بجٹ 23۔ 2022 عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنا سب سے بڑا چیلنج

بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کی دی گئی ہدایت کو پیش نظر رکھنا حکومت کی مجبوری ہو گی

بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کی دی گئی ہدایت کو پیش نظر رکھنا حکومت کی مجبوری ہو گی۔ فوٹو: ایکسپریس

وفاقی حکومت نئے مالی سال 23۔ 2022 کیلئے وفاقی میزانیہ (بجٹ) جمعہ کو پارلیمینٹ میں پیش کرے گی جس میں درپیش ملکی اور بین الاقوامی منظرنامہ کے تناظرمیں مالی وزری استحکام،خسارہ میں کمی، برآمدات میں اضافہ اوردرآمدات کے متبادل مقامی مصنوعات کی تیاری، کاروبار وسرمایہ کاری میں آسانی اورزراعت کے فروغ پرتوجہ مرکوزکی گئی ہے۔

وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات ڈاکٹرمفتاح اسماعیل قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کریں گے۔ آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال 2022-23کے وفاقی بجٹ میں مالی خسارہ تین کھرب سات سو ارب ستر کروڑ روپے رکھنے کی تجویز دیدی ہے جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 4.9 فیصد کے برابر ہے۔ بجٹ میں معاشی ترقی کی شرح (جی ڈی پی) 5 فیصد رکھنے کا ہدف مقرر کرنے اور 2184 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویز ہے۔

علاوہ ازیں آئندہ مالی سال کے لیے 1155 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے جب کہ ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف 7255 ارب روپے رکھنے کی تجویز زیر غور ہے۔ وزارت خزانہ ذرائع نے بتایا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سمیت دیگر اہم فیصلے بھی متوقع ہیں۔ صوبوں نے 1384ارب کے ترقیاتی بجٹ تجویز کیے ہیں جبکہ آئندہ مالی سال کیلئے وفاق کا ترقیاتی بجٹ 800 ارب روپے ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران قرضوں اور قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کی مد میں 3523 ارب روپے ادا کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور مجموعی اخراجات کا تخمینہ 12994 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کوکووڈ۔ 19 کی عالمگیر وبا اورروس یوکرین تنازعہ کے باعث دنیا بھرمیں پیداہونے والے معاشی مشکلات ومسائل اورملکی سطح پردرپیش مالیاتی چیلنجوں کوسامنے رکھتے ہوئے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی ) کا حجم 800 ارب روپے مقررکرنے کی تجویز دی گئی ہے میں سے 100 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت خرچ ہوں گے۔ نئے مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں بلوچستان اور نوجوانوں کیلئے کئی سکیمیں شروع کی جا رہی ہیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے منصوبوں کے علاوہ وزیراعظم میرٹ بیسڈ لیپ ٹاپ سکیم کے تحت ہونہار طالب علموں کو لیپ ٹاپ فراہم کئے جائیں گے۔

اس کے علاوہ ایک اور سکیم بھی متعارف کرائی جا رہی ہے جس کے تحت اعلی تعلیمی اداروں کے طالب علم آسان قسطوں پر لیپ ٹاپ خرید سکیں گے، صوبوں کے تعاون سے پیشہ وارانہ تربیت کے 250 انسٹی ٹیوٹ قائم کئے جائیں گے اس کے علاوہ صوبوں کے اشتراک کار سے 250 منی سپورٹس سٹیڈیم بھی تعمیر کئے جائیں گے، چین۔پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت مختلف منصوبوں کو فاسٹ ٹریک بنیادوں پر مکمل کرنے کیلئے وسائل اور فنڈز مختص کرنے کو یقینی بنایا جائے گا، اسی طرح پرانے گوادر شہر میں بجلی اور پانی کے مسائل کے حل کیلئے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔

بلوچستان ترقیاتی بجٹ کا اہم ہدف ہے، بلوچستان کو دیگر صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ ترقیاتی فنڈز دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہاں پر جاری منصوبوں کو مکمل کیا جا سکے اور نئے منصوبے بھی شروع ہوں۔ سابق فاٹا کے ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 50 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجویز ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت خزانہ اوردیگرمتعلقہ وزارتوں اورڈویژنز کی جانب سے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کیلئے تیاریاں مکمل ہیں اوراسے حتمی شکل دی جارہی ہے اس حوالے سے ایکسپریس نے بجٹ کے حوالے سے اہم شخصیات اور ماہرین معاشیات سے بات چیت کی جس کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔

مفتاح اسماعیل (وفاقی وزیر خزانہ)

مہنگائی پر قابو پانا موجودہ حکومت کی اولین ترجیع ہے پاکستان مسلم لیگ(ن)کی مخلوط حکومت کی دانشمندانہ اقتصادی پالیسیوں کے اثرات آئندہ بجٹ میں نظر آئیں گے وفاقی بجٹ اس ماہ کی دس تاریخ کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور اس میں معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کیا جائے گا۔

حکومت بر آمدات ،محصولات مزید بڑھانے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے متعدد انتظامی اقدامات پر توجہ دے رہی ہے حکومت تمام فریقوں کو اعتماد میں لے کر مشاورت سے عوام دوست بجٹ بنانے پر پختہ یقین رکھتی ہے جس کیلئے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے اور وزیراعظم میاں شہباز شریف نے پری بجٹ کانفرنس میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہے اور انکی تجاویز سنی ہیں اسی تناظر میں بجٹ سازی کی جارہی ہے آئندہ مالی سال کا بجٹ گروتھ اورئنٹڈ اور ایکسپورٹ اورئنٹڈ بجٹ ہوگا جس میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن)نے ہمیشہ سیاسی و ذاتی مفادات سے بالاتر ہوگر ملکی و قومی مفاد میں فیصلے کئے ہیں اس سے پہلے بھی پاکستان مسلم لیگ(ن)نے ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے اور انشاء اللہ اس مرتبہ بھی سرخ روح ہونگے پاکستان نے جب تمام تر غیر ملکی دباو کو خاطر میں لائے بغیر قومی مفاد میں ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت بھی امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن مسلم لیگ(ن)کی قیادت نے اس مشکل ترین وقت میں بھی دانشمندانہ فیصلے کئے۔

ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا اور ساتھ ہی معیشت کو بھی بحران سے بچایا اسکے بعد جب پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی تھی سی این جی اسٹیشنز پر لمبی لمبی لائیں تھیں اس مشکل وقت میں بھی جب ن لیگ نے حکومت سنبھالی تو ملک سے اندھیرے دور کئے اور توانائی بحران سے چھٹکاراہ دلوایا اب بھی مشکل ترین حالات میں حکومت ملی ہے اور انشاء اللہ تمام تر مشکلات پر قابو پالیں گے ملکی قیادت ملک میں معاشی و اقتصادی استحکام کیلئے کوشاں ہے کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔

برآمدات پر مبنی صنعت، زرعی پیداوار میں اضافہ کیلئے ایگری انڈسٹریل انویسٹمنٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کا حصول ہماری ترجیحات ہیں، قومی ایکسپورٹ صنعتی زونز کے قیام کیلئے سرمایہ کاروں کو مفت اراضی فراہم کریں گے، پالیسیوں میں تسلسل کیلئے میثاق معیشت ناگزیر ہے، ملکی ترقی کیلئے دیہی علاقوں کو ترقی دینا ہو گی، زرعی شعبہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر جامع معاشی پلان بنایا۔

ڈاکٹر محمد ارشاد (سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو)

سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو ڈاکٹر محمد ارشاد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگلے بجٹ میں ٹیکس لگانے کی بجائے سٹرکچرل تبدیلیاں لائی جائیں ٹیکس مشینری کو اپ گریڈ کیا جائے وزیر خزانہ ٹیکس کی شرح بڑھانے یا نئے ٹیکس لگا کر رینیو اکٹھا کرنے کی بجائے جدید ٹیکنالوجی اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر ریونیو بڑھانے کا ویڑن اپنائیں لیکن یہ عظیم مقصد ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس مشینری کو اورہال کئے بغیر ممکن نہیں ہے ایف بی آر میں افسران زیادہ ہیں اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے ماتحت عملہ کم ہے۔

ایف بی آر کے ٹیکس اکٹھا کرنے والے افسران ایڈیشنل کمشنر ان لینڈ ریونیو،ڈپٹی کمشنر اور اسٹنٹ کمشنرزو انکا ماتحت عملہ ہوتا ہے مگر ان افسران کے اختیارات بھی محدود ہیں اور انکے پاس عملے کے ساتھ ساتھ لاجسٹک سپورٹ اور وسائل کی بھی قلت ہے اور یہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کمزور ایریا ہے وزیر خزانہ کو اس طرف خود دلچسپی لے کر مضبوط بنانا ہوگا۔

ایف بی آر اور فیلڈ فارمشنز کے افسران و اہلکاروں کیلئے جزا و سزا کا سخت و موثر نظام لایا جائے جو کرپٹ ہیں انکے خلاف بے شک سخت کاروائی کی جائے لیکن جو لوگ ایمانداری سے کام کرتے ہیں انکی حوصلہ افزائی کی جائے سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکا جائے جب ٹیکس اسی طرح ٹیکس ریٹ نہ بڑھائے جائیں نہ تو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل لوگوں پر ٹیکس کا مزید بوجھ نہ بڑھایا جائے۔

ٹیکس حکام پر اعتماد کیا جائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ایف بی آر کے ٹیکس اکٹھا کرنے والے و ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے والے افسران و اہلکاروں کے اختیارات بڑھائے جائیں لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جائے گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے افسران کو معاون سٹاف دیا جائے جب ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی نچلی سطع تک پہنچ ہوگی تو پھر نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی جب لوگوں کے پاس اختیارات ہونگے انکے ایریا و جوریزڈکشن وضع ہوگی تو یہ لوگوں کو رجسٹرڈ کریں گے اور ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔

ابھی اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ جو ٹیکس لاگو ہیں وہ پوری طرح اکٹھے نہیں ہوپارہے ہیں اس کیلئے پالیسی شفٹ لانا پڑے گا اسی طرح افسران کو بھی ضرورت کے مطابق معاون سٹاف فراہم کیا جائے افسران کو فیصلہ سازی کے اختیارات دیئے جائیں ٹیکس اتھارٹیز کا دائرہ کار ڈسٹرکٹ سطع تک لایا جائے تاکہ ڈیپارٹمنٹ کی نچی سطع تک رسائی ہوسکے اگرڈی پی اور ڈی سی او کو اختیارات دیئے جاسکتے ہیں تو سب سے اہم سروس جو اسٹیٹ کیلئے ٹیکس اکٹھا کرتی ہے تو اس کے ساتھ یہ تفریق کیوں کی جارہی ہے نہ تو ایف بی آر کا گریڈ بائیس کا افسر سیکرٹریٹ میں جاسکتا ہے حالانکہ یہ وزارت خزانہ کے افسران ہوتے ہیں انہیں گریڈ بائیس میں سیکرٹریٹ میں تعینات ہونے کی اجازت ہونی چاہیئے۔

اس طرح ایف بی آر کے افسران و اہلکاروں کو ملنے والا الاونس منجمد ہے اسے بحال کیا جانا چاہیئے تاکہ لوگوں کا اعتماد بڑھے اسکے علاوہ ایف بی آر فاونڈیشن کو بحال کیا جائے ریٹائر افسران کا تھنک ٹینک ہونا چاہیے جو اپنے تجربات کی روشنی میں حکومت کو ٹیکس ریونیو بڑھانے کیلئے معاونت فراہم کرے اور دنیا میں رائج بہترین پریکٹس کے مطابق تجاویز و اسٹڈیز کرکے حکومت کو فراہم کرے ٹیکس بیس کو وسیع کرنے اور محصولات کی وصولی میں اضافہ کے لئے آٹومیشن ہی واحد راستہ ہے جس کیلئے حکومت بینک، پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پاکستان میں بجلی کی تقسیم کرنے والی تمام کمپنیاں جو بجلی کے بل تیار کرتی ہیں اور جمع کرتی ہیں۔

