اسلام آباد ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ
جسٹس افتخار چوہدری کے احکامات پر کئی ایسے افراد بازیاب ہوئے جو 10,10 برسوں سے لاپتہ تھے
اطہر من اﷲ جب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے عہدہ پر فائز ہوئے ہیں ، انسانی حقوق کی بالادستی اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے عید الفطر کی تعطیلات میں عدالت کھلوا کر تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں مسلسل مصروف ان کی صاحبزادی ایمان مزاری کو ریلیف دینے کا فیصلہ دیا۔
انھوں نے لاپتہ افراد کے معاملے کے دائمی حل کے لیے صدر پرویز مشرف، سابقہ وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی ، عمران خان اور موجودہ وزیر اعظم کو نوٹس جاری کیے ہیں کہ وہ عدالت کے سامنے اپنے ادوار میں لاپتہ افراد کے بارے میں اپنی اپنی پالیسیوں کی وضاحت کریں۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے ایک تاریخی رولنگ میں لاپتہ افراد کی یوں تعریف کی تھی کہ ایسے شہری جن کو ریاستی اداروں نے غائب کیا لاپتہ افراد کہلاتے ہیں۔ اس فیصلے کا انسانی حقوق کی تنظیموں نے زبردست خیر مقدم کیا ہے۔
ملک میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے یہ بیانیہ اختیار کیا ہے کہ سیاسی اختلاف رائے کو دبانے، عام شہریوں کو باضابطہ کارروائی کے حق سے محروم کرنے اور عموماً قومی سلامتی کے نام پر خوف کی فضاء پیدا کرنے کے تناظر میں سرکاری اداروں کے کردار کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ان شواہد کی جانچ کے لیے یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ایچ آر سی پی کے بیانیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت کے حکم سے کمیشن برائے جبری گمشدگان (سی او آئی ای ڈی) کی ناکامی کی کافی حد تک تلافی کے امکانات ہیں۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے گزشتہ مہینہ سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن کو بلوچ طلبہ کو وفاقی دارالحکومت میں ہراساں کرنے کے علاوہ ان طلبہ کے آبائی علاقوں میں تحقیقات کے فرائض سونپے تھے ۔ وفاقی حکومت نے اس عوامی کمیشن کو معطل کرنے کے لیے اپیل دائر کی ہے جس پر مخلوط حکومت کے بارے میں مثبت اشاروں کے منتظر صاحبان دانش کو مایوسی ہوئی ہے۔
اب وفاقی کابینہ نے وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے جو لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حل کے لیے لائحہ عمل تجویز کرے گی۔ گزشتہ 20 برسوں میں وفاقی کابینہ لاپتہ افراد کے مسئلہ پر متفق ہوئی ہے جو انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے انتہائی مثبت قدم ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پہلے دورہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حل کے لیے کہا تھا کہ وہ بااختیار افراد سے اس مسئلہ کے حل کے لیے بات چیت کریں گے۔
گزشتہ صدی میں سیاسی کارکنوں کے اغواء اور ان کے قتل کی واداتوں کا آغاز ہوا۔ جرمنی میں ہٹلر اور اٹلی میں مسولینی نے اپنے مخالفین کو خفیہ پولیس کے ذریعہ لاپتہ کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ایوب خان کے دور میں کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو لاپتہ کیا گیا اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر شاہی قلعہ لاہور میں قتل کیے گئے۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں سیاسی کارکنوں کو اغواء کرکے آزاد کشمیر کے دلائی کیمپ میں نظربند رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنرل ضیاء کے دور میں سیاسی کارکنوں کو اغواء اور تشدد کی بے شمار مثالیں سامنے آئیں۔
نذیر عباسی اسی قسم کے تشدد کا شکار ہوئے۔ نائن الیون کی دہشت گردی ہوئی تو پھر افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے آپریشن شروع کیا۔ادھر پاکستان میں مذہبی اور سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ انتہا پسند مذہبی کارکنوں کے علاوہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ بھی تیز ہوا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پہلی دفعہ لاپتہ افراد کے مقدمات سننے شروع کیے۔ جسٹس افتخار چوہدری کے احکامات پر کئی ایسے افراد بازیاب ہوئے جو 10,10 برسوں سے لاپتہ تھے۔
انھوں نے لاپتہ افراد کو برآمد کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک رکنی کمیشن قائم کیا ، اس کمیشن نے لاپتہ افراد کے کیسوں کا جائزہ لیا ، وہ گزشتہ 10سال سے زیادہ عرصہ سے کمیشن کی سربراہی کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے۔ انسانی حقوق کے ایکٹیوسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ میں مسلسل مطالبہ کررہے تھے کہ اس کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ گزشتہ ہفتہ کمیشن کی لاپتہ افراد کے بارے میں رپورٹ پر چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے کمیشن کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
