تقسیم سے انقلاب کی طرف سفر
پاکستان انقلاب کی جانب بڑھ رہا ہے، یہ انقلاب نفرت کے بجائے بانٹ کر کھانے سے آئے تو سب کا بھلا ہوگا
سابق وزیراعظم نے جب ایک انٹرویو میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تو مین اسٹریم میڈیا پر بہت شور مچا۔ تین سے چار دن ہاہاکار مچی رہی۔ کسی نے غداری کا مرتکب قرار دیا تو کسی نے آرٹیکل 6 لگانے کی بات کی۔ میں خود بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو عمران خان کو ''کوسنے'' دے رہے تھے۔ لیکن جب غور کیا تو ان کی بات کسی حد تک ٹھیک تھی۔ شاید ان کی بات کو غلط رنگ اس لیے دیا گیا کہ آج پروپیگنڈا کا دور ہے۔ سوشل میڈیا پر جو جتنا پروپیگنڈا کرتا ہے آج کی سیاست میں وہ اتنا ہی کامیاب ہے۔ تحریک انصاف سے بہتر کون اس سے واقف ہوگا۔ وہی بات ملک کے معیشت دان بھی کررہے ہیں، ماہرین بھی اسی طرف متوجہ کررہے ہیں لیکن ان کا انداز بیاں کچھ اور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ معیشت اور کاروبار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ہر طرف مہنگائی، مہنگائی کا شور ہے۔ مہنگائی کے مارے عوام خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس کی تاریخی بلند ترین قیمتیں۔ آٹا، گھی، تیل، دالیں، چینی، چائے، دودھ، ڈبل روٹی، سب مہنگا ہوگیا۔ رہی سہی کسر بجٹ نکال دے گا۔ غریب و متوسط طبقے کےلیے گھر کا بجٹ بنانا ناممکن ہوگیا۔ دہاڑی دار یا معمولی تنخواہ دار کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ عوام خوف زدہ ہیں کہ کیا ہوگا۔ راتوں کی نیند اور دن کا چین برباد ہوچکا ہے۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ معاشی مسائل کا پاکستان دو طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ملک کا امیر ترین طبقہ مجموعی آمدنی کے 50 فیصد پر قابض ہے۔ غریب طبقے کو کل آمدنی کا صرف 7 فیصد نصیب ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی عدم مساوات کی رپورٹ کے مطابق ایک پاکستان ان کا ہے جنہیں برائے نام مواقع میسر ہیں۔ دوسرا پاکستان ان کا ہے جو اپنے حصے سے کہیں زیادہ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طبقہ روز کی روٹی کمانے کی فکر میں لگا ہے تو دوسرا طبقہ ملک اور ملک کے باہر جائیدادیں بنارہا ہے۔
پاکستان کی زمیں بوس معیشت، بڑھتا ہوا سیاسی تناؤ، قومی مکالمے کا تقاضہ کررہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے میثاق معیشت کے ساتھ ''گرینڈ ڈائیلاگ'' پر زور دیا ہے۔ شہباز شریف کی پیش کش پر کیا عمران خان لبیک کہیں گے؟ پارلیمنٹ، ایگزیکٹو، عدلیہ میں مکالمے کا مطالبہ پہلے بھی سامنے آیا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟
اس وقت مسلم لیگ ن، پی پی پی، پی ٹی آئی اور فوج وہ چار بڑے کھلاڑی ہیں جو ملکی معیشت کو مل کر چلا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی چیز ممکن ہوسکتی ہے۔ حال ہی میں دہشتگردی اور کورونا جیسی وبا پر اتحاد اور اتفاق سے قابو پایا گیا۔ دہشتگردی کے خلاف فوج کو سیاستدانوں اور کورونا کے خلاف حکومت کو فوج کی مدد حاصل نہ ہوتی تو ملک کی حالت کچھ اور ہوتی۔ بڑے بڑے ادارے جو ہمارے لیے بوجھ بن چکے ہیں ان کی نجکاری کے حق میں سب ہیں لیکن ایک پارٹی کوشش کرتی ہے تو دوسری مخالف ہوجاتی ہے۔ دوسرا آئی ایم ایف ہے، اس کے پاس سبھی جاتے ہیں، اس پر سب کی مجبوری ہے لیکن یہی جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو مخالفت کرتے ہیں۔
یہاں یہ سیاست کرتے ہیں، سیاست بھی وہ جو ملک کےلیے نہیں ذاتی مفاد کےلیے ہو۔ یہ اپنی سیاست کو ملکی بقا پر اہم سمجھتے ہیں۔ اب بات سیاست سے نکل کر ریاست تک پہنچ چکی ہے۔ ریاست کو سنبھالنے والوں کو مداخلت کرنا ہوگی۔ معیشت کی بدحالی کے ذمے دار سبھی ہیں۔ اس ذمے داری سے سیاستدان جان چھڑا سکتے ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ۔
بیانات تو آگئے، کیا یہ ممکن بھی ہے، حکومتی اتحاد میں موجود تمام جماعتیں اکٹھی بیٹھ جائیں گی؟ لیکن ہر کوئی جو اٹھتا ہے وہ چارٹر آف ڈیموکریسی اور چارٹر آف اکانومی کی بات کرتا ہے۔ اگر ایسا کسی نے کرنا ہی ہے تو بتایا جائے کہ کس چیز پر بات کرنی ہے۔ ایشو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی جب حکومت تھی تو پی ڈی ایم نے کہا کہ یہ نااہل ہیں، حکومت نہیں چلا سکتے۔ اب پی ٹی آئی والے اس حکومت کو نااہل کہہ رہے ہیں۔ معیشت وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ اگر یہ سنجیدہ ہیں تو ان کو تبدیلی کےلیے رولز سیٹ کرنے ہوں گے۔ ہمارا سیاسی نظام مستحکم نہیں ہے، ہر پارٹی شارٹ کٹ راستے کی تلاش میں رہتی ہے، سب حکومت میں آنے کےلیے تیار رہتے ہیں۔ شارٹ کٹ چھوڑ کر کچھ ضابطہ اخلاق بنا لیتے تو سب کےلیے اچھا ہوگا۔
ہم اس مسئلے سے نکلیں کیسے؟ پاکستان میں 50 فیصد لوگ ایسے ہیں جو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر یہ اپنے خرچے پچاس فیصد کم کرلیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہمیں اپنی ذات سے سوچنا ہوگا کہ یہ سب کیسے کیا جائے؟ حکومت تو بعد میں آتی ہے، پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کریں پھر حکمرانوں کو بتاسکیں گے کہ تم بھی ٹھیک ہوجاؤ۔ انفرادی قربانی سے ہمیں اجتماعی قربانی کی طرف جانا ہے۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ حکمرانوں کو اپنی رعایا سے بڑھ کر قربانی دینی ہوگی۔ اوپر سے مثال قائم کی جائے گی تو نیچے والے بھی قربانی دینے کو تیار ہوں گے۔ حکومت ٹیکسز میں اضافہ کرے، ان پر ٹیکس لگایا جائے جو اربوں روپے کما رہے ہیں، سامان تعیش پر پابندی لگائی جائے۔ امیروں کو غریبوں کی ذمے داری لینا ہوگی۔ میڈیا اس تحریک میں حصہ لے۔ ہم فطرت کے خلاف کام کرتے ہیں، ہمیں فطرت کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔ ضروری کاموں کے علاوہ سب کام دن کو ہی ختم کرلیے جائیں، اس سے بجلی بچے گی، وقت بچے گا، سرمایہ بچے گا اور اخراجات بھی کم ہوں گے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو فاصلے بڑھتے جائیں گے۔ امیر، امیر تر ہوتا جائے گا، غریب، غریب تر۔ خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہوگیا تو وہی بات ہوگی جس کا خدشہ سابق وزیراعظم نے ظاہر کیا۔ جب بھوک بڑھتی ہے تو وہ سب کچھ بھلا دیتی ہے، سب کچھ نوچ کھانے کو تیار ہوجاتی ہے۔ اشرافیہ نے ''مواخات مدینہ'' جیسی مثال قائم نہ کی تو متوسط اور غریب طبقے میں ان کےلیے نفرت بڑھے گی۔ نفرت جب عروج کو پہنچتی ہے تو وہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان انقلاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ انقلاب نفرت کے بجائے بانٹ کر کھانے سے آئے تو سب کا بھلا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ معیشت اور کاروبار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ہر طرف مہنگائی، مہنگائی کا شور ہے۔ مہنگائی کے مارے عوام خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس کی تاریخی بلند ترین قیمتیں۔ آٹا، گھی، تیل، دالیں، چینی، چائے، دودھ، ڈبل روٹی، سب مہنگا ہوگیا۔ رہی سہی کسر بجٹ نکال دے گا۔ غریب و متوسط طبقے کےلیے گھر کا بجٹ بنانا ناممکن ہوگیا۔ دہاڑی دار یا معمولی تنخواہ دار کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ عوام خوف زدہ ہیں کہ کیا ہوگا۔ راتوں کی نیند اور دن کا چین برباد ہوچکا ہے۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ معاشی مسائل کا پاکستان دو طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ملک کا امیر ترین طبقہ مجموعی آمدنی کے 50 فیصد پر قابض ہے۔ غریب طبقے کو کل آمدنی کا صرف 7 فیصد نصیب ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی عدم مساوات کی رپورٹ کے مطابق ایک پاکستان ان کا ہے جنہیں برائے نام مواقع میسر ہیں۔ دوسرا پاکستان ان کا ہے جو اپنے حصے سے کہیں زیادہ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طبقہ روز کی روٹی کمانے کی فکر میں لگا ہے تو دوسرا طبقہ ملک اور ملک کے باہر جائیدادیں بنارہا ہے۔
پاکستان کی زمیں بوس معیشت، بڑھتا ہوا سیاسی تناؤ، قومی مکالمے کا تقاضہ کررہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے میثاق معیشت کے ساتھ ''گرینڈ ڈائیلاگ'' پر زور دیا ہے۔ شہباز شریف کی پیش کش پر کیا عمران خان لبیک کہیں گے؟ پارلیمنٹ، ایگزیکٹو، عدلیہ میں مکالمے کا مطالبہ پہلے بھی سامنے آیا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟
اس وقت مسلم لیگ ن، پی پی پی، پی ٹی آئی اور فوج وہ چار بڑے کھلاڑی ہیں جو ملکی معیشت کو مل کر چلا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی چیز ممکن ہوسکتی ہے۔ حال ہی میں دہشتگردی اور کورونا جیسی وبا پر اتحاد اور اتفاق سے قابو پایا گیا۔ دہشتگردی کے خلاف فوج کو سیاستدانوں اور کورونا کے خلاف حکومت کو فوج کی مدد حاصل نہ ہوتی تو ملک کی حالت کچھ اور ہوتی۔ بڑے بڑے ادارے جو ہمارے لیے بوجھ بن چکے ہیں ان کی نجکاری کے حق میں سب ہیں لیکن ایک پارٹی کوشش کرتی ہے تو دوسری مخالف ہوجاتی ہے۔ دوسرا آئی ایم ایف ہے، اس کے پاس سبھی جاتے ہیں، اس پر سب کی مجبوری ہے لیکن یہی جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو مخالفت کرتے ہیں۔
