انصاف سب کو ملنا چاہیے
اس وقت پاکستانی معاشرہ بد ترین پستی کا شکار ہو چکا ہے
WASHINGTON:
قانون سے بالاترکوئی نہیں ، انصاف سب کو ملنا چاہیے کیونکہ جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا یا غریب کے لیے اور امیرکے لیے مختلف قوانین ہوں ، تو معاشرے میں افراتفری پھیلے گی ، بد امنی بھی ہوگی اور یہ سوچ بھی پروان چڑھے گی کہ معاشرہ ان کا ہی ہے جو بے ایمانی کرتے ہیں ، چوری کرتے ہیں اور آج صورت حال ایسی ہی ہوگئی ہے کہ جہاں جس کو موقعہ مل رہا ہے وہ دوسروں کو لوٹنے میں مصروف ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی میں ایک ذرہ کے حوالے سے مقدمہ عدالت میں گیا حضرت علی ؓ گواہوں میں اپنے بیٹے اور غلام کو ہمراہ لے گئے تو قاضی نے فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا کیونکہ گواہ اپنے تھے ، جن کی رائے کو دباؤکے ذریعے اپنے حق میں کیا جا سکتا تھا۔
اس وقت پاکستانی معاشرہ بد ترین پستی کا شکار ہو چکا ہے۔ دباؤ یا پیسے کے ذریعے رائے کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ چند گھرانے عرصہ دراز سے پاکستانی عوام پر مسلط ہیں جنھوں نے گھپلے کیے ، حتیٰ کہ صاف پانی اسکیم کو بھی نہ چھوڑا گیا ، مقدمات قائم ہیں لیکن سزا کسی ایک کو بھی نہ ملی۔ اب تو خیر نیب کا تیا پانچا ہی کردیا گیا ہے ، تاکہ ان معزز خواتین و حضرات کو کسی کا ڈر ہی نہ رہے۔
یہ حکومت نیب سے اتنا ڈری ہوئی تھی کہ اقتدار میں آتے ہی نیب کے قوانین میں ترامیم کرنے کی مہم پر لگ گئے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ تمام ٹولہ این آر او مانگ رہا تھا۔ آٹا ، گھی، پٹرول پر غریب عوام کو سبسڈی دینے کے پیسے نہیں مگر اللوں تللوں کے لیے ہیں۔ وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا ہے کہ '' حکومت کے پاس تو زہرکھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں'' یعنی یہ لوگ زہر بھی ریاست کے پیسوں سے کھائیں گے، اپنے پیسوں سے نہیں وہ تو باہر بھیجنے کے لیے ہوتے ہیں۔
بات صاف ہوگئی کہ یہ لوگ جو بھی کھاتے ہیں وہ ان کے اپنے پیسے نہیں ہوتے اب جو نیب میں ترامیم کی گئی ہیں وہ تو صاف محسوس ہو رہا ہے کہ صرف اپنے مفاد کے لیے ہیں۔ اسی لیے ان سے ڈیڑھ سال کا انتظار بھی نہیں ہوا کہ مدت ہی پوری ہو جاتی ، نئے الیکشن ہوتے ، عوام جس کو منتخب کرتے وہ آ جاتا۔ نیب کی ترامیم یہ بتا رہی ہیں کہ کھوٹ ہی کھوٹ ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے اس لیے ہی سب سے پہلا کام ہی نیب ترامیم کا کیا تاکہ مقدمات سے جان چھوٹے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو۔ مہنگائی کے خلاف عمران دور میں آواز اُٹھانے والے آج خاموشی سے اپنے مفادات پر کام کر رہے ہیں۔
ایک شق سامنے آئی ہے جس میں ترمیم کی گئی ہے کہ جس کے ذریعے مالی فائدہ نہ اُٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے۔ واہ کیا بات ہے ،کون ہے جو مالی فائدہ فرنٹ پر آکر اُٹھائے گا مالی فائدہ تو بیوی بچوں، چپڑاسیوں یا گولے گنڈے والوں تک پہنچتا ہے اور اس کا تعین کون کرے گا کہ غلط فیصلوں سے کوئی مالی فائدہ مذکورہ شخص کو ملا ہے یا نہیں۔ سوچنے کی بات ہے اگر مالی بے ضابطگیوں میں ملوث نہیں تھے ہر طرح سے دامن صاف تھا۔
ملک کے انتہائی معزز گھرانے یہ ہی تھے تو انھیں ڈرکس بات کا تھا کس لیے انھوں نے آتے ہی نیب کے پر کاٹے ، ای سی ایل سے نام نکالے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام لوگوں نے جو نیب کے ملزمان ہیں انھوں نے ہی نیب قوانین میں ترامیم کی ہیں۔
