بے روزگاری بڑا مسئلہ جدید سکلز اور مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق تعلیم دینا ہوگی
ماہرین تعلیم اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
ISLAMABAD:
''نوجوانوں کے روزگار کے مسائل اور تعلیمی اداروں کا کردار'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین تعلیم اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
قاسم علی شاہ
(موٹیویشنل سپیکر )
ہمارا نظام تعلیم بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ یہ بے مقصد ہے جس کی وجہ سے ہمارے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ جب انڈسٹری اکیڈیما لنکیج کی بات کی جاتی ہے تو اس کا ایک بڑا مقصد معاش ہوتا ہے۔ لیکن حیرت ہے ہم پیسہ کمانا بھی چاہتے ہیں مگر اس پر بات کرنے یا کام کرنے کو برا سمجھتے ہیں۔
دنیا میں لوگ ہمارے بچوں سے نصف ٹیلنٹ رکھتے ہیں مگر وہ اپنے مقصد میں واضح ہیں، جس سے ان کا ویژن بنتا ہے، وہ درست سمت میں مسلسل کام کر رہے ہیں اور اس کا انہیں فائدہ بھی مل رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاںجیسے جیسے بچہ تعلیم حاصل کرتا جاتا ہے وہ ویژن لیس ہو جاتا ہے۔ وہ نوکری کرنا چاہتا ہے مگر ایسی نوکری نہیں کرتا جس کیلئے وہ بنا ہے۔ دنیا کے وہ ادارے جو بڑے حساس ہیں، جن کا ایک ایک منصبوبہ کھربوں ڈالرز کا ہوتا ہے جیسے امریکی خلائی ادارہ 'ناسا'ہے، وہ بھی بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح کے لوگ چاہئیں، ہر شخص ہر کام نہیں کر سکتا۔ ہمارے پاس کسی بھی شعبے میں جانے کیلئے میرٹ سسٹم ہے جس میں بچے کے ٹیلنٹ کو تلاش کرنا، اس کی شخصیت کو سمجھنا، اس کی صلاحیتوں کو دیکھنا مقصود نہیں ہوتا لہٰذا ہمارے ہاں ٹرینڈز بنتے ہیں جس کی لاجک نہیں ہوتی۔
ایم بی بی ایس، انجینئرنگ کا آج بھی ٹرینڈ ہے لیکن ملازمت نہیں ہے۔ کوئی سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ ہم جو پڑھاتے جارہے ہیں اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ چند ماہ قبل انڈسٹری اکیڈیمیا لنکیج کیلئے گورنر پنجاب نے کمیٹی بنائی، میرے ساتھ اس میں 7 اداروں کے وائس چانسلر شامل تھے، افسوس ہے کہ سوائے ڈاکٹر طلعت پاشا کے، کسی وائس چانسلر نے اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ بچوں کو درست سکلز دینے اور انہیں قابل بنانے کیلئے اساتذہ، تعلیمی نصاب اور انڈسٹری اکیڈیما لنکیج ضروری ہے، آنے والے چند برسوں میں ڈگری کے بجائے ساری توجہ سکلز پر ہوگی لہٰذا ہمیں اس کا ادراک کرتے ہوئے بچوں کا سکل سیٹ بہتر کرنے پر توجہ دینا ہوگی، ایسا نظام بنانا ہوگا جو ان کی صلاحیتوں کو نکھارے اور انہیں جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرے۔
بدقسمتی سے ہمارا امتحانی نظام رٹہ سسٹم کو فروغ دیتا ہے، ہم یادداشت کو چیک کرتے ہیں جبکہ دنیا بہت آگے جا چکی ہے، اب تو ایموشنل انٹیلی جنس، ایم بی ٹی آئی کو دیکھا جا رہا ہے، ہمیں اپنے طلبہ کو اس طرح سے تیار کرنا ہوگا۔ ہمارے اساتذہ کیلئے انڈسٹری کا تجربہ لازمی قرار دینا چاہیے، ہر 5 سال بعد انہیں انڈسٹری میں بھیجنا چاہیے، تاکہ وہ اپنے پریکٹیکل نالج کو اپ ڈیٹ کر سکیں اور طلبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کر سکیں۔
پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)
