وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات
شہباز شریف بھی بہت محتاط ہیں۔ ویسے تو وہ گفتگو میں ہمیشہ ہی محتاط رہتے ہیں۔ انھیں زیادہ گفتگو کرنا پسند نہیں
ISLAMABAD:
وزیر اعظم شہباز شریف سے ان کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ملتے ہی کہا کہ پہلے اڑھائی ماہ تو دن رات کا علم ہی نہیں ہوا۔ پتہ ہی نہیں لگ رہا تھا کہ کب دن ہوا اور کب رات۔ مسائل نے بھی گھیرا ہوا تھا اور وقت کم تھا۔
ایسی صورتحال تھی کہ کسی بھی مسئلہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سیاسی صورتحال تو سب کے سامنے تھی۔ معاشی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ معاملات کو سنبھالنے اور سمت دینے میں وقت لگ گیا۔ میں نے کہا معاملات کوئی سمت لے گئے ہیں۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے آپ کو نظر نہیں آرہا کہ سمت لے گئے ہیں۔
میں نے کہا کہ بہت شور تھا حکومت چھوڑنے کا۔ انھوں نے کہا یہ ایک آپشن ضرور تھا، لیکن میری نظر میں یہ کبھی بھی کوئی قابل عمل آپشن نہیں تھا۔ حالات مشکل تھے اور حالات مشکل ہیں۔ کڑوے اور سخت معاشی و سیاسی فیصلوں کی ضرورت تھی اور ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پاکستان کو مشکل سے نہیں نکال سکتے تو حکومت کیوں لی۔
کیا ہم انتظا ر کریں کہ کب حالات مکمل ٹھیک ہو جائیں اور پھر حکومت لی جائے۔ مشکل حا لات سے ملک کو نکالنا ہی ملک کی خدمت ہے۔ ملک مشکل میں ہے اور ہم حکومت چھوڑ دیں تو یہ کونسی ملک کی خدمت ہے۔ یہ کونسی سیاست ہے۔ کیا ہم لوگوں کو کہیں گے حالات خراب تھے ۔ اس لیے حکومت چھوڑ دی تو کیا لوگ سوال نہیں کریں گے کہ اب آپ کو تب ووٹ دیں جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اس لیے میرے نزدیک خراب حالات اور کڑوے اور سخت فیصلوں کی وجہ سے حکومت چھوڑنا کبھی کوئی آپشن نہیں تھا۔
میں نے کہا جناب وزیر اعظم شور تو بہت تھا۔ کہنے لگا سب کی اپنی اپنی رائے تھی۔ لیکن میری رائے یہی تھی۔ میں نے کہا سب آپ کی رائے پر کیسے آگئے۔ وزیر اعظم مسکرائے اور کہنے لگے قائل کرنے میں کچھ دن لگ گئے لیکن سب قائل ہو گئے۔ میں نے کہا سب قائل ہو گئے۔ کہنے لگے میں سب کو ہی قائل کرنے کا عادی ہوں۔ اس لیے سب کو ہی قائل کیا گیا ہے۔
اسی کے بعد معاشی فیصلے بھی کیے گئے اور سمت بھی طے کی گئی ہے۔ میں نے کہا بات پھر بھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کونسا لمحہ تھا جب سب قائل ہو گئے۔کیونکہ مجھے تو سب قائل ہوتے نظر نہیں آرہے تھے۔ کہنے لگے نہیں ایسی بات نہیں تھی۔ پھر بھی جب عمران خان نے یک دم اسلام آباد پر چڑھائی کی کال دے دی۔ اور یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ وہ اسلام آباد کو قبضے میں لینا چاہتا ہے۔ تب سب نے کہا یہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس طرح دھونس نہیں چل سکتی۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی کال نے سب کو میرے موقف پر قائل کرلیا۔
میں نے کہا ریاست کہاں کھڑی تھی۔ میری طرف دیکھا اور کہا ریاست حکومت کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آئی؟ سب ایک پیج پر ہیں اور رہیں گے۔ ریاست کیسے ایک صوبے کو وفاق پر چڑھائی کرنے دے سکتی ہے۔ اس سے تو وفاق اور ریاست کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ آج ایک صوبے کی حکومت کو جرات ہو رہی ہے کہ وفاق پر حملہ کرے کل کوئی دوسرا صوبہ وفاق پر حملہ کا اعلان کر دے گا۔ ایسے پاکستان کیسے چل سکتا ہے۔ اس لیے ریاست کو ان معاملات کا بخوبی ادراک ہے۔ اس طرح صوبائی حکومتوں کو وفاق پر چڑھائی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے روکنے کا فیصلہ کوئی سیاسی نہیں تھا۔ یہ ریاست کی رٹ کا معاملہ تھا۔ یہ پاکستان کی بقا کا معاملہ تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا موقف ہے کہ لوگ اس کو ٹھیک طرح سے نہیں دیکھ رہے۔کیسے ایک سیاسی جماعت اپنی صوبائی حکومت کے سر پر وفاقی حکومت کو گرانے کا اعلان کر سکتی ہے۔ کیسے ایک صوبے کے سرکاری وسائل وفاقی حکومت کو گرانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ سادہ معاملہ نہیں تھا۔ یہ کوئی عام سیاسی سرگرمی نہیں تھی۔ یہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا معاملہ تھا۔ اور اس کو ایسے ہی دیکھا گیا ہے۔ اور ایسے ہی نبٹا گیا ہے۔
میں نے کہا تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ کہنے لگے اس کھیل میں رکاوٹیں کبھی دور نہیں ہوتیں۔ رکاوٹوں کے ساتھ ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں بھی دھرنوں اور تمام رکاوٹوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ رکاوٹیں کام کرنے کا مزید حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔ میں رکاوٹوں کو کام نہ کرنے کی وجہ نہیں سمجھتا۔ نہ ماضی میں ایسا کیا تھا۔ نہ اب ایسے کریں گے۔
ہمار اکام بولے گا۔ لوگ ہمارے کام کو دیکھیں گے۔ میں نے چارٹر آف اکانومی اور گرینڈ ڈائیلاگ کے بارے میں بات کی تو کہنے لگے کہ میں یہ سب باتیں اپوزیشن میں بھی کر رہا تھا۔ میں تو جیل کی کال کوٹھری سے بھی مفاہمت کی ہی بات کر رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے کوئی حکومت میں آکر چارٹر آف اکانومی اور گرینڈ ڈائیلاگ کی بات یاد آئی ہے۔ میں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی یہ بات کی ہے۔ یہ بات جیل سے بھی کی تھی۔ بطور قائد حزب اختلاف بھی کی تھی۔ اور اب بطور وزیر اعظم بھی کر رہا ہوں۔ اس لیے میرے موقف اور سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں۔
یہ کوئی سیاسی حالات کو دیکھ کر بات نہیں کی۔ شاید سیاسی حالات تو اس بات کے لے موزوں نہیں۔ لیکن موزوں سیاسی حالات کا انتظار کر کے وقت ضایع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کام تو کرنا ہے۔ شہباز شریف ملک کے معاشی حالات کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وہ ان سے نکلنے کے لیے بہت سے آؤٹ آف باکس حل پر کام کر رہے ہیں۔
انھیں اندازہ ہے کہ وقت بھی کم ہے۔ اور کم وقت میں ہی کام کرنا ہے۔ لیکن مجھے وہ پر امید نظر آئے ہیں۔ ان کی سوچ میں یکسوئی نظر آئی ہے۔ وہ حالات کو تبدیل کرنے کے حوالے سے پرامید ہیں۔ ان کے مطابق یہ سخت فیصلے واپس ہو سکتے ہیں۔ قوم جانتی ہے کہ یہ سخت فیصلے کس کی وجہ سے کرنے پڑے ہیں۔ کس نے آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ کیا۔ کس نے کرسی کی وجہ سے یہ معاہد ہ توڑ کر پاکستان دشمنی کی۔ اس لیے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ ان سخت فیصلوں میں بھی قوم ہمارے ساتھ ہے۔
انھوں نے کہا میں قوم کا شکر گزار ہوں کہ وہ اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑی ہے ۔ انھوں نے ان سخت فیصلوں کو ملک کے مفاد میں برداشت کیا ہے۔ یہ ایک زندہ قوم کی نشانی ہے کہ وہ ملک کی خاطر سختی بھی برداشت کرتی ہے۔
شہباز شریف بھی بہت محتاط ہیں۔ ویسے تو وہ گفتگو میں ہمیشہ ہی محتاط رہتے ہیں۔ انھیں زیادہ گفتگو کرنا پسند نہیں۔ اسی لیے اس نشست میں بھی بہت سے سوالات کے جواب نہیں ملے۔ لیکن میں اپنے تجزیہ میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال شہباز شریف کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ ایک مضبوط حکومت ہے۔ اور انھیں اپنی مدت پوری ہونے کا یقین ہے۔
