کا حصہ نہ ہو بلکہ ایک الگ سیارہ ہو، کیا لیاری کے باسی الگ مخلوق ہیں ؟
جمہوریت کا داعی ، فٹ بال ، باکسنگ اور دیگر کھیلوں کے لیے معروف ، محنت کشوں کا علاقہ لیاری منشیات ، اسلحہ ، غیر قانونی تجارت یا اسمگلنگ کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ اسی لیاری میں لاتعداد سنسنی خیز قصے بھی معروف ہوئے ہیں ، جو نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں۔
یہ ان لوگوں کی کہانیاں ہیں جنھیں کچھ لوگ مسیحا اور سماجی رہنما کہتے اور سمجھتے ہیں اور کچھ حلقے غریب علاقے کا جرائم پیشہ مانتے ہیں مگر ان کی طاقت پر سب متفق نظر آتے ہیں۔ علاقہ گیری کی اس ہوس کا قصہ طویل ہے جس میں جگری دوستوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کے خاندان قتل ہوئے ، بھائی جیسے ساتھیوں نے ایک دوسرے کے اعضا کاٹ ڈالے ، ساتھ کھانا کھاتے دوستوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا اور بچپن کے پڑوسیوں نے ایک دوسرے کی لاشیں تک انتقام کی آگ میں جلا ڈالیں۔ اس ساری صورتحال پرکئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن یہاں ہم ان کا اختصار سے ذکر کررہے ہیں۔
لیاری کے بزرگ کہتے ہیں کہ مدتوں پہلے دو بھائیوں شیر محمد (شیرو) اور داد محمد ( دادل ، رحمان بلوچ کے والد ) نے اپنے منفی کاموں کو پھیلانے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے اپنا گروہ منظم کرنا شروع کیا۔ دوسری جانب منشیات ہی کے کاروبار سے منسلک اقبال عرف بابو ڈکیت کا گروہ بھی لیاری کے محلوں میں فعال تھا۔ لیاری کا کونسا علاقہ کس کے پاس ہوگا اور کس محلے میں منشیات کا کاروبار کس کے قبضے میں ہوگا یہ رسہ کشی دشمنی کا رنگ اختیار کرتی چلی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ اسی زمانے میں حاجی لالو اپنے بیٹوں کے ساتھ جن میں ارشد پپو اور یاسر عرفات بھی شامل تھے ، ایک مضبوط گروہ چلا رہا تھا۔ حاجی لالو جہان آباد میں شیرشاہ و میوہ شاہ قبرستان کے علاقے میں منشیات کا کاروبار چلاتا تھا جو آگے چل کر اغواء برائے تاوان کے دھندے سے جڑگیا۔ اسی پیسے اور طاقت کے حصول کی رسہ کشی جلد ہی مسلح تصادم میں بدلی اور رحمان بلوچ کا والد دادل بابو ڈکیت کے ہاتھوں مارا گیا اور دادل کی موت کے بعد رحمان بلوچ کو حاجی لالو نے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ یہی سے رحمان بلوچ کے سفرکا آغاز ہوا ایک روز رحمان بلوچ نے بابو ڈکیت کو مارکر اپنے والد کے قتل کا بدلہ لیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب رحمان بلوچ کی اثر ورسوخ عروج پر تھا۔ حاجی لالو کے گروہ میں شامل رحمان بلوچ ، ارشد پپو اور یاسر عرفات نے مل کر اپنے گروہ کو ناقابل تسخیر بنادیا تھا لیکن ایک محاذ آرائی کے نتیجے میں رحمان بلوچ ان سے الگ ہوگیا جو بعد ازاں دشمنی کی شکل اختیار کرگئی۔ ارشد پپو کے ہاتھوں رحمان بلوچ کے رشتے دار مارے جانے لگے تو جواب میں رحمان بلوچ نے بھی ارشد پپو کے رشتے داروں پر حملوں کا آغاز کیا۔ اسی جنگ کے دوران بلوچ اتحاد تحریک ( امن دوست ) کے قائد انور بھائی جان بھی مارے گئے۔ ارشد پپو گروپ نے رحمان بلوچ کے کاروباری مفادات کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا اس دوران رحمان بلوچ بلوچستان چلا گیا ، جب ارشد پپو گرفتار ہوا تو رحمان بلوچ واپس لیاری آگیا۔
اچانک اس کہانی نے ایک ایسی انگڑائی لی جس سے لیاری عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گیا ، ذرایع ابلاغ نے اسے گینگ وار کا نام دیا۔ رحمان بلوچ کی گرفت مضبوط ہوتی گئی، لیاری کے سیاسی فیصلے بھی رحمان بلوچ کرنے لگا۔ فیض محمد عرف فیضو ( عزیر بلوچ کا والد) ایک ٹرانسپورٹر تھا ، بھتے کے معاملے پر ارشد پپو نے اسے اغواء کرکے قتل کر دیا اور عزیر بلوچ اپنے والد کا بدلہ لینے کے لیے رحمان بلوچ کی سرپرستی میں آگئے۔
بعد ازاں رحمان بلوچ ایک مشکوک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگئے، تو عزیر بلوچ رحمان بلوچ کے جان نشین بنا دیے گئے اور سردار کا لقب پایا اور شہرت حاصل کی۔ عزیر بلوچ کی سرپرستی میں پیپلز امن کمیٹی بنادی گئی، لیاری امن کی جانب رواں دواں تھا کہ دوسری طرف کچھی رابطہ کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی یہاں بھی طاقت کی رسہ کشی کا آغاز ہوا اور نوبت مارا ماری تک پہنچ گئی اور ساتھ ہی بابا لاڈلا گروپ ، غفار ذکری گروپ بھی سامنے آئے اور نئی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ لیاری میں دوبارہ خونریزی کا آغاز ہو گیا پھر وہ وقت بھی آیا جب لیاری سے باہر کے علاقوں بازاروں سے بلوچوں کے خلاف تشدد میں تیزی آئی اور بلوچوں کی لاشیں ملنے لگیں ، لیاری کے مکین محصور ہوکر رہ گئے ، یعنی اندر بھی موت باہر بھی موت۔ دوسری طرف لوگوں کو زبان کی بنیاد پر شناخت کرکے قتل کردینے کی وارداتیں بھی شروع ہوئیں۔
یہ وہ دور تھا جب عزیر بلوچ لیاری کا متفقہ لیڈر بن چکا تھا، ہر مرنے والے بلوچ نوجوان کی ماں وزیر اعلیٰ سندھ کے گھر نہیں جاتی تھی بلکہ عزیر بلوچ کے گھر پہنچ کر فریاد کرتی تھی۔ پیپلز امن کمیٹی لیاری سے باہر جہاں بلوچوں کی آبادی تھی معرض وجود آئی۔ اس طرح علاقہ گیری کا یہ کھیل کراچی کی سطح پر مختلف حصوں میں بٹ گیا ، جنھیں سیاسی حمایت بھی حاصل تھی۔
لیاری میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ایک بار 14دن تک آپریشن کرنا پڑا ، دوسری بار چیل چوک پر 8 روزہ آپریشن کیا گیا دونوں ناکام ہوگئے۔ جب ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو لیاری سے عزیر بلوچ کے نامزد کردہ امیدوار بھی سامنے آئے۔ پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ارشد پپو اور اس کے بھائی یاسر عرفات کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کر کے لیاری لایا گیا اور انھیں ایک ہجوم کے حوالے کیا گیا ، جس نے ارشد پپو کا سر تن سے جدا کر دیا اور اسے فٹبال بنایا اور بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کرکے جلا دیا گیا۔
2013میں ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع ہوا ، لیاری میں بھی کامیاب آپریشن کیا گیا اس دوران ہماری سیکیورٹی فورسز کے جوان بھی قربان ہوئے ، اس وقت تک عزیر بلوچ ملک سے جاچکے تھے۔ کراچی میں بھی امن بحال ہوگیا ، لیاری کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور نوجوان میدان میں آگئے اور لیاری کے روشن چہرے کی بحالی میں جت گئے۔ بعد ازاں عزیر بلوچ پاکستان سے باہر ڈرامائی انداز میں گرفتار ہوئے اور ان پر مختلف مقدمات دائر تھے لیکن زیادہ تر مقدمات میں وہ عدم ثبوت پر بری ہو رہے ہیں۔
لیاری کے مذکورہ بالا حالات و واقعات نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہیں جنھیں مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس سارے عرصے میں لیاری کے لاتعداد لوگ مارے گئے ، بازار اور فٹبال کے میدان بم دھماکوں سے لرز گئے ، مخالفین کے گھر جلائے گئے ، بے شمار خاندان لیاری سے نقل مکانی کرگئے ، کاروبار تباہ و برباد ہوا ، لیاری کے ماتھے پر گینگ وار کا لیبل چسپاں کیا گیا، نوجوانوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ، شناختی کارڈ پر لیاری کا نام دیکھ کر نوجوانوں کو روزگار دینے سے انکار کیا گیا ، لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا ، لیاری کا روشن چہرہ سیاہ ہوگیا۔
یہ سب کچھ اہل لیاری کے لیے ایک بھیانک خواب تھا ۔ لیاری ایک بار پھر امن کی جانب رواں دواں ہے، حقائق سے ناواقف لوگ آج بھی لیاری والوں کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے لیاری کراچی کا حصہ نہ ہو بلکہ ایک الگ سیارہ ہو، کیا لیاری کے باسی الگ مخلوق ہیں ؟