مصالحتی نظام کی بڑھتی ضرورت

ملک میں نچلی سطح پر مصالحت کے لیے پنچایت سسٹم موجود تھا اور یہ فعال بھی تھا لیکن اب ان کی قانونی حیثیت نہیں ہے


Muhammad Saeed Arain June 07, 2022
[email protected]

UNITED NATIONS: چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ مصالحتی نظام کی کامیابی کے لیے متعلقہ قوانین کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے لاہور میں بین الاقوامی مصالحتی ججز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں قوانین میں خامیوں سے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں میں آنے والے سائلین میں مصالحت کے لیے آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان اور ہائی کورٹس کے سربراہوں نے ایک مشترکہ پالیسی پر اتفاق کیا اور کہا گیا کہ ماتحت عدلیہ مصالحتی نظام کے لیے وکلا، ججز کی تربیت میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ انتظامی سہولت کی فراہمی کے لیے ماتحت عدلیہ کا کردار اہم ہے۔

اعلیٰ عدلیہ ثالثی نظام کی کامیابی کے لیے پرعزم ہے اور مصالحتی نظام کے طریقہ کار کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے جج منصور علی شاہ نے کہا کہ ماتحت عدلیہ میں ہر جج کے پاس اوسطاً اٹھارہ سو کیس موجود ہیں اور روزانہ ان کیسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

سول کیسز کو ثالثی کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ ججز پرانے مقدمات ہی نمٹا نہیں پاتے کہ مزید مقدمات آ جاتے ہیں تو تعطل پیدا ہوتا ہے اس حوالے سے وکلا کی سوچ بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ مصالحتی پروگرام کے لیے ملک بھر میں آگاہی لا کالجوں کے ذریعے دی جاسکتی ہے۔ مصالحت ہمارا آئینی حق ہے۔

مصالحتی ججز کانفرنس میں کیسز کی بڑھتی تعداد پر جس تشویش اور خیالات کا اظہار کیا گیا وہ سو فیصد حقیقت ہے ۔ مقدمات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ججوں اور عدالتوں کی تعداد کم ہے۔ ججوں اور عدالتوں کی تعداد نچلی سطح پر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی کم ہے جب کہ اعلیٰ عدلیہ پر سیاسی کیسوں نے بوجھ مزید بڑھا دیا ہے ، ان کی فوری سماعت وقت کی ضرورت ہے اور گزشتہ دو ماہ سے راتوں کو اعلیٰ عدالتیں کھول کر بھی سیاسی کیس نمٹائے جا رہے ہیں مگر افسوس کہ ایک پارٹی لیڈر کی طرف سے رات کو عدالتیں کھولنے پر اعتراض بھی کیا گیا مگر جب رات کو عدالتیں کھولے جانے سے انھیں فائدہ ہوا تو ان کا اعتراض ختم ہوا۔ قانون کے مطابق جج 24 گھنٹے جج ہوتے ہیں اور ضرورت پر عدالت فوری داد رسی فراہم کرتی ہے۔

بدقسمتی سے چند سالوں سے اسمبلیوں کے معاملات اور سیاسی مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے دیگر مقدمات متاثر ہو رہے ہیں۔ پہلے حکم امتناعی پہلے کچھ عرصے کے لیے جاری ہوتے تھے جن کا مقصد فوری ریلیف دینا تو ہوتا ہے مگر اب حکم امتناعی کا معاملہ سالوں تک پہنچ گیا ہے جس کی ایک مثال سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا کیس ہے جو ڈیڑھ سال تک حکم امتناعی کی وجہ سے رکن اسمبلی رہے لیکن فیصلہ نہ آسکا۔

ماتحت عدلیہ میں مصالحتی مقدمات سالوں سے زیر سماعت چلے آ رہے ہیں ۔ مصالحتی نظام موثر نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف عدالتوں پر بوجھ بے حد بڑھا ہے جس سے سائلین اور ان کے گھرانے متاثر ہو رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی ذمے دار ماتحت عدالتیں نہیں بلکہ وکلا ہیں جو نہیں چاہتے کہ مقدمات کے فیصلے جلد ہوں کیونکہ ان مقدمات سے ہی ان وکلا کا روزگار وابستہ ہے۔ ملک میں جونیئر وکلا کی تعداد گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ جواز دیا جاتا ہے کہ ملک میں مقدمات کی تعداد بڑھنے سے وکلا کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر ججوں اور عدالتوں کی تعداد نہیں بڑھ رہی۔

33 سال پہلے میرے اپنے شہر شکارپور میں ایک ڈسٹرکٹ جج اقبال رضوی صاحب الصبح جاگ جاتے، نماز فجر ادا کرتے اور ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر وہ وقت سے پہلے اپنی عدالت میں کرسی پر براجمان ہوتے تھے، جس کی وجہ سے عدالتی عملہ بھی وقت سے قبل ہی حاضر ہوجاتا تھا مگر دیگر ماتحت جج حسب عادت دیر سے آتے تھے اور سائلین صبح وقت پر آ کر اپنی حاضری کا انتظار کرتے رہتے تھے۔

ڈسٹرکٹ جج اقبال رضوی صاحب مصالحتی اور غیر اہم مقدمات پہلے خود دیکھ کر متعلقہ پارٹیوں کو جلد عدالت بلا لیتے تھے اور متعلقہ فریقوں کو اپنے چیمبر میں بلاتے، ان کی سنتے اور انھیں سمجھاتے اور ان کے درمیان صلح کرا کر مقدمہ نمٹا دیتے تھے جس سے ان کا مسئلہ جلد حل ہو جاتا وہ وکیلوں اور عدالت آنے جانے کے اخراجات اور وقت ضایع ہونے سے بچ جاتے اور ڈسٹرکٹ جج کو دعا دیتے خوش خوش رخصت ہو جاتے تھے۔

راقم کو بطور صدر شکارپور پریس کلب دو بار عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پریس کلب کے ایک تنازع پر درخواست جمع کرائی ، سول جج صاحب نے اس مصالحتی معاملے کو کئی مہینے تک طول دیا کہ ان کا تبادلہ ہوگیا مگر صحافیوں میں مصالحت نہ ہو سکی تھی۔ صحافیوں کے ایک اور کیس میں ڈسٹرکٹ جج اقبال رضوی خود پریس کلب آئے اور فریقین کا موقف سن کر مصالحت کرا دی اور ووٹنگ میں ہارنے والے فریق کو کہا کہ'' میاں! میں یہاں آ کر مصالحت نہ کراتا تو دونوں فریق سالوں عدالتوں میں خوار ہوتے رہتے۔''

ملک میں نچلی سطح پر مصالحت کے لیے پنچایت سسٹم موجود تھا اور یہ فعال بھی تھا لیکن اب ان کی قانونی حیثیت نہیں ہے جس کی وجہ سے لاکھوں مصالحتی کیس سالوں سے التوا کا شکار ہیں۔ ملک میں جائیداد تنازعات کے 20 لاکھ مقدمات عدالتوں میں 4 ہزار ججوں کے پاس زیر سماعت ہیں، ہر جج کے پاس تقریباً تین ہزار کیس ہیں جن میں عائلی تنازعات الگ ہیں۔ طلاق، خلع و دیگر مقدمات بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ سنگین مقدمات کو چھوڑ کر لاکھوں مصالحتی مقدمات ججز کی ذاتی دلچسپی اور کیسز کے فیصلے کی مدت مقرر کرکے انھیں باآسانی نمٹایا جاسکتا ہے اور عدالتوں سے بڑا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