بلوچستان میں چپقلش کا خمیازہ دیگر صوبوں میں زیر تعلیم بلوچ طلبا و طالبات بھگت رہے ہیں۔ اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کی ہراساں کرنے کا نوٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے خود لیا تھا۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے ہدایت دی اور ان کی ہدایت پر صدر اور قائد اعظم یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر عارف علوی اور وائس چانسلر کو مداخلت کرنی پڑی۔ کراچی یونیورسٹی شعبہ بوٹنی میں ایم فل کی طالبہ کلثوم بلوچ کا کہنا ہے کہ اب بلوچ طالبات چائے پینے کراچی یونیورسٹی کی کسی کینٹین میں جاتی ہیں تو ویٹرز انھیں چائے دینے سے معذرت کرلیتے ہیں اور یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ آپ کے جانے کے تھوڑی دیر بعد نامعلوم افراد ان سے تفتیش شروع کردیتے ہیں۔
کیمپس میں احتجاج کا حق بھی نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں اس وقت 500 کے قریب بلوچ طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں ہاسٹل کی سہولتیں نہ ہونے کی بناء پر ان میں سے کچھ طالبات روز حب سے کراچی آتی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ طالبات کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو کئی طالبات اپنی تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوںگی۔
سابقہ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے یورپی یونین کے دباؤ پر شہریوں کو لاپتہ کرنے کے جرم کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے ایک مسودہ قانون سینیٹ میں پیش کیا تھا ، ایوان بالا نے یہ قانون منظور کرلیا تھا۔ اب یہ قانون قومی اسمبلی میں پیش ہونا تھا یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس پر غور باقی تھا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک دن اطمینان سے یہ اعلان کیا کہ اس قانون کا مسودہ سینیٹ کے ریکارڈ سے لاپتہ ہوچکا ہے۔
کسی مہذب ملک میں اس واردات پر متعلقہ وزیر کا مستعفیٰ ہونا لازمی ہوتا ہے مگر شیریں مزاری نے مغربی جمہوریت کی اچھی روایت کی پیروی سے گریزکیا اور پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ تک یہ مسودہ بازیاب نہ ہوا۔ موجودہ حکومت کا فرض ہے کہ شہریوں کے لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے فوراً قانون سازی کرے اور اس قانون پر عملدرآمد کے لیے لائحہ عمل تیار کرے۔ بلوچستان میں چپقلش کی سب سے بڑی وجہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے دائرہ کار میں اس مسئلہ کے حل کی کوشش کر رہا ہے مگر جب تک ریاست اس مسئلہ کا حل تلاش نہیں کرے گی ، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
انھوں نے لاپتہ افراد کے معاملے کے دائمی حل کے لیے صدر پرویز مشرف، سابقہ وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی ، عمران خان اور موجودہ وزیر اعظم کو نوٹس جاری کیے ہیں کہ وہ عدالت کے سامنے اپنے ادوار میں لاپتہ افراد کے بارے میں اپنی اپنی پالیسیوں کی وضاحت کریں۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے ایک تاریخی رولنگ میں لاپتہ افراد کی یوں تعریف کی تھی کہ ایسے شہری جن کو ریاستی اداروں نے غائب کیا لاپتہ افراد کہلاتے ہیں۔ اس فیصلے کا انسانی حقوق کی تنظیموں نے زبردست خیر مقدم کیا ہے۔
ملک میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے یہ بیانیہ اختیار کیا ہے کہ سیاسی اختلاف رائے کو دبانے، عام شہریوں کو باضابطہ کارروائی کے حق سے محروم کرنے اور عموماً قومی سلامتی کے نام پر خوف کی فضاء پیدا کرنے کے تناظر میں سرکاری اداروں کے کردار کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ان شواہد کی جانچ کے لیے یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ایچ آر سی پی کے بیانیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت کے حکم سے کمیشن برائے جبری گمشدگان (سی او آئی ای ڈی) کی ناکامی کی کافی حد تک تلافی کے امکانات ہیں۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے گزشتہ مہینہ سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن کو بلوچ طلبہ کو وفاقی دارالحکومت میں ہراساں کرنے کے علاوہ ان طلبہ کے آبائی علاقوں میں تحقیقات کے فرائض سونپے تھے ۔ وفاقی حکومت نے اس عوامی کمیشن کو معطل کرنے کے لیے اپیل دائر کی ہے جس پر مخلوط حکومت کے بارے میں مثبت اشاروں کے منتظر صاحبان دانش کو مایوسی ہوئی ہے۔
اب وفاقی کابینہ نے وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے جو لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حل کے لیے لائحہ عمل تجویز کرے گی۔ گزشتہ 20 برسوں میں وفاقی کابینہ لاپتہ افراد کے مسئلہ پر متفق ہوئی ہے جو انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے انتہائی مثبت قدم ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پہلے دورہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حل کے لیے کہا تھا کہ وہ بااختیار افراد سے اس مسئلہ کے حل کے لیے بات چیت کریں گے۔
