تھیٹر میں پرفارم کرنے والا ہر فنکار آرٹسٹ ہے نصیر الدین شاہ

نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتاہوں کیونکہ ان کے پاس ذرائع کم ہوتے ہیں ، نصیر الدین شاہ


نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتاہوں کیونکہ ان کے پاس ذرائع کم ہوتے ہیں ، نصیر الدین شاہ فوٹو: ایکسپریس

کراچی میں تھیٹرکابین الاقوامی میلہ سج گیا۔ 4سے 27مارچ تک جاری رہنے والے اس اہم فیسٹیول میں پاکستان سمیت دنیاکے پانچ ملکوں کے فنکارپرفارمنس پیش کریں گے۔

فیسٹیول میں بھارت کے لیجنڈ اداکار نصیر الدین شاہ خصوصی شرکت کررہے ہیں۔ فیسٹیول کے دوران اردو، ہندی، نیپالی، انگریزی، پنجابی زبانوں میں شاہکار ڈرامائی تشکیل پیش کی جائے گی۔ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کے انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول کا آغاز منگل کی شب ہو گیا ہے کراچی کی عوام نے پہلے روز بڑی تعداد میں شرکت کرکے فیسٹیول کے انعقاد کو تھیٹر کے فروغ کے لئے انقلابی قدم قرار دیا۔ ''ناپا'' کے زیراہتمام شروع ہونے والے اس تھیٹر فیسٹیول میں 16 سے زائد تھیٹر ڈرامے پیش کئے جائیں گے جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے فنکار پرفارم کریں گے۔

فیسٹیول کا آغاز ناپا کے طلبہ و طالبات نے اپنے مخصوص انداز میں ترانہ پیش کرکے کیا جس کے بعد زین احمدکی ڈائریکشن میں تھیٹر ڈرامہ ''اوئیڈپیس'' پیش کیا گیا جس میں ''ناپا'' کے زیرتربیت نوجوانوں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان فنکاروں میں حماد سرتاج، کاشف حسین، طارق راجہ، شبانہ اور علی رضوی شامل تھے۔ اس موقع پر نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کے سربراہ اور معروف ڈرامہ ڈائریکٹر ضیا محی الدین نے کہا کہ مجھے آج دلی طور پر تسکین حاصل ہوئی ہے کہ میں نے اپنے خواب کی تکمیل دیکھی ہے۔ میں اس طرح کے تھیٹر فیسٹیول کا انعقاد چاہتا تھا۔ کراچی میں تھیٹر ایک مرتبہ پھر اپنے جوبن پر آچکا ہے جس میں ''ناپا'' نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس موقع پر زین احمد کا کہنا تھا کہ ضیا محی الدین اور ہم پوری ٹیم مل کر اس فیسٹیول کے حوالے سے جتنی پلاننگ کرتے تھے آج عوام کی شرکت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محنت کا پھل مل گیا۔

دوسرے روز بھارت سے آئے ہوئے سینئر اداکار نصیرالدین شاہ نے تھیٹر ڈرامہ ''عصمت آپاکے نام'' میں اداکاری کے جوہر دکھائے جسے کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے عوام کی بڑی دیکھنے کے لیے آئی۔ ڈرامے سے قبل نصیرالدین شاہ نے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ نے اہم ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی تھیٹرکے حوالے سے بات کی جاتی ہے مگرکچھ عرصے سے ایک خلا قائم تھا جسے ''ناپا'' نے پُر کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا کی فلم پاکستان میں بہت مقبول ہے۔ اس بات کا اندازہ وہاں رہ کرنہیں ہوتا مگر جب بھی پاکستان آتا ہوں تو عوام کی دلچسپی اور فلموں کے بارے میں ان کی گفتگو سن کر ہوتا ہے۔ انڈیا میں باقاعدہ فلم انڈسٹری ہے جو لوگوں کی تربیت کرتی ہے، انھیں ہیرو بناتی ہے۔

 photo 1_zpsbe07f9b8.jpg

یہی وجہ ہے کہ بھارتی فلمیں دنیا بھر میں مقبول ہیں اور لوگ دنیا بھر میں ہمارے کام کو پسندکرتے ہیں۔ نصیرالدین شاہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ پاکستانی فلم ڈائریکٹرز کو بھی ہمت سے کام لینا ہو گا۔ جس طرح ضیا محی الدین اور ان کی ٹیم نے تھیٹر کو ایک مرتبہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا کیا ہے۔ پاکستانی فلم بھی اسی طرح اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے لیکن اس کے لئے مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔ بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کی انتظامیہ کو مبارکباد دیتے ہوئے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ اس طرح کے فیسٹیول مستقل بنیادوں پر جاری رہنے چاہئیں تاکہ مجھ جیسے فنکاروں کو ضیا محی الدین جیسے عظیم فنکاروں سے سیکھنے کے مواقع ملتے رہیں گے۔

موجودہ دور میں ''نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس'' تھیٹر کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک جانا پہچانا ادارہ بن چکا ہے۔رواں برس اس ادارے نے ''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کے اشتراک سے انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول کا اہتمام کیا، جس میں پاکستان کے علاوہ بھارت، نیپال، انگلینڈ اورجرمنی سے تھیٹر کرنے والے طائفوں نے شرکت کی ہے۔یہ فیسٹیول 27مارچ تک جاری رہے گا۔بھارت سے معروف اداکار''نصیرالدین شاہ''نے بھی اپنے تین ناٹک تیار کرکے لائے، انہوں نے تین دن اس فیسٹیول میں یہ ناٹک پیش کیے،جو اردو ادب کی معروف افسانہ نگار ''عصمت چغتائی'' کی کہانیوں پر مشتمل تھے۔ نصیرالدین شاہ کی اس ناٹک کمپنی کو بے حد پسند کیا گیا۔ جن کاانداز داستان گوئی والاتھا،جس میں ایک یا دوکرداروں کے ذریعے کہانی بیان کی جاتی ہے۔

نصیر الدین شاہ کے اسی دورے میں'' نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس''میں دوروزہ ورکشاپ کا اہتمام کیاگیا،جس میں پہلے دن انہوں نے اکیڈمی کے طلباکے لیے ورکشاپ کی،اس میں انہوں نے اپنے تجربات کی بنیاد پر مشورے دیے اوراپنی فنی جدوجہد پر بھی روشنی ڈالی۔ دوسرے روز ہونے والی ورکشاپ میں مختلف جامعات کے طلبا،ثقافتی اداروں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات اورمختلف اخبارات اور ٹیلی ویژن سے آئے ہوئے صحافی شامل تھے،جنہوں نے اس ورکشاپ سے استفادہ کیا۔ نصیرالدین شاہ نے اس موقع پرخیالات کا اظہار کر تے ہوئے اپنے علمی سفر اور تھیٹر کیریئر کے ابتدائی دور کے بارے میں بتایا۔

'' میں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔اس عرصے میں عملی طورپر میں نے تھیٹر میں زیادہ حصہ لیا،بلکہ اس سے بھی پیچھے اگر دیکھوں تو اسکول کے زمانے میں ،جب میں نویں جماعت میں تھا،پہلی مرتبہ اسٹیج پر قدم رکھا۔تھیٹر سے وابستہ ہونے کا حتمی فیصلہ میرا اپنا تھااور مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہی میری جگہ ہے،جہاں میں آنا چاہتا تھا۔ تھیٹر سے رغبت کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی، میں جس اسکول میں پڑھتاتھا،یہ ایک مشنری اسکول تھا،جہاں میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔وہاں ہر سال مختلف نوعیت کے بہترین ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔مجھے ان ڈراموں میں کبھی کوئی کردار نہیں دیاگیا۔میں جب کوشش کرتاتھا ،تو مجھے منع کردیاجاتاتھا۔میں ایسا محسو س کرتاتھا کہ جن لوگوں کو یہ کردار ملتے ہیں،میں ان سے کہیں بہتر یہ کردارکرسکتاہوں،مگر مجھے کبھی اس قابل نہیں سمجھا گیا کیونکہ اپنی جماعت میں آخری قطار میں بیٹھنے والا طالب علم تھا۔میں ان دنوں اپنی خودنوشت لکھ رہاہوں اور وہ ان کے نام ہوگی ،جو اپنی جماعت کی آخری قطار میں بیٹھتے ہیں۔''

