ایک شاندار اسکرپٹ کی ناکامی
اگر یہ مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو انھیں اقتدار سنبھالنا ہی نہیں چاہیے تھا
RAWALPINDI:
آج کل ملک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی لپیٹ میں ہے۔پٹرول مہنگاہے ، ملک میں مہنگائی کا طوفان بھی آگیا ہے۔ عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہورہی ہے۔ ویسے تو بجلی بھی مہنگی کردی گئی ہے۔ اس لیے اگر بجلی آئے بھی تو مشکل اور نہ آئے تو بھی مشکل۔ نئی حکومت اپنے آغاز میں ہی ایسے مسائل میں آ گھری ہے کہ یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ اگر حالات اتنے ہی خراب تھے تو اقتدار کیوں قبول کیا۔
اگر یہ مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو انھیں اقتدار سنبھالنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا نئی حکومت نے جان بوجھ کر حالات خراب کر دیے ہیں۔ کیا نئی حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ آتے ہی حالات خراب کر کے عوام کو اپنے خلاف کر دے۔ کیا نئی حکومت جان بوجھ کر پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھا رہی ہے؟ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ چاہے جان بوجھ کر نہیں بھی کیا جا رہا ہے، حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے لیکن اس سب کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ آخر اس ساری بحرانی صورتحال کی وجہ کیا ہے۔ موجودہ حکومت کتنی ذمے د ار ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو چند ماہ قبل ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کا جانا ٹھہر گیا ہے اور وہ اپنا اقتدار بچا نہیں سکیں گے۔اس لیے وہ اقتدار بچانے کے بجائے اقتدار جانے کے بعد کی پلاننگ زیادہ کر رہے تھے۔ وہ ایک طرف اپنے اقتدار جانے کا بیانیہ بنا رہے تھے، دوسری طرف وہ ایسے حالات کی پلاننگ کر رہے تھے کہ ان کی جگہ آنے والی حکومت کے لیے کام مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے۔
عمران خان نے باقاعدہ ایک اسکرپٹ تیار کیا ۔ اس کے تحت اس بات کی پلاننگ کی گئی کہ وہ حکومت سے نکلتے ہی سڑکوں پر آجائیں گے۔ ابتدا بڑے بڑے جلسوں سے ہوگی اور فوراً بعد لانگ مارچ کی تیاری تھی۔ اس طرح جلسے ، جلوسوں اور دھرنے کے ذریعے حکومت کو گرانے کی بھر پور پلاننگ کی گئی تھی۔پشاور سے لانگ مارچ کا آغاز کرنا بھی عمران خان کی پلاننگ تھی، وہ لانگ مارچ اور دھرنے کے ذریعے حکومت گرانے ، فوری الیکشن کا اعلان اور دوبارہ اقتدار میں آنے کی پوری پلاننگ کرکے پشاور سے روانہ ہوئے تھے۔
عمران خان کو یہ بھی اچھی طرح علم تھا کہ عوام کو سڑکوں پر لانا آسان نہیں ہے۔ اس لیے انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسے حالات چاہیے تھے جس سے عام آدمی بھی سڑکوں پر آجائے۔ اسی لیے گرمی میں بجلی کے پلانٹ بند کرنے کی پلاننگ کی گئی تا کہ نئی حکومت جب گرمیوں میں اقتدار میں آئے تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں پھنس جائے۔ جب بجلی کے پلانٹ ہی بند ہوںگے تو نئی حکومت کیاکرے گی۔ پلانٹ جتنی بھی جلدی چلانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس دوران لانگ مارچ تو ہو ہی جائے گا۔ اسی طرح عمران خان حکومت نے جان بوجھ کر بجلی بنانے کے لیے فیول بھی نہیں خریدا تا کہ باقی پلانٹ بھی بجلی بنانے کے قابل نہ رہیں۔ آج ملک میں بجلی بنانے کے لیے فیول کی بھی کمی ہے۔ سابقہ حکومت نے بروقت گیس اور کوئلہ خریدنے کے آرڈر ہی نہیں دیے ۔ جس کی وجہ سے گیس اور کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ بھی بند رہے اور لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سنگین ہو گیا۔ حکمت عملی کے اعتبار سے یہ ایک اچھی اور کارگر پلاننگ تھی ۔ ایک طرف عمران خان سڑکوں پر ہوںگے، دوسری طرف لوڈ بجلی کی شیڈنگ، پٹرول کی مہنگائی عوام کوسڑکوں پرلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اس طرح ان کے احتجاج کو چار چاند لگ جائیں گے۔
عمران خان نے اپنے دور حکومت میں سولہ بار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جب کہ ایک دفعہ کم کی ۔ وہ بھی تب، جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ ان کی حکومت جا رہی ہے، اب وہ بچ نہیں سکتے۔ اس لیے اگلی پلاننگ کے لیے انھوں نے پٹرول سستا کر دیا۔ عمران خان کو یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک ایسا معاہدہ کیا ہوا ہے جس کے تحت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں۔
عمران خان ایک دو دھاری تلوار بنا رہے تھے۔ عمران خان نے نئی حکومت کے لیے دو کنویں کھودے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دو بارودی سرنگیں بچھائی گئیں۔ پہلی آئی ایم ایف سے معاہد ہ توڑ دیا گیا۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو بخوبی علم تھا کہ پٹرول پر اس سبسڈی کے بعد آئی ایم ایف قسط جاری نہیں کرے گا اور پاکستان کے لیے بیل آوٹ پروگرام ختم کر دے گا۔ انھیں علم تھا کہ ایک دفعہ معاہدہ ٹوٹ جائے تو دوبارہ بحال کرانا کتنا مشکل ہے۔
عمران خان کو پتہ تھا کہ جب ان کی حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ رہی ہے تو نئی حکومت آتے ہی بہت مشکل میں پھنس جائے گی۔ دوسرا ان کی حکومت نے پٹرول کی قیمتیں کم کرکے قومی خزانے پر ایسا بوجھ ڈال دیا ہے کہ اگر نئی حکومت سبسڈی جاری رکھتی ہے، پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ یہ پاکستان کو سری لنکا بنانے کا منصوبہ تھا۔ یہ دلیل بھی مضحکہ خیز ہے کہ روس سے سستا تیل ملنا تھا۔ بھائی روس سے سستا خریدا ہوا تیل جب پاکستان آچکا ہو، تب تو تیل سستا کرنے کا جواز بنتا ہے۔ابھی آپ نے روس سے کوئی معاہدہ بھی نہیں کیا تو ملک کے پاس سستا تیل کہاں سے آگیا؟ کیا روس سے کسی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ نہیں۔ حماد اظہر نے صرف ایک خط لکھا تھا جس کا روس سے ابھی کوئی جواب بھی نہیں آیا تھا۔
اسی طرح بجلی قیمت بھی کم کی گئی، یہ جانتے ہوئے کہ دوبارہ بڑھانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ عمران خان ہر وہ کام کر کے گئے جس کی وجہ لوگ ان کے ساتھ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں۔ چاہے اس میں پاکستان کا نقصان ہی ہو جائے۔ ان میں کوئی بھی کام ایسا نہیں تھا جس سے پاکستان کا کوئی فائدہ ہو سکے۔ عمران خان کی اپنی سیاست کو ضرور فائدہ ہو نے کا امکان تھا۔
بے شک یہ ایک شاندار اسکرپٹ تھا۔ بہت ذہانت سے بنایا گیا تھا لیکن قدرت کے اشارے کچھ اور ہیں۔شاید آج عمران خان بھی سوچ رہے ہوںگے کہ اتنا شاندار اسکرپٹ کیسے ناکام ہو گیا۔ لانگ مارچ ناکام ہو گیا۔الیکشن کا اعلان نہیں ہوا۔ حکومت مدت پوری کرنے پر مصر ہے۔ عمران خان کے لیے دن بدن مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک ایسا شاندار اسکرپٹ ناکام ہو گیا ہے جس کی ناکامی کا بظاہرکوئی امکان ہی نہیں تھا لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسکرپٹ ناکام ہو گیا ہے۔
آج کل ملک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی لپیٹ میں ہے۔پٹرول مہنگاہے ، ملک میں مہنگائی کا طوفان بھی آگیا ہے۔ عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہورہی ہے۔ ویسے تو بجلی بھی مہنگی کردی گئی ہے۔ اس لیے اگر بجلی آئے بھی تو مشکل اور نہ آئے تو بھی مشکل۔ نئی حکومت اپنے آغاز میں ہی ایسے مسائل میں آ گھری ہے کہ یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ اگر حالات اتنے ہی خراب تھے تو اقتدار کیوں قبول کیا۔
اگر یہ مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو انھیں اقتدار سنبھالنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا نئی حکومت نے جان بوجھ کر حالات خراب کر دیے ہیں۔ کیا نئی حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ آتے ہی حالات خراب کر کے عوام کو اپنے خلاف کر دے۔ کیا نئی حکومت جان بوجھ کر پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھا رہی ہے؟ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ چاہے جان بوجھ کر نہیں بھی کیا جا رہا ہے، حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے لیکن اس سب کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ آخر اس ساری بحرانی صورتحال کی وجہ کیا ہے۔ موجودہ حکومت کتنی ذمے د ار ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو چند ماہ قبل ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کا جانا ٹھہر گیا ہے اور وہ اپنا اقتدار بچا نہیں سکیں گے۔اس لیے وہ اقتدار بچانے کے بجائے اقتدار جانے کے بعد کی پلاننگ زیادہ کر رہے تھے۔ وہ ایک طرف اپنے اقتدار جانے کا بیانیہ بنا رہے تھے، دوسری طرف وہ ایسے حالات کی پلاننگ کر رہے تھے کہ ان کی جگہ آنے والی حکومت کے لیے کام مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے۔
عمران خان نے باقاعدہ ایک اسکرپٹ تیار کیا ۔ اس کے تحت اس بات کی پلاننگ کی گئی کہ وہ حکومت سے نکلتے ہی سڑکوں پر آجائیں گے۔ ابتدا بڑے بڑے جلسوں سے ہوگی اور فوراً بعد لانگ مارچ کی تیاری تھی۔ اس طرح جلسے ، جلوسوں اور دھرنے کے ذریعے حکومت کو گرانے کی بھر پور پلاننگ کی گئی تھی۔پشاور سے لانگ مارچ کا آغاز کرنا بھی عمران خان کی پلاننگ تھی، وہ لانگ مارچ اور دھرنے کے ذریعے حکومت گرانے ، فوری الیکشن کا اعلان اور دوبارہ اقتدار میں آنے کی پوری پلاننگ کرکے پشاور سے روانہ ہوئے تھے۔
عمران خان کو یہ بھی اچھی طرح علم تھا کہ عوام کو سڑکوں پر لانا آسان نہیں ہے۔ اس لیے انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسے حالات چاہیے تھے جس سے عام آدمی بھی سڑکوں پر آجائے۔ اسی لیے گرمی میں بجلی کے پلانٹ بند کرنے کی پلاننگ کی گئی تا کہ نئی حکومت جب گرمیوں میں اقتدار میں آئے تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں پھنس جائے۔ جب بجلی کے پلانٹ ہی بند ہوںگے تو نئی حکومت کیاکرے گی۔ پلانٹ جتنی بھی جلدی چلانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس دوران لانگ مارچ تو ہو ہی جائے گا۔ اسی طرح عمران خان حکومت نے جان بوجھ کر بجلی بنانے کے لیے فیول بھی نہیں خریدا تا کہ باقی پلانٹ بھی بجلی بنانے کے قابل نہ رہیں۔ آج ملک میں بجلی بنانے کے لیے فیول کی بھی کمی ہے۔ سابقہ حکومت نے بروقت گیس اور کوئلہ خریدنے کے آرڈر ہی نہیں دیے ۔ جس کی وجہ سے گیس اور کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ بھی بند رہے اور لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سنگین ہو گیا۔ حکمت عملی کے اعتبار سے یہ ایک اچھی اور کارگر پلاننگ تھی ۔ ایک طرف عمران خان سڑکوں پر ہوںگے، دوسری طرف لوڈ بجلی کی شیڈنگ، پٹرول کی مہنگائی عوام کوسڑکوں پرلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اس طرح ان کے احتجاج کو چار چاند لگ جائیں گے۔
عمران خان نے اپنے دور حکومت میں سولہ بار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جب کہ ایک دفعہ کم کی ۔ وہ بھی تب، جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ ان کی حکومت جا رہی ہے، اب وہ بچ نہیں سکتے۔ اس لیے اگلی پلاننگ کے لیے انھوں نے پٹرول سستا کر دیا۔ عمران خان کو یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک ایسا معاہدہ کیا ہوا ہے جس کے تحت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں۔
عمران خان ایک دو دھاری تلوار بنا رہے تھے۔ عمران خان نے نئی حکومت کے لیے دو کنویں کھودے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دو بارودی سرنگیں بچھائی گئیں۔ پہلی آئی ایم ایف سے معاہد ہ توڑ دیا گیا۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو بخوبی علم تھا کہ پٹرول پر اس سبسڈی کے بعد آئی ایم ایف قسط جاری نہیں کرے گا اور پاکستان کے لیے بیل آوٹ پروگرام ختم کر دے گا۔ انھیں علم تھا کہ ایک دفعہ معاہدہ ٹوٹ جائے تو دوبارہ بحال کرانا کتنا مشکل ہے۔
عمران خان کو پتہ تھا کہ جب ان کی حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ رہی ہے تو نئی حکومت آتے ہی بہت مشکل میں پھنس جائے گی۔ دوسرا ان کی حکومت نے پٹرول کی قیمتیں کم کرکے قومی خزانے پر ایسا بوجھ ڈال دیا ہے کہ اگر نئی حکومت سبسڈی جاری رکھتی ہے، پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ یہ پاکستان کو سری لنکا بنانے کا منصوبہ تھا۔ یہ دلیل بھی مضحکہ خیز ہے کہ روس سے سستا تیل ملنا تھا۔ بھائی روس سے سستا خریدا ہوا تیل جب پاکستان آچکا ہو، تب تو تیل سستا کرنے کا جواز بنتا ہے۔ابھی آپ نے روس سے کوئی معاہدہ بھی نہیں کیا تو ملک کے پاس سستا تیل کہاں سے آگیا؟ کیا روس سے کسی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ نہیں۔ حماد اظہر نے صرف ایک خط لکھا تھا جس کا روس سے ابھی کوئی جواب بھی نہیں آیا تھا۔
اسی طرح بجلی قیمت بھی کم کی گئی، یہ جانتے ہوئے کہ دوبارہ بڑھانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ عمران خان ہر وہ کام کر کے گئے جس کی وجہ لوگ ان کے ساتھ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں۔ چاہے اس میں پاکستان کا نقصان ہی ہو جائے۔ ان میں کوئی بھی کام ایسا نہیں تھا جس سے پاکستان کا کوئی فائدہ ہو سکے۔ عمران خان کی اپنی سیاست کو ضرور فائدہ ہو نے کا امکان تھا۔
بے شک یہ ایک شاندار اسکرپٹ تھا۔ بہت ذہانت سے بنایا گیا تھا لیکن قدرت کے اشارے کچھ اور ہیں۔شاید آج عمران خان بھی سوچ رہے ہوںگے کہ اتنا شاندار اسکرپٹ کیسے ناکام ہو گیا۔ لانگ مارچ ناکام ہو گیا۔الیکشن کا اعلان نہیں ہوا۔ حکومت مدت پوری کرنے پر مصر ہے۔ عمران خان کے لیے دن بدن مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک ایسا شاندار اسکرپٹ ناکام ہو گیا ہے جس کی ناکامی کا بظاہرکوئی امکان ہی نہیں تھا لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسکرپٹ ناکام ہو گیا ہے۔