مشکل فیصلے اور حکمت عملی کا فقدان

حکومت بار بار یہ باور کرانے میں لگی ہے کہ یہ مشکل فیصلے دل پر پتھر رکھ کر کیے جارہے ہیں


کائنات طاہر June 07, 2022
اس وقت صرف مشکل نہیں، عقلمندانہ فیصلے وقت کی ضرورت ہیں۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ کچھ روز سے وطنِ عزیز میں آنے والا مہنگائی کا طوفان یوں تو بظاہر کوئی نئی بات نہیں۔ مگر اس بار محض دو ہفتوں میں بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا ہوشربا اضافہ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ سنگین حکومتی فیصلوں میں بھی تاریخ رقم کرگیا۔ وہ ظالمانہ فیصلے جنہیں بار بار مشکل فیصلوں کا نام دیا جارہا ہے، درحقیقت حکومتِ وقت کی نااہلی ثابت کرنے کےلیے کافی ہیں۔ ایک جانب یہ فیصلے عوام سے ہضم نہیں ہورہے کہ اس پر مزید حکومت کی بے ڈھنگی باتیں جلتی پر تیل کا کام کررہی ہیں۔

مانا کہ ہر حکومت اپنے فیصلوں کا دفاع کرتی ہے مگر یہ دفاع ہمیشہ کسی نہ کسی دلیل، منطق یا جواز پر مشتمل دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے دی گئی وضاحتیں ایک طرف، عجیب و غریب قسم کے بیانات بھی سمجھ سے باہر ہیں۔ ملک کی اس نازک صورتحال میں کبھی وزیراعظم کہتے ہیں اپنے کپڑے بیچ دوں گا لیکن آٹا سستا دوں گا۔ تو کبھی وزرا کی جانب سے سننے کو ملتا ہے کہ وزیراعظم مشکل فیصلوں پر پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ آخر اس قسم کے بیانات کس کےلیے دیے جارہے ہیں؟ ان کی ضرورت کیا ہے؟ کیا یہ بیانات غریب عوام کی پریشانی کو دور کردیں گے؟

حکومت بار بار یہ باور کرانے میں لگی ہے کہ یہ مشکل فیصلے دل پر پتھر رکھ کر کیے جارہے ہیں۔ تو عرض ہے کہ کیا آپ کے دل میں موجود یہ ''درد'' عوامی مشکلات کم کرنے کےلیے بہت ہے؟ آپ کے دل پر رکھا پتھر غریب اور پسے ہوئے طبقے کو آرام دے دے گا؟ یہ باتیں عوام کی بے بسی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ براہ کرم اس قسم کے غیر ضروری اور بچگانہ بیانات سے پرہیز کیجیے۔ ان فیصلوں پر جو تاویلیں گھڑی جارہی ہیں، انتہائی بھونڈی ہیں، ان سے کچھ حاصل نہیں اور یہ سب باتیں عوام کےلیے بیکار ہیں۔

حکومت کے پاس ملک کو اس گمبھیر صورت حال سے نکالنے کی کوئی حقیقی پالیسی ہے تو سامنے لائیے، ورنہ حکومت سے دستبردار ہوجائیے۔

خود ہی بتائیے کہ کیا اب تک اس مد میں کوئی ایک بھی عقلمندانہ اقدام حکومت کی جانب سے نظر آیا؟ کہاں ہے وہ ماہرین کی ٹیم جس کے بھروسے یہ پچھلی حکومت کو ناتجربہ کاری کے طعنے دیتے تھے؟ یہاں عوام آپ کے تجربے کے کرشمے دیکھنے کو بے تاب تھی اور آپ نے دن میں تارے دکھا دیے۔ اگر موجودہ صورت حال کی ذمے داری گزشتہ حکومت پر ہی ڈالنی تھی تو یہ کام تو تحریک انصاف بھی بخوبی کررہی تھی۔ آپ کے دعوے تو کچھ اور تھے۔ اس نوعیت کے سخت فیصلوں کا منطقی بنیاد پر دلائل کے ساتھ جواز پیش کرنے کے بجائے حکومتی نمائندے جو بھونڈی تاویلیں گھڑ رہے ہیں وہ ان کی بوکھلاہٹ کو صاف ظاہر کرتا ہے۔ اس حکومت کی اب تک کی مختصر مدت میں ہی یہ ثابت ہوگیا کہ حالات ان کے قابو سے باہر ہیں۔ وطنِ عزیز کی معیشت تو ہمیشہ سے لڑکھڑا رہی تھی، لیکن کارآمد حکمتِ عملی کا شدید فقدان اب بہت واضح نظر آرہا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں جو حشر عوام کا ہورہا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔

بیانات کے بعد اقدامات بھی اسی نوعیت کے ہیں جس پر ہم صرف آہ ہی بھر سکتے ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے 28 ارب روپے کے جس ریلیف پیکیج کا اعلان کیا، اس کا مقصد بھی محض عوامی ردعمل کی شدت کو کم کرنا تھا۔ یہ ریلیف پیکیج درحقیقت ایک بھونڈے مذاق کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ مخصوص سطح سے کم تنخواہ والے افراد کو دو ہزار روپے ماہانہ دے کر حکومت کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے؟ عام مثال میں ایک ایسا گھرانہ جس کے واحد کفیل کو 2 ہزار مل بھی جائیں اور وہ مزید 4 افراد کی ذمے داری بھی اٹھائے ہوئے ہو، تو ہر فرد کے 400 روپے ماہانہ اس پیکیج کے مطابق بنتے ہیں۔ مگر حکومتی نمائندے جس کروفر اور تفخر سے اس کا اعلان کررہے تھے، معلوم ہوتا ہے گویا اتنے بڑے ریلیف کا احسان قوم اتار نہیں پائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اقدام بھی کسی کے فائدے میں نہیں۔

معاملہ جہاں تک پہنچ چکا، وہاں جذباتی بیانات اور نہ ہی غیر نفع بخش قسم کے پیکیج کوئی حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کی، تو یہ بھی آنے والے وقت کےلیے ایک حکومتی حربہ ہے جس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑنے والا۔ حالات اب جس قسم کے ذمے دارانہ فیصلوں کے متقاضی ہیں، ان میں اشرافیہ کی مراعات ختم کرنا ایک مثبت ابتدائی اقدام تو ہوسکتا ہے مگر مکمل حل نہیں۔ ملک میں پٹرول اور گیس کی کھپت بہت زیادہ، جب کہ مراعات زدہ طبقہ اس کے مقابلے میں اب بھی بہت چھوٹا ہے۔

اس وقت صرف مشکل نہیں، عقلمندانہ فیصلے وقت کی ضرورت ہیں، جن کی اب تک کی حکومتی حکمت عملی دیکھتے ہوئے کوئی اچھی امید نہیں۔ اب فوری الیکشن ہی واحد حل اور امید ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں