پاک ترک دوستی حصہ اول
گرین پاسپورٹ کی جو قدرومنزلت ترکی میں ہوتی ہے ویسی اور کہیں نہیں ہوسکتی
ISLAMABAD:
وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی اولین فرصت میں برادر اسلامی ملک ترکی کا بلا تاخیر دورہ کرکے دونوں ممالک کے میل جول کو بڑھاوا دینے کا لائقِ تحسین اقدام کیا ہے۔ یوں تو دیگر مسلم ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات اچھے ہی ہیں لیکن ترکی کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تعلقات بالکل ہی انوکھے ہیں جن کی جڑیں تاریخ میں بہت گہرائی تک پہنچی ہوئی ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کا اپنے ترک بھائیوں کے ساتھ رشتہ اپنی مثال نہیں رکھتا۔ ہمارے ترک بھائیوں پر جب بہت کڑا وقت آیا تھا تو مولانا محمد علی جوہر اور ا ن کے برادر مولانا شوکت علی نے تحریکِ خلافت کا عَلم اٹھا کر برصغیر کے تمام مسلمانوں کو اپنے ترک بھائیوں کا بھرپور ساتھ دینے کے لیے ایک جھنڈے تلے جمع کرلیا تھا۔ یہ جذبہ اخوت اتنا شدید تھا کہ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے زیورات تک اتارکر اپنے ترک بہنوں ، بھائیوں کی مدد کے لیے فروخت کردیے۔
ترکوں کی یہ اعلیٰ ظرفی ہے کہ انھوں نے اس جذبہ کو آج تک بھی فراموش نہیں کیا اور پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے یہ تعلقات دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف قائم ہیں بلکہ روز بروز فروغ پا رہے ہیں۔ یہ تعلقات سیاسی موسموں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتے کیونکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان یہ رشتے اٹوٹ ہیں ، بس یوں کہہ لیجیے کہ:
دو دل دھڑک رہے ہیں پر آواز ایک ہے
نغمے جدا جدا ہیں مگر ساز ایک ہے
گرین پاسپورٹ کی جو قدرومنزلت ترکی میں ہوتی ہے ویسی اور کہیں نہیں ہوسکتی۔ اس کا اندازہ وہی لوگ بخوبی کر سکتے ہیں جنھیں ترکی جانے کا اتفاق ہوا ہو ، جونہی کسی ترک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پاکستان کے رہنے والے ہیں اس کا رویہ فوراً بدل جائے گا ، آزمائش شرط ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورہ ترکی کے موقع پر ا ن کا اور ان کے ساتھ جانے والے وفد کا فقید الا مثال استقبال کیا گیا اور ہر طرف ایک جشن کا سا سماں تھا۔
ہمیں اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد ہے کہ جب ترکی ٹوپی کا چلن عام تھا اور ہم بذاتِ خود اس میں شامل ہیں۔ شیروانی کے اوپر ترکی ٹوپی شخصیت کی شان کو چار چاند لگا دیتی تھی ، پھر رفتہ رفتہ یہ روایت ختم ہوتی چلی گئی لیکن چند برسوں قبل تک ہمارے بعض بزرگوں نے اِس خوبصورت روایت کو تادمِ آخر نہایت اہتمام اور مستقل مزاجی کے ساتھ قائم رکھا بلکہ یہ ا ن کی شناخت بن گئی۔ وطنِ عزیز کے بزرگ اور عظیم سیاسی رہنما نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم نے تادمِ آخر اِس خوبصورت روایت کی پاسداری کی۔
ہماری قومی زبان اردو نے بھی ترکی زبان سے خوشہ چینی کی ہے اور بعض ترکی الفاظ کو اپنے اندر اس طرح سے جذب کرلیا کہ لگتا ہی نہیں کہ جیسے وہ کسی اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال لفظ ''ہوا '' ہے جس کے بغیر ہم انسان ہی کیا کوئی بھی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔
ترکی میں سیاحت کے لیے ترکی زبان کا آنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کو کسی کی زبان نہ آتی ہو ، تب تک آپ اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں جان سکتے۔ ترک چونکہ ہمیشہ سے آزاد رہے ہیں اور انھوں نے ہماری طرح غلامی کے مزے نہیں چکھے ، اس لیے انھیں انگریزی بالکل نہیں آتی اور نہ ہی وہ اس کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ ترکوں میں عربی بولنے اور سمجھنے والے پھر بھی مل جاتے ہیں کیونکہ ترک جزیرہ عرب پر بھی حکمرانی کرچکے ہیں۔
انگریزی سمجھنے والے ترک آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ترک اردو زبان بھی نہیں سمجھتے ، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ترکی اور اردو زبان میں کم از کم 9 ہزار الفاظ مشترک ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ترکی میں کوئی بات کرنی ہو تو پورے پورے جملے کی جگہ آپ صرف اردو کے الفاظ بول کر بھی کام چلاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کو کسی دکان سے کوئی چیز خریدنی ہو، تو آپ "How Much" یا "What is the price?" کہنے کے بجائے صرف اردو کا ایک لفظ بول دیجیے ''قیمت'' دکاندار آپ کی بات فوراً سمجھ جائے گا اور آپ کو چیز کی قیمت بتا دے گا۔ یوں ہمارے علم میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ ترکی میں بھی '' قیمت'' کو قیمت ہی کہا جاتا ہے۔
ترکی میں اگر رومن رسم الخط کی بدعت نہ آتی تو اسے سمجھنا بہت آسان ہوتا ، خصوصاً پاکستانیوں کے لیے۔ کیونکہ ترکی اور اردو میں ہزاروں الفاظ مشترک ہیں ، بلکہ ترکی زبان تو اردوکی ماں ہے۔ ''اردو'' ترکی زبان ہی کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے ''لشکر۔''
مغل بادشاہوں کے بین الاقوامی فوجی لشکروں نے باہمی گفت و شنید کے لیے ترکی ، فارسی ، عربی اور ہندی زبانوں کا ملغوبہ بناکر ایک بولی ایجاد کی تھی جس پر ترکی زبان کا غلبہ تھا۔ یہی بولی آگے چل کر دنیا کی ایک اہم زبان بن گئی۔ اس میں مزید کئی الفاظ شامل ہوتے رہے اور بالآخر اسے ہمارے ملک پاکستان کی قومی زبان کا درجہ ملا۔مثال کے طور پر دروازے کے لیے ترکی زبان کا لفظ ''موقع'' ہے۔اس لفظ کو ہم اردو میں بھی غیر محسوس طور پر انھی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ '' میں موقع دیکھ کر نکل گیا''۔
توکیا وہ یہی نہیں کہنا چاہتا کہ میں ''دروازہ'' دیکھ کر نکل گیا؟ اگر ہم ترکی زبان کے حروف تہجی کو سمجھ لیں اور پھر کوئی بھی ترک لغت اٹھا کر پڑھیں تو ایسے لاتعداد الفاظ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ وہ عین انھی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جن کے لیے ہم انھیں اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ برا ہو اِس رومن رسم الخط کا جو ترکی زبان کو ہمارے لیے یکسر اجنبی بنا دیتا ہے۔کسی کو متوجہ کرنے کے لیے'' سنیے'' یا '' ہیلو'' کہا جاتا ہے تو ترکی میں ا س کے لیے '' مرحبا '' کہتے ہیں۔ مرحبا کہہ کر آپ کسی بھی ترک کی فوری توجہ حاصل کرسکتے ہیں یا پھر السلام علیکم بھی کہا جاسکتا ہے۔