دنیا میں کسی بھی حوالے سے ترقی ہو، نالج اکانومی ہو یا سائنسی بنیادوں پر ترقی، روایتی بزنس ڈویلپمنٹ ہو یا آئی ٹی سیکٹر کی ترقی، اس سارے نظام اور ترقی میں بنیادتعلیم ہے۔ تعلیم لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لاتی ہے، اس سے انسان بدلتے ہیں، ان کا طرز زندگی اور معیار زندگی بلند ہوتا ہے، خاندان کی تقدیر بدل جاتی ہے اور پھر اس کا اثر ملکی ترقی پر ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو تعلیم کی اہمیت کا مکمل ادراک ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیم پر جی ڈی پی کا 4 فیصد خرچ کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس پر توجہ نہیں ہے۔
تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے حکومتی اور سیاسی حوالے سے جو کام کرنے والے ہیں وہ نہیں ہوئے۔ ہم نے شارٹ ٹرم اقدامات کیے اور نہ ہی لانگ ٹرم، جو کام کیا اس کے بھی درست اثرات مرتب نہیں ہوئے بلکہ نظام مزید خراب ہوتا گیا۔ افسوس ہے کہ ہم تعلیمی اداروں میں جو پراڈکٹ تیار کر رہے ہیں ، اس کی مارکیٹ ویلیو نہیں ہے۔ ہم نے مارکیٹ کو نہیں سمجھا اور نہ ہی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی۔ سوال یہ ہے کہ جو پراڈکٹ مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق نہ ہو، اس سے کیا فائدہ ہوگا؟یہ باعث تشویش ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اب کمرشل ہوچکا ہے۔
پرائمری کی سطح سے ہی ہمارے ہاں کمرشل ازم آگیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں کی عدم توجہ سے جو خلاء پیدا ہوا اس میں نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملا اور اس نے بخوبی یہ خلاء پورا کر دیا مگر اس میں تعلیم سب کیلئے نہ ہوسکی، بلکہ معاشرے میں تعلیمی حوالے سے تقسیم پیدا ہوتی گئی۔ افسوس ہے کہ ریاست نے جو کام کرنا تھا وہ نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں غربت، طبقاتی نظام، مدارس، سکول و دیگر حوالوں سے مسائل پیدا ہوئے جو سنگین ہوتے گئے اور آج عفریت بن چکے ہیں۔
تعلیمی حوالے سے سب کو برابر مواقع ملنے چاہیے تھے ، مدارس کے بچوں کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے تھا، سرکاری و نجی سکولوں کے معیار تعلیم میں فرق کو ختم ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا اور نہ ہی تمام طلبہ کو برابر مواقع مل سکے۔ یکساں نصاب تعلیم بہترین اقدام ہے، میرے نزدیک یہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا تاہم اب اس کے عملدرآمد میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرکے وسیع تر ملکی مفاد میں کام کرنا ہوگا۔
ہائر ایجوکیشن کی بات کریں تو اس میں بھی بے شمار مسائل ہیں۔ تعلیمی اداروں کے سنڈیکیٹ ،بورڈ آف ڈائریکٹرز وغیرہ میں سیاستدان بیٹھے ہیں جو فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ میرے نزدیک سنڈیکیٹ ،بورڈ آف گورنرز، ڈائریکٹرز و دیگر کمیٹیوں میں سٹیک ہولڈرز اور انڈسٹری کے ماہرین کو شامل کرنا چاہیے، ان کی مشاورت سے تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکومت تمام لوگوں کو روزگار نہیں دے سکتی نہ ہی اکیلے ان کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ ملازمتیں نجی شعبے نے پیدا کرنی ہیں لہٰذا ہمیں اس کی ڈیمانڈز کے مطابق بچوں کو تعلیم دینا ہوگی۔ اس کیلئے ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہوگا۔
