بجٹ ٹیکسز اور عوام

اشیاء ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اورپٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ عوام اورمعیشت دونوں کویکساں طورپرمتاثر کررہاہے

اشیاء ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اورپٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ عوام اورمعیشت دونوں کویکساں طورپرمتاثر کررہاہے (فوٹو فائل)

افراط زر، اشیاء ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ عوام اور معیشت دونوں کو یکساں طور پر متاثر کررہا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ بجلی کی گھنٹوں پر محیط لوڈشیڈنگ نے عوام اور کاروباری طبقے کے سارے کس بل نکال دیے ہیں۔

اب سالانہ بجٹ کی آمد آمد ہے،سالانہ میزانیے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں کون کون سے ٹیکس عائد کرتی ہیں، کاروباری طبقہ اس انتظار میں بیٹھا ہے اور اسی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ ادھر گزشتہ روز اینول پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی (اے پی سی سی) نے آیندہ بجٹ کے معاشی اہداف کی ابتدائی منظوری دیدی ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی صدارت میں اس کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق اس اجلاس میں ملک کی معاشی ترقی کی شرح (جی ڈی پی) 5 فیصد رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جب کہ اکیس سو چوراسی ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویزہے۔

صوبوں نے تیرہ سو چوراسی ارب کے ترقیاتی بجٹ تجویز کیے ہیں۔ آیندہ مالی سال کے لیے وفاق کا ترقیاتی بجٹ آٹھ سوارب روپے، ایم این ایز کی پبلک اسکیموں کے لیے 91 ارب روپے، آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان کے لیے 95 ارب روپے، سابقہ فاٹاکے لیے الگ سے پچاس ارب روپے، پنجاب کے لیے پانچ سو پچاسی ارب روپے ، سندھ کے لیے تین سو پچپن ارب روپے ،خیبر پختون خوا کے لیے دو سو ننانوے ارب روپے، بلوچستان کے لیے ایک سو تنتالیس ارب روپے رکھنے کی تجویزہے۔

انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر 433 ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جب کہ سماجی منصوبوں پر 144 ارب خرچ کرنے کا تخمینہ ہے۔ توانائی پر چوراسی ارب روپے اور ٹرانسپورٹ، مواصلات کے لیے 227 ارب روپے شامل کیے گئے ہیں، پانی کے منصوبوں کے لیے 83 ارب، پلاننگ، ہاؤسنگ کے لیے 39 ارب مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، زراعت کی ترقی کے لیے13 ارب اور انڈسٹریز کے لیے صرف 5 ارب کی تجویزہے، سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے 25 ارب، گورننس کے لیے 16 ارب رکھے جائیں گے۔

آیندہ مالی سال کے لیے وفاقی حکومت نے افراطِ زر کا ہدف 11.5 فیصد رکھنے کی منظوری دی ہے۔ اے پی سی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف آیندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا 2.2 فیصد یا 10ارب ڈالر سے زائد منظور کیا گیا ہے۔ حکومتی دستاویز کے مطابق زراعت میں شرح نمو 3.9، صنعت کی 5.9 ، خدمات کی5.1 فیصد، مالیات اور انشورنس کی5.1 فیصد، رئیل اسٹیٹ کی 3.8، تعلیم کی 4.9 فیصد، بڑے صنعتی شعبے کی 7.4 ، چھوٹی صنعتوںکی8.3 فیصد رکھی گئی ہے، اسی طرح کپاس کی 6.3 ، لائیوا سٹاک کی 3.7 فیصد، ماہی گیری کی 6.1 اور جنگلات کی 4.5 فیصد رکھی گئی۔

کمیٹی کے اجلاس کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے پریس کانفرنس میں تفصیلات بیان کیں۔ انھوں نے بتایا کہ سابق حکومت کا وزیراعظم آفس میں یونیورسٹی قائم کرنے کا منصوبہ بوگس منصوبہ تھا، اس لیے اسے ختم کردیا جائے گا البتہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی جائے گی، گزشتہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں چار سو ارب روپے کی کٹوتی کی گئی ہے، آیندہ مالی سال کے لیے سو ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کا نوے فیصد جاری منصوبوں کے لیے رکھا گیا ہے۔

آیندہ مالی سال کے لیے دیا مر بھاشا ڈیم کے لیے رقم مختص کی جائے گی، لیپ ٹاپ اسکیم دوبارہ شروع ہوگی، صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے250 اسپورٹس گراؤنڈز بنائیں گے، سی پیک کے منصوبوں پر کام تیز کرنے کے لیے بجٹ مختص کیا جائے گا۔

ادھر وفاقی کابینہ نے گزشتہروز چین سے 2 ارب 40 کروڑ ڈالر قرض کے حصول کی منظوری دے دی۔ یہ منظوری سرکولیشن سمری کے ذریعے دی گئی ہے، اس سمری کے مطابق چین سے ملنے والا قرضہ تین سال کے لیے ہوگا۔ 2 ارب 40 کروڑ ڈالر کا قرضہ ایک فیصد مارک اپ پر 2019 کے معاہدے کے تحت ملے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ قرض واپسی موخر کرنے کی شرائط طے پا گئی ہیں، جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔ وفاقی کابینہ نے وزارت خزانہ کی سمری کی منظوری دی۔