کیا کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کے کام ہوتے ہیں ، کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ جیل میں قید قیدیوں نے اپنے مفاد کا کوئی فیصلہ کیا ہو جو لاگو بھی ہوا ہو مگر ان لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں؟ ملک اندھیر نگری چوپٹ راج کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔ ڈیڑھ مہینہ ہوگیا اس حکومت کو آئے مگر عوامی فلاح کا کوئی کام ہوتا نہیں نظر آرہا ، پورا ٹولہ اپنے اپنے مفاد ات کا کھیل کھُل کر کھیل رہا ہے۔ آٹے کا دس کلو کا تھیلا نو سو روپے کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے لوگ جن کا پیسہ باہر ہے وہ پاکستان میں لے آئیں۔
نیت اچھی کریں، تو سب کام سیدھے ہوجاتے ہیں، عوام کے دکھوں کا مداوا کریں اور ثابت کریں کہ آپ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہل ، قابل اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں سابقہ پی ٹی آئی حکومت پر مہنگائی کا الزام عائد کرتی تھیں۔
کیا اب انھوں نے صرف ایک ہفتے کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ساٹھ روپے فی لٹر کا اضافہ کر کے پٹرول بم عوام پر نہیں گرایا ہے ، کہاں گئے عوام سے ہمدردی کے دعوے ، سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہہ گیا ہے۔ سیاسی محاذ آرائی سے ذرا فرصت مل جائے تو سیاستدان چند لمحوں کے لیے ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے بارے میں کچھ سوچ و بچارکر لیں۔ اب تو دو وقت کی روٹی کے بجائے ایک وقت کی روٹی کا بندوبست بھی ان کے لیے مشکل ہوچکا ہے۔ حکمران ، عوام کے حوالے سے اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں اور انھیں اس جوابدہی کے لیے عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہیے، یاد رکھیے اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔
قانون سے بالاترکوئی نہیں ، انصاف سب کو ملنا چاہیے کیونکہ جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا یا غریب کے لیے اور امیرکے لیے مختلف قوانین ہوں ، تو معاشرے میں افراتفری پھیلے گی ، بد امنی بھی ہوگی اور یہ سوچ بھی پروان چڑھے گی کہ معاشرہ ان کا ہی ہے جو بے ایمانی کرتے ہیں ، چوری کرتے ہیں اور آج صورت حال ایسی ہی ہوگئی ہے کہ جہاں جس کو موقعہ مل رہا ہے وہ دوسروں کو لوٹنے میں مصروف ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی میں ایک ذرہ کے حوالے سے مقدمہ عدالت میں گیا حضرت علی ؓ گواہوں میں اپنے بیٹے اور غلام کو ہمراہ لے گئے تو قاضی نے فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا کیونکہ گواہ اپنے تھے ، جن کی رائے کو دباؤکے ذریعے اپنے حق میں کیا جا سکتا تھا۔
اس وقت پاکستانی معاشرہ بد ترین پستی کا شکار ہو چکا ہے۔ دباؤ یا پیسے کے ذریعے رائے کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ چند گھرانے عرصہ دراز سے پاکستانی عوام پر مسلط ہیں جنھوں نے گھپلے کیے ، حتیٰ کہ صاف پانی اسکیم کو بھی نہ چھوڑا گیا ، مقدمات قائم ہیں لیکن سزا کسی ایک کو بھی نہ ملی۔ اب تو خیر نیب کا تیا پانچا ہی کردیا گیا ہے ، تاکہ ان معزز خواتین و حضرات کو کسی کا ڈر ہی نہ رہے۔
یہ حکومت نیب سے اتنا ڈری ہوئی تھی کہ اقتدار میں آتے ہی نیب کے قوانین میں ترامیم کرنے کی مہم پر لگ گئے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ تمام ٹولہ این آر او مانگ رہا تھا۔ آٹا ، گھی، پٹرول پر غریب عوام کو سبسڈی دینے کے پیسے نہیں مگر اللوں تللوں کے لیے ہیں۔ وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا ہے کہ '' حکومت کے پاس تو زہرکھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں'' یعنی یہ لوگ زہر بھی ریاست کے پیسوں سے کھائیں گے، اپنے پیسوں سے نہیں وہ تو باہر بھیجنے کے لیے ہوتے ہیں۔
بات صاف ہوگئی کہ یہ لوگ جو بھی کھاتے ہیں وہ ان کے اپنے پیسے نہیں ہوتے اب جو نیب میں ترامیم کی گئی ہیں وہ تو صاف محسوس ہو رہا ہے کہ صرف اپنے مفاد کے لیے ہیں۔ اسی لیے ان سے ڈیڑھ سال کا انتظار بھی نہیں ہوا کہ مدت ہی پوری ہو جاتی ، نئے الیکشن ہوتے ، عوام جس کو منتخب کرتے وہ آ جاتا۔ نیب کی ترامیم یہ بتا رہی ہیں کہ کھوٹ ہی کھوٹ ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے اس لیے ہی سب سے پہلا کام ہی نیب ترامیم کا کیا تاکہ مقدمات سے جان چھوٹے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو۔ مہنگائی کے خلاف عمران دور میں آواز اُٹھانے والے آج خاموشی سے اپنے مفادات پر کام کر رہے ہیں۔
ایک شق سامنے آئی ہے جس میں ترمیم کی گئی ہے کہ جس کے ذریعے مالی فائدہ نہ اُٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے۔ واہ کیا بات ہے ،کون ہے جو مالی فائدہ فرنٹ پر آکر اُٹھائے گا مالی فائدہ تو بیوی بچوں، چپڑاسیوں یا گولے گنڈے والوں تک پہنچتا ہے اور اس کا تعین کون کرے گا کہ غلط فیصلوں سے کوئی مالی فائدہ مذکورہ شخص کو ملا ہے یا نہیں۔ سوچنے کی بات ہے اگر مالی بے ضابطگیوں میں ملوث نہیں تھے ہر طرح سے دامن صاف تھا۔
ملک کے انتہائی معزز گھرانے یہ ہی تھے تو انھیں ڈرکس بات کا تھا کس لیے انھوں نے آتے ہی نیب کے پر کاٹے ، ای سی ایل سے نام نکالے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام لوگوں نے جو نیب کے ملزمان ہیں انھوں نے ہی نیب قوانین میں ترامیم کی ہیں۔
کیا کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کے کام ہوتے ہیں ، کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ جیل میں قید قیدیوں نے اپنے مفاد کا کوئی فیصلہ کیا ہو جو لاگو بھی ہوا ہو مگر ان لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں؟ ملک اندھیر نگری چوپٹ راج کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔ ڈیڑھ مہینہ ہوگیا اس حکومت کو آئے مگر عوامی فلاح کا کوئی کام ہوتا نہیں نظر آرہا ، پورا ٹولہ اپنے اپنے مفاد ات کا کھیل کھُل کر کھیل رہا ہے۔ آٹے کا دس کلو کا تھیلا نو سو روپے کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے لوگ جن کا پیسہ باہر ہے وہ پاکستان میں لے آئیں۔
نیت اچھی کریں، تو سب کام سیدھے ہوجاتے ہیں، عوام کے دکھوں کا مداوا کریں اور ثابت کریں کہ آپ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہل ، قابل اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں سابقہ پی ٹی آئی حکومت پر مہنگائی کا الزام عائد کرتی تھیں۔
کیا اب انھوں نے صرف ایک ہفتے کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ساٹھ روپے فی لٹر کا اضافہ کر کے پٹرول بم عوام پر نہیں گرایا ہے ، کہاں گئے عوام سے ہمدردی کے دعوے ، سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہہ گیا ہے۔ سیاسی محاذ آرائی سے ذرا فرصت مل جائے تو سیاستدان چند لمحوں کے لیے ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے بارے میں کچھ سوچ و بچارکر لیں۔ اب تو دو وقت کی روٹی کے بجائے ایک وقت کی روٹی کا بندوبست بھی ان کے لیے مشکل ہوچکا ہے۔ حکمران ، عوام کے حوالے سے اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں اور انھیں اس جوابدہی کے لیے عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہیے، یاد رکھیے اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