شیخ محمد ابراہیم
(کاروباری شخصیت )
90ء کی دہائی میں ہم نے تعلیمی نظام کو کمرشلائز کر دیا جس سے ہمارا معیار تعلیم گرا اورسب کی توجہ پیسہ کی جانب ہوگئی۔سپلی لینے والے طلبہ کو بھی داخلے ملے، تعلیمی اداروں میں پیسے کی ریل پیل ہوئی، طلبہ اچھے نمبروں میں پاس کر دیے گئے، ڈگریاں دے گئی مگر قابلیت نہ ہونے کے برابر۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد ان کے پاس کرنے ،بتانے اور دکھانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔حالت تو یہ ہے کہ ایم بی اے ڈگری ہولڈر کو ملازمت کی درخواست نہیں لکھنی آتی۔ طلبہ اپنی 'سی وی' بھی کسی اور سے بنواتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم نے طلبہ کی صورت میں جو پراڈکٹ تیار کی وہ مارکیٹ کے مطابق نہیں تھی جس سے انڈسٹری کا تعلیمی اداروں پر اعتماد کم ہوگیا۔ہمارے تعلیمی اداروں نے انڈسٹری کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ میرے نزدیک ملک میں بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ تعلیمی نظام کے مسائل ہیں۔ ایک آسامی کیلئے ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں، 5 سالہ تجربہ رکھنے والے بھی اسی دوڑ میں لگے ہیں، حالت یہ ہے کہ بغیر ڈگری والے افراد ڈگریاں لینے والوں سے زیادہ کما رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ تعلیم چونکہ کاروبار بن چکا ہے اس لیے بغیر منصوبے بندی کے، ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں، لاکھوں طلبہ مارکیٹ میں بھیج دیے جاتے ہیں جو بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف سیکٹرز کی نشاندہی کرے اور ان کی ڈیمانڈ کے مطابق پالیسی بنا کر کام کرے۔
تعلیمی اداروں میں ان پر کام کیا جائے، ماہرین کی مشاورت اور تعاون سے کام کا آغاز کیا جائے اور بے روزگاری جیسے بڑے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اس وقت آئی ٹی سیکٹر ایک بڑا شعبہ ہے جس میں ترقی کی بہت گنجائش موجود ہے، اس حوالے سے طلبہ کو تعلیم دی جائے اور انہیں تیار کیا جائے تاکہ وہ آٹی سیکٹر میں اپنا بہتر روزگار کما سکیں۔ حکومت نے آئی ٹی سیکٹر کو مراعات دی، سرمایہ دار اس میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، اگر حکومت ہمیں ماہرین کے ساتھ بٹھا کر ایک سمت اور لائحہ عمل دے تو یہ سود مند ثابت ہوگا۔ حلال فوڈز میں دنیا بھر میں بہت زیادہ کام کی گنجائش ہے، اس طرف توجہ دینے اور طلبہ کو تیار کرنے سے ملک کو فائدہ ہوگا۔
عبدالسلام
(آئی ٹی ایکسپرٹ)
ہمارے ہاں انڈسٹری اور اکیڈیمیا کے درمیان خلاء ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں،انہیں دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ہمارے طلبہ میں دنیا کے لوگوں سے زیادہ ٹیلنٹ اور قابلیت ہے۔ اگر انہیں درست سمت دکھائی جائے، تربیت اور آگے بڑھنے کے مواقع دیے جائیں تو بہت فائدہ ہوگا۔