پاکستان ٹیلی مواصلات کمپنی لمیٹڈ اور ایف بی آر کی جانب سے ایڈوانس ٹیکس جمع کرنے والی سیلولر کمپنیاں یہ سب مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ ان کے ڈیٹا بیس کا استعمال کرکے ، وفاقی حکومت آسانی سے منصفانہ ٹیکس کی بنیاد کا تعین کرسکتی ہے اسکے علاوہ ایف بی آر اور پرال کے پاس اپنا بہترہن ڈیٹا بینک و ڈیٹا بیس موجود ہے ایف بی آر اس ڈیٹا کی بنیاد پر جو افراد ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروا رہے ہیں ان کو سراغ لگاکر انہیں ٹیکس نیٹ میں لاسکتی ہے۔

ڈاکٹر ساجد امین (سینئر اکانومسٹ ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی)

آنے والا بجٹ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت کی طرف سے وضع کردہ سب سے مشکل بجٹ ہوگا جہاں ایک طرف مالیاتی توازن رکھنا ھوگا اور دوسری طرف عام آدمی کو بجلی، پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ آئی مہنگائی سے بچانا ھے۔ مجموعی طور پر یہ آکر مشکل بجٹ ھو گا کیونکہ پاکستان اس وقت آئی ایم افروز پروگرام کو کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس بجٹ میں زیادہ توجہ فوری ریلیف پیکج اور سماجی تحفظ کے پروگراموں پر رھے گی کیونکہ یہ شارٹ ٹرم اقدامات ہیں جو فوری طور پر ریلیف دینے کیلئے ضروری ہیں۔

اس بجٹ میں حکومت کی توجہ فسکل کنسالیڈیشن اور شارٹ ٹرم اقدامات پر رہے گا طویل المعیاد اقدامات شائد نہ ہوپائیں۔ 28 ارب ماہانہ کے سستا پٹرول ریلیف کے ساتھ یہ توقع بھی کی جارہی ہے کہ آنے والے بجٹ میں حکومت شائد کوئی زرعی شعبہ کیلئے کوئی ریلیف پلان اعلان کرے اور چھوٹے کسانوں کیلئے سبسڈیز بڑھائے۔

حکومت آئی ایم ایف سے مل کر ان ٹارگٹڈ سبسڈیز شائد ختم کرے اور فوکس ٹارگٹڈ سبسڈیز پر کرے گی جسکی وجہ بڑی سادہ ہے جب بھی کوئی حکومت برسراقتدار آتی ہے، وہ اپنے ووٹر بیس کو مطمئن کرنے کے لیے 'انتخابی' بجٹ دینے سے پہلے اپنے پہلے دو سے تین سالوں میں سخت مالیاتی اقدامات کرتی ہے جب اسے دوبارہ ووٹ مانگنے کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے اس بار جو چیز مختلف ہے وہ یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت کو شدید معاشی بحران ورثے میں ملا ہے اور اس کے پاس واقعی وقت نہیں ہے۔


یہ بحران کئی پہلووں سے منفرد تھا۔ مثال کے طور پر، جب پی ٹی آئی 2018 میں اقتدار میں آئی تو اس کے پاس پانچ سال کے ساتھ ساتھ پالیسی میں اصلاحات کا زیادہ موقع تھا۔ شرح سود سات فیصد کے قریب تھی، افراط زر پانچ فیصد کے قریب رہا اور روپے کی قدر میں کمی کی گنجائش موجود تھی۔ ہم آئی ایم ایف کے پاس جا رہے تھے۔ تاہم اس بار صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اس لیے بحران مزید سنگین ہے۔ ایسے میں حکومت مشکل میں پھنسی ہوئی ہے اور اسے معیشت یا الیکشن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ دونوں کے درمیان توازن رکھنا ایک مشکل کام ہو گا۔

عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہوگا، جس کے اشارے ہم حکومت کے 10 دنوں سے بھی کم عرصے میں دو بار ایندھن کی قیمتوں میں 30 روپے تک اضافے کے فیصلے میں دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے یہ نشانیاں واضح ہیں کہ آئی ایم ایف بورڈ میں شامل ہے اور حکومت اقتصادی طور پر درست فیصلے لے رہی ہے جیسے کہ پیٹرولیم مصنوعات سے سبسڈی ختم کرنا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ مخلوط حکومت جہاں ممکن ہو سکے شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کی بھی کوشش کرے گی۔