نصیر الدین شاہ اپنے کیرئیر کی زندگی سناتے ہوئے اپنی زندگی کی کہانی بھی بیان کرتے رہے۔اس گفتگو میں کئی موڑ آتے ہیں ،جہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ مفتوح ہوئے اورکہیں فاتح رہے۔اسی انداز میں اپنے کیریئر کی جدوجہد کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ''بہرحال میں نے خود ایک دن فیصلہ کرکے اپنے چند دوستوں کو جمع کیا اور سکول کے سامنے ایک ڈراما کیا،جسے کامیابی ملی۔اس دن سے ایسا لگا،جیسے میری زندگی بالکل پلٹ گئی ہے۔اس قبولیت کی گھڑی کا مجھے بہت لطف ملا۔آخری قطار میں بیٹھنے والا میں وہ طالب علم تھا،جس کا نہ کوئی دوست تھااور نہ ہی کوئی مجھ میں دلچسپی لیتاتھا۔نہ میں پڑھائی میں اچھاتھا،نہ میں کھیلوں میں اچھا تھا۔باقی کے کچھ سال میں نے پھر اس اسکول میں ناٹک کرتے ہوئے گزارے۔لہٰذا تھیٹر کی طرف جو میراقرض ہے،وہ میں کبھی اتارنہیں سکتا۔شاید یہی وجہ ہے ،میں تھیٹر کے لیے اپنے اندر شدید رجحان اورلگاؤ محسوس کرتاہوں،کیونکہ اسی کی وجہ سے میری زندگی بدلی،اسی کی بدولت مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا راستہ ملا۔میری جتنی بھی تعلیم ہوئی ،وہ تھیٹر،فلموں اور ادب کے ذریعے ہی ممکن ہوئی۔

جب میں نوجوان تھا،تو میں نیشنل ڈراما اسکول میں گیا،جہاں مجھے ابراہیم الغازی تھے،جو بہت ہی شاندار قسم کی تھیٹر پروڈکشن کیاکرتے تھے۔جس میں چالس پچاس گلوکار ہوتے تھے اورہر چیز کی باریکی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ قلعوں اورمحلوں کے بڑے بڑے سیٹ بناتے تھے۔ایک ڈراما انہوں نے دلی کے قدیم کھنڈرات میں بھی کیا۔مجھے یہ انداز بہت پرکشش لگتاتھا،لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہ خیالات کافی پرانے تھے۔یہ اس وجہ سے ہو اکہ میں جب بھارت سے باہر گیا،بالخصوص انگلینڈ میں تو مجھے وہاں مختلف قسم کے تھیٹر ناٹک دیکھنے کو ملے اورمیں انہیں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔وہ سب اس قدر جدید انداز کا تھا۔ موٹر سائیکل، کاریں،ہوائی جہازکھینچ کر اسٹیج پر لائے جاتے ہیں اور پل بھر میں سمندر کی جگہ جنگل لے لیتاہے۔اسی طرح میں نے ایک کتاب''ٹوورڈز آ پوئر تھیٹر''پڑھی،جسے پولینڈ کے تھیٹر کے ایک معروف استاد''جیرزی گروتوسکی''نے لکھی تھی۔وہ ہمیں بتاتا ہے، جب عام آدمی کے پاس ذرایع نہ ہوں اور وہ تھیٹر کرنا چاہے تو پھر اسے اپنی غریبی کو اپنی کمزوری نہیں بلکہ طاقت بنالینا چاہیے۔انہوںنے یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ تھیٹر کا فلم سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔یہ دونوں مختلف جہتیں رکھتے ہیں۔ ان دونوں شعبوں کے اپنے جداگانہ راستے ہیں۔ میں اس مصنف سے ملنے پولینڈ بھی گیا،مگر یہ ایک خراب تجربہ رہا ،اس قصے کا بیان پھر کبھی سہی۔

ہم پچھلے دس بارہ سالوں میں جو ڈرامے کر ررہے ہیں،وہ مکمل طورپر اداکاری اوراداکار پر منحصر کرتے ہیں۔ ہندوستانی زبان میں ویسے بھی ناٹک کم لکھے گئے ہیں ،البتہ وہاں کی علاقائی زبانوں میں کافی کچھ لکھاگیاہے۔جب میں اصطلاح ''ہندوستانی زبان'' استعمال کرتاہوں،اس سے میری مراد اردو یا ہندی زبان ہوتی ہے،جو میری نظر میں ایک ہی زبان ہے،تقسیم کا عمل اسے بدل نہیں سکتا۔ میں ہندوستانی زبان میں ڈرامے کرنے کی خواہش رکھتا تھا، لیکن زیادہ ڈرامے دستیاب نہیں تھے۔آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے کرنے کا میرادل نہیں چاہا۔رئیلسٹک تھیٹر سے مجھے الرجی ہوگئی ہے،کیونکہ اس میں یہ دکھایا جاتاہے کہ جو کچھ اسٹیج پہ ہورہاہے،وہی حقیقت ہے،یہ کوشش فضول ہے کیونکہ حاضرین یہ کبھی نہیں بھولتے کہ وہ تھیٹر ہال میں بیٹھے ہوئے ہیں۔اس سے زیادہ بہتر یہ بات ہے کہ ہم حاضرین سے مخاطب ہوں۔

لہٰذا میں نے اسی طرح کے ناٹک کرنے کی بنیاد رکھی۔ ایک بے تکلف تھیٹر کو استوار کیا۔حاضرین اور اداکاروں کے درمیان سے فاصلہ ختم کیا۔دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔میرے کھیلوں میں سب کچھ اسی طرح ہو سکتا ہے۔ ہم ڈراما شروع کرنے سے پہلے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہیں اور ان کے سامنے ہی سارے مناظر کے سیٹ بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ہم اسی لیے ''کہانی بیان کرنے کے فن''سے اختراع کی۔میں نے اردو ادب کو پڑھا اوراس میں سے عصمت چغتائی،سعادت حسن منٹو،منشی پریم چند اوردیگر افسانہ نگاروں کی کہانیاں ملیں،جنہیں ہم نے اپنے ناٹکوں میں پیش کیا۔ایک یا دوکردار کہانی کو اسٹیج پر بیٹھ کر سناتے ہیں،بنا کسی مدد کے اورکہانی سناتے ہوئے حاضرین کے ذہن میں ماحول پیدا کرناہوتاہے۔یہ ہی تھیٹر کا اصلی مقام ہے،جہاں تک ہم پہنچ گئے ہیں اور اب میں اپنے ناٹکوں میں اسے پیش کرتاہوں۔''

نصیرالدین شاہ کی اس گفتگو نے حاضرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔سب انہیں ہمہ تن گوش سماعت کررہے تھے۔اسٹیج پر بیٹھے نصیر الدین شاہ کا انداز گفتگو اتنا پراثر ثابت ہو اکہ کچھ لمحوں کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ ہم انہیں اپنے روبرو نہیں بلکہ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں،جہاں ان کی زندگی کی کہانی نشر ہورہی ہے اوراسی پہلو کی طرف ان کا بھی اشارہ تھاکہ اگر ہال میں بیٹھے حاضرین کو اپنے سحر میں جو اداکار جکڑ سکتاہے،وہی تھیٹر کا حقیقی معنوں میں اداکار ہے۔

اس موقع پر انہوں نے تھیٹر کے شعبے میں اس کے طلبا کے مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا۔''نیشنل اسکول آف ڈراما،دلی''میں اس کے بعد بے حد ذرائع ہیں،مجھے خبر نہیں ،پاکستان میں کیا صورتحال ہے۔ وہاں ہر شعبے کے حوالے سے سہولتیں موجود ہیں کہ طلبا اپنے شعبے میں تجربے حاصل کرسکیں،مگر اس کے باوجود تھیٹر کرنے کے لیے بہت زیادہ مواقع نہیں ہوتے،پھر کچھ ہی طالب علم ہوتے ہیں ،جو زمانہ طالب علمی کے بعد یہ کام کرتے ہیں ،کیونکہ جب یہ طلبا تعلیمی ادارے سے باہر آتے ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ تھیٹر میں تو ذرایع نہ ہونے کے برابرہیں اوراس میں تو کوئی مستقبل نہیں ہے، جبکہ یہ تو انہیں شروع میں ہی پتا ہونا چاہیے تھا کہ تھیٹر میں کوئی مستقبل نہیں ہوتا اور اگر مستقبل ہے تو انہی طالب علموں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔جب میں تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنے گیا تھا، تو مجھے بھی یہی بتایا گیاتھا۔مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ میں کیاکروں گا،لیکن میں اتنا جانتاتھا کہ مجھے تھیٹر کرناہے۔مختصر کرداروں پر مشتمل ہم نے کردار ادا کیے۔

یہ بھی ضروری نہیں کہ تھیٹر ہال زیادہ ہوں گے تو تھیٹر کا فروغ ہوگا،کیونکہ دلی میں جہاں نیشنل اسکول آف ڈراما واقع ہے،وہاں تقریباً پندرہ ہالز ہیں اور وہ زیادہ ترخالی پڑے رہتے ہیں۔یہاں کے طلبا کو اسی طرح سوچنا چاہیے کہ وہ خود اپنی مدد کے تحت آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔جب ڈراما تیار ہوجاتاہے،تو اس کو پیش کرنے کے راستے بھی نکل ہوتے ہیں۔آئیڈیل تھیٹر کی صحیح تعریف ہے ''ایک اداکار ایک ناظر''بس اتنی سی بات ہے۔میرے قریبی دوست''اوم پوری''پچھلے پینتالیس سالوں سے کام کررہے ہیں ،ہم نے جگہ اور مقام کی تلاش کی بجائے صرف کام کیا،ہم نے چلتے ہوئے ،بس میں سفر کرتے ہوئے اپنے ناٹکوں کی مشق کی۔ ہمارے پاس تو مشق کرنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی تھی۔مگر ہم کام کرتے رہے،یہ میرا تجربہ ہے۔''

نصیر الدین شاہ نے تھیٹرکے ساتھ ساتھ بھارتی فلموں میں بھی باقاعدگی سے کام کیا ''پیررل سینما'' اور ''کمرشل سینما''میں اپنی اداکاری کی دھاک بٹھائی ۔ان کی حال ہی ریلیز ہونے والی فلم ''ڈیڑھ عشقیہ ''تھی،جس میں انہوں نے معروف فلمی اداکارہ ''مادھوری ڈکشٹ''کے ساتھ نہایت بے باک اداکاری کی۔سنجیدہ حلقے ان پر یہ الزامات بھی لگاتے آئے ہیں کہ یہ اب کمرشل فلموں کی نذر ہوگئے ہیں۔اس حوالے سے انہوں نے اپنا موقف بیان کیا۔

''تھیٹر اور فلم کے لوگ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں۔تھیٹر والے فلم والوں کے ایک لفظ ''فلمی ''استعمال کرتے ہیں ،جبکہ فلم والے تھیٹر والوں کے لیے لفظ''تھیٹریکل''بولتے ہیں،ان دونوں لفظوں کا ایک ہی مطلب ہے یعنی''بری اداکاری''درحقیقت سچارویہ ہی دونوں میڈیم میں کام آتاہے۔دونوں کی اداکاری میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے،بس اداکاری میں توازن چاہیے ہوتاہے۔

جہاں تک فلموں میں اداکاری کرنے کی بات ہے،میں نے پچھلے چالیس برس میں تقریباً ڈھائی سو فلموں میں اداکاری کی،جن میں سے میرے خیال میں ڈیڑھ سو بہت بری ہیں،جبکہ پچھتر ذرا کم بری ہیں،باقی پچیس میں سے بیس عام فلمیں اور پانچ بہترین فلمیں ہوں گی۔میں نے جب یہ فلمیں کیں،تونہ تو مجھے یہ کہہ کر پیشکش کی گئی کہ یہ بہت بری فلم ہے ۔میں نے ہر فلم اس امید سے کی کہ یہ ایک اچھی فلم ہوسکتی ہے اورنہ ہی میں صرف سنجیدہ فلموں میں کام کرنا پسند کرتاہوں،یہ بھی مجھ پر ایک الزام رہاہے ،میں نے آرٹ فلمیں چھوڑ کر کمرشل فلموں میں کام کرنے لگا،جبکہ میں اپنے کیرئیر میں ہر طرح کی فلموں میں کام کیا،مگر میری زیادہ تر سنجیدہ فلموں کو شہرت ملی۔میری کمرشل فلموں کو کسی نے نہیں دیکھاتھا۔