ا س سے نہ صرف ان کی بلکہ ملک کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔ ہمارے ہاں تعلیمی نظام اور بعد ازاں ملازمت کے مواقع کے حوالے سے مسائل زیادہ ہیں، تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بے شمار طلبہ مارکیٹ کے مطابق تیار نہیں ہیں اور جو قابل ہیں جب انہیںیہاں درست مواقع نہیں ملتے تو وہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں جو ہمارے لیے بڑا نقصان ہے لہٰذا ہمیں اپنے لوگوں کی قابلیت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔طلبہ کو مارکیٹ کے مطابق تیار کرنے کیلئے میری رائے ہے کہ جس طرح میڈیکل کالج کے ساتھ ہسپتال منسلک ہوتا ہے، اگر اسی طرح ہر یونیورسٹی کے ساتھ متعلقہ انڈسٹری کو لنک کر دیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا، طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی حاصل ہوگا۔ ہم نے تعلیم ممکن کے نام سے قاسم علی شاہ فائونڈیشن میں سالانہ 100 بچوں کو انڈسٹری کیلئے تیار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
ان طلبہ کو وہ تمام سکلز سکھائی جا رہی ہیں جو ان کی پروفیشنل زندگی کیلئے ضروری ہیں، یہ انڈسٹری کی ڈیمانڈ اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ یہ طلبہ ملک کے لاکھوں طلبہ سے منفرد ہونگے، مارکیٹ میں ان کی ڈیمانڈ ہوگی۔ یہ طلبہ ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بہتر کردار ادا کر سکیں گے۔ دنیا میںاس وقت آئی ٹی انڈسٹری کا عروج ہے۔ امریکاکی آئی ٹی انڈسٹری 1.8 ٹریلین ڈالرز، یورپ کی 250 بلین ڈالر، بھارت کی 187 بلین ڈالر جبکہ پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری 3 بلین ڈالر ہے جس سے دنیا میں ہماری حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ترکی میں 90 ٹیکنالوجی پارکس ہیں جبکہ پاکستان میں 10 کے قریب ہیں جو صحیح معنوں میں نہیں چل رہے بلکہ وہ بھی کمرشل کر دیے گئے۔ ہمیں اس اہم اور بڑے شعبے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، اس میں ترقی سے ملک کی ترقی ہوگی اور نوجوانوں کو روزگار کے وسیع مواقع ملیں گے۔
''نوجوانوں کے روزگار کے مسائل اور تعلیمی اداروں کا کردار'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین تعلیم اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
قاسم علی شاہ
(موٹیویشنل سپیکر )
ہمارا نظام تعلیم بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ یہ بے مقصد ہے جس کی وجہ سے ہمارے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ جب انڈسٹری اکیڈیما لنکیج کی بات کی جاتی ہے تو اس کا ایک بڑا مقصد معاش ہوتا ہے۔ لیکن حیرت ہے ہم پیسہ کمانا بھی چاہتے ہیں مگر اس پر بات کرنے یا کام کرنے کو برا سمجھتے ہیں۔
دنیا میں لوگ ہمارے بچوں سے نصف ٹیلنٹ رکھتے ہیں مگر وہ اپنے مقصد میں واضح ہیں، جس سے ان کا ویژن بنتا ہے، وہ درست سمت میں مسلسل کام کر رہے ہیں اور اس کا انہیں فائدہ بھی مل رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاںجیسے جیسے بچہ تعلیم حاصل کرتا جاتا ہے وہ ویژن لیس ہو جاتا ہے۔ وہ نوکری کرنا چاہتا ہے مگر ایسی نوکری نہیں کرتا جس کیلئے وہ بنا ہے۔ دنیا کے وہ ادارے جو بڑے حساس ہیں، جن کا ایک ایک منصبوبہ کھربوں ڈالرز کا ہوتا ہے جیسے امریکی خلائی ادارہ 'ناسا'ہے، وہ بھی بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح کے لوگ چاہئیں، ہر شخص ہر کام نہیں کر سکتا۔ ہمارے پاس کسی بھی شعبے میں جانے کیلئے میرٹ سسٹم ہے جس میں بچے کے ٹیلنٹ کو تلاش کرنا، اس کی شخصیت کو سمجھنا، اس کی صلاحیتوں کو دیکھنا مقصود نہیں ہوتا لہٰذا ہمارے ہاں ٹرینڈز بنتے ہیں جس کی لاجک نہیں ہوتی۔
