ورنہ تو تو گیا

حملہ آور اپنی یقینی فتح کے نشے میں چور مگر مسلسل پیش قدمی کرتے کرتے تھکتے چلے گئے

BEIJING:
تاریخی اعتبار سے روسی نفسیات روسی دفاع کا سب سے موثر ہتھیار رہی ہے۔یقین نہ آئے تو نپولین (اٹھارہ سو پانچ) اور ہٹلر (انیس سو چالیس) سے پوچھ لیں جن کی فوجیں موسمِ گرما کے تین ماہ میں ماسکو فتح کرنے کا خواب لے کر ہزاروں میل پر پھیلے روسی میدان میں بگٹٹ دوڑنے لگیں اور روسی مسلسل پیچھے ہٹتے چلے گئے یا حملہ آوروں کی نگاہ سے غائب ہو گئے۔

حملہ آور اپنی یقینی فتح کے نشے میں چور مگر مسلسل پیش قدمی کرتے کرتے تھکتے چلے گئے۔فوجی سپلائی لائن لمبی ہوتی چلی گئی۔مگر اس سپلائی لائن پر اکادکا روسی چھاپہ مار حملے حملہ آور کا بال بیکا نہ کر سکے۔ حملہ آوروں کو اور یقین ہوتا چلا گیا کہ کیل کانٹے سے لیس جارح فوج کو سامنے آ کر روکنے کی نہ بچارے روسیوں میں سکت ہے اور نہ ہی وسائل۔

موسم گرما کے آغاز میں اپنے اپنے ممالک سے چلنے والے یہ حملہ آور خود ایجاد دھوکے کے جال میں پھنستے چلے گئے اور پھر آ گیا ستمبر جب روسی میدانوں میں ٹھنڈی ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں۔اور نومبر دسمبر آتے آتے آتے یہ ہوائیں منفی دس، پھر بیس، پھر تیس، پھر چالیس سے اوپر کی بلاخیز بادِ یخ میں منقلب ہوتی چلی جاتی ہیں۔ موسم کی ستم خیزی کے سبب جارح پہلے سست پڑا اور پھر ٹھہر گیا۔اور پھر ''جنرل ونٹر'' کی قیادت میں روسیوں نے لومڑی کا شکار شروع کر دیا۔ دشمن آگے جائے یا پیچھے، دائیں جائے کہ بائیں۔ہر جانب عدو کی روسیاہی کا منتظر روس ہی روس تھا۔

اس حکمتِ عملی نے نپولین کی سطوت کو توڑ پھوڑ کے برابر کر دیا اور ہٹلر کا ناقابلِ تسخیر بت اڑا کے رکھ دیا اور پھر روایتی روسی عسکری دھڑم دھکیل شروع ہوئی اور دشمن الٹے پاؤں ہانپتا چلا گیا۔یہ کیسے ممکن ہوا؟؟ قیمت خیز سردی کا عادی ہونا اور لق و دق اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے اندر دفاعی جنگ لڑنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر وہ کون سا جذبہ تھا جس نے نپولین سے لڑنے والی زار فسطائیت اور ہٹلر سے نبرد آزما اسٹالنی آمریت کے ہوتے ایک عام روسی کو ہر طرح سے ریاست کا ساتھ دینے کے لیے ایک قطار میں کھڑا کر دیا۔

وہ جذبہ تھا مدر رشیا کا تصور۔جب بات ماں کی حرمت پر آجائے تو پھر ایک ہی ترجیح ہر ناکس و کس کو متحد کر دیتی ہے کہ اس کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ آپس کی لڑائی تو ہم بعد میں بھی لڑتے رہیں گے۔ چنانچہ اسی جذبے کے سبب عسکری اعتبار سے کمزور روس جوشِ دفاع میں جارح کو ہزاروں کلو میٹر دھکیلتے دھکیلتے بہت دور تک گھسیٹتا ہوا لے گیا۔

جب سوویت یونین نے دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرقی یورپ پر قبضہ کیا اور انیس سو اناسی میں افغانستان پر فوج کشی کی یا پھر فروری دو ہزار بائیس میں یوکرین پر حملہ کیا تو ان تینوں مثالوں میں مدر رشیا کے تصور پر ایک سامراجی سلطنت کاری کا تصور غالب نظر آتا ہے۔ لہٰذا مشرقی یورپ سے روس کو پچپن برس بعد اور افغانستان پر نو برس کے قبضے کے بعد پسپا ہونا پڑا۔جب کہ یوکرین کے معاملے میں بھی عام روسی منقسم ہے اور اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہم نسل یوکرینیوں سے آخر مدر رشیا کو کون سا ایسا فوری خطرہ تھا جس کے سبب وہاں فوج کشی کرنا پڑی۔ چنانچہ پانچ گنا بڑی طاقت ہونے اور سو دن سے زائد گذرنے کے بعد بھی روسی اسٹیبلشمنٹ حسب ِ خواہش اپنے عسکری اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ اس جنگ کا نظریاتی کھوکھلا پن ہے۔