اگر ہم اتحاد بنانے والی سیاسی جماعتوں کے ٹریک ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو ان میں سے بہت سے لوگوں کے لیے سماجی اخراجات میں اضافہ ایک عام خصوصیت رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے بجٹ میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور خاص طور پر سماجی تحفظ کے پروگرام جیسے شعبوں کے لیے فنڈز میں اضافہ ہو گا۔ حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ وزیراعظم کے اعلان کردہ 28 ارب روپے کے ریلیف پروگرام کو جاری رکھے گی، جس کے لیے کم از کم 336 ارب روپے سالانہ درکار ہوں گے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ ان پروگراموں کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟اس کا جواب پٹرولیم مصنوعات کے لیے دی جانے والی سبسڈیز میں مضمر ہے، جس کے لیے حکومت نے گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران تقریباً 250b روپے خرچ کیے ۔ ایسے فنڈز جو ان سماجی تحفظ کے پروگراموں کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

درحقیقت پیٹرولیم سبسڈیز غیر ہدفی تھیں اور اس سے غریبوں کے مقابلے امیروں کو زیادہ فائدہ پہنچا۔ ان فنڈز کو سماجی تحفظ کے پروگراموں میں استعمال کرنے کے لیے تبدیل کرنا جو غریبوں کو ٹارگٹ ریلیف فراہم کرتے ہیں وہ بھی آئی ایم ایف کے لیے قابل قبول ہوگاٹارگٹڈ سبسڈیز کی بات کرتے ہوئے، حکومت چھوٹے زمینداروں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) اور تنخواہ دار طبقے والے کسانوں کو بھی رعایتیں فراہم کر سکتی ہے۔

پہلے کے معاملے میں، یہ رعایتیں یوریا اور کھاد پر سبسڈی کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے لیے واٹر پمپ چلانے کے لیے استعمال ہونے والی بجلی پر بھی ہو سکتی ہیں۔ بجلی کے نرخوں پر اسی طرح کی سبسڈی ایس ایم ایز کو فراہم کی جا سکتی ہے، آسان قرضوں کی فراہمی کے علاوہ، جس کی جزوی طور پر حکومت نے ضمانت دی ہے، جیسا کہ ہم نے وبائی امراض کے دوران دیکھا تھا۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت ٹیکس بریکٹ میں اضافہ کر سکتی ہے تاکہ کم آمدنی والے طبقے کو ٹیکس نیٹ سے مستثنیٰ کیا جا سکے، اس لیے ان کی حقیقی آمدنی میں قدرے اضافہ کیا جا سکتا ہے ایک اور توجہ جو ہمیں آنے والے بجٹ میں دیکھنے کا امکان ہے وہ سبز توانائی پر ہے۔

حکومت توانائی کے موجودہ بحران کو کم کرنے اور سستی، صاف ستھری توانائی کو فروغ دینے کے لیے سولر پینلز جیسے بنیادی ڈھانچے پر عائد ٹیکسوں کو ہٹانے کو مقصد بنائے گی۔ ایک سفارش جو پیش کی گئی ہے اور زیر غور ہے وہ ہے کھانے پینے کی اشیاء پر عائد ٹیکسوں میں کمی، جس سے ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی، چاہے تھوڑے سے فرق سے اس کے علاوہ، ہم مختلف اشیاء پر درآمدی ٹیرف میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں، جن پر پہلے پابندی عائد کی گئی تھی۔