گزشتہ صدی میں سیاسی کارکنوں کے اغواء اور ان کے قتل کی واداتوں کا آغاز ہوا۔ جرمنی میں ہٹلر اور اٹلی میں مسولینی نے اپنے مخالفین کو خفیہ پولیس کے ذریعہ لاپتہ کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ایوب خان کے دور میں کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو لاپتہ کیا گیا اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر شاہی قلعہ لاہور میں قتل کیے گئے۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں سیاسی کارکنوں کو اغواء کرکے آزاد کشمیر کے دلائی کیمپ میں نظربند رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنرل ضیاء کے دور میں سیاسی کارکنوں کو اغواء اور تشدد کی بے شمار مثالیں سامنے آئیں۔
نذیر عباسی اسی قسم کے تشدد کا شکار ہوئے۔ نائن الیون کی دہشت گردی ہوئی تو پھر افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے آپریشن شروع کیا۔ادھر پاکستان میں مذہبی اور سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ انتہا پسند مذہبی کارکنوں کے علاوہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ بھی تیز ہوا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پہلی دفعہ لاپتہ افراد کے مقدمات سننے شروع کیے۔ جسٹس افتخار چوہدری کے احکامات پر کئی ایسے افراد بازیاب ہوئے جو 10,10 برسوں سے لاپتہ تھے۔
انھوں نے لاپتہ افراد کو برآمد کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک رکنی کمیشن قائم کیا ، اس کمیشن نے لاپتہ افراد کے کیسوں کا جائزہ لیا ، وہ گزشتہ 10سال سے زیادہ عرصہ سے کمیشن کی سربراہی کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے۔ انسانی حقوق کے ایکٹیوسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ میں مسلسل مطالبہ کررہے تھے کہ اس کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ گزشتہ ہفتہ کمیشن کی لاپتہ افراد کے بارے میں رپورٹ پر چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے کمیشن کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
بلوچستان میں چپقلش کا خمیازہ دیگر صوبوں میں زیر تعلیم بلوچ طلبا و طالبات بھگت رہے ہیں۔ اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کی ہراساں کرنے کا نوٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے خود لیا تھا۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے ہدایت دی اور ان کی ہدایت پر صدر اور قائد اعظم یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر عارف علوی اور وائس چانسلر کو مداخلت کرنی پڑی۔ کراچی یونیورسٹی شعبہ بوٹنی میں ایم فل کی طالبہ کلثوم بلوچ کا کہنا ہے کہ اب بلوچ طالبات چائے پینے کراچی یونیورسٹی کی کسی کینٹین میں جاتی ہیں تو ویٹرز انھیں چائے دینے سے معذرت کرلیتے ہیں اور یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ آپ کے جانے کے تھوڑی دیر بعد نامعلوم افراد ان سے تفتیش شروع کردیتے ہیں۔
کیمپس میں احتجاج کا حق بھی نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں اس وقت 500 کے قریب بلوچ طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں ہاسٹل کی سہولتیں نہ ہونے کی بناء پر ان میں سے کچھ طالبات روز حب سے کراچی آتی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ طالبات کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو کئی طالبات اپنی تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوںگی۔
سابقہ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے یورپی یونین کے دباؤ پر شہریوں کو لاپتہ کرنے کے جرم کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے ایک مسودہ قانون سینیٹ میں پیش کیا تھا ، ایوان بالا نے یہ قانون منظور کرلیا تھا۔ اب یہ قانون قومی اسمبلی میں پیش ہونا تھا یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس پر غور باقی تھا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک دن اطمینان سے یہ اعلان کیا کہ اس قانون کا مسودہ سینیٹ کے ریکارڈ سے لاپتہ ہوچکا ہے۔
کسی مہذب ملک میں اس واردات پر متعلقہ وزیر کا مستعفیٰ ہونا لازمی ہوتا ہے مگر شیریں مزاری نے مغربی جمہوریت کی اچھی روایت کی پیروی سے گریزکیا اور پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ تک یہ مسودہ بازیاب نہ ہوا۔ موجودہ حکومت کا فرض ہے کہ شہریوں کے لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے فوراً قانون سازی کرے اور اس قانون پر عملدرآمد کے لیے لائحہ عمل تیار کرے۔ بلوچستان میں چپقلش کی سب سے بڑی وجہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے دائرہ کار میں اس مسئلہ کے حل کی کوشش کر رہا ہے مگر جب تک ریاست اس مسئلہ کا حل تلاش نہیں کرے گی ، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