ان اعداد وشمار اور اہداف کو سامنے رکھا جائے تو ان میں نئے ٹیکسوں کے حوالے سے اہداف سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں سالانہ میزانیہ اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے کیونکہ سالانہ میزانئے صرف اہداف اور ان کے لیے مختص فنڈز کے حجم اور مختلف شعبوں پر عائد ہونے والے ٹیکسز کی شرح اور حجم پر مشتمل ہوتاہے ۔

سرکاری اخراجات کا تخمینہ اور ارکان پارلیمنٹ کے لیے ترقیاتی فنڈزکا حجم مقرر ہوتاہے۔سالانہ بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر نہیں ہوتیں جو کبھی مقرر ہوا کرتی تھیں،اسی طرح بجلی، گیس کی قمیتوں کا تعین بھی سالانہ بجٹ میں نہیں کیا جاتا۔ یوں دیکھا جائے تو سالانہ بجٹ صرف یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے عوام پر کتنے ارب ڈالر کا قرضہ لیا جاچکا اور مزید کتنا لینا اور اس پر سود کتنا ادا کرنا ہے۔اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ دفاع پر اتنا خرچ ہوگا۔سرکاری افسروں، اعلیٰ عدلیہ، خودمختار سرکاری کارپوریشنز، اٹھارٹیز اور بورڈز کے سربراہوں اور ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا خرچ کتنا ہے۔

ان سب کا مالی بوجھ عوام کے کندھوں نے اٹھانا ہے۔ستر برس کے بعد اب وزیراعظم ، وزرائے اعلیٰ صاحب کو یہ خیال آیا ہے کہ ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے لہٰذا وہ سرکاری مراعات نہیں لیں گے ، وزراء اور مشیران اور سرکاری ادارے بھی ایسا ہی کریں گے ۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے بھی گزشتہ روز ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی ہے۔میڈیا میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کابینہ ارکان کا پٹرول الاؤنس مکمل ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے ساتھ تمام صوبائی محکموں کے پٹرول اخراجات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہے ۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے ارکان سرکاری پٹرول نہیں لیں گے اور سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران پٹرول اخراجات خود ادا کریںگے ۔ اعلیٰ سطح اجلاس میں حکومتی سطح پر بچت ، کھاد کی فراہمی اور دیگر اشیاء ضروریہ کے نرخوں کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کیے جانے کی اطلاع ہے ۔ اجلاس میں وفاقی حکومت کو چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت نہ دینے کی تجویز پیش کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔ اجلاس میں کھاد اور دیگر اشیاء ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔

ان سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تمام صوبائی وزراء اورسندھ حکومت کے افسران کا پٹرول 40 فیصد کم کرنے کے احکامات جاری کر چکے ہیں۔ محکمہ خزانہ سندھ نے فوری طور پر نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے ۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان بھی تمام سرکاری محکموں اور اداروں کے پٹرولیم اخراجات میں 35 فیصد کمی کے احکامات جاری کرچکے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ نے چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کو باقاعدہ مراسلہ ارسال کردیاہے۔ چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے بھی سرکاری افسران کو پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں 40 فیصد تک اخراجات میں کمی لانے کی ہدایت جاری کردی ہے ۔

یوں دیکھا جائے تو پنجاب اس ریس میں سب سے پیچھے ہے حالانکہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے گوادر میں اعلان کے بعد پنجاب کو سرکاری اخراجات کم کرنے کا فوری اعلان کرنا چاہیے تھا اور اس پر اسی ماہ سے اطلاق کرنے کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کردینا چاہیے۔ بہرحال دیر آید درست آید۔

پاکستان کو مالی بحران سے نکالنا مشکل نہیں ہے، اس کے لیے حکمران اشرافیہ کو اپنی ذات، خاندان، برادری، نسل، رنگ اور زبان کے تعصبات سے آگے نکلنا ہوگا۔ پبلک سرونٹس خود کو حکمران نہ سمجھیں بلکہ پبلک سرونٹ کا جو ڈکشنری میں مطلب بیان کیا گیا، اس کے مطابق اپنا فرض یا ڈیوٹی ادا کریں۔

عوام کے منتخب نمایندے بھی خود کو حاکم یا استحقاق کا حقدار سمجھنے کے بجائے اپنے فرائض کو اچھی سمجھ کر پارلیمنٹ اور حکومت میں اپنا کردار ادا کریں۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں صدراور وزیراعظم منتخب ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا یہ حق ہے، یہ اختیار ہے یا یہ استحقاق ہے بلکہ انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے یہ فرائض ہیں اور وہ اپنے یہ فرائض ادا کرنے کے پابند ہیں، ان کے حقوق، مراعات اور استحقاق ، فرائض کی ایماندارانہ انجام دہی کے ساتھ مشروط ہیں۔اس حوالے سے آئین، قانون ، سرکاری قاعدے اور ضابطے واضح، شفاف اور غیرمبہم ہونے چاہیے تاکہ کوئی طاقت ور عہدہ اگر مگر، چونکہ چناچے،بین السطور یہ مطلب ہے،فلاں آرٹیکل کو فلاں کے ساتھ ملا کر پڑیں تو یہ مطلب نکلتا ہے۔ایسے ابہام اور کنفیوژن طاقتور تو اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے لیکن کمزورایسے ابہام یا کنفیوژن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
Load Next Story