غلطیوں کا اعتراف بروقت کیوں نہیں
عمران خان نے کہا کہ میں سوال کا سخت جواب دے سکتا ہوں مگر نہیں دے رہا
سیاسی تجزیہ کاروں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اقتدار سے اترتے ہی اپنی غلطیوں کے اعتراف کو خوش کن قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو چھوڑ کر الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینے اور پیکا آرڈیننس کی غلطی تو تسلیم کرلی تھی جو اچھی بات تھی۔
غلطیاں ہر انسان سے ہی ہوتی ہیں مگر سو فیصد حقیقت یہ ہے کہ دوران اقتدار ہر حکمران سے غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ وہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس سے قابل کوئی اور نہیں ہے یہ خوش فہمی ماضی کے حکمرانوں کی طرح عمران خان میں بھی تھی اور انھوں نے اپنی عالمی معلومات کے متعلق جو بیانات دیے ان پر خاصی تنقید ہوئی۔
حالیہ دھرنے و لانگ مارچ میں ہونے والی غلطیوں سے متعلق خان صاحب سے ایک صحافی نے سوال پوچھا تو عمران خان نے کہا کہ میں سوال کا سخت جواب دے سکتا ہوں مگر نہیں دے رہا۔ یہ کہہ کر عمران خان نے خفگی میں پریس کانفرنس ہی ختم کردی اور صحافی کو اس کے سوالات کے جوابات نہیں ملے۔ پہلے کسی قومی رہنما کی پریس کانفرنس میں صحافیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی اور قومی رہنما کے ساتھ چند اہم رہنما ہی ہوتے تھے مگر اب ٹرینڈ بدل گیا ہے۔ رہنما دیگر رہنماؤں کی فوج اور کارکنوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں پریس کانفرنس کرتا ہے۔
پارٹی کا متعلقہ عہدیدار چنیدہ چنیدہ صحافیوں کو ہی سوال کرنے کا موقعہ دیتا ہے۔ قومی رہنما اپنے پسندیدہ صحافی کے سوال کو ترجیح دیتے ہیں اور ناپسندیدہ سوال پر نو کمنٹس کہا جاتا ہے یا سوال کو نظر انداز کرکے غیر متعلقہ جواب دیا جاتا ہے اور صحافی کا اصل سوال دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ اتنے بڑے ہجوم میں صحافی کھل کر سوال نہیں پوچھ سکتے کیونکہ انھیں ناپسندیدہ سوال پوچھنے پر لفافہ صحافی یا مخالف پارٹی کا ایجنٹ قرار دینے میں دیر نہیں کی جاتی۔ عمران خان ہی نہیں کچھ دیگر حکمرانوں کا بھی یہی حال رہا ہے۔
بعض کی اپنی کچن کابینہ رہی ہے اور وہ اپنے دیگر وزرا کو نظرانداز کرکے صرف پسندیدہ وزیروں کو ہی مشورے کے قابل سمجھتے تھے اس سلسلے میں ماضی کے حکمرانوں کی کچن کابینہ بھی مشہور تھی۔ عمران خان ہر منگل کو اپنی کابینہ کا اجلاس ضرور منعقد کرتے تھے جس کے لیے ان کے وزیر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ وہ واحد وزیر تھے جو وزیر اعظم کو عوام کی حالت زار، مہنگائی و بے روزگاری کے تمام حقائق بتایا کرتے تھے ۔
عمران خان کی کابینہ میں مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی یہ انفرادیت تھی کہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر وزیر اعظم کی غلطیاں انھیں منہ پر کہہ دیتے تھے کہ آپ ہم اتحادیوں کی وجہ سے ہی وزیر اعظم بنے اور آپ اتحادیوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور اہم معاملات میں بھی انھیں اعتماد میں نہیں لیتے۔ عمران خان نے اپنی اس غلطی کو تسلیم نہیں کیا یہاں تک کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد بھی انھوں نے اتحادیوں کو بس اتنی اہمیت دی کہ وہ خود چل کر مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے پاس گئے مگر وہاں جا کر انھوں نے اپنی طرف سے حکومتی اتحادیوں کو نظرانداز کرنے کا اعتراف کیا نہ اپنی غلطی تسلیم کی اور انھیں اپنی حمایت تک کے لیے نہیں کہا۔
حکومتی اتحادیوں بی این پی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے وزیروں میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ وزیر اعظم کے سامنے ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے۔ پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل نہیں تھی اور بالاتروں نے اتحادیوں کو حکومت میں شامل کرایا تھا اس لیے وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ اتحادیوں کو بھی اہمیت دیتے اور انھیں ساتھ لے کر چلتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کی عمران خان کو توقع نہیں تھی اور ان کے وزیروں نے یقین دلایا تھا کہ اپوزیشن میں اتنی جرأت ہی نہیں ہے۔
عمران خان نے اقتدار میں ہوتے ہوئے اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کی حالاں کہ ان کی غلطیوں ہی کی وجہ سے اپوزیشن اپنے باہمی اختلافات کو نظرانداز کرکے متحد ہوئی اور جی ڈی اے کے صرف تین ارکان قومی اسمبلی تھے جو آخر تک عمران خان کے اتحادی رہے جس کی وجہ عمران خان نہیں بلکہ ذوالفقار مرزا تھے جو کسی صورت آصف زرداری سے ملنا نہیں چاہتے تھے۔
عمران خان کی طرف سے (ق) لیگ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے چوہدری پرویز الٰہی کے پی ٹی آئی سے تحفظات تھے اور وہ اپوزیشن کی طرف سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ لینے پر تیار ہوگئے تھے مگر وہ باقی ڈیڑھ سال مانگ رہے تھے جس پر (ن) لیگ راضی نہیں تھی اور عمران خان بھی اپنی مدت پوری کرنا چاہتے تھے اس لیے پرویز الٰہی عمران خان سے جا ملے جو پرویز الٰہی کی غلطی تھی۔ اپنی غلطیاں ماننے کو کوئی بھی تیار نہیں جس کی وجہ سے عمران خان کی وزارت عظمیٰ گئی اور پرویز الٰہی اب اپنی اسپیکر شپ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
عمران خان اقتدار سے محروم ہو کر خطر ناک تو کیا ہوتے وہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ عمران خان کی جلد بازی اور غلطیوں کے باعث ناکام ہوا مگر وہ اب بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ سیاست میں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور سیاستدان اپنی غلطیوں سے ہی سبق سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں اور ہو جانے والی سیاسی غلطیوں کا ازالہ کر لیتے ہیں۔ آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے جذبات میں بالاتروں کو للکارا تھا مگر جلد انھیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا اور صورت حال سازگار ہونے پر دونوں نے مل کر عمران خان کو اقتدار سے محروم کرا دیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان اپنی مزید غلطیوں کا اعتراف کریں گے ان میں احتساب کا یکطرفہ نظام لاگو نہ کرنا، کے پی میں احتساب کا ادارہ بند کر دینا۔ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں، عثمان بزدار کا غلط انتخاب، نظریاتی رہنماؤں کو پارٹی سے الگ کر دینا ، ہر فیصلے کے بعد یوٹرن لینا اور اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے سے عمران خان اپنی غلطیاں مان سکتے ہیں جن کی وجہ سے ان کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے۔