خوشی کا موقع
یہ پہلی پاکستانی فلم ہے جس کو ایک بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں پہلے انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے
ISLAMABAD:
پاکستانی معاشرہ میں تخلیق کرنے والے ہمیشہ سزا پاتے ہیں مگر اس پر آشوب فضاء میں مسلسل سیاسی کشمکش اور معاشی ، سیاسی و مذہبی رکاوٹوں کے باوجود چند سر پھرے ہیں جو فنون لطیفہ کے ہر شعبہ میں کچھ کررہے ہیں۔
صائم صادق کا شمار ایسے ہی فلم ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے جو پاکستان کی فلمی صنعت کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لے جانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ صائم صادق کی فلم Joyland کو فرانس کے شہر کینز میں ہونے والے فلمی میلہ جو Cannes Film Festival کے نام سے مشہور ہے کی Uncertain regardکیٹیگری کی جیوری نے انعام کا مستحق قرار دیا۔ یہ پہلی پاکستانی فلم ہے جس کو ایک بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں پہلے انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ صائم صادق نے اس فلم کا موضوع ایسا چنا ہے جس کو معاشرہ میں ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسے شادی شدہ نوجوان کی کہانی ہے جس کو ایک Transgender ڈانسر لڑکی سے عشق ہوگیا ، یوں یہ نوجوان اور ٹرانس جینڈر ڈانسر معاشرے کے نام نہاد ٹھیکہ داروں کا نشانہ بنا۔ یورپی ممالک ، امریکا، جاپان اور بھارت وغیرہ میں ایسی محبت کی داستانیں معمول کی بات ہیں مگر ایک ایسے ملک میں جہاں بدقسمت ٹرانس جینڈر کے مقدر میں نامعلوم افراد یا پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونا لکھا ہے ، اس موضوع پر فلم بنانا ایک جرات کا کام ہے۔
ذرائع ابلاغ سے دستیاب مواد سے ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کینز فلمی میلہ میں Uncertain regard کیٹیگری میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے 12فلمیں نامزد ہو ئی تھیں جن کے بارے میں فلمی نقادوں کا کہنا ہے کہ سب اچھوتے موضوعات پر تیار ہوئی تھیں مگر جوائے لینڈ کا موضوع اور اس کے اداکاروں کا اپنے کریکٹرز سے انصاف کی بنا پر وہ پہلا انعام حاصل کرسکی۔
جوائے لینڈ کو ایک خصوصی انعام بھی ملا۔ اس ایوارڈ دینے کی تقریب کی صدارت دنیا کے معروف فلم میکر Catherine Cosine نے کی تھی۔ اس فلم کی ایک اور خصوصیت یہ بیان کی جا رہی ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر خاتون اداکارہ علینہ خان نے اس فلم کی ہیروئن کا کردار ادا کیا ہے۔ ایکسپریس ٹریبون کے فلمی ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ ٹرانس جینڈر کے اعتبار سے جوائے لینڈ برصغیر بھارت اور پاکستان کی پہلی فلم ہے جس نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ یہ فلم مشہور ویب سائٹ Rottentomatoes کی صد فی صد ریٹنگ حاصل کرچکی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کینز فلم فیسٹیول میں 9 ججوں کے پینل نے جوائے لینڈ کو متفقہ طور پر انعام کا مستحق قرار دیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑی ٹی وی چینل الجزائر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی فلمی تاریخ میں چند ہی ایسی فلمیں بنی ہیں جن پر خوش ہوا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک جوائے لینڈ بھی ہے جس نے ایک بین الاقوامی فلمی میلہ میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے جس فلمی میلہ میں بھارت، ایران اور ترکی سمیت یورپی ممالک کے علاوہ لاطینی امریکا کے ممالک کی فلمیں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں۔
بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹر شرمین چنائے نے جوائے لینڈ کی تاریخی کامیابی قرار دیا ہے۔ اس میلہ کا 75واں سال ہے۔ اس فلمی میلہ میں دنیا بھر سے معروف اداکار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسرز کو مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کینزکا میلہ صرف پروفیشنلزکے لیے مختص ہوتا ہے اور انتہائی اہم موضوعات پر بننے والی فلموں کو نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اس فلم فیسٹیول کی بناء پرکینز دنیا بھر میں مشہور ہوا اور سیاحت کا مرکز بن گیا۔
پاکستان کی فلمی ترقی نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ فلم کو ایک ابلاغ کے حقیقی میڈیم کی حیثیت سے ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ رجعت پسند حلقوں نے جو پہلے ریڈیو کی اہمیت کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے مگر سامعین پر ریڈیو کی نشریات جیسے اخراجات کی بناء پر انھیں اس مشین کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ ٹیلی وژن کے ساتھ بھی اسی قسم کا منفی رویہ روا رکھا گیا۔ کچھ علماء نے تو ٹیلی وژن پر مذہبی پروگرام کرنے شروع کیے۔ اس طرح وہ علماء جو سیاستدان ہیں انھوں نے بھی ٹی وی کی کوریج کی اہمیت کو محسوس کیا۔
2002ء میں جب نجی ٹی وی چینلز شروع ہوئے تو بعض علماء کیمرہ کی ضروریات کے مطابق میک اپ کرانے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ پھر کچھ دانا لوگوں نے میک اپ کے بغیر اور میک اپ کے ساتھ اسکرین پر نظر آنے والے فرق کو واضح کیا تو یہ کشمکش ختم ہوئی مگر بعض علماء نے ٹی وی کیمرے پر آنے سے انکار کیا۔ معروف ڈائریکٹر سرمد کھوسٹ نے ایک بہترین فلم '' زندگی تماشہ '' کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کی تھی۔
چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے سنسر بورڈ نے اس فلم کو نمائش کی اجازت دی تھی مگر ایک رجعت پسند گروہ کے سربراہ نے کہا کہ فلم فحاشی کی ترویج کر رہی ہے، ان کی دھمکی کے بعد یہ فلم سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش نہیں ہوئی۔ سرمد کھوسٹ کا سب کچھ اس فلم کی نذر ہوگیا۔ کئی سال گزرنے کے باوجود سرمد کھوسٹ کی '' زندگی تماشہ '' کو نمائش کے لیے پیش کرنے کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ بتایا گیا ہے کہ جوائے لینڈ کو بھی ملک میں نمائش کی اجازت نہیں دی گئی ہے، یوں یہ فلم بھی یو ایس بی یا سی ڈی میں بند رہے گی۔
ابلاغ عامہ پر تحقیق کرنے والے محقق ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ کینز فلم میلہ دنیا کا سب سے معتبر اور قدیم میلہ ہے۔ اس میلہ میں اچھوتے موضوعات پر بننے والی فلموں کو انعام دیا جاتا ہے۔ جوائے لینڈ ایک منفرد موضوع پر تیارکی گئی تھی ، اس کی ملک میں نمائش ہونی چاہیے۔
ایران گزشتہ کئی عشروں سے فلمی صنعت کا بڑا مرکز ہے۔ ایران میں تیار کی جانے والی فلموں کو دنیا بھر کے فلمی میلوں میں انعامات دیے جاتے ہیں۔ ترکی بھی فلمی صنعت میں آگے ہے۔ اب تو سعودی عرب کے حکمرانوں کو بھی فلم کی اہمیت کا احساس ہوچکا ہے۔ سعودی عرب میں سینما ہاؤس قائم ہوئے عرصہ ہوا مگر سعودی حکومت ریاض کو ایک بین الاقوامی فلم کا مرکز بنانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس ضمن میں سعودی عرب کے بھارت کی فلم انڈسٹری سے روابط مضبوط ہوئے ہیں مگر پاکستان میں صورتحال جوں کی توں ہے۔
پاکستان بننے کے بعد جو حکمراں آئے وہ فلم کی اہمیت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ اب بھی یہی حال ہے۔ حکومت نے اتنی بڑی کامیابی پر فلم کے ڈائریکٹر اور اداکاروں کو مبارکباد تک نہیں دی۔ کینز کے فلمی میلہ میں ہونے والی یہ کامیابی 90ء کی دہائی میں عالمی کرکٹ کا ورلڈ کپ ٹورنامنٹ جیتنے جیسی ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اس فلم کی نمائش کی ملک میں اجازت دی جائے اور سرمد کھوسٹ کی فلم '' زندگی تماشہ'' کو بھی یہ موقع دیا جائے۔