ترکی کے وزیر اعظم کا نام رجب طیب اردوان ہے اب اگر ہم یہاں لفظ '' رجب'' کے بجائے ''رسپ'' پڑھیں تو یہ بے معنی ہوجائے گا، اسی طرح کی ایک مثال لفظ ''جمہوریت'' ہے جسے رومن ترکی میں''کمہوریت'' لکھا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی اولین فرصت میں برادر اسلامی ملک ترکی کا بلا تاخیر دورہ کرکے دونوں ممالک کے میل جول کو بڑھاوا دینے کا لائقِ تحسین اقدام کیا ہے۔ یوں تو دیگر مسلم ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات اچھے ہی ہیں لیکن ترکی کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تعلقات بالکل ہی انوکھے ہیں جن کی جڑیں تاریخ میں بہت گہرائی تک پہنچی ہوئی ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کا اپنے ترک بھائیوں کے ساتھ رشتہ اپنی مثال نہیں رکھتا۔ ہمارے ترک بھائیوں پر جب بہت کڑا وقت آیا تھا تو مولانا محمد علی جوہر اور ا ن کے برادر مولانا شوکت علی نے تحریکِ خلافت کا عَلم اٹھا کر برصغیر کے تمام مسلمانوں کو اپنے ترک بھائیوں کا بھرپور ساتھ دینے کے لیے ایک جھنڈے تلے جمع کرلیا تھا۔ یہ جذبہ اخوت اتنا شدید تھا کہ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے زیورات تک اتارکر اپنے ترک بہنوں ، بھائیوں کی مدد کے لیے فروخت کردیے۔
ترکوں کی یہ اعلیٰ ظرفی ہے کہ انھوں نے اس جذبہ کو آج تک بھی فراموش نہیں کیا اور پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے یہ تعلقات دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف قائم ہیں بلکہ روز بروز فروغ پا رہے ہیں۔ یہ تعلقات سیاسی موسموں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتے کیونکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان یہ رشتے اٹوٹ ہیں ، بس یوں کہہ لیجیے کہ:
دو دل دھڑک رہے ہیں پر آواز ایک ہے
نغمے جدا جدا ہیں مگر ساز ایک ہے
گرین پاسپورٹ کی جو قدرومنزلت ترکی میں ہوتی ہے ویسی اور کہیں نہیں ہوسکتی۔ اس کا اندازہ وہی لوگ بخوبی کر سکتے ہیں جنھیں ترکی جانے کا اتفاق ہوا ہو ، جونہی کسی ترک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پاکستان کے رہنے والے ہیں اس کا رویہ فوراً بدل جائے گا ، آزمائش شرط ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورہ ترکی کے موقع پر ا ن کا اور ان کے ساتھ جانے والے وفد کا فقید الا مثال استقبال کیا گیا اور ہر طرف ایک جشن کا سا سماں تھا۔
ہمیں اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد ہے کہ جب ترکی ٹوپی کا چلن عام تھا اور ہم بذاتِ خود اس میں شامل ہیں۔ شیروانی کے اوپر ترکی ٹوپی شخصیت کی شان کو چار چاند لگا دیتی تھی ، پھر رفتہ رفتہ یہ روایت ختم ہوتی چلی گئی لیکن چند برسوں قبل تک ہمارے بعض بزرگوں نے اِس خوبصورت روایت کو تادمِ آخر نہایت اہتمام اور مستقل مزاجی کے ساتھ قائم رکھا بلکہ یہ ا ن کی شناخت بن گئی۔ وطنِ عزیز کے بزرگ اور عظیم سیاسی رہنما نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم نے تادمِ آخر اِس خوبصورت روایت کی پاسداری کی۔
ہماری قومی زبان اردو نے بھی ترکی زبان سے خوشہ چینی کی ہے اور بعض ترکی الفاظ کو اپنے اندر اس طرح سے جذب کرلیا کہ لگتا ہی نہیں کہ جیسے وہ کسی اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال لفظ ''ہوا '' ہے جس کے بغیر ہم انسان ہی کیا کوئی بھی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔
ترکی میں سیاحت کے لیے ترکی زبان کا آنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کو کسی کی زبان نہ آتی ہو ، تب تک آپ اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں جان سکتے۔ ترک چونکہ ہمیشہ سے آزاد رہے ہیں اور انھوں نے ہماری طرح غلامی کے مزے نہیں چکھے ، اس لیے انھیں انگریزی بالکل نہیں آتی اور نہ ہی وہ اس کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ ترکوں میں عربی بولنے اور سمجھنے والے پھر بھی مل جاتے ہیں کیونکہ ترک جزیرہ عرب پر بھی حکمرانی کرچکے ہیں۔
انگریزی سمجھنے والے ترک آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ترک اردو زبان بھی نہیں سمجھتے ، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ترکی اور اردو زبان میں کم از کم 9 ہزار الفاظ مشترک ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ترکی میں کوئی بات کرنی ہو تو پورے پورے جملے کی جگہ آپ صرف اردو کے الفاظ بول کر بھی کام چلاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کو کسی دکان سے کوئی چیز خریدنی ہو، تو آپ "How Much" یا "What is the price?" کہنے کے بجائے صرف اردو کا ایک لفظ بول دیجیے ''قیمت'' دکاندار آپ کی بات فوراً سمجھ جائے گا اور آپ کو چیز کی قیمت بتا دے گا۔ یوں ہمارے علم میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ ترکی میں بھی '' قیمت'' کو قیمت ہی کہا جاتا ہے۔
ترکی میں اگر رومن رسم الخط کی بدعت نہ آتی تو اسے سمجھنا بہت آسان ہوتا ، خصوصاً پاکستانیوں کے لیے۔ کیونکہ ترکی اور اردو میں ہزاروں الفاظ مشترک ہیں ، بلکہ ترکی زبان تو اردوکی ماں ہے۔ ''اردو'' ترکی زبان ہی کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے ''لشکر۔''
مغل بادشاہوں کے بین الاقوامی فوجی لشکروں نے باہمی گفت و شنید کے لیے ترکی ، فارسی ، عربی اور ہندی زبانوں کا ملغوبہ بناکر ایک بولی ایجاد کی تھی جس پر ترکی زبان کا غلبہ تھا۔ یہی بولی آگے چل کر دنیا کی ایک اہم زبان بن گئی۔ اس میں مزید کئی الفاظ شامل ہوتے رہے اور بالآخر اسے ہمارے ملک پاکستان کی قومی زبان کا درجہ ملا۔مثال کے طور پر دروازے کے لیے ترکی زبان کا لفظ ''موقع'' ہے۔اس لفظ کو ہم اردو میں بھی غیر محسوس طور پر انھی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ '' میں موقع دیکھ کر نکل گیا''۔
توکیا وہ یہی نہیں کہنا چاہتا کہ میں ''دروازہ'' دیکھ کر نکل گیا؟ اگر ہم ترکی زبان کے حروف تہجی کو سمجھ لیں اور پھر کوئی بھی ترک لغت اٹھا کر پڑھیں تو ایسے لاتعداد الفاظ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ وہ عین انھی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جن کے لیے ہم انھیں اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ برا ہو اِس رومن رسم الخط کا جو ترکی زبان کو ہمارے لیے یکسر اجنبی بنا دیتا ہے۔کسی کو متوجہ کرنے کے لیے'' سنیے'' یا '' ہیلو'' کہا جاتا ہے تو ترکی میں ا س کے لیے '' مرحبا '' کہتے ہیں۔ مرحبا کہہ کر آپ کسی بھی ترک کی فوری توجہ حاصل کرسکتے ہیں یا پھر السلام علیکم بھی کہا جاسکتا ہے۔
ترکی کے وزیر اعظم کا نام رجب طیب اردوان ہے اب اگر ہم یہاں لفظ '' رجب'' کے بجائے ''رسپ'' پڑھیں تو یہ بے معنی ہوجائے گا، اسی طرح کی ایک مثال لفظ ''جمہوریت'' ہے جسے رومن ترکی میں''کمہوریت'' لکھا جاتا ہے۔
(جاری ہے)