وہ یہ بات واضح کہتے تو نہیں لیکن ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اب وہ عمران خان کو اپنے اور اپنی حکومت کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں سمجھتے ہیں۔ان کی رائے میں عمران خان نے اپنے تمام سیاسی پتے بہت جلد ضایع کر دیے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف سے ان کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ملتے ہی کہا کہ پہلے اڑھائی ماہ تو دن رات کا علم ہی نہیں ہوا۔ پتہ ہی نہیں لگ رہا تھا کہ کب دن ہوا اور کب رات۔ مسائل نے بھی گھیرا ہوا تھا اور وقت کم تھا۔
ایسی صورتحال تھی کہ کسی بھی مسئلہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سیاسی صورتحال تو سب کے سامنے تھی۔ معاشی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ معاملات کو سنبھالنے اور سمت دینے میں وقت لگ گیا۔ میں نے کہا معاملات کوئی سمت لے گئے ہیں۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے آپ کو نظر نہیں آرہا کہ سمت لے گئے ہیں۔
میں نے کہا کہ بہت شور تھا حکومت چھوڑنے کا۔ انھوں نے کہا یہ ایک آپشن ضرور تھا، لیکن میری نظر میں یہ کبھی بھی کوئی قابل عمل آپشن نہیں تھا۔ حالات مشکل تھے اور حالات مشکل ہیں۔ کڑوے اور سخت معاشی و سیاسی فیصلوں کی ضرورت تھی اور ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پاکستان کو مشکل سے نہیں نکال سکتے تو حکومت کیوں لی۔
کیا ہم انتظا ر کریں کہ کب حالات مکمل ٹھیک ہو جائیں اور پھر حکومت لی جائے۔ مشکل حا لات سے ملک کو نکالنا ہی ملک کی خدمت ہے۔ ملک مشکل میں ہے اور ہم حکومت چھوڑ دیں تو یہ کونسی ملک کی خدمت ہے۔ یہ کونسی سیاست ہے۔ کیا ہم لوگوں کو کہیں گے حالات خراب تھے ۔ اس لیے حکومت چھوڑ دی تو کیا لوگ سوال نہیں کریں گے کہ اب آپ کو تب ووٹ دیں جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اس لیے میرے نزدیک خراب حالات اور کڑوے اور سخت فیصلوں کی وجہ سے حکومت چھوڑنا کبھی کوئی آپشن نہیں تھا۔
میں نے کہا جناب وزیر اعظم شور تو بہت تھا۔ کہنے لگا سب کی اپنی اپنی رائے تھی۔ لیکن میری رائے یہی تھی۔ میں نے کہا سب آپ کی رائے پر کیسے آگئے۔ وزیر اعظم مسکرائے اور کہنے لگے قائل کرنے میں کچھ دن لگ گئے لیکن سب قائل ہو گئے۔ میں نے کہا سب قائل ہو گئے۔ کہنے لگے میں سب کو ہی قائل کرنے کا عادی ہوں۔ اس لیے سب کو ہی قائل کیا گیا ہے۔
اسی کے بعد معاشی فیصلے بھی کیے گئے اور سمت بھی طے کی گئی ہے۔ میں نے کہا بات پھر بھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کونسا لمحہ تھا جب سب قائل ہو گئے۔کیونکہ مجھے تو سب قائل ہوتے نظر نہیں آرہے تھے۔ کہنے لگے نہیں ایسی بات نہیں تھی۔ پھر بھی جب عمران خان نے یک دم اسلام آباد پر چڑھائی کی کال دے دی۔ اور یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ وہ اسلام آباد کو قبضے میں لینا چاہتا ہے۔ تب سب نے کہا یہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس طرح دھونس نہیں چل سکتی۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی کال نے سب کو میرے موقف پر قائل کرلیا۔
میں نے کہا ریاست کہاں کھڑی تھی۔ میری طرف دیکھا اور کہا ریاست حکومت کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آئی؟ سب ایک پیج پر ہیں اور رہیں گے۔ ریاست کیسے ایک صوبے کو وفاق پر چڑھائی کرنے دے سکتی ہے۔ اس سے تو وفاق اور ریاست کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ آج ایک صوبے کی حکومت کو جرات ہو رہی ہے کہ وفاق پر حملہ کرے کل کوئی دوسرا صوبہ وفاق پر حملہ کا اعلان کر دے گا۔ ایسے پاکستان کیسے چل سکتا ہے۔ اس لیے ریاست کو ان معاملات کا بخوبی ادراک ہے۔ اس طرح صوبائی حکومتوں کو وفاق پر چڑھائی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے روکنے کا فیصلہ کوئی سیاسی نہیں تھا۔ یہ ریاست کی رٹ کا معاملہ تھا۔ یہ پاکستان کی بقا کا معاملہ تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا موقف ہے کہ لوگ اس کو ٹھیک طرح سے نہیں دیکھ رہے۔کیسے ایک سیاسی جماعت اپنی صوبائی حکومت کے سر پر وفاقی حکومت کو گرانے کا اعلان کر سکتی ہے۔ کیسے ایک صوبے کے سرکاری وسائل وفاقی حکومت کو گرانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ سادہ معاملہ نہیں تھا۔ یہ کوئی عام سیاسی سرگرمی نہیں تھی۔ یہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا معاملہ تھا۔ اور اس کو ایسے ہی دیکھا گیا ہے۔ اور ایسے ہی نبٹا گیا ہے۔
میں نے کہا تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ کہنے لگے اس کھیل میں رکاوٹیں کبھی دور نہیں ہوتیں۔ رکاوٹوں کے ساتھ ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں بھی دھرنوں اور تمام رکاوٹوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ رکاوٹیں کام کرنے کا مزید حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔ میں رکاوٹوں کو کام نہ کرنے کی وجہ نہیں سمجھتا۔ نہ ماضی میں ایسا کیا تھا۔ نہ اب ایسے کریں گے۔
ہمار اکام بولے گا۔ لوگ ہمارے کام کو دیکھیں گے۔ میں نے چارٹر آف اکانومی اور گرینڈ ڈائیلاگ کے بارے میں بات کی تو کہنے لگے کہ میں یہ سب باتیں اپوزیشن میں بھی کر رہا تھا۔ میں تو جیل کی کال کوٹھری سے بھی مفاہمت کی ہی بات کر رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے کوئی حکومت میں آکر چارٹر آف اکانومی اور گرینڈ ڈائیلاگ کی بات یاد آئی ہے۔ میں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی یہ بات کی ہے۔ یہ بات جیل سے بھی کی تھی۔ بطور قائد حزب اختلاف بھی کی تھی۔ اور اب بطور وزیر اعظم بھی کر رہا ہوں۔ اس لیے میرے موقف اور سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں۔
یہ کوئی سیاسی حالات کو دیکھ کر بات نہیں کی۔ شاید سیاسی حالات تو اس بات کے لے موزوں نہیں۔ لیکن موزوں سیاسی حالات کا انتظار کر کے وقت ضایع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کام تو کرنا ہے۔ شہباز شریف ملک کے معاشی حالات کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وہ ان سے نکلنے کے لیے بہت سے آؤٹ آف باکس حل پر کام کر رہے ہیں۔
انھیں اندازہ ہے کہ وقت بھی کم ہے۔ اور کم وقت میں ہی کام کرنا ہے۔ لیکن مجھے وہ پر امید نظر آئے ہیں۔ ان کی سوچ میں یکسوئی نظر آئی ہے۔ وہ حالات کو تبدیل کرنے کے حوالے سے پرامید ہیں۔ ان کے مطابق یہ سخت فیصلے واپس ہو سکتے ہیں۔ قوم جانتی ہے کہ یہ سخت فیصلے کس کی وجہ سے کرنے پڑے ہیں۔ کس نے آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ کیا۔ کس نے کرسی کی وجہ سے یہ معاہد ہ توڑ کر پاکستان دشمنی کی۔ اس لیے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ ان سخت فیصلوں میں بھی قوم ہمارے ساتھ ہے۔
انھوں نے کہا میں قوم کا شکر گزار ہوں کہ وہ اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑی ہے ۔ انھوں نے ان سخت فیصلوں کو ملک کے مفاد میں برداشت کیا ہے۔ یہ ایک زندہ قوم کی نشانی ہے کہ وہ ملک کی خاطر سختی بھی برداشت کرتی ہے۔
شہباز شریف بھی بہت محتاط ہیں۔ ویسے تو وہ گفتگو میں ہمیشہ ہی محتاط رہتے ہیں۔ انھیں زیادہ گفتگو کرنا پسند نہیں۔ اسی لیے اس نشست میں بھی بہت سے سوالات کے جواب نہیں ملے۔ لیکن میں اپنے تجزیہ میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال شہباز شریف کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ ایک مضبوط حکومت ہے۔ اور انھیں اپنی مدت پوری ہونے کا یقین ہے۔
وہ یہ بات واضح کہتے تو نہیں لیکن ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اب وہ عمران خان کو اپنے اور اپنی حکومت کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں سمجھتے ہیں۔ان کی رائے میں عمران خان نے اپنے تمام سیاسی پتے بہت جلد ضایع کر دیے ہیں۔