آئی ایم ایف درآمدات پر پابندی سے خاص طور پر خوش نہیں تھا اور اس لیے حکومت کی جانب سے اضافی ٹیرف اس کا متبادل ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھیں تو آئندہ بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کے لیے جاری منصوبوں کو بڑھایا جا سکتا ہے اور کچھ نئے منصوبے متعارف کرائے جا سکتے ہیں 25 مئی کو آئی ایم ایف کے بیان کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط پر بہت زیادہ توجہ دی جائے گی، جس کے لیے حکومت کا مقصد ہوگا کے کفایت شعاری پر زور سے اور سخت اقدامات کئے۔ ایسا کرنے سے، ہم ممکنہ طور پر بہت ساری عام سبسڈیز کو ہٹاتے ہوئے دیکھیں گے اور ان کی جگہ ٹارگٹڈ سبسڈیز کو تبدیل کیا جائے گا جن کا مقصد غریبوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔

شیخ عبدالوحید (سابق وائس چیئرمین فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، سابق چیئرمین پاکستان وناسپتی ایسوسی ایشن)

اگلے مالی سال کے بجٹ میں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے جو بھی طبقہ قابل ٹیکس آمدنی رکھتا ہے ان پر انکی استعداد کے مطابق ٹیکس لاگو کیا جائے اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل لوگوں پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے نئے ٹیکس پیئرز تلاش کئے جائیں۔ اس کیلئے آٹومیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیا جائے پاکستان سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے جو معیشت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کرنا ہوگا۔

میثاق معیشت کے تحت پوری پارلیمنٹ کو مل کر پندرہ سے پچیس سال کی طویل المعیاد معاشی پلان دینا ہوگا اور ملک میں کوئی بھی حکومت آئے مگر ان اقتصادی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آنی چاہئے اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پاکستان میں بڑے پیمانے پر براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھل جائیں گے کیونکہ پاکستان میں آئے روز اقتصادی پالیسیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑی کمپنیاں پاکستان آنے سے ہچکچاتی ہیں سرمایہ کار دو سے تین سال تو پالیسیوں کا جائزہ لینے میں لگا دیتے ہیں جب وہ آتے ہیں تو ایک دن پالیسی شفٹ ہوجاتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہیئے لہٰذا ملیی معیشت کو سیاست سے الگ کردیا جائے تو ملکی معیشت ترقی کرسکتی ہے۔

اسی طرح امپورٹ بل کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھانا ضروری ہے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے بڑی گاڑیوں سمیت ایسی بڑی آئٹمز جنکی سمگلنگ مشکل ہے انکی درآمد پر مکمل پابندی عائد کردی جائے اور جن اشیاء کی سمگلنگ روکنا مشکل ہے ان کیلئے ڈیوٹی ٹیکس بڑھا دیئے جائیں اور بارڈرز پر نگرانی سخت کردی جائے خاص کر جو اشیاء پاکستان میں تیار ہوتی ہیں ان کی درآمد پر مکمل پابندی ہونی چاہیئے تاکہ ملک کی مقامی انڈسٹری کو فروغ ملے اسی طرح خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی ٹیکس کم کئے جائیں تاکہ مینوفیکچرنگ شعبہ فروغ پائے اور ملک میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں۔

برآمدات بڑھانے کیلئے نئی منڈیاں تلاش کی جائیں بیرون ممالک سفارتخانوں کو متحرک کیا جائے پاکستان کے سافٹامیج کو اجاگر کرنے کیلئے سفارتخانوں کو خصوصی ٹاسک دیئے جائیں اسی طرح کمرشل اتاشی ان کو نئی منڈیاں تلاش کرنے کیلئے متحرک کیا جائے ملک میں کھانے کے تیل اور گھی کی قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کیلئے ڈالر کی قیمت پر قابو پانے سمیت دیگر خصوصی انتظامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جس تیزی سے ڈالر بڑھ رہا ہے اوربین الاقوامی مارکیٹ میں جس تیزی سے پام آئل ،سویا بین آئل سمیت دیگر کھانے کے تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

ادھر ملائشیاء کی طرف سے پام آئل کی برآمد لگائئی جانیوالی پابندی تو ہٹا دی گئی ہے مگر نان ٹیرف بیریئرز بہت زیادہ ہیں اس سے لگ رہا ہے کہ ملک میں گھی اور ککنگ آئل کی قیمتیں مزید بڑھیں گے اس کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے بھی مصنوعات کی ٹرانسپورٹیشن کاسٹ بڑھ رہی ہے پہلے کھانے کے تیل کی کراچی سے اسلام آباد تک ٹڑانسپورٹیشن کی مد میں لاگت چار روپے فی کلو گرام تھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد یہ لاگت بڑھ کر بارہ روپے فی کلوگرام ہوگئی ہے اور اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو یہ لاگت مزید بڑھ جائے گی لہٰذا اس لاگت کو کم کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر عالمی منڈی میں کھانے کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان اسی طرح جاری رہا اور پٹرولیم مصنوعات بھی مہگی ہوتی رہیں تو شائد گھی تو لوگوں کو ملے گا ہی نہیں البتہ ککنگ آئل ملے گا مگر وہ بھی مہنگا ہوجائے گا۔

حکومت کو ملک میں سویا بین سمیت گھی اور ککنگ آئل کی تیاری میں استعمال ہونے والے کھانے کے تیل کی مقامی پیداوار بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہاں ان فصلوں کی کاشت کو فروغ دیا جائے جن سے ککنگ آئل و گھی بنانے کیلئے کھانے کا تیل حاصل ہوتا ہے کیونکہ پاکستان ہر سال اربوں ڈالر کھانے کے تیل کی درآمد پر خرچ کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ گھی اور ککنگ آئل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے فاٹا و پاٹا میں لگے ہونٹس کو سیلز ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے لہذا وہاں پر ایف ای ڈی لگادی جائے کیونکہ وہاں جو گھی و ککنگ آئل تیار ہوتا ہے وہ ملک کے دوسرے علاقوں میں قائم صنعتی یونٹس کی نسبت سستا ہوتا ہے اور ملک کے باقی حصوں میں قائم ہونٹس کیلئے ان کی قیمتوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہتا ہے۔

اسی طرح اربوں ڈالر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ کررہا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ ان شعبوں میں کنزرویشن کے ساتھ ساتھ متبادل ذرائع بھی تلاش کئے جائیں پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل کم کرنے کیلئے ٹرانسپورٹ کا اچھا نظام متعارف کروانے کی ضرورت ہے اسی طرح سولر اور ونڈ انرجی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے گھروں دفاتر میں سولر کو لازمی قرار دیا جائے اس سے بڑی بچت ہوسکتی ہے گاڑیوں میں ہائبرڈ گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے چھٹکارہ پانے کیلئے ضروری ہے کہ فضل خرچیاں کم کی جائیں اور غیر پیداواری اخراجات کو جتنا ممکن ہوسکتا ہے کم کیا جائے ۔

منور اقبال ( بانی چیئرمین کمپیوٹر ایسوسی ایشن،سابق سینئر نائب صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز )

نے کہا کہ ماضی میں بھی حکومتیں آئی ٹی سے متعلق تجاویز طلب کرتی رہی ہیں لیکن بجٹ میں ان تجاویز کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے اس مرتبہ بھی آئی ٹی سیکٹر کیلئے حکومت کو تجاویز دی گئی ہیں اور موجودہ حکومت سے توقعات وابسطہ ہیں کیونکہ وزیراعظم خود اور انکی ٹیم کے اہم ممبران آئی ٹی کو فوکس کررہے ہیں اور اس میں نوجوان لوگ بھی سامنے آئے ہیں۔

اس شعبے کی ترقی کیلئے حکومت سے گذارش ہے کہ نہ صرف آئی ٹی سیکٹر بلکہ تمام شعبوں کیلئے پیداواری لاگت کم کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں رائج قیمتوں کا مقابلہ کرنے میں آسانی پیدا ہوسکے اور پھر پاکستانی مصنوعات کیلئے نئی مڈیوں کی تلاش پر توجہ دینے کے ساتھ پاکستان کی برآمدی باسکٹ کو بڑھایا جائے صرف ٹیکسٹائل،لیدر اور سپورٹس تک اسے محدود نہ رکھا جائے بلکہ غیر روایتی اشیاء کی برآمد کو بھی توجہ دی جائے اس سے بھی اربوں ڈالر کا ذرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح آئی ٹی سیکٹر کو توجہ دے کر بھی جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ ملک میں تعلیم اور پیشہ وارانہ مہارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے اب ملکوں اور اقوام کا مستقبل اس شعبے سے جڑا ہے آنے والے وقتوں میں تعلیم سمیت ہر شعبے کا دارومدار آئی ٹی سے وابسطہ ہونے جا رہا ہے آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت کے مالی اور تجارتی سیکٹر کا ایک اہم جزو سمجھی جاتی ہے اور اس کو ملکی صنعت کا نہ صرف چوتھا ستون بلکہ ریڑھ کی ہڈی کی مانند بھی سمجھا جاتا ہے۔

اس بجٹ میں آئی ٹی پارٹس اور پرزہ جات کا کام کرنے والے آئی ئی ٹی صنعت کمپیوٹر کے ریٹیلرز کے لئے فکسڈ ڈیوٹی لاگو کرنے کا نظام متعارف کروایا جائے اور اس تجویز کے تحت آئی ٹی صنعت کے ریٹیلرز پر پانچ ہزار روپے ماہانہ فی کس ٹیکس عائد کردیا جائے تاکہ وہ بھی دستاویزی معیشت کے نیٹ میں آسکے اور حکومت کو اس اقدام سے معشت کو دستاویزی بنانے میں مدد کے ساتھ اس شعبہ سے بھاری ریونیو بھی حاصل ہوسکے گا۔

اس کے علاوہ حکومت کو آئی ٹی کے شعبہ میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگلے بجٹ میں آئی ٹی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے خصوصی مراعاتی پیکج متعارف کروایا جائے تاکہ کمپنیاں جو کہ ویتنام،سنگاپور اور ترکی سمیت دیگر ممالک میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگا کر اپنی مصنوعات پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بھجوا رہی ہیں وہ کمپنیاں پاکستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگائیں۔

صرف سام سنگ ویتنام میں ایک لاکھ پچیس ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں جبکہ سام سنگ ایک کورین کمپنی ہے اور سام سنگ پاکستان میں اپنی مصنوعات بنا رہا ہے اسی طرح دوسری کمپنیاں بھی پاکستان آسکتی ہیں اب موبائل مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں کمپنیاں پاکستان آرہی ہیں اسی طرح دوسرے آئی ٹی پراڈکٹس تیار کرنے کیلئے بھیدوسری بڑی کمپنیاں پاکستان آسکتی ہیں اوریہ کمپنیاں پاکستان مینوفیکچرنگ پلانٹ لگاسکتی ہیں ہمارے ہاں آئی ٹی مصنوعات کی کھپت بہت زیادہ ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

یہی صورتحال موبائل فون اور ڈیوائسز کے شعبہ میں اس شعبے میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گنجائش ہے اور ہم اپنے اربوں ڈالر ہر سال موبائل فون،ڈیوائسز اور کمپیوٹر،لیپ ٹاپ و دیگر آئی مصنوعات منگوانے پر خرچ کردیتے ہیں اگر یہ چیزیں پاکستان میں تیار ہونا شروع ہوجائیں تو نہ صرف درآمدات کی نذر ہونے والے اربوں ڈالر کے ذرمبادلہ کی بچت ہوسکے گی، ملکی معیشت کا حجم بھی بڑھے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔

پاکستان صرف آئی ٹی انڈسٹری اور آئی ٹی سروسز برآمد کرکے بارہ سے پندرہ ارب ڈالر سالانہ حاصل کرسکتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کو ٹیکسز کو ریشنلائز کرے اور اسمبلڈ کمپیوٹرز کی صنعت کو فروغ دینا چاہیے جن میں طلباء ، ورکرز اور ریسرچرز کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے حکومت آئی ٹی صنعت کے فروغ کے لئے تاجروں کو دوستانہ ماحول فراہم کرے تا کہ ان کی استطاعت بڑھ سکے اور صنعت کاری میں اضافہ ہو۔ حکومت آئی ٹی کے فروغ کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو 5 سال کی ٹیکس چھوٹ دے تا کہ بے روزگاری میں بھی کمی لائی جا سکے۔
Load Next Story