یہاں یہ سیاست کرتے ہیں، سیاست بھی وہ جو ملک کےلیے نہیں ذاتی مفاد کےلیے ہو۔ یہ اپنی سیاست کو ملکی بقا پر اہم سمجھتے ہیں۔ اب بات سیاست سے نکل کر ریاست تک پہنچ چکی ہے۔ ریاست کو سنبھالنے والوں کو مداخلت کرنا ہوگی۔ معیشت کی بدحالی کے ذمے دار سبھی ہیں۔ اس ذمے داری سے سیاستدان جان چھڑا سکتے ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ۔
بیانات تو آگئے، کیا یہ ممکن بھی ہے، حکومتی اتحاد میں موجود تمام جماعتیں اکٹھی بیٹھ جائیں گی؟ لیکن ہر کوئی جو اٹھتا ہے وہ چارٹر آف ڈیموکریسی اور چارٹر آف اکانومی کی بات کرتا ہے۔ اگر ایسا کسی نے کرنا ہی ہے تو بتایا جائے کہ کس چیز پر بات کرنی ہے۔ ایشو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی جب حکومت تھی تو پی ڈی ایم نے کہا کہ یہ نااہل ہیں، حکومت نہیں چلا سکتے۔ اب پی ٹی آئی والے اس حکومت کو نااہل کہہ رہے ہیں۔ معیشت وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ اگر یہ سنجیدہ ہیں تو ان کو تبدیلی کےلیے رولز سیٹ کرنے ہوں گے۔ ہمارا سیاسی نظام مستحکم نہیں ہے، ہر پارٹی شارٹ کٹ راستے کی تلاش میں رہتی ہے، سب حکومت میں آنے کےلیے تیار رہتے ہیں۔ شارٹ کٹ چھوڑ کر کچھ ضابطہ اخلاق بنا لیتے تو سب کےلیے اچھا ہوگا۔
ہم اس مسئلے سے نکلیں کیسے؟ پاکستان میں 50 فیصد لوگ ایسے ہیں جو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر یہ اپنے خرچے پچاس فیصد کم کرلیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہمیں اپنی ذات سے سوچنا ہوگا کہ یہ سب کیسے کیا جائے؟ حکومت تو بعد میں آتی ہے، پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کریں پھر حکمرانوں کو بتاسکیں گے کہ تم بھی ٹھیک ہوجاؤ۔ انفرادی قربانی سے ہمیں اجتماعی قربانی کی طرف جانا ہے۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ حکمرانوں کو اپنی رعایا سے بڑھ کر قربانی دینی ہوگی۔ اوپر سے مثال قائم کی جائے گی تو نیچے والے بھی قربانی دینے کو تیار ہوں گے۔ حکومت ٹیکسز میں اضافہ کرے، ان پر ٹیکس لگایا جائے جو اربوں روپے کما رہے ہیں، سامان تعیش پر پابندی لگائی جائے۔ امیروں کو غریبوں کی ذمے داری لینا ہوگی۔ میڈیا اس تحریک میں حصہ لے۔ ہم فطرت کے خلاف کام کرتے ہیں، ہمیں فطرت کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔ ضروری کاموں کے علاوہ سب کام دن کو ہی ختم کرلیے جائیں، اس سے بجلی بچے گی، وقت بچے گا، سرمایہ بچے گا اور اخراجات بھی کم ہوں گے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو فاصلے بڑھتے جائیں گے۔ امیر، امیر تر ہوتا جائے گا، غریب، غریب تر۔ خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہوگیا تو وہی بات ہوگی جس کا خدشہ سابق وزیراعظم نے ظاہر کیا۔ جب بھوک بڑھتی ہے تو وہ سب کچھ بھلا دیتی ہے، سب کچھ نوچ کھانے کو تیار ہوجاتی ہے۔ اشرافیہ نے ''مواخات مدینہ'' جیسی مثال قائم نہ کی تو متوسط اور غریب طبقے میں ان کےلیے نفرت بڑھے گی۔ نفرت جب عروج کو پہنچتی ہے تو وہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان انقلاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ انقلاب نفرت کے بجائے بانٹ کر کھانے سے آئے تو سب کا بھلا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