دوسری مثال چین کی ہے۔وہاں صدیوں سے مسلط شہنشاہیت کا بستر انیس سو بارہ میں گول ہو گیا اور ڈاکٹر سن یات سین کی قیادت میں قوم پرست کومنتانگ حکومت قائم ہو گئی۔

انیس سو اکیس میں چینی کیمونسٹ پارٹی قائم ہوئی۔یوں شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد دو نئے نظریاتی دھڑے وجود میں آئے۔انیس سو اکتیس میں جاپانی امپیریل سامراج نے شمالی چین کے بڑے علاقے مانچوریا پر لگ بھگ یکطرفہ لڑائی کے نتیجے میں قبضہ کر لیا۔چینی متحد نہیں تھے اس لیے جاپان کی ابھرتی عسکری و صنعتی طاقت کے لیے چیلنج بھی نہیں تھے۔ چنانچہ چھ برس بعد انیس سو سینتیس میں جاپانی سامراج نے موقع غنیمت جان کر چینی دارالحکومت نانجنگ پر حملہ کر دیا۔ ہزاروں عام شہریوں کا بہیمانہ قتل عام ہوا جو لگ بھی چھ ہفتے جاری رہا۔اس واقعہ نے چین کو جڑوں تک ہلا دیا۔اس واردات کی کسک آج بھی چین کی قومی نفسیات میں زندہ ہے۔


ایک دوسرے کے نظریاتی دشمنوں یعنی چیانگ کائی شیک کی کومنتانگ قوم پرست حکومت اور مسلح جدوجہد کے ذریعے کسان انقلاب کی داعی کیمونسٹ پارٹی نے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی و عسکری تعاون کا فیصلہ کیا۔یعنی پہلے چین دشمن جارح جاپانیوں سے نمٹ لیں اس کے بعد چین کے مستقبل کی لڑائی کے لیے عمر پڑی ہے۔

اس اتحاد کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے اور جاپانیوں کو چین چھوڑنا پڑا۔بعد ازاں قوم پرست اور کیمونسٹ پھر آپس میں بھڑ گئے اور بالاخر کیمونسٹوں نے قوم پرستوں کو چین سے بے دخل کر کے تائیوان کے جزیرے تک محدود کر دیا۔

اگر بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو ہمیں دوسری عالمی جنگ کے دوران کٹر سرمایہ دار اور کیمونزم کے جانی دشمن برطانیہ اور امریکا اپنے سب سے بڑے نظریاتی حریف سوویت یونین کے ساتھ ایک بڑے اتحاد کی لڑی میں پروئے ہوئے نظر آتے ہیں۔کیونکہ ہٹلر کی کامیابی دونوں نظریاتی کیمپوں کے بقائی وجود کے لیے عظیم خطرہ بن کر سامنے آئی۔جیسے ہی نازی جرمنی کا خاتمہ ہوا۔نازی مخالف اتحادیوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے پر نظریاتی و عسکری اسلحہ تان لیا اور اگلے پینتالیس برس دنیا بھر میں زمین سے لے کر خلا تک ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہے حتیٰ کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا۔

مگر انسانی دماغ کی کنڈیشننگ بھی ایک خاص فریم کی قیدی ہے اور اسے نئے چیلنجز کی سنگینی ماپتے ماپتے اکثر ناقابلِ تلافی دیر ہو جاتی ہے۔

مثلاً آج کا ہٹلر اور آج کا جاپانی سامراج عالمی ماحولیات کی ابتری کی شکل میں ہم سب کی گردن پر پھنکار رہا ہے،چونکہ اس بقائی خطرے کی کوئی مجسم انسانی صورت نہیں اس لیے یہ خطرہ ہمیں خطرہ ہی نہیں لگ رہا۔

اب سے ایک یا ڈیڑھ عشرے بعد کوئی بھی امریکی، روسی ، چینی ، جاپانی یا بھارتی اس کرہِ ارض پر اپنے تلوے رکھنے کے قابل نہیں ہوگا۔اور پانی شاید تیل سے زیادہ مہنگا بکنے لگے گا اور سانس لینے کے لیے بھی کرائے کے سلنڈر عمومی زندگی کا لازمی حصہ بننے شروع ہو جائیں گے تب جا کے ممکن ہے کہ اس دنیا کے فیصلہ ساز لال بھجکڑ بالاخر اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ بقائی دشمن گزشتہ سات ہزار برس کے کسی بھی سورما سے زیادہ خونخوار اور سفاک ہے۔ مگر تب تک چھری گردن پر آ چکی ہو گی اور ہم سب سوائے ایک ذبح ہوتی گائے کی طرح ہاتھ پاؤں چلانے کے کچھ نہیں کر پا رہے ہوں گے۔

تو کیا بنی نوع انسان اتنی آسانی سے خود کو ہلاک ہونے کی اجازت دے دے گا ؟ اس سوال کا جواب اگلے تین چار برس میں درکار ہے۔ ورنہ تو تو گیا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story