یہ سچی بات ہے کہ میں مقبول ہونا چاہتاتھا۔ میں اسی لیے اداکار بناتھا ،مجھے لوگ پسند کریں ،میرا کام سراہیں ،مجھے توجہ دیں۔کوئی بھی انسان اداکار بنتاہے،تو وہ اسی لیے بنتاہے،جو اس کے علاوہ کوئی بات کرتاہے،وہ جھوٹ بولتاہے۔اسی راستے میں کچھ اور مل جائے تو یہ خوش قسمتی ہے۔اپنا کیریئر سنجیدہ فلموں سے شروع کرنامیرافیصلہ نہیں تھا۔میرے پاس کچھ کام نہیں تھا،جیب میں ایک دھیلا نہیں تھا۔رہنے کو گھر نہیں تھا،مجھے تو جو بھی کردار دیاجاتا،میں لے لیتا۔گھٹیا سے گھٹیا فلم میں بھی کام کرلیتا۔اتفاق کی بات ہے، شیام بینگل صاحب کی فلم ''نشاط''میں مجھے مرکزی کردار ملا اورپھر میرا نام ایسی فلموں کے ساتھ جڑ گیا،مگر میں نے کمرشل فلموں میں بھی کام کیا۔ایک طویل عرصے کے بعد ایک فلم''پری دیو''کو شہرت ملی تو اس کے بعد اچانک سے شور ہونے لگا کہ میں کمرشل فلموں میں کیوں کام کرتاہوں،جبکہ میں پچھلے پندرہ سالوں سے ایسا کام کررہاتھا۔کامیابی ملنے پر لوگوں کو تکلیف ہونے لگی۔اس کے ساتھ اتفاق سے ہندوستانی سنجیدہ سینما سے مجھ کچھ نظریاتی اختلاف ہوااور میں اس پر تنقید کرنے لگا ،مگر میں نے اس میں کام کرنا نہیں چھوڑا، جیسا کہ مجھ پر الزام لگایاجاتاہے۔



میری نظر میں سینما صرف آرٹ نہیں ہوتا،تعلیم دینا بھی کوئی اس کا فرض نہیں،بلکہ اگر اس کو کوئی مقصد ہے تو وہ ہے کہ جس زمانے میں بنایاگیا۔اپنے عصری دور کی سچائیوں کی عکاسی کرے۔پاکستانی فلم ''زندہ بھاگ''میں کام کرنے کی وجہ بھی یہی تھی، مجھے اس فلم کے بارے میں یہ محسوس ہوا کہ یہ فلم بننی ضروری ہے،کیونکہ یہ ایک موجودہ پاکستان کے حقایق کے بارے میں بات کرتی ہے اوراگر سو سال بعد کوئی جاننا چاہے کہ دوسوتیرہ کا پاکستان کیساتھاتو اس وقت ''اچھا گجر ''نام کی فلم ہی اسے نہ ملے۔اس لیے بامقصد سینما میں کام کرنا میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ پیسے کمانا بھی میری ذمے داری سمجھتاہوں،اس لیے میں دونوں طرح کی فلموں میں کام کرتاہوں۔''

نصیر الدین شاہ نے اس موقع پر حاضرین سے پوچھے گئے بہت سارے سوالوں کے جوابات بھی دیے۔جیسے انہوں نے نوجوانو ں کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے اپنی گفتگو میں کہا ''نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتاہوں کیونکہ ان کے پاس ذرائع کم ہوتے ہیں ،لیکن ان کے اندر ایک آگ لگی ہوتی ہے،وہ اپنے کام کو مکمل کرنے کے لیے کچھ بھی کرجاتے ہیں۔میں نے بہت سے نئے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کیا،میری چند بہترین فلموں میں سے اکثریت نئے ہدایت کاروں کی فلموں کی تھی،جنہیں مقبولیت ملی۔''

نصیر الدین شاہ پاکستان میں ہر تھیٹر کے کام کرنے والے کو آرٹسٹ مانتے ہیں اور تھیٹر کازوال کیوں ہوااور کیاوجہ تھی کہ فلمیں بھی ایک مخصوس طرز فکر سے آگے نہ بڑھ سکیں اورآج بھارت میں جو ہندی سینما کے سوسال کا نعرہ بلند کیاجاتاہے۔اس پر انہوں نے بہت واضح طورپر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے نہ صرف وجوہات بیان کیں ،بلکہ حقایق کو بھی بیان کیا۔

ان کا کہنا تھا ''1930کے آس پاس جب خاموش فلمیں بولتی ہوئی فلموں میں تبدیل ہوئیں ،تو اسی وقت ہندوستان میں تھیٹر کا انتقال ہوگیا۔اس وقت تھیٹر میں پارسی مرد کرداروں میں اوریورپی اداکارائیں خواتین کے کرداروں میں مقبول تھیں ،جب بولتی فلمیں بنیں تو وہ لوگ بیکار ہوگئے،کیونکہ یہ فلمیں ہندوستانی میں بن رہی تھیں اورتھیٹر کے لوگ سینما میں چلے گئے۔دونوں خطوں میں ڈراما نگاری کا فن بھی انحطاط پذیر ہوگیا۔ہم پارسی تھیٹر سے باہر ابھی تک نہیں نکل پائے،سوسال کا ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے،مگر اس بات کاخیال نہیں کہ ہم پارسی تھیٹر کے انداز سے نکل نہیں پائے،جبکہ وہی فلم بنا رہے ہیں۔اٹلی ،فرانس،جاپان اورانگلینڈ میں فلم نے ترقی کی۔یورپ اور امریکا وغیرہ میں تھیٹر اورسینما نے اپنے اپنے دائرے میں ترقی کی۔ ہمارے ہاں دونوں میڈیم جڑے ہوئے ہیں ،الگ نہیں ہوپائے۔پارسی تھیٹر میں بھی اچانک کہانی کے بیچ میں گانا آ جاتا تھا۔ سچائی کی جیت برائی کی ہار ہوتی تھی۔غریب لڑکے کو امیر لڑکی سے محبت ہوجاتی تھی، وغیرہ وغیرہ۔یہی حال ہماری فلموں کا ابھی بھی ہے۔اس لیے تھیٹر نہ یہاں اورنہ وہاں فروغ کرپایا،ہمیں صرف فائدہ ہوا کہ ہمارے ہاں ہندوستان میںتھیٹر کی کچھ روایات تھیں جو پاکستان میں بالکل ختم ہو گئیں مگر بھارت میں کسی ایک زبان میں ڈراما بنانا مشکل ہے،اسی لیے میں کہتاہوں ،نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈراما بنانے کی بجائے ریجنل انسٹیٹیوٹ بننے چاہیے تاکہ لوگ اپنی زبانوں میں کام کر سکیں۔''

نصیر الدین شاہ کے خیال میں آج کے تھیٹر کا عروج پانے کے لیے نوجوان ڈراما نگاروں کی ضرورت ہے،جو پرانی روایا ت سے جو کچھ حاصل کرسکتے ہیں کر کے اس کے بعد اپنی زندگی کی سچائیوں کے بارے میں لکھنے کی کوشش کریں نہ کہ راجا رانیوں کی کہانیاں سنائیں۔جو لوگ لکھتے ہیں ،وہ اپنے وقت کو ریکارڈ پر رکھیں،یہ ان کا فرض ہے،چاہے ایسا ڈراما کم ہی چلے مگر لکھیں۔یہ بہت حوصلہ افزا بات تھی،جس پر انہوں نے زور دیا۔اسی طرح تخلیق کے مدمقابل کمرشل ازم نے لے لی ہے،اس کی ایک مثال انہوں نے دی کہ ''غالب ڈراما جب نشر ہوا، تو اس کی ویورشب زیرو پوائنٹ ٹو تھی۔کوئی نہیں دیکھتاتھا پورے ملک میں جب ادبی لوگوں کے سوا۔ اب اس کو بنے ہوئے کافی سال ہوگئے،اب بعد میں لوگوں نے اسے دیکھا۔گلزار بھائی کو دوسرا سیریل کو بنانے کے پیسے نہیں ملے۔وہ پہلے اس کے لیے فلم بنانا چاہتے تھے،مگر پیسے نہیں ملے۔''

