ہمارے اور عرب دنیا کے احتجاج میں فرق اور اثر
اگر عرب ممالک کی جانب سے احتجاج نہ کیا جاتا تو بھارت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی
WASHINGTON:
آپ حالیہ واقعے کی مثال لے لیجئے۔ بھارت میں گزشتہ دنوں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کیے گئے۔ مسلم دنیا سراپائے احتجاج بن گئی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر عرب ممالک نے بھارت سے شدید احتجاج کیا۔ عرب ممالک کی جانب سے احتجاج نے گویا اس مہم میں جان ڈال دی اور بھارت کو متعلقہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنا پڑی۔
عین ممکن ہے اگر عرب ممالک کی جانب سے احتجاج نہ کیا جاتا تو بھارت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔ پاکستان جیسے ممالک بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرواتے۔ ہمارے ہاں مظاہرے کیے جاتے۔ کہیں سے اشارہ ملنے پر ہوسکتا ہے کچھ مذہبی جماعتیں اس موقع پر بھارتی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کرتیں، اپنے ہی لوگوں کی زندگی عذاب میں ڈالی جاتی، ملکی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا، قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا اور پھر دوبارہ اشارہ ملنے پر ایک بے جان سا معاہدہ کرکے گھروں کو لوٹ جاتے۔ لیکن بھارت ٹس سے مس نہ ہوتا۔ جبکہ عرب ممالک کی جانب سے ناراضی کا اظہار ہی کافی ثابت ہوا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے اور عرب ممالک کے احتجاج میں اس قدر فرق کیوں ہے؟ ہمارا رونا دھونا، جلسے جلوس، دھرنے، مار دھاڑ، شدید احتجاج سب ہی کچھ بیکار جاتا ہے، جبکہ عرب ممالک کی صرف ناراضی بھی رنگ لے آتی ہے۔ شاید اس لیے کہ عرب ممالک دینے والا ہاتھ ہیں۔ عرب معاشی لحاظ سے خود کفیل ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ عرب ممالک میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔
جبکہ ہم معاشی لحاظ سے اس قدر کمزور ہیں کہ کشکول لیے دنیا بھر میں پھرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا مسلم، غیر مسلم ملک ہو جہاں سے مدد مل سکتی ہو اور ہم نے نہ لی ہو۔ اور اب تو بقول وزیراعظم شہباز شریف ''میں عرب ممالک کے دورے پر گیا تو میں نے کہا کہ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں مدد مانگنے آیا ہوں، ایسا نہیں ہے بلکہ صرف اتنی گزارش ہے کہ ہمارا ہاتھ بٹادیں''۔ یعنی ہم جہاں بھی جائیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ شاید پھر کچھ دینا پڑے گا۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ عرب ہر معاملے میں اسلام کے ٹھیکیدار بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی لیے جب انہوں نے اس معاملے میں احتجاج کیا تو اسے سنجیدہ لیا گیا۔
جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ ہو ہم ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کردیتے ہیں، متعلقہ سفیر کو نکالنے کا مطالبہ اور وہ سب کچھ جو ممکن نہ ہو کرتے ہیں۔ مگر دنیا کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسے معاملات پر اعتراض نہ کیا جائے، احتجاج نہ کیا جائے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ احتجاج کے ساتھ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کی جائے۔ معاشی ایمرجنسی ضرور لگائی جائے لیکن یہ سب کےلیے ہو، اور اسے اس وقت تک ختم نہ کیا جائے جب تک ہمارا کشکول نہ ٹوٹ جائے۔ قومی سطح پر مکالمے کا ضرور آغاز ہو، لیکن کشکول توڑنے کےلیے، نہ کہ ''کھایا پیا کچھ نہیں لیکن گلاس توڑا بارہ آنے'' کی سی کیفیت ہو۔ لوگ آئیں، بیٹھیں، بحث کریں، میڈیا پر خبریں چلیں، سرخیاں لگیں، اور آخر میں ایک اعلامیہ جاری ہو، اور بات ختم۔
مزید برآں شاہانہ اخراجات، فضول خرچیاں، اپنے اور اپنے چاہنے والوں کےلیے سرکاری خرچے پر بڑے گھر، مفت بجلی، پٹرول کی سہولتیں، بھاری قرضوں کی معافی، جیسے اقدامات کا خاتمہ کیا جائے۔ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ مجرموں کو تخت پر بٹھانے کے بجائے تختہ دار تک لے جایا جائے۔ کفایت شعاری کو اپنی ذات سے شروع کیا جائے۔ ملکی وسائل کا درست استعمال کرنے کےلیے قابل اور دیانت دار افراد کا تقرر کیا جائے نہ کہ میرٹ کو روند کر نااہل افراد کو اداروں کا سربراہ صرف اور صرف اس لیے بنادیا جائے کہ وہ ہمارے مفادات کا تحفظ کریں گے۔
یاد رکھیے یہ ملک ہے تو آپ ہیں۔ آپ وزیر، مشیر ہیں، آپ کی عزت ہے۔ اگر یہ ملک کمزور ہوگیا، اس ملک کی دنیا کی نظروں میں وقعت نہ رہے تو آپ کی عزت بھی نہیں رہے گی، آپ کا ریڈ کارپٹ استقبال نہیں ہوگا، آپ کو دنیا میں سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اور اگر مل بھی گئی تو یہ محلات، پروٹوکول، سلیوٹ ختم ہوجائیں گے اور آپ کو ایک فلیٹ میں زندگی کے بقایا دن پورے کرنے پڑیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ حالیہ واقعے کی مثال لے لیجئے۔ بھارت میں گزشتہ دنوں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کیے گئے۔ مسلم دنیا سراپائے احتجاج بن گئی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر عرب ممالک نے بھارت سے شدید احتجاج کیا۔ عرب ممالک کی جانب سے احتجاج نے گویا اس مہم میں جان ڈال دی اور بھارت کو متعلقہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنا پڑی۔
عین ممکن ہے اگر عرب ممالک کی جانب سے احتجاج نہ کیا جاتا تو بھارت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔ پاکستان جیسے ممالک بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرواتے۔ ہمارے ہاں مظاہرے کیے جاتے۔ کہیں سے اشارہ ملنے پر ہوسکتا ہے کچھ مذہبی جماعتیں اس موقع پر بھارتی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کرتیں، اپنے ہی لوگوں کی زندگی عذاب میں ڈالی جاتی، ملکی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا، قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا اور پھر دوبارہ اشارہ ملنے پر ایک بے جان سا معاہدہ کرکے گھروں کو لوٹ جاتے۔ لیکن بھارت ٹس سے مس نہ ہوتا۔ جبکہ عرب ممالک کی جانب سے ناراضی کا اظہار ہی کافی ثابت ہوا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے اور عرب ممالک کے احتجاج میں اس قدر فرق کیوں ہے؟ ہمارا رونا دھونا، جلسے جلوس، دھرنے، مار دھاڑ، شدید احتجاج سب ہی کچھ بیکار جاتا ہے، جبکہ عرب ممالک کی صرف ناراضی بھی رنگ لے آتی ہے۔ شاید اس لیے کہ عرب ممالک دینے والا ہاتھ ہیں۔ عرب معاشی لحاظ سے خود کفیل ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ عرب ممالک میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔
جبکہ ہم معاشی لحاظ سے اس قدر کمزور ہیں کہ کشکول لیے دنیا بھر میں پھرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا مسلم، غیر مسلم ملک ہو جہاں سے مدد مل سکتی ہو اور ہم نے نہ لی ہو۔ اور اب تو بقول وزیراعظم شہباز شریف ''میں عرب ممالک کے دورے پر گیا تو میں نے کہا کہ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں مدد مانگنے آیا ہوں، ایسا نہیں ہے بلکہ صرف اتنی گزارش ہے کہ ہمارا ہاتھ بٹادیں''۔ یعنی ہم جہاں بھی جائیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ شاید پھر کچھ دینا پڑے گا۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ عرب ہر معاملے میں اسلام کے ٹھیکیدار بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی لیے جب انہوں نے اس معاملے میں احتجاج کیا تو اسے سنجیدہ لیا گیا۔
جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ ہو ہم ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کردیتے ہیں، متعلقہ سفیر کو نکالنے کا مطالبہ اور وہ سب کچھ جو ممکن نہ ہو کرتے ہیں۔ مگر دنیا کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسے معاملات پر اعتراض نہ کیا جائے، احتجاج نہ کیا جائے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ احتجاج کے ساتھ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کی جائے۔ معاشی ایمرجنسی ضرور لگائی جائے لیکن یہ سب کےلیے ہو، اور اسے اس وقت تک ختم نہ کیا جائے جب تک ہمارا کشکول نہ ٹوٹ جائے۔ قومی سطح پر مکالمے کا ضرور آغاز ہو، لیکن کشکول توڑنے کےلیے، نہ کہ ''کھایا پیا کچھ نہیں لیکن گلاس توڑا بارہ آنے'' کی سی کیفیت ہو۔ لوگ آئیں، بیٹھیں، بحث کریں، میڈیا پر خبریں چلیں، سرخیاں لگیں، اور آخر میں ایک اعلامیہ جاری ہو، اور بات ختم۔
مزید برآں شاہانہ اخراجات، فضول خرچیاں، اپنے اور اپنے چاہنے والوں کےلیے سرکاری خرچے پر بڑے گھر، مفت بجلی، پٹرول کی سہولتیں، بھاری قرضوں کی معافی، جیسے اقدامات کا خاتمہ کیا جائے۔ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ مجرموں کو تخت پر بٹھانے کے بجائے تختہ دار تک لے جایا جائے۔ کفایت شعاری کو اپنی ذات سے شروع کیا جائے۔ ملکی وسائل کا درست استعمال کرنے کےلیے قابل اور دیانت دار افراد کا تقرر کیا جائے نہ کہ میرٹ کو روند کر نااہل افراد کو اداروں کا سربراہ صرف اور صرف اس لیے بنادیا جائے کہ وہ ہمارے مفادات کا تحفظ کریں گے۔
یاد رکھیے یہ ملک ہے تو آپ ہیں۔ آپ وزیر، مشیر ہیں، آپ کی عزت ہے۔ اگر یہ ملک کمزور ہوگیا، اس ملک کی دنیا کی نظروں میں وقعت نہ رہے تو آپ کی عزت بھی نہیں رہے گی، آپ کا ریڈ کارپٹ استقبال نہیں ہوگا، آپ کو دنیا میں سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اور اگر مل بھی گئی تو یہ محلات، پروٹوکول، سلیوٹ ختم ہوجائیں گے اور آپ کو ایک فلیٹ میں زندگی کے بقایا دن پورے کرنے پڑیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