ایم بی بی ایس، انجینئرنگ کا آج بھی ٹرینڈ ہے لیکن ملازمت نہیں ہے۔ کوئی سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ ہم جو پڑھاتے جارہے ہیں اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ چند ماہ قبل انڈسٹری اکیڈیمیا لنکیج کیلئے گورنر پنجاب نے کمیٹی بنائی، میرے ساتھ اس میں 7 اداروں کے وائس چانسلر شامل تھے، افسوس ہے کہ سوائے ڈاکٹر طلعت پاشا کے، کسی وائس چانسلر نے اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ بچوں کو درست سکلز دینے اور انہیں قابل بنانے کیلئے اساتذہ، تعلیمی نصاب اور انڈسٹری اکیڈیما لنکیج ضروری ہے، آنے والے چند برسوں میں ڈگری کے بجائے ساری توجہ سکلز پر ہوگی لہٰذا ہمیں اس کا ادراک کرتے ہوئے بچوں کا سکل سیٹ بہتر کرنے پر توجہ دینا ہوگی، ایسا نظام بنانا ہوگا جو ان کی صلاحیتوں کو نکھارے اور انہیں جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرے۔
بدقسمتی سے ہمارا امتحانی نظام رٹہ سسٹم کو فروغ دیتا ہے، ہم یادداشت کو چیک کرتے ہیں جبکہ دنیا بہت آگے جا چکی ہے، اب تو ایموشنل انٹیلی جنس، ایم بی ٹی آئی کو دیکھا جا رہا ہے، ہمیں اپنے طلبہ کو اس طرح سے تیار کرنا ہوگا۔ ہمارے اساتذہ کیلئے انڈسٹری کا تجربہ لازمی قرار دینا چاہیے، ہر 5 سال بعد انہیں انڈسٹری میں بھیجنا چاہیے، تاکہ وہ اپنے پریکٹیکل نالج کو اپ ڈیٹ کر سکیں اور طلبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کر سکیں۔
پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)
دنیا میں کسی بھی حوالے سے ترقی ہو، نالج اکانومی ہو یا سائنسی بنیادوں پر ترقی، روایتی بزنس ڈویلپمنٹ ہو یا آئی ٹی سیکٹر کی ترقی، اس سارے نظام اور ترقی میں بنیادتعلیم ہے۔ تعلیم لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لاتی ہے، اس سے انسان بدلتے ہیں، ان کا طرز زندگی اور معیار زندگی بلند ہوتا ہے، خاندان کی تقدیر بدل جاتی ہے اور پھر اس کا اثر ملکی ترقی پر ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو تعلیم کی اہمیت کا مکمل ادراک ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیم پر جی ڈی پی کا 4 فیصد خرچ کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس پر توجہ نہیں ہے۔
تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے حکومتی اور سیاسی حوالے سے جو کام کرنے والے ہیں وہ نہیں ہوئے۔ ہم نے شارٹ ٹرم اقدامات کیے اور نہ ہی لانگ ٹرم، جو کام کیا اس کے بھی درست اثرات مرتب نہیں ہوئے بلکہ نظام مزید خراب ہوتا گیا۔ افسوس ہے کہ ہم تعلیمی اداروں میں جو پراڈکٹ تیار کر رہے ہیں ، اس کی مارکیٹ ویلیو نہیں ہے۔ ہم نے مارکیٹ کو نہیں سمجھا اور نہ ہی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی۔ سوال یہ ہے کہ جو پراڈکٹ مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق نہ ہو، اس سے کیا فائدہ ہوگا؟یہ باعث تشویش ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اب کمرشل ہوچکا ہے۔
پرائمری کی سطح سے ہی ہمارے ہاں کمرشل ازم آگیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں کی عدم توجہ سے جو خلاء پیدا ہوا اس میں نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملا اور اس نے بخوبی یہ خلاء پورا کر دیا مگر اس میں تعلیم سب کیلئے نہ ہوسکی، بلکہ معاشرے میں تعلیمی حوالے سے تقسیم پیدا ہوتی گئی۔ افسوس ہے کہ ریاست نے جو کام کرنا تھا وہ نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں غربت، طبقاتی نظام، مدارس، سکول و دیگر حوالوں سے مسائل پیدا ہوئے جو سنگین ہوتے گئے اور آج عفریت بن چکے ہیں۔
تعلیمی حوالے سے سب کو برابر مواقع ملنے چاہیے تھے ، مدارس کے بچوں کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے تھا، سرکاری و نجی سکولوں کے معیار تعلیم میں فرق کو ختم ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا اور نہ ہی تمام طلبہ کو برابر مواقع مل سکے۔ یکساں نصاب تعلیم بہترین اقدام ہے، میرے نزدیک یہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا تاہم اب اس کے عملدرآمد میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرکے وسیع تر ملکی مفاد میں کام کرنا ہوگا۔
ہائر ایجوکیشن کی بات کریں تو اس میں بھی بے شمار مسائل ہیں۔ تعلیمی اداروں کے سنڈیکیٹ ،بورڈ آف ڈائریکٹرز وغیرہ میں سیاستدان بیٹھے ہیں جو فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ میرے نزدیک سنڈیکیٹ ،بورڈ آف گورنرز، ڈائریکٹرز و دیگر کمیٹیوں میں سٹیک ہولڈرز اور انڈسٹری کے ماہرین کو شامل کرنا چاہیے، ان کی مشاورت سے تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکومت تمام لوگوں کو روزگار نہیں دے سکتی نہ ہی اکیلے ان کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ ملازمتیں نجی شعبے نے پیدا کرنی ہیں لہٰذا ہمیں اس کی ڈیمانڈز کے مطابق بچوں کو تعلیم دینا ہوگی۔ اس کیلئے ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہوگا۔
شیخ محمد ابراہیم
(کاروباری شخصیت )
90ء کی دہائی میں ہم نے تعلیمی نظام کو کمرشلائز کر دیا جس سے ہمارا معیار تعلیم گرا اورسب کی توجہ پیسہ کی جانب ہوگئی۔سپلی لینے والے طلبہ کو بھی داخلے ملے، تعلیمی اداروں میں پیسے کی ریل پیل ہوئی، طلبہ اچھے نمبروں میں پاس کر دیے گئے، ڈگریاں دے گئی مگر قابلیت نہ ہونے کے برابر۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد ان کے پاس کرنے ،بتانے اور دکھانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔حالت تو یہ ہے کہ ایم بی اے ڈگری ہولڈر کو ملازمت کی درخواست نہیں لکھنی آتی۔ طلبہ اپنی 'سی وی' بھی کسی اور سے بنواتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم نے طلبہ کی صورت میں جو پراڈکٹ تیار کی وہ مارکیٹ کے مطابق نہیں تھی جس سے انڈسٹری کا تعلیمی اداروں پر اعتماد کم ہوگیا۔ہمارے تعلیمی اداروں نے انڈسٹری کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ میرے نزدیک ملک میں بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ تعلیمی نظام کے مسائل ہیں۔ ایک آسامی کیلئے ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں، 5 سالہ تجربہ رکھنے والے بھی اسی دوڑ میں لگے ہیں، حالت یہ ہے کہ بغیر ڈگری والے افراد ڈگریاں لینے والوں سے زیادہ کما رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ تعلیم چونکہ کاروبار بن چکا ہے اس لیے بغیر منصوبے بندی کے، ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں، لاکھوں طلبہ مارکیٹ میں بھیج دیے جاتے ہیں جو بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف سیکٹرز کی نشاندہی کرے اور ان کی ڈیمانڈ کے مطابق پالیسی بنا کر کام کرے۔