''معصوم'' فلم کا اسکرپٹ پسند کرنے والے اداکار نصیرالدین شاہ کے نظر میں اداکار ایک سادہ صفحے کی طرح ہوتاہے،جس پر کوئی بھی رنگ سچائی سے دکھائی دے۔ دونوں ممالک کے درمیان جو خلیج قائم کی جاتی رہی ہے،اس پرانہوں نے کہا۔ہم عوام کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے دونوں طرف سے ،ہمیں اس پر احتجاج کرنا چاہیے۔ہندوستان میں بھی اب فلم صرف پیسے کمانے کا ذریعہ رہ گیا ہے اوریہ ناظرین کی ذہانت کو کچلنے کی بھی ایک کوشش ہے۔اچھی فلم بنانا بمبئی کے فلم ساز کی آخری ترجیح ہے اوردونوں ممالک میں ترجیح اب پیسا ہے۔عوام بھی ایسی فلمیں اب دیکھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ اس کے عادی ہوچکے ہیں۔اسی طرح کی کھری کھری باتیں کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہاکہ اداکاری کو ناپنا نہیں چاہیے۔ اچھی گائیکی،مصوری کے اصول ہوتے ہیں مگر اچھی اداکاری کا کوئی اصول نہیں ہے۔اسی لیے مجھے کسی خاص کردار کو کرنے کی خواہش نہیں ہے کہ میں مرنے سے پہلے کوئی مخصو ص کردار اداکروں۔

''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کے اشتراک سے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے زیر اہتمام یہ فیسٹیول جاری ہے۔پاکستان میں تھیٹر اورفلم کے شائقین کے لیے ایسے مواقع تخلیق کرنا ایک اچھی روایت ہے۔نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس نے نصیرالدین شاہ کی ورکشاپ کا انعقادکرکے ایک اچھی روایت قائم کی۔مستقبل میں بھی ایسی سرگرمیوں کو جاری رہنا چاہیے تاکہ ملک میں امن و امان کی صورت حال کو فروغ ملے اوردونوں ممالک کے مابین مثبت ثقافتی تعلقات استوار ہوسکیں اورپاکستان کامثبت تصور دنیا بھر میں اجاگر کیاجاسکے۔

نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے انتظامی امور کے سربراہ ارشد محمود نے روزنامہ ایکسپریس سے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''جب دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے ایک مقام پر اکٹھے ہوکر تھیٹر کرتے ہیں ،تو انہیں ایک دوسرے سے سیکھنے کا بہت موقع ملتاہے اوروہ ایک دوسرے کے کام کو بہترانداز میں سمجھتے بھی ہیں۔پاکستان میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی معیار کایہ فیسٹیول ہورہاہے،ہماری کوشش ہے کہ اس میڈیم کو پاکستان میں زندہ کیاجائے اورہمارے ملک میں امن وامان کے حوالے سے جیسے حالات ہیں ،ا س کے باوجود ہمارے دعوت نامے کو تمام غیرملکیوں نے قبول کیا،یہ بڑی خوش آئند بات ہے اورمیں سمجھتاہوں کہ یہ لوگ بہت بہادر ہیں اورفن کار کی حقیقی پہچان بھی یہی ہے کہ جب وہ اپنے کام سے شدید محبت کرتاہے اورتخلیقی عمل میں محو ہوتا ہے ،تو سارے ڈراوروسوسے دور چلے جاتے ہیں۔یہ فیسٹیول اوراس میں موجود غیرملکی اورملک بھر سے آئے ہوئے فنکاروں کی موجودگی اس بات کاعین ثبوت ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