پاکستانی معاشرہ میں تخلیق کرنے والے ہمیشہ سزا پاتے ہیں مگر اس پر آشوب فضاء میں مسلسل سیاسی کشمکش اور معاشی ، سیاسی و مذہبی رکاوٹوں کے باوجود چند سر پھرے ہیں جو فنون لطیفہ کے ہر شعبہ میں کچھ کررہے ہیں۔
صائم صادق کا شمار ایسے ہی فلم ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے جو پاکستان کی فلمی صنعت کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لے جانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ صائم صادق کی فلم Joyland کو فرانس کے شہر کینز میں ہونے والے فلمی میلہ جو Cannes Film Festival کے نام سے مشہور ہے کی Uncertain regardکیٹیگری کی جیوری نے انعام کا مستحق قرار دیا۔ یہ پہلی پاکستانی فلم ہے جس کو ایک بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں پہلے انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ صائم صادق نے اس فلم کا موضوع ایسا چنا ہے جس کو معاشرہ میں ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسے شادی شدہ نوجوان کی کہانی ہے جس کو ایک Transgender ڈانسر لڑکی سے عشق ہوگیا ، یوں یہ نوجوان اور ٹرانس جینڈر ڈانسر معاشرے کے نام نہاد ٹھیکہ داروں کا نشانہ بنا۔ یورپی ممالک ، امریکا، جاپان اور بھارت وغیرہ میں ایسی محبت کی داستانیں معمول کی بات ہیں مگر ایک ایسے ملک میں جہاں بدقسمت ٹرانس جینڈر کے مقدر میں نامعلوم افراد یا پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونا لکھا ہے ، اس موضوع پر فلم بنانا ایک جرات کا کام ہے۔
ذرائع ابلاغ سے دستیاب مواد سے ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کینز فلمی میلہ میں Uncertain regard کیٹیگری میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے 12فلمیں نامزد ہو ئی تھیں جن کے بارے میں فلمی نقادوں کا کہنا ہے کہ سب اچھوتے موضوعات پر تیار ہوئی تھیں مگر جوائے لینڈ کا موضوع اور اس کے اداکاروں کا اپنے کریکٹرز سے انصاف کی بنا پر وہ پہلا انعام حاصل کرسکی۔
جوائے لینڈ کو ایک خصوصی انعام بھی ملا۔ اس ایوارڈ دینے کی تقریب کی صدارت دنیا کے معروف فلم میکر Catherine Cosine نے کی تھی۔ اس فلم کی ایک اور خصوصیت یہ بیان کی جا رہی ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر خاتون اداکارہ علینہ خان نے اس فلم کی ہیروئن کا کردار ادا کیا ہے۔ ایکسپریس ٹریبون کے فلمی ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ ٹرانس جینڈر کے اعتبار سے جوائے لینڈ برصغیر بھارت اور پاکستان کی پہلی فلم ہے جس نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ یہ فلم مشہور ویب سائٹ Rottentomatoes کی صد فی صد ریٹنگ حاصل کرچکی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کینز فلم فیسٹیول میں 9 ججوں کے پینل نے جوائے لینڈ کو متفقہ طور پر انعام کا مستحق قرار دیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑی ٹی وی چینل الجزائر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی فلمی تاریخ میں چند ہی ایسی فلمیں بنی ہیں جن پر خوش ہوا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک جوائے لینڈ بھی ہے جس نے ایک بین الاقوامی فلمی میلہ میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے جس فلمی میلہ میں بھارت، ایران اور ترکی سمیت یورپی ممالک کے علاوہ لاطینی امریکا کے ممالک کی فلمیں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں۔
بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹر شرمین چنائے نے جوائے لینڈ کی تاریخی کامیابی قرار دیا ہے۔ اس میلہ کا 75واں سال ہے۔ اس فلمی میلہ میں دنیا بھر سے معروف اداکار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسرز کو مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کینزکا میلہ صرف پروفیشنلزکے لیے مختص ہوتا ہے اور انتہائی اہم موضوعات پر بننے والی فلموں کو نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اس فلم فیسٹیول کی بناء پرکینز دنیا بھر میں مشہور ہوا اور سیاحت کا مرکز بن گیا۔
پاکستان کی فلمی ترقی نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ فلم کو ایک ابلاغ کے حقیقی میڈیم کی حیثیت سے ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ رجعت پسند حلقوں نے جو پہلے ریڈیو کی اہمیت کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے مگر سامعین پر ریڈیو کی نشریات جیسے اخراجات کی بناء پر انھیں اس مشین کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ ٹیلی وژن کے ساتھ بھی اسی قسم کا منفی رویہ روا رکھا گیا۔ کچھ علماء نے تو ٹیلی وژن پر مذہبی پروگرام کرنے شروع کیے۔ اس طرح وہ علماء جو سیاستدان ہیں انھوں نے بھی ٹی وی کی کوریج کی اہمیت کو محسوس کیا۔
2002ء میں جب نجی ٹی وی چینلز شروع ہوئے تو بعض علماء کیمرہ کی ضروریات کے مطابق میک اپ کرانے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ پھر کچھ دانا لوگوں نے میک اپ کے بغیر اور میک اپ کے ساتھ اسکرین پر نظر آنے والے فرق کو واضح کیا تو یہ کشمکش ختم ہوئی مگر بعض علماء نے ٹی وی کیمرے پر آنے سے انکار کیا۔ معروف ڈائریکٹر سرمد کھوسٹ نے ایک بہترین فلم '' زندگی تماشہ '' کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کی تھی۔
چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے سنسر بورڈ نے اس فلم کو نمائش کی اجازت دی تھی مگر ایک رجعت پسند گروہ کے سربراہ نے کہا کہ فلم فحاشی کی ترویج کر رہی ہے، ان کی دھمکی کے بعد یہ فلم سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش نہیں ہوئی۔ سرمد کھوسٹ کا سب کچھ اس فلم کی نذر ہوگیا۔ کئی سال گزرنے کے باوجود سرمد کھوسٹ کی '' زندگی تماشہ '' کو نمائش کے لیے پیش کرنے کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ بتایا گیا ہے کہ جوائے لینڈ کو بھی ملک میں نمائش کی اجازت نہیں دی گئی ہے، یوں یہ فلم بھی یو ایس بی یا سی ڈی میں بند رہے گی۔
ابلاغ عامہ پر تحقیق کرنے والے محقق ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ کینز فلم میلہ دنیا کا سب سے معتبر اور قدیم میلہ ہے۔ اس میلہ میں اچھوتے موضوعات پر بننے والی فلموں کو انعام دیا جاتا ہے۔ جوائے لینڈ ایک منفرد موضوع پر تیارکی گئی تھی ، اس کی ملک میں نمائش ہونی چاہیے۔
ایران گزشتہ کئی عشروں سے فلمی صنعت کا بڑا مرکز ہے۔ ایران میں تیار کی جانے والی فلموں کو دنیا بھر کے فلمی میلوں میں انعامات دیے جاتے ہیں۔ ترکی بھی فلمی صنعت میں آگے ہے۔ اب تو سعودی عرب کے حکمرانوں کو بھی فلم کی اہمیت کا احساس ہوچکا ہے۔ سعودی عرب میں سینما ہاؤس قائم ہوئے عرصہ ہوا مگر سعودی حکومت ریاض کو ایک بین الاقوامی فلم کا مرکز بنانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس ضمن میں سعودی عرب کے بھارت کی فلم انڈسٹری سے روابط مضبوط ہوئے ہیں مگر پاکستان میں صورتحال جوں کی توں ہے۔
پاکستان بننے کے بعد جو حکمراں آئے وہ فلم کی اہمیت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ اب بھی یہی حال ہے۔ حکومت نے اتنی بڑی کامیابی پر فلم کے ڈائریکٹر اور اداکاروں کو مبارکباد تک نہیں دی۔ کینز کے فلمی میلہ میں ہونے والی یہ کامیابی 90ء کی دہائی میں عالمی کرکٹ کا ورلڈ کپ ٹورنامنٹ جیتنے جیسی ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اس فلم کی نمائش کی ملک میں اجازت دی جائے اور سرمد کھوسٹ کی فلم '' زندگی تماشہ'' کو بھی یہ موقع دیا جائے۔