تعلیمی اداروں میں ان پر کام کیا جائے، ماہرین کی مشاورت اور تعاون سے کام کا آغاز کیا جائے اور بے روزگاری جیسے بڑے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اس وقت آئی ٹی سیکٹر ایک بڑا شعبہ ہے جس میں ترقی کی بہت گنجائش موجود ہے، اس حوالے سے طلبہ کو تعلیم دی جائے اور انہیں تیار کیا جائے تاکہ وہ آٹی سیکٹر میں اپنا بہتر روزگار کما سکیں۔ حکومت نے آئی ٹی سیکٹر کو مراعات دی، سرمایہ دار اس میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، اگر حکومت ہمیں ماہرین کے ساتھ بٹھا کر ایک سمت اور لائحہ عمل دے تو یہ سود مند ثابت ہوگا۔ حلال فوڈز میں دنیا بھر میں بہت زیادہ کام کی گنجائش ہے، اس طرف توجہ دینے اور طلبہ کو تیار کرنے سے ملک کو فائدہ ہوگا۔
عبدالسلام
(آئی ٹی ایکسپرٹ)
ہمارے ہاں انڈسٹری اور اکیڈیمیا کے درمیان خلاء ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں،انہیں دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ہمارے طلبہ میں دنیا کے لوگوں سے زیادہ ٹیلنٹ اور قابلیت ہے۔ اگر انہیں درست سمت دکھائی جائے، تربیت اور آگے بڑھنے کے مواقع دیے جائیں تو بہت فائدہ ہوگا۔
ا س سے نہ صرف ان کی بلکہ ملک کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔ ہمارے ہاں تعلیمی نظام اور بعد ازاں ملازمت کے مواقع کے حوالے سے مسائل زیادہ ہیں، تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بے شمار طلبہ مارکیٹ کے مطابق تیار نہیں ہیں اور جو قابل ہیں جب انہیںیہاں درست مواقع نہیں ملتے تو وہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں جو ہمارے لیے بڑا نقصان ہے لہٰذا ہمیں اپنے لوگوں کی قابلیت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔طلبہ کو مارکیٹ کے مطابق تیار کرنے کیلئے میری رائے ہے کہ جس طرح میڈیکل کالج کے ساتھ ہسپتال منسلک ہوتا ہے، اگر اسی طرح ہر یونیورسٹی کے ساتھ متعلقہ انڈسٹری کو لنک کر دیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا، طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی حاصل ہوگا۔ ہم نے تعلیم ممکن کے نام سے قاسم علی شاہ فائونڈیشن میں سالانہ 100 بچوں کو انڈسٹری کیلئے تیار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
ان طلبہ کو وہ تمام سکلز سکھائی جا رہی ہیں جو ان کی پروفیشنل زندگی کیلئے ضروری ہیں، یہ انڈسٹری کی ڈیمانڈ اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ یہ طلبہ ملک کے لاکھوں طلبہ سے منفرد ہونگے، مارکیٹ میں ان کی ڈیمانڈ ہوگی۔ یہ طلبہ ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بہتر کردار ادا کر سکیں گے۔ دنیا میںاس وقت آئی ٹی انڈسٹری کا عروج ہے۔ امریکاکی آئی ٹی انڈسٹری 1.8 ٹریلین ڈالرز، یورپ کی 250 بلین ڈالر، بھارت کی 187 بلین ڈالر جبکہ پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری 3 بلین ڈالر ہے جس سے دنیا میں ہماری حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ترکی میں 90 ٹیکنالوجی پارکس ہیں جبکہ پاکستان میں 10 کے قریب ہیں جو صحیح معنوں میں نہیں چل رہے بلکہ وہ بھی کمرشل کر دیے گئے۔ ہمیں اس اہم اور بڑے شعبے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، اس میں ترقی سے ملک کی ترقی ہوگی اور نوجوانوں کو روزگار کے وسیع مواقع ملیں گے۔