چوہدری خاندان کی سیاست

چوہدری خاندان کی سیاست کے دشت میں ایک طویل جدو جہد ہے ان کی سیاسی گردش لیل و نہار کی یہ کہانی یوں شروع ہوتی ہے


اطہر قادر حسن June 08, 2022
[email protected]

گجرات کے چوہدری خاندان کی سیاست کا الگ ہی انداز ہے۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ سیاست میں وضع داری اور ڈیرہ داری کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور یہ وضع داری ان کی دوسری نسل سے نکل کر اب تیسری نسل کو پہنچ رہی ہے لیکن وقت اور حالات میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں، اس میں بروقت اور بر محل فیصلے ہی سیاسی زندگی کی بقاء کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

چوہدری خاندان کی سیاست کے دشت میں ایک طویل جدو جہد ہے ان کی سیاسی گردش لیل و نہار کی یہ کہانی یوں شروع ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ضلع گجرات کی سیاست میں اجنبی ایک بلند قامت نوجوان نے سیاست کا سفر شروع کیا۔ اس وقت ضلع کی سیاست میں دو خاندان نوابزدگان اور کولیاں کے میاں صاحبان چھائے ہوئے تھے جب کہ تیسرے سیاسی مد مقابل چوہدری فضل الٰہی جن کی پشت پر اس ضلع کا ایک جرات مند صنعتی خاندان تھا اور سیاست میں کسی بھی حد تک سرمایہ کاری کر رہا تھا۔

ان طاقتور اور بااثر سیاسی خاندانوں کے سامنے سیاست میں مقام بنانا انتہائی مشکل کام تھا لیکن یہ نوجوان ضلع سیاست سے نکل کر قومی سیاست کا ایک جاندار مرکزی کردار بن گیا۔ سیاسی سفر میں جیلیں کاٹیں، مالی نقصانات اٹھائے اور بالآخر اپنی جان بھی سیاست کی نذر کر دی۔

میرے والد مرحوم کا بطور اخبار نویس چوہدری ظہورالٰہی سے بہت قریبی تعلق تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ چوہدری صاحب کی شہادت کے بعد ایک عموی تاثر یہ تھا کہ اس خاندان کی سیاست کا باب بند ہو گیا لیکن ان کے بیٹے اور بھتیجے نے حوصلہ نہ ہارا 'اپنی سیاسی یتیمی سے مقابلہ کیااور حالات سے مسلسل نبرد آزما رہے اور جو بات ایک شخص کے ساتھ ختم سمجھی جارہی تھی وہ اتنی آگے بڑھی کہ لوگ مرحوم و مغفور چوہدری صاحب کو تو پھر بھی یاد کرتے رہے لیکن حیرت کے ساتھ اس سیاسی سلسلے کی نئی آب و تاب اور چھب دھب کو بھی دیکھتے رہے۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی سیاسی میدان میں ایسے انداز میں جلوہ گر ہوئے کہ بہت آگے نکل گئے۔

سیاست میں بھٹو اور شریف خاندان کی اجارہ داری میں گجرات کے چوہدریوں نے اپنی سیاسی ساکھ اس حد تک مستحکم کیا کہ ایک وقت آیا کہ یہ دونوں خاندان بھی ان کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہو گئے۔ سیاسی اختلافات ہی سیاست کا حسن ہوتے ہیں اور جس پارٹی یا سیاست دان میںاپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں اسے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے ۔

سیاست میں کسی ایک بات ڈٹے رہنے سے سیاسی نقصان ہوتا ہے جس کا علم وہ وقت گزرجانے کے بعد ہوتا ہے اور یہی طرز سیاست آج کل عمران خان کا ہے لیکن چوہدری صاحبان نے اپنی سیاسی موقف میں ہمیشہ لچک پیدا کیے رکھی اور سیاسی دوستوں اور مخالفین کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں دونوں بڑی پارٹیوں کی لیڈر شپ موجود نہیں تھی تو ان کی عدم موجودگی کا بھر پور فائدہ اٹھایا گیا اور اس خلا کو چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی نے مکمل کیا۔ انھوں نے اپنا سیاسی راستہ تبدیل کر لیا اور اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک رسائی حاصل کر لی اور وہ وقت بھی دیکھا گیا کہ وزرات عظمیٰ اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ ان کے گھر پہنچ گئی۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں جو سیاسی بساط بچھائی گئی ،اس میں چوہدریوں ایک بار پھر سیاست کا مرکزی کردار بن گئے۔ لاہور میں چوہدریوں کے ڈیرے پر آصف علی زرداری اور کئی برس کے بعد میاں شہباز شریف بھی اپنے پرانے دوستوں اور سیاسی حلیفوں سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔

سیاسی میدان میں بڑی تبدیلی کا مرکز ایک بار پھر چوہدریوں کے ڈیرے پر منتقل ہو گیا۔ چوہدری شجاعت حسین اپنی پیرانہ سالی کے باوجود سیاسی میدان میں سرگرم ہو گئے اور اپنے دھیمے پن، رواداری اور ہر ایک کے احترام کی طاقت حیران کن کردار ادا کیا۔ لیکن اب چونکہ ا ن کے خاندان کی تیسری نسل بھی عملی سیاست میں موجود ہے جو ان کی سیاسی میراث کو آگے لے کر چلے گی۔

آج چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے فرزند مونس الٰہی عمران خان کے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیںتو چوہدری شجاعت اور ان کے بیٹے سالک حسین آج کی حکومت میں شامل ہیں اور تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا۔ اس بات کا فیصلہ تو مستقبل میں ہی ہو گا کہ سیاسی میدان میں زیرک سیاسی رہنماؤں کا اپنا اپنا فیصلہ کس حد تک درست تھا۔ ابھی تک چوہدری صاحبان کی سیاسی میراث اپنے اپنے موقف پر کھڑی نظر آتی ہے ، کل کیا ہوگا، اس کا تو کسی کو پتہ نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں