عمران خان کے پاس اب کون سے آپشنز باقی ہیں
عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سڑکوں پر یا ڈی چوک پر بیٹھنے سے ان کے مسائل کا حل نہیں نکل سکتا
ISLAMABAD:
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس چھوڑا اور سڑکوں پر نکل آئے۔ حال ہی میں لانگ مارچ کیا، جس میں حکومت کی جانب سے انہیں مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا تاہم لانگ مارچ کی کامیابی سے قبل ہی ایک یوٹرن لیا اور حکومت کو نیا الٹی میٹم دے کر دوبارہ پوری تیاری کے ساتھ لانگ مارچ کرنے کا اعلان کرکے چلتے بنے۔ عمران خان کے اس الٹی میٹم کو گزرے بھی چند دن ہوچکے ہیں تاہم ان کی جانب سے دوبارہ ایسی کوئی کال سامنے نہیں آئی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان کو اپنے ماضی کے تجربوں سے بھی سبق سیکھنا چاہیے۔ اس سے قبل انہیں 126 دنوں تک دھرنا دینے کا بھی تجربہ ہے، جس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا تھا اور اسی طرح کا اب یہ لانگ مارچ بھی تھا جس میں جتنے بھی تعداد میں عوام ہوں، وہ حکومت کو مستعفی ہونے یا انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور نہیں کرسکے۔
موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھا جائے تو صورتحال عمران خان کے حق میں نہیں۔ انہیں کسی بھی قسم کے معجزے کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور موجودہ حکومت کو انہی کی زبان میں (آئینی طریقہ کار کے تحت) جواب دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ یہ حکومت بجٹ منظور کرانے میں ناکام ہو۔ اس سے عمران خان شہباز شریف کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے پہلا قدم پہلے ہی اٹھایا جاچکا ہے اور تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ اسپیکر کے سامنے اپنے اپنے استعفوں کی منظوری کےلیے پیش نہیں ہوئے۔
دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ راجا ریاض اور نور عالم جیسے تحریک انصاف کے منحرف اراکین جو قومی اسمبلی میں موجود ہیں، انہیں واضح ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں حکومت کے حق میں ووٹ نہ دیں۔ یہ ہدایات اتنی واضح ہونی چاہئیں کہ کوئی بھی رکن اگر موجودہ حکومت کے حق میں ووٹ دے رہا ہے تو وہ پارٹی کی حدود کو پار کررہا ہے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا۔
انہیں فنانس بل کی منظوری کےلیے قومی اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ کے دن موجود ہونے کی بھی ہدایت کی جانی چاہیے تاکہ اس بل کی مخالفت میں ووٹوں کی تعداد زیادہ ہوسکے۔ اس سے تمام منحرف اراکین ہدایات پر عمل درآمد کے پابند ہوجائیں گے، بالخصوص نور عالم خان جو اب بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے رکن ہیں۔
تحریک انصاف کے قانون سازوں کو جس روز بجٹ پیش کیا جائے، اسمبلی میں موجود ہونا چاہیے۔ اگر عمران خان سمجھتے ہیں تو وہ چند اجلاسوں کو چھوڑ سکتے ہیں اور صرف فنانس بل پر ہونے والی ووٹنگ کے دن اجلاس میں شرکت کرسکتے ہیں۔
یقیناً اس طریقے سے وہ حکومت کو شکست دے سکتے ہیں اور فنانس بل کی منظوری کو روک سکتے ہیں اور وزیراعظم کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے الیکشنز کا اعلان کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کے پارلیمنٹ میں ہونے سے نگراں وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر کا مسئلہ بھی حل ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ تاہم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سڑکوں پر یا ڈی چوک پر بیٹھنے سے ان کے مسائل کا حل نہیں نکل سکتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس چھوڑا اور سڑکوں پر نکل آئے۔ حال ہی میں لانگ مارچ کیا، جس میں حکومت کی جانب سے انہیں مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا تاہم لانگ مارچ کی کامیابی سے قبل ہی ایک یوٹرن لیا اور حکومت کو نیا الٹی میٹم دے کر دوبارہ پوری تیاری کے ساتھ لانگ مارچ کرنے کا اعلان کرکے چلتے بنے۔ عمران خان کے اس الٹی میٹم کو گزرے بھی چند دن ہوچکے ہیں تاہم ان کی جانب سے دوبارہ ایسی کوئی کال سامنے نہیں آئی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان کو اپنے ماضی کے تجربوں سے بھی سبق سیکھنا چاہیے۔ اس سے قبل انہیں 126 دنوں تک دھرنا دینے کا بھی تجربہ ہے، جس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا تھا اور اسی طرح کا اب یہ لانگ مارچ بھی تھا جس میں جتنے بھی تعداد میں عوام ہوں، وہ حکومت کو مستعفی ہونے یا انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور نہیں کرسکے۔
موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھا جائے تو صورتحال عمران خان کے حق میں نہیں۔ انہیں کسی بھی قسم کے معجزے کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور موجودہ حکومت کو انہی کی زبان میں (آئینی طریقہ کار کے تحت) جواب دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ یہ حکومت بجٹ منظور کرانے میں ناکام ہو۔ اس سے عمران خان شہباز شریف کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے پہلا قدم پہلے ہی اٹھایا جاچکا ہے اور تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ اسپیکر کے سامنے اپنے اپنے استعفوں کی منظوری کےلیے پیش نہیں ہوئے۔
دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ راجا ریاض اور نور عالم جیسے تحریک انصاف کے منحرف اراکین جو قومی اسمبلی میں موجود ہیں، انہیں واضح ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں حکومت کے حق میں ووٹ نہ دیں۔ یہ ہدایات اتنی واضح ہونی چاہئیں کہ کوئی بھی رکن اگر موجودہ حکومت کے حق میں ووٹ دے رہا ہے تو وہ پارٹی کی حدود کو پار کررہا ہے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا۔
انہیں فنانس بل کی منظوری کےلیے قومی اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ کے دن موجود ہونے کی بھی ہدایت کی جانی چاہیے تاکہ اس بل کی مخالفت میں ووٹوں کی تعداد زیادہ ہوسکے۔ اس سے تمام منحرف اراکین ہدایات پر عمل درآمد کے پابند ہوجائیں گے، بالخصوص نور عالم خان جو اب بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے رکن ہیں۔
تحریک انصاف کے قانون سازوں کو جس روز بجٹ پیش کیا جائے، اسمبلی میں موجود ہونا چاہیے۔ اگر عمران خان سمجھتے ہیں تو وہ چند اجلاسوں کو چھوڑ سکتے ہیں اور صرف فنانس بل پر ہونے والی ووٹنگ کے دن اجلاس میں شرکت کرسکتے ہیں۔
یقیناً اس طریقے سے وہ حکومت کو شکست دے سکتے ہیں اور فنانس بل کی منظوری کو روک سکتے ہیں اور وزیراعظم کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے الیکشنز کا اعلان کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کے پارلیمنٹ میں ہونے سے نگراں وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر کا مسئلہ بھی حل ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ تاہم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سڑکوں پر یا ڈی چوک پر بیٹھنے سے ان کے مسائل کا حل نہیں نکل سکتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