الزامات کی سیاست
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر حکمران نے اقتدار میں آ کر سابق حکمرانوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے تھے
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی ملک میں باری باری حکومتیں کرنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں اور دونوں پارٹیوں کی قیادت پر کرپشن، ملکی دولت لوٹ کر باہر لے جانے اور ان کی مبینہ لوٹ مار کی رقم سے ملک سے باہر جائیدادیں بنانے کے سنگین الزامات عائد کیے تھے اور دونوں پارٹیوں پر ایک دوسرے کی کرپشن چھپانے اور تحفظ دینے کے الزامات لگاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ میں اقتدار میں آنے کے بعد لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لاؤں گا اور انھیں سزا دلا کر کیفر کردار تک پہنچاؤں گا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر حکمران نے اقتدار میں آ کر سابق حکمرانوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے تھے۔ صدر جنرل مشرف نے اس سلسلے میں ایک با اختیار ادارہ نیب بنایا تھا ۔ دو سابق صدور غلام اسحاق اور فاروق لغاری نے اپنی پارٹی کی حکومتیں کرپشن پر برطرف کی تھیں اور سابق وزرائے اعظم اور ان کے ساتھیوں پر کرپشن کے مقدمات بنوائے تھے جن پر کرپشن سے مال بنانے اور اختیارات سے تجاوز کرکے اپنوں کو نوازنے انھیں غیر قانونی طور پر اہم سرکاری عہدے دینے کے الزامات تھے۔
دنیا نے دیکھا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کنگز پارٹی مسلم لیگ (ق) جو بنوائی تھی اس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی اور رہنما شامل تھے جن پر نیب نے کرپشن کے مقدمات بنائے ہوئے تھے مگر (ق) لیگ میں شمولیت کے باعث ان پر کرپشن کیس ختم کرکے انھیں کلین چٹ دے دی گئی تھی۔
عمران خان اس وقت خود جنرل مشرف کے ساتھ تھے ، اس لیے وہ (ق) لیگ پرکرپشن کے الزامات نہیں لگاتے تھے بلکہ ان کا ہدف شریف اور زرداری تھے۔ عمران خان کو امید تھی کہ جنرل پرویز مشرف انھیں وزیر اعظم بنائیں گے اس لیے انھوں نے پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں ان کی حمایت کی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے عمران خان کو وزیر اعظم نہ بنایا تو انھوں نے ظفر اللہ خان جمالی کی بجائے وزارت عظمیٰ کا ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا ۔
عمران خان نے اس وقت جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف بیانات دیے جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور مسلم لیگ (ن) کے اسپیکر پنجاب اسمبلی بھی رہے تھے اور جنرل پرویز سے مل گئے تھے اور چوہدریوں نے بھی پی پی اور (ن) لیگ کے مقابلے میں جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں (ق) لیگ بنوائی تھی۔
جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی قیادت پرکرپشن کے مقدمات بنوائے مگر نیب عدالتوں میں ان پر کوئی ایک کرپشن نہ ثابت کرسکا تھا۔ مشرف دور میں کرپشن ثابت نہ ہونے پر نواز شریف فیملی کو دس سالہ شرط پر سعودیہ جانے دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی پر مجبور کیا گیا اور آصف زرداری کو سالوں جیل میں رکھا گیا جنھیں کرپشن الزامات میں سب سے زیادہ بدنام کرایا گیا مگر سزا نہ دلائی جاسکی اور پھر آصف زرداری بھی ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
بے نظیر بھٹو ، نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف بڑا شور تھا اور عمران خان کے ساتھی مراد سعید نے دو سو ارب ڈالر واپس لا کر غیر ملکی قرضے واپس کرنے کا اعلان بھی کیا تھا مگر عمران حکومت اپنے دور میں کسی کرپٹ کا ایک پیسہ بھی واپس نہ لاسکی۔
وزیر اعظم عمران خان نے (ن) لیگ اور پی پی قیادت اور ان کے رہنماؤں پر نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے مختلف الزامات میں مقدمات بنوائے ان کے تمام قابل ذکر رہنماؤں کو گرفتار کرا کر انھیں سالوں جیلوں میں رکھا، سابق حکمرانوں کی کرپشن پکڑنے کے بڑے بڑے دعوے ہوئے۔ پریس کانفرنس میں میڈیا کو ثبوت کے کاغذات دکھائے جاتے رہے مگر عدالتوں میں میاں شہباز شریف، آصف زرداری اور گرفتار رہنماؤں کی کرپشن کا کوئی ثبوت 3 سال تک پیش نہ کرسکا اور ان کی کوئی چوری اور کرپشن کا عملی ثبوت عمران خان کو بھی نہ دکھا سکا تو عمران خان کو اسے بھی ہٹانا پڑا۔
اپنے مخالفین کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایف آئی اے کو ہدایات دیں۔ نیب ہی کے مقدمات ایف آئی اے میں درج کرائے گئے مگر عمران خان کی خواہشات پوری نہ ہوسکیں اور وہ خود اقتدار سے محروم کردیے گئے اور جنھیں عمران خان کرپٹ کہتے آئے تھے وہ حکمران بن گئے۔
عمران خان ان چور ڈاکوؤں کو عدالتوں میں تو چور، ڈاکو ثابت کرکے سزائیں نہ دلا سکے مگر انھوں نے اپنے مخالفین کو ملک بھر ہی نہیں ملک سے باہر بھی اپنے کامیاب پروپیگنڈے سے بد نام ضرور کردیا ہے۔ کوئی ملکی عدالت انھیں چور ڈاکو قرار نہیں دے سکی مگر ان کے خلاف عمران خان کا پروپیگنڈا موثر اور کامیاب ثابت ہوا ہے۔ برطانوی عدالت تو شہباز شریف کو بری بھی کرچکی ہے۔
مخالفین لاکھ کہیں کہ انھوں نے دھیلے کی کرپشن نہیں کی جو ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا مگر عمران خان اور ان کے حامی ماننے کو تیار نہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی 60فیصد کابینہ پر جو مقدمات ہیں وہ درست ہے مگر ان پر یہ مقدمات عمران خان نے بنوائے تھے تو انھیں ان کی حکومت سزائیں کیوں نہ دلا سکی۔ اب عمران خان فوج اور سپریم کورٹ سے ان کو سزا دینے اور دلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو فوج اور سپریم کورٹ کا نہیں متعلقہ عدالتوں کا کام ہے۔
سابق وزیر اعظم اپنے دور میں کسی چور ، ڈاکو کو سزا نہ دلا سکے اور نئے حکمرانوں کو جو آئینی طور پر اقتدار میں آئے ہیں انھیں اب بھی بد نام کر رہے ہیں تو اس سے دنیا کو کیا پیغام جائے گا کہ کیا واقعی ایسے ہی لوگ پاکستان کے حکمران بن گئے ہیں؟ کیا اس طرح ملک و قوم کی بدنامی نہیں ہو رہی؟ عمران خان کو کیوں نہیں روکا جا رہا کہ وہ کسی عدالتی فیصلے تک خود جج نہ بنیں اور چور، ڈاکو کی تکرار کسی عدالتی فیصلے تک بند کردیں کیونکہ سیاسی الزامات سے کوئی چور ، ڈاکو قرار نہیں پاتا عدالتی فیصلے ہی درست قرار پاتے ہیں۔