بٹوارہ نگر

سیدھے سادھے آدمی ہیں اور سادہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں

LIMA:
لاہور میں ہمارے بچپن ، لڑکپن یعنی یوں کہیے کہ ہمارے زمانہ طالبعلمی کے دوست محمد اکرم سلیم رہتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے اسکول براڈ کاسٹ میں ہونیوالے ہفتہ وار کوئز مقابلوں میں وہ ہمارے ساتھ اسکول کی نمایندگی بھی کیا کرتے۔ کرنٹ افیئرز پر معلومات کا خزانہ اور بیت بازی میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔

اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کوئز اور کسوٹی کے پروگراموں میں حصہ لینا ان کی زندگی کا خاصا تھا۔ طبیعتا شاعر ہیں اور استاد قمر جلالوی کے پرجوش مداح ہیں ، اسی لیے ان کے اکثر اشعار میں قمر جلالوی کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔

سیدھے سادھے آدمی ہیں اور سادہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا خاص کمال یہ ہے کہ آپ کسی بھی موضوع پر لکھ رہے ہوں وہ آپ کو ہر موضوع پر کچھ نہ کچھ اشعار عطا کر دیں گے، یہ بھی ان کی ادب اور سخن سے محبت کا ثبوت ہے۔ نا گزیر وجوہات کی بنا پر ہمیں لاہور سے کراچی شفٹ ہونا پڑا اور یوں ان سے ہماری قربت میں دوری آگئی۔

جب کبھی بھی اپنی مصروفیات میں کچھ وقت نکال کر میرا لاہور جانے کا اتفاق ہوتا ہے مال روڈ پر واقع '' پاک ٹی ہاؤس '' میں کچھ دیر بیٹھک ہو جاتی ہے۔ بہرحال بات کیا کہنی ہے اور بات سے بات نکلی تو کس پیرائے میں چلی گئی۔

لاہور ایک قدیمی شہر ہے اور اپنی تاریخی روایات رکھتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل یہاں ہندوؤں اور سکھوں کی ملی جلی آباد ی ہوا کرتی تھی۔ پرانی تعمیرات تھیں ، جن میں ایک حسن تھا۔ ان آبادیوں میں ہندوؤں کے مندر اور سکھوں کے گرد وارے بھی جا بجا تھے۔ تقسیم ہند کے وقت آبادیوں کا تبادلہ یعنی یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے لوگ یہاں سکونت پذیر ہوئے ، جو مسلم خاندان یہاں آئے وہ اپنے ساتھ ہندوستان کی جائیدادوں کے کلیم کے ضروری کاغذات کی شکل میں قانونی دستاویزات بھی لائے اور حکومت وقت کی طرف سے انھیں ان کلیموں کے عوض ایسے ہی مکانات الاٹ کر دیے گئے۔

لاہور شہر زمانہ ابتدا سے وکیلوں کا شہر بھی مشہور رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ پورے پنجاب کی زر عی اراضی کے مقدمات کا مرکز یہی لاہور تھا۔ ہرگھر سے کوئی نہ کوئی ایڈوکیٹ ضرور ہوتا اور وہ اپنے گھر کے بیرونی دروازہ پر اپنے نام کے ساتھ وکالت کی ڈگری اور ایڈوکیٹ ہائی کورٹ کی تختی لگانا باعث فخر سمجھتا تھا۔ یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ گھروں کے باہر اپنی شناخت کے تختیوں کو نصب کرنے کا رواج عام تھا۔ ان پرانے علاقوں کے گھروں کے باہر جس گھر میں اکرم صاحب اپنے والدین کی زندگی میں دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔


وہ بھی ہندو طرز کی تعمیر کا مکان تھا جو انارکلی کے کمرشل اور تجارتی علاقہ کے وسط میں واقع تھا اور یہ وہی دور تھا جب لوگ اپنے گھروں کے باہر ناموں کی تختیاں نصب کروانا باعث فخر و متانت سمجھا کرتے تھے۔ نام کے ساتھ ڈگری بھی لکھی ہوئی ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح ان کے گھر کے بیرون لکڑی کے دروازہ پر بھی ان کے والد گرامی کے نام کی تختی نصب تھی جس پر ان کے والد کے نام کے نیچے بی اے ( علیگ) لکھا ہوا ہوتا تھا۔ ہم حیرانی کے عالم میں استفسار کرتے اور پوچھتے کہ یہ علیگ کیا ہے۔

معلوم ہوا کہ ہندوستان کے شہر علی گڑھ کو مخٰتصرا علیگ لکھا جاتا ہے۔ علی گڑھ کی وجہ شہرت وہاں قائم سر سید احمد خان کی مسلم علی گڑھ یونیورسٹی برصغیر کے مسلمانوں کی واحد معیاری یونیورسٹی تھی۔ علی گڑھ کا فارغ التحصیل اور ڈگری یافتہ فرد فخر محسوس کرتا تھا، اس لیے کہ شاید اس دور میں تعلیم کا اعلیٰ معیار تھا۔ پوری دنیا میں اس یونیورسٹی کی دھوم کی وجہ سے ڈگری ریکگنائز کی جاتی تھی۔ افراد خاندان میں اضافہ کی وجہ سے یہ ہندوانہ مکان چھوٹا پڑنے لگا۔

لہذا کرشن نگر کے علاقہ میں 8 مرلہ کا مکان خرید کر رہنے لگے ، والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔ گزشتہ دنوں فون پر گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ جس حصہ داری کے مکان میں وہ رہے تھے وہ بک چکا ہے، چونکہ یہ مکان شراکت داری کا تھا ، کوشش یہی تھی کہ اس کو جلد از جلد فروخت کرکے اس کی مجموعی رقم کو مساویانہ حقوق کی بنیاد پر بہن بھائیوں میں تقسیم کردیا جائے، یہی شریعت کا تقاضہ بھی ہے۔ رہائشی علاقے میں ایسٹ اوپن اور کشادہ سڑک کے مکان کی کل قیمت فروخت ایک کروڑ اسی لاکھ بتائی جو کراچی کے 120گز (4 مرلہ) کے مساوی ہے ، جس سے ہمیں اندازہ ہوا پورے ملک میں ایک ہی شہر ہے کراچی جس کی پراپرٹی کی قیمتیں دوسرے شہروں سے کہیں زیادہ ہیں۔ کراچی ناقص پلاننگ اور آبادی میں تیزی سے اضافہ سے یہ شہر بے شمار مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے یہاں کے شہری معاملات بہت نا گفتہ بہ ہیں۔

بلند و بالا ، فلک شگاف رہائشی اور کمرشل پلازے بے ہنگم طریقہ سے تعمیر ہو چکے ہیں اور یہ تعمیر کا سلسلہ مسلسل بغیر کسی روک ٹوک کے جاری و ساری ہے۔ اس حقیقت کا گمان ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں کی گرفت بلڈنگ مافیا پر بہت کمزور ہے۔ '' پیسہ پھینک تماشہ دیکھ '' کے مصداق یہ کھیل کروڑوں اور اربوں روپے کا ہے۔ ان اداروں میں ضرور ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو رشوت ستانی کے بل بوتے پر غلط کام ان مافیا سے کروا رہی ہیں۔ اس وقت سندھ کا خود مختار تعمیراتی ادارہ '' سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی '' کے با اثر اہلکار کروڑوں اربوں کے کھیل میں ملوث ہیں۔

مشہور کہاوت ''ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹے '' کے مصداق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ شراکت داری یا وراثت کے جائیدادیں مارکیٹ کی قیمت سے کم ہی میں بکتی ہیں کیونکہ ایسی جائیدادوں کی دستاویزات میں کچھ قانونی باریکیاں ہوتی ہیں۔ کراچی کی ایسی بے شمار چھوٹی بڑی جائیدادیں اسی میراث کی مرہون منت ہیں۔ پراپرٹی بنانیوالے خاک نشین ہوگئے اور پیچھے اپنی اولادوں کی شکل میں پسماندگان اور جائیداد بطور اثاثہ چھوڑ گئے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس شہر کی بیشتر آبادی چھوٹے سائز کے پلاٹس پر مشتمل ہیں اور پورے شہر میں بلند و بالا فلیٹس آباد ہوچکے ہیں جب کہ شہری سہولیات کا بری طرح فقدان ہے۔

سیوریج اور صاف پانی مہیا کرنے کی لائنیں پرانی اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے پانی کی سپلائی نہیں ہو پا رہی۔ گلیاں جا بجا گٹر سے ابلنے والی گندے پانی کی آماجگاہ بن کر مچھروں کی نرسری بن چکی ہیں۔ ادھر کچھ بلڈرز بلڈنگ اتھارٹی کی مافیا کی ملی بھگت سے ایسے ہی وراثتی مکانوں کو خرید کر تین تین منزلہ عمارتیں تعمیرکر رہے ہیں اور اس کو پورشن کی شکل میں لوگوں کو فروخت کر رہے ہیں۔

گراونڈ فلور پر چھ یا سات دکانوں کی زبردستی گنجائش بنا کر رہائشی علاقوں کو کاروباری علاقوں میں ضم کیا جار ہا ہے جس سے ٹریفک کی آمد و رفت اور پورے علاقے کے قدرتی ماحول کو آلودہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ یاد رہے کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے ایک سو بیس گز کے مکان پر گراؤنڈ پلس دو منزلہ کی قانونی اجازت ہے اور رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں ممنوع ہیں تو اتھارٹی بتائے کہ یہ ناجائز تعمیرات کس کی سرپرستی میں کی جا رہی ہیں۔ شہر کے جدید اربنائزیشن کے نقشہ کو روپے پیسے کی ہوس نے تباہ و برباد کردیا ہے۔
Load